تباہ حال سہی پر خدا سے ڈرتے ہیں

جمالؔ کاکوی

تباہ حال سہی پر خدا سے ڈرتے ہیں
صنم کے بندے تو کافر صنم پہ مرتے ہیں

کہیں بھی جائے تو اپنا خدا محافظ ہے
ہواکے زور سے تنکے نہیں بکھرتے ہیں

غبار رخ پہ تو پوشاک داغ دار کیا
حلال خور یوں بنتے ہیں یوں سنورتے ہیں

کٹی پتنگ بنے ہیں نہ مثل غبارہ
پلٹ کے پاؤں اپنی زمیں پہ دھرتے ہیں

بڑے خلوص سے عظمت طواف کرتی ہے
مسافرت میں ہم ایساقیام کرتے ہیں

کھڑادوار پہ شیطان روتا رہتا ہے
تیری جدائی میں ہم رات بھر کہرتے ہیں

وطن کو لوٹ کہ پھر آشیاں میں آتے ہیں
دیار غیر کے خیمے اگر اجڑتے ہیں

جو بے ادب ہیں وہ نادان سر کھجاتے ہیں
جمالؔ بزم میں جب اپنا شعر پڑھتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔