عجیب حال ہے دل کا، عجب اُداسی ہے

افتخار راغبؔ

عجیب حال ہے دل کا، عجب اُداسی ہے

ملی یہ کیسی بہ نامِ طرب اُداسی ہے

پڑھا ہے اُس کو بہت ہی قریب سے میں نے

اب اُس کی خندہ لبی کا سبب اُداسی ہے

وہ دل ستاں جو مری شاعری کا ہے محور

ہے اُس کا نام محبت، لقب اُداسی ہے

تم اپنی ساری اُداسی مجھے عطا کر دو

اُداس تم، مرے دل کی طلب اُداسی ہے

پھر اُس نے تیر چلایا ہے مسکراہٹ کا

یہ واقعہ ہے کہ پھر جاں بہ لب اُداسی ہے

میں کیا کروں کہ سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا

کوئی سبب بھی ہے یا بے سبب اداسی ہے

عبث ہیں کوششیں راغبؔ مجھے ہنسانے کی

کسی کے دَم سے دمک تھی سو اب اُداسی ہے

تبصرے بند ہیں۔