عجیب حال ہے دل کا، عجب اُداسی ہے
افتخار راغبؔ
عجیب حال ہے دل کا، عجب اُداسی ہے
ملی یہ کیسی بہ نامِ طرب اُداسی ہے
…
پڑھا ہے اُس کو بہت ہی قریب سے میں نے
اب اُس کی خندہ لبی کا سبب اُداسی ہے
…
وہ دل ستاں جو مری شاعری کا ہے محور
ہے اُس کا نام محبت، لقب اُداسی ہے
…
تم اپنی ساری اُداسی مجھے عطا کر دو
اُداس تم، مرے دل کی طلب اُداسی ہے
…
پھر اُس نے تیر چلایا ہے مسکراہٹ کا
یہ واقعہ ہے کہ پھر جاں بہ لب اُداسی ہے
…
میں کیا کروں کہ سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا
کوئی سبب بھی ہے یا بے سبب اداسی ہے
…
عبث ہیں کوششیں راغبؔ مجھے ہنسانے کی
کسی کے دَم سے دمک تھی سو اب اُداسی ہے
تبصرے بند ہیں۔