شربتِ دید آئے راس مجھے

افتخار راغبؔ

شربتِ دید آئے راس مجھے

پی نہ جائے کہیں یہ پیاس مجھے

پاس رکھ لے مری گزارش کا

یا بُلا لے اب اپنے پاس مجھے

رنج کافور تیری آہٹ سے

توٗ نے دیکھا کہاں اداس مجھے

میری رگ رگ میں ہے جُنوں روٗ پوش

مت سمجھ اتنا خوش حواس مجھے

میں چمکتا ہوں ان کی آنکھوں میں

دل میں رکھتے ہیں دل شناس مجھے

روح کی بے لباسیوں کے لیے

چاہیے اب کوئی لباس مجھے

محنتانہ بھی جو نہ دے راغبؔ

اُس سے انعام کی ہے آس مجھے

تبصرے بند ہیں۔