شربتِ دید آئے راس مجھے
افتخار راغبؔ
شربتِ دید آئے راس مجھے
پی نہ جائے کہیں یہ پیاس مجھے
…
پاس رکھ لے مری گزارش کا
یا بُلا لے اب اپنے پاس مجھے
…
رنج کافور تیری آہٹ سے
توٗ نے دیکھا کہاں اداس مجھے
…
میری رگ رگ میں ہے جُنوں روٗ پوش
مت سمجھ اتنا خوش حواس مجھے
…
میں چمکتا ہوں ان کی آنکھوں میں
دل میں رکھتے ہیں دل شناس مجھے
…
روح کی بے لباسیوں کے لیے
چاہیے اب کوئی لباس مجھے
…
محنتانہ بھی جو نہ دے راغبؔ
اُس سے انعام کی ہے آس مجھے
تبصرے بند ہیں۔