کھِل اُٹھے نخلِ زندگانی اب

افتخار راغبؔ

کھِل اُٹھے نخلِ زندگانی اب

کچھ تو ہو جائے مہربانی اب

ہم پرانے لغات والے ہیں

ہیں الگ عشق کے معانی اب

چھایا رہتا تھا ابرِ بے زاری

تیرے دم سے ہے شادمانی اب

کیوں نہ دل سے مجھے محبت ہو

دل ہے میرا تری نشانی اب

چشمِ دنیا کا مر گیا پانی

کون ہوتا ہے پانی پانی اب

اب ہے جلوہ فگن ترا کردار

کتنی خوش رنگ ہے کہانی اب

دل میں ہے تیری آس کا سورج

کم نہ ہوگی یہ ضو فشانی اب

صرف کہنے کو ہے زباں منہ میں

اچھّی لگتی ہے بے زبانی اب

تم پہ کتنا یقین ہے دیکھو

تم سے کتنی ہے خوش گمانی اب

اجر اُتنا ہی ملنے والا ہے

جتنی مشکل ہے حق بیانی اب

حکم اپنا چلے گا کیا راغبؔ

دل پہ ہے اُس کی حکمرانی اب

تبصرے بند ہیں۔