کھِل اُٹھے نخلِ زندگانی اب
افتخار راغبؔ
کھِل اُٹھے نخلِ زندگانی اب
کچھ تو ہو جائے مہربانی اب
…
ہم پرانے لغات والے ہیں
ہیں الگ عشق کے معانی اب
…
چھایا رہتا تھا ابرِ بے زاری
تیرے دم سے ہے شادمانی اب
…
کیوں نہ دل سے مجھے محبت ہو
دل ہے میرا تری نشانی اب
…
چشمِ دنیا کا مر گیا پانی
کون ہوتا ہے پانی پانی اب
…
اب ہے جلوہ فگن ترا کردار
کتنی خوش رنگ ہے کہانی اب
…
دل میں ہے تیری آس کا سورج
کم نہ ہوگی یہ ضو فشانی اب
…
صرف کہنے کو ہے زباں منہ میں
اچھّی لگتی ہے بے زبانی اب
…
تم پہ کتنا یقین ہے دیکھو
تم سے کتنی ہے خوش گمانی اب
…
اجر اُتنا ہی ملنے والا ہے
جتنی مشکل ہے حق بیانی اب
…
حکم اپنا چلے گا کیا راغبؔ
دل پہ ہے اُس کی حکمرانی اب
تبصرے بند ہیں۔