اپنی تربیت کیسے کریں؟

تحریر: خرم مرادؒ ۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
(پانچوی قسط)
اپنا ارادہ اور عمل شرط ہے
دنیا میں کامیابیاں ہوں یا آخرت کی کامرانیاں، دونوں کیلئے اپنی تربیت ناگزیر ہے۔ جنت اپنی تربیت اور تزکیئے کے بغیر نہیں مل سکتی۔ اپنی تربیت کرنے اور جنت میں جانے کا یہ راستہ آسان ہے، اور یہ بالکل تمہارے بس اور اختیار میں ہے کہ اپنی تربیت کرسکو، کرو اور کرلو۔
لیکن یہ بات بھی ہمیشہ خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ تمہاری تربیت صرف تمہارے اپنے کرنے سے ہی ہوسکتی ہے۔ جو کچھ کرنا ضروری ہے، تم اس کا ارادہ کرو، اسے کرنے کی کوشش کرو، عمل کرو۔۔۔ اس کے بغیر تمہاری تربیت کسی طرح ممکن نہیں۔
تمہارا ارادہ اور تمہارا عمل،اپنے بس میں عمل کی پوری کوشش، یہی تمہاری تربیت کیلئے پہلی شرط ہے۔صرف یہی چیز اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے، صرف اسی پر انھوں نے اپنے سارے انعام و اکرام کا وعدہ کیا ہے۔
تم ارادہ نہ کرو، تربیت کیلئے جو کچھ کرنا تمہاری ذمے داری ہے، اس کے مطابق عمل نہ کرو تو اس کا کوئی بدل نہیں، اس کی تلافی کسی طرح نہیں ہوسکتی۔ کوئی چیز تمہارے ارادے اور عمل کی جگہ نہیں لے سکتی۔ کوئی تمہاری جگہ وہ کام نہیں کرسکتا جس کو کرنے کی ذمے داری تمھیں دی گئی ہے۔ تم کچھ سیکھ کر اس پر عمل نہ کرو یا سیکھنا ہی نہ چاہو تو کوئی تعلیم و تربیت تمھیں کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی۔ اپنے ایمان اور عمل کے علاوہ کوئی چیز نہیں جو تمھیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت و رحمت کا مستحق بنا سکے، تمھیں جنت میں لے جاسکے۔
یہی تربیت کا اصل اصول ہے۔ یہ بالکل ظاہر اور روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اتنا صاف اور واضح ہونے کے باوجود، بدقسمتی سے یہی اصول سب سے زیادہ نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے یا ہوجاتا ہے۔ یہ اصول بے شمار تمناؤں اور تاویلات کے پردوں میں چھپ جاتا ہے۔ اس کو بھول کر ہم دسیوں سہاروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں مگر کوئی بھی سہارا سراب سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
تخلیق و امتحان کا تقاضا؛ عمل کے بدلے کا قانون: غور کرو تو تربیت کا یہ قطعی اور واضح اصول ہمارے مقصد وجود میں مضمر ہے۔ یہ اس امتحان کی بنیاد اور روح ہے، اس کا ناگزیر تقاضا ہے، جس کی خاطر ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔ ہمیں حسن عمل کے امتحان میں ڈالا گیا ہے۔ اسی امتحان کیلئے ہم کو اپنے عمل پر اختیار دیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے عمل کے علاوہ ہمیں کسی چیز پر بھی کوئی اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ اختیار عمل ہی کا تقاضا ہے کہ تربیت کا عمل آسان ہے، اس لئے کہ عمل ہمارے اختیار میں ہے؛ لیکن اسی اختیار اور حسن عمل کے امتحان کا لازمی تقاضا یہ بھی ہوا کہ ہمیں جو کچھ ملے وہ صرف ہمارے ارادہ کرنے اور عمل کرنے کے بدلے میں ملے۔ اللہ کی رحمت ملے تو اسی کے بدلے میں، مغفرت ملے تو اسی کے بدلے میں، مغفرت و رحمت کی بدولت جنت ملے تو وہ بھی اسی کے بدلے میں۔
اگر ہمارے لئے یہ امکان اور راستہ بھی کھلا ہوتا کہ ہم نہ چاہیں، ارادہ نہ کریں، عمل نہ کریں پھر بھی کسی اور کے وہ عمل کرنے سے جو ہمارے کرنے کا ہے۔ کسی کی تعلیم و تربیت سے، کسی کے حکم و اختیار سے ہمارے لئے تربیت اور جنت کی راہ ہموار ہوجاتی تو وہ امتحان ہی بے معنی ہوجاتا جس کی خاطر ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔
کوئی بھی ہماری جگہ وہ نماز نہیں پڑھ سکتا جو ہمیں پڑھنا ہے۔ وہ روزہ نہیں رکھ سکتا، وہ وعدہ پورا نہیں کرسکتا، مخلوق کی وہ خدمت نہیں کرسکتا، وہ جہاد نہیں کرسکتا، جو کرنا ہمارا کام ہے، اور اگر کوئی دوسرا وہ عمل کرے جو ہمیں کرنا ہے، اس طرح کہ اس میں ہمارا سرے سے کوئی دخل ہی نہ ہو تو اس پر عذاب وثواب کے مستحق ہم کیسے ہوسکتے ہیں۔کوئی ہمیں مجبور کرکے گناہ کرائے اور اس میں ہماری خواہش و ارادے کو دخل نہ ہو، تو اس کا وبال ہم پر نہیں۔ مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَءِنٌّ بِالْاِیْمَانِ (النحل:106)۔ ’’(اس پر کوئی غضب نہیں) جس پر زبردستی کی گئی ہو (کہ وہ کفر کرے) جب کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو‘‘۔
اسی طرح کوئی ہم سے اس طرح نیکی کرالے کہ ہم کرنا نہ چاہتے ہوں تو اس کا اجر ہمیں کیوں ملنا چاہئے؛ واللہ اعلم بالصواب! پھر کوئی دوسرا ہماری جگہ تربیت کی وہ کوشش کیسے کرسکتا ہے، جس کا کرنا ہمارے ہی لئے مقرر کیا گیا ہے، یا اگر ہم خود اپنی تربیت کیلئے سعی نہ کریں، تو کسی کی بھی تعلیم و تربیت سے ہمیں کیونکر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ خارج سے تربیت کی ہر کوشش ایک بارش کی مانند ہے، چٹان پر سے وہ بارش بہہ جاتی ہے، ہر تالاب، ندی، نالہ، دریا اپنے ظرف کے مطابق اس کو حاصل کرتا ہے، ہر زمین اپنی استعداد کے مطابق فصل اگاتی ہے۔ یہ اہم ترین بنیادی اصول اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کر دیا ہے:
لَہَا مَاکَسَبَتْ وَ عَلَیْہَا مَااکْتَسَبَتْ ط (البقرہ:286)۔ ’’ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کیلئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے‘‘۔ پھر اسی اصل اصول کو بڑے اہتمام سے یوں بیان کیا گیا ہے، اور اس تاکید کے ساتھ کہ یہ تو وہ اصول ہے جو ازل سے آسمانی صحیفوں میں لکھا چلا آرہا ہے:
’’کیا (انسان)کو وہ بات بتا نہیں دی گئی ہے جو موسیٰؑ کے صحیفوں اور اس ابراہیمؑ کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہے جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟ یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور یہ کہ انسان کیلئے کچھ نہیں ہے مگر وہ عمل جس کی اس نے سعی کی اور یہ کہ اس کا عمل اسے عنقریب ضرور دکھایا جائے گا، پھر اس کو پورا بدلہ دیا جائے گا‘‘ (النجم: 41-36)۔
پھر جنت کے حصول جو حسن عمل کی آزمایش میں کامیابی کا انعام اتنی وضاحت اور اتنی کثرت کے ساتھ عمل، کوشش، محنت اور سعی کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے کہ کسی غلط فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ جنت کے راستے پر چلنے کیلئے تربیت، عمل کے علاوہ بھی کسی اور طرح ممکن ہے۔
جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ، اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (بدلہ اس کا جو کرتے تھے)، لِلْمُتَّقِیْنَ (جنت تقویٰ رکھنے والوں کیلئے ہے)، اَلَّذِیْنَ اٰٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْ الصّٰلِحٰتِ (ان کیلئے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے)، دوڑو جنت کی طرف، مسابقت کرو جنت کی طرف، جنت جیسی چیز ہی کیلئے تو عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہئے، دوسروں پر بازی لے جانے والوں کو بازی لے جانا چاہئے: یہ وہ لہر ہے جو قرآن مجید کے ہر صفحہ پر موجزن ہے۔
ثابت ہوا کہ صرف خواہش و تمنا سے، کسی کی نظر او ر توجہ کی برکت سے، کسی تقریر و درس کی تاثیر سے، کسی کامل کی صحبت سے جنت نہیں مل سکتی، اپنی وہ تربیت بھی نہیں ہوسکتی جس کا انعام جنت ہے، جب تک اپنا ارادہ نہ ہو، اپنی کوشش نہ ہو۔
کوئی چیز فائدہ نہ دے گی: تم سمجھتے ہو کہ تم ارادہ نہ کروگے، کوشش نہ کروگے، انگلی نہ ہلاؤگے، تو اس کے باوجود تمہاری تربیت ہوجائے گی۔ یاد رکھو؛ نہیں ہوگی۔ تم سمجھتے ہو کہ صرف کتابوں کا مطالعہ کرلوگے، اسٹڈی سرکل میں شرکت کرلوگے، اور تمہاری تربیت ہوجائے گی، نہیں ہوگی۔ ایک دل گداز درس سن لوگے، ایک جذبات انگیز تقریر کانوں میں پڑجائے گی، ایک تربیتی پروگرام میں شرکت کرلوگے اور تمہاری تربیت ہوجائے گی، نہیں ہوگی۔ کسی مرد کامل کی صحبت، نظر، توجہ میسر ہوجائے گی، وہ انگلی پکڑلے گا اور تمہارا بیڑا پار ہوجائے گا، یہ بھی نہیں ہوگا۔ جب تک تم خود نہ چاہو گے، ارادہ نہ کروگے اور عمل کے راستے پر قدم نہ بڑھاؤگے ، تمھیں کچھ نہیں ملے گا۔اگر تمہارے بغیر یہ سب کچھ ہوسکتا ، اس کے باوجود کہ تم اپنے اختیار سے حسن عمل کرتے، تو امتحان اور جزا و سزا کا نظام بے معنی ہوجاتا۔
اگر تم خود نیک بننے کا ارادہ اور کوشش نہ کرو تو نبیؐ کی تعلیم، توجہ اور صحبت بھی تمھیں نیک نہیں بناسکتی، بد بننے سے نہیں روک سکتی۔ انبیاء علیہم السلام کو بھی کوئی اختیار ایسا نہیں دیا گیا جو تمہارے ذاتی اختیار سے بالا تر ہو اور اس پر حاوی ہوسکے: اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ (القصص:56)۔ ’’اے نبیؐ؛ تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے‘‘۔
آپؐ کو یہ اختیار نہیں بخشا گیا تھا، نہ یہ ذمے داری دی گئی تھی کہ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف، زبردستی ہدایت کے راستے پر چلادیں۔ لوگ نفاق و کفر لے کر صحبت نبویؐ میں جاکر بیٹھتے تھے اور اپنی انہی گندگیوں کے ساتھ اسی طرح اٹھ کر چلے آتے تھے۔ ’’حالانکہ کفر لئے ہوئے آئے تھے اور کفر ہی لئے ہوئے واپس گئے‘‘ (المائدہ:61)۔
شیطان کا زور: اگر تم خود بد نہ بنو، تو شیطان کی صحبت بھی تمھیں بد نہیں بناسکتی، اگر چہ شیطان کی صحبت میں تو تم ہر وقت رہتے ہو، وہ تمہاری جان کے ساتھ لگا ہوا ہے، خون کے ساتھ گردش کر رہا ہے، ایسی جگہوں سے تمہاری تاک میں ہے جن کا تم کو پتا ہی نہیں۔ وہ دائیں بائیں، آگے پیچھے سے مسلسل نقب لگاتا رہتا ہے، لیکن اس کے باوجود تمہارے ارادے کے خلاف زبردستی تم سے کوئی عمل بد نہیں کراسکتا۔ اسے کوئی ایسا اختیار تم پر نہیں دیا گیا۔ وہ اپنے عمل پر تمہارے اپنے اختیار کو باطل نہیں کرسکتا؛ بلکہ روز قیامت تو وہ کھڑے ہوکر صاف کہہ دے گا:
’’میرا تم پر کوئی زور اور اختیار تو تھا نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو‘‘ (ابراہیم:22)۔
توفیق الٰہی کی دست گیری: توفیق الٰہی کے بغیر تم کچھ نہیں کرسکتے؛ لیکن یاد رکھو کہ توفیق الٰہی بھی اسی وقت تمہارے شامل حال ہوگی اور تمہاری دست گیری کرے گی جب تم خود ارادہ کروگے اور جنت کے راستے پر قدم بڑھاؤ گے۔ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں رہنے دیا گیا ہے: ’’اور اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کا دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے‘‘ (الشوری: 13)۔
’’جو شخص توبہ کرکے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے، جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے‘‘ (الفرقان:71)۔
’’البتہ جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے اس کیلئے میں بہت در گزر کرنے والا ہوں‘‘ (طٰہٰ:82)۔
’’تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا‘‘ (البقرۃ:152)۔
’’میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا، اسے تم پورا کرو تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا، اسے پورا کروں‘‘ (البقرہ:40)۔
’’اگر شکر گزار بنوگے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا‘‘ (ابراہیم:7)۔
گویا تم ارادہ اور عمل کروگے تو ساری بشارتیں اور وعدے اس کے ساتھ مشروط ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندہ فرائض ادا کرتا ہے اور یہ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب ہے۔ پھر وہ دوڑ دوڑ کر وہ کام بھی کرتا ہے جو اللہ نے فرض نہیں کئے مگر اسے محبوب ہیں۔ جب بندہ یہ روش اختیار کرتا ہے تو اس کی نگاہ، سماعت، ہاتھ، پاؤں سب اللہ کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں، لیکن فرائض و نوافل کی ادائی تو بہر حال بندے کا کام ہے۔ وہ یہ نہ کرے تو یہ بشارت کیسے نصیب ہوگی؟
ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں کہ جو اللہ کی طرف ایک بالشت آگے بڑھتا ہے، اللہ اس کی طرف ایک ہاتھ آگے بڑھتے ہیں، یہاں تک کہ جو چلتا ہوا آتا ہے، اللہ اس کی طرف دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔ تربیت اور جنت کی طرف راہ نمائی کیلئے یہ بے پایاں رحمت دیکھو؛ لیکن یہ رحمت بھی اسی کیلئے ہے جو اپنے ارادے اور کوشش سے ایک بالشت تو بڑھے، ایک قدم تو اٹھائے۔ جو کھڑا ہی رہے، لاپروا اور بے نیاز رہے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھے، وہ اس بے پایاں رحمت سے کیا پائے گا۔ شرط تو بندہ کی طرف سے ارادہ اور کوشش کی ہے، باقی تو انتہائی فیاضی کے ساتھ میزبانی اور دستگیری کا ہر سامان موجود ہے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔