اچھا استاد

تحریر: محمد اسحاق … ترتیب: عبدالعزیز

                ایک پرانا لیکن سچا قصہ یوں ہے کہ کوئی مہتمم تعلیمات ایک تحتانیہ مدرسہ کے معائنہ کیلئے تشریف لے گئے۔ بچے ہیں کہ شور وشغب اور کھیل کود میں مصروف ہیں۔ استاد ہیں کہ بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ مہتمم صاحب کو غصہ آنا ضروری تھا کہ مولوی صاحب؛ میں چاہتا ہوں کہ مدرسہ میں "Pin – Drop – Silence” ہو۔ استاد نے جواب دیا کہ ایسی خاموشی آپ کو قبرستان میں مل سکتی ہے، یہ بچوں کا اور زندگی کا مدرسہ ہے۔

                استاد کو دو فائدے ایسے حاصل ہیں جو کسی بڑے سے بڑے آدمی کو حاصل نہیں، ایک تو اس کا تعلق راست چلتی پھرتی، اچھلتی کودتی زندگی سے ہوتا ہے۔ طلبہ چاہے بچے ہوں کہ بڑے، ان کی بے پناہ توانائیاں، جذبات، شوخیاں اور شرارتیں اسکول کی فضا کو بیحد حسین بنائے رکھتی ہیں۔ استاد کا تعلق راست اسی بجلی کے تار سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل و دماغ کی روشنی تیز ہوتی جاتی ہے۔ اس کی روح اور جذبات کو ایسی غذا ملتی ہے جس سے وہ سرشار رہتا ہے۔ بہت سے قابل ترین لوگ ہیں جو کسی دفتری کام یا کاروبار میں لگ گئے ہیں، انھیں اپنے خیالات و جذبات کے اظہار کا شاید ہی کبھی موقع ملتا ہو۔ ان کی باتیں ان کے دل ہی میں رہ جاتی ہیں، وہ ایک قسم کی گھٹن محسوس کرنے لگتے ہیں۔ شخصیت کی نشو و نما کیلئے اظہار ضروری ہے اور استاد کو یہ موقع ساری عمر نصیب رہتا ہے۔ وہ اپنی جماعت میں سبق ہی نہیں پڑھاتا بلکہ سبق کے دوران میں اپنے دل کی بات کچھ اس طرح پہنچا دیتا ہے جو طلبہ کی شخصیت کے نکھار اور ابھار کیلئے ان کی زندگی کا اثاثہ بن جاتی ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال شیر کشمیر شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح حیات ’’آتش چنار‘‘ میں دی ہے۔ وہ اپنے قیام علی گڑھ کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں :

                ’’وہ واقعہ مجھے کبھی نہ بھولے گا، جو ہمارے استاد فلسفہ ایم۔ ایم۔ شریف کی ذات سے وابستہ ہے۔ انھوں نے ایک بار طلباء سے خطاب کیا، انھوں نے نصیحت کی کہ اپنے جائز حقوق کیلئے کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ ان کی زبان میں ایک رعد کی کیفیت تھی اور یہ بات ان کی زبان سے نکلی اور میرے دل میں ترازو ہوگئی… میں نے زندگی کے مشکل مرحلوں میں اسے یاد کیا ہے…‘‘۔

                اچھا استاد پڑھانے میں بھی استاد ہوتا ہے۔ وہ اپنے مضمون میں نہ صرف کمال پیدا کرتا ہے بلکہ مختلف طریقہ ہائے تعلیم سے وہ اچھی طرح واقف رہتا ہے، وہ اچھے استاد سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور پڑھانے میں بھی اپنی انفرادیت قائم رکھتا ہے۔

                ماہرین تعلیم جانتے ہیں کہ پڑھانا بھی ایک فن ہے بلکہ ہر اچھا سبق آرٹ کا نمونہ ہوتا ہے۔ پڑھانا یہ نہیں کہ ’’کوئی شخص ایک بکٹ پانی دوسری بکٹ میں انڈیل دے (ہمایوں کبیر)… ا ور نہ ذاکر صاحب کی زبان میں ’’استاد کی نوٹ بک سے طالب علم کی نوٹ بک میں منتقل کر دے…‘‘۔

                تعلیم کا ذریعہ ذہن و دماغ اور روح کے راستوں سے ہے۔ استاذ کے ذہن کی رسائی طلباء کے ذہن تک ضروری ہے جو بظاہر بہت پیچیدہ ہے۔ جس کا بیان الفاظ میں آسان نہیں، یہ سب اسی وقت ہوسکتا ہے جبکہ استاد کو اپنے پیشے سے عشق ہو، اخلاص ہو، خونِ جگر دیا ہو، ورنہ   ؎

نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر … نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

                آخر استاد طلباء کو کیا دیتا ہے، وہ سب اسباق جو اس نے پڑھائے ہیں وہ تو سب چند دن کے اندر اندر امتحان کے ساتھ ہی دل و دماغ سے غبارِ خاطر کی طرح اڑ جاتے ہیں، صرف چند باتیں اور یادیں رہ جاتی ہیں۔ اچھا استاد طلبہ میں غیر محسوس طریقہ سے رواداری، دوسروں کے ساتھ رہنے بسنے، اچھے شہری بننے اور چند بنیادی اقدار سے واقف کرا دیتا ہے، جیسے حسن و خوبی کی پرکھ، سچائی کی تلاش کا جذبہ اور نیکی پر عمل کرنے کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ یہی وہ سب اجزاء ہیں جو شخصیت کا حصہ بن جائیں تو ہم کلچر کہتے ہیں۔ اسی کو غلام السیدین ’’روح تہذیب‘‘ کہتے ہیں۔ اسی کو رادھا کرشن Fragrance of the Soul روح کی خوشبو کہتے ہیں۔

                اچھے استاد کی پہچان کسی صدر ادارہ یا ماہر تعلیم کیلئے بھی مشکل ہے۔ اس کی کسوٹی چھوٹے معصوم بچوں سے لے کر یونیورسٹی سطح کے طلبہ ہی ہوسکتے ہیں۔ کسی چھوٹے بچے سے پوچھئے تمہارے ہاں کون سب سے اچھے ٹیچر ہیں ؟ وہ فوراً نام بتا دے گا۔ اب پوچھئے ان میں کیا خاص بات ہے؟ وہ کچھ سوچے گا، سر ہلائے گا لیکن کچھ کہہ نہ سکے گا۔ بچوں میں اپنے ٹیچر کو جانچنے اور پرکھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ ٹیچر کی ذات میں وہ سب کچھ دیکھ لیتے ہیں، جو شاید ٹیچر بھی اپنے متعلق نہ جانتا ہو۔ ان کے نزدیک جو اچھا ہے وہی اچھا استاد ہے، طلبہ اس کی عظمت سے واقف نہیں لیکن اس کی عزت و محبت ان کے دل میں گھر کر جاتی ہے۔ اچھے استاد کیلئے دنیا کا کوئی انعام اس سے بڑا نہیں۔ استادکو یہ عزت و شہرت بس یونہی حاصل نہیں ہوجاتی، وہ خاموش اپنے پیشہ میں کوئی تہائی صدی تک مصروف رہتا ہے۔

                اس کا کام دو چار دن، دو چار مہینوں میں ختم نہیں ہوتا۔ اس کے مزاج کو طوفانی ہواؤں سے کوئی نسبت نہیں، وہ ایک نسیم سحری ہے، جو بہت خراماں خراماں چلتی رہتی ہے۔ نہ اس کا نام اخباروں میں آتا ہے اور نہ اسے کوئی پھولوں کے ہار پہناتاہے۔ وہ ایک گمنام اور نیک نام شخصیت کا مینار ہے۔ اس کا کام بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ برسوں کی عرق ریزی کے بعد بے ہنگم پتھروں کو تراش کر وہ ہیروں میں تبدیل کرتا رہتا ہے۔

                اس کی ذات ہمدردی اور محبت کا جیتا جاگتا سرچشمہ ہوتی ہے۔ مشہور زمانہ ماہر تعلیم پستالوزی کے متعلق مشہور ہے کہ ’’جب وہ کلاس روم میں داخل ہوتا تو چھوٹے بچوں کو پہلے سلام کرتا۔ کسی نے وجہ پوچھی، جواب دیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ ان بچوں میں کون بڑا فلسفی، کون بڑا آدمی یا معلم انسانیت بیٹھا ہوا ہے۔ میں شاید اس وقت ان کی تعظیم کیلئے زندہ نہ رہوں گا‘‘۔

                ’’جب سب لوگ کسی بچہ کی تعلیم و تربیت سے مایوس ہوجاتے ہیں تو پھر بھی دنیا میں دو آدمی ایسے ہیں جو اس بچہ سے مایوس نہیں ہوتے، ایک اس کی ماں اور دوسرا شفیق استاد‘‘۔ (ڈاکٹر ذاکر حسین)

تبصرے بند ہیں۔