اہل یثرب کا قبول اسلام

عامر سہیل نوراللہ

 اسلامی تاریخ خصوصا سیرت نبوی کا مطالعہ ہمیں ورطئہ حیرت میں ڈال دیتا ہے، جابجا، قدم بقدم ایسے حادثات وواقعات درپیش ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، باشندگان یثرب(مدینہ) کا قلیل عرصے میں مائل بہ اسلام ہوجانا اپنے آپ میں ایک حیرت ناک پہلو ہےکیونکہ جو افراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن سے نبی بنائے جانے تک رہے، آپ کی بہتری کا اعتراف کیا،آپ کی سچائی اور دیانت کی گواہی دی،آپ کی زندگی کے ہر گوشے سے واقف ہوئے لیکن وہی لوگ اعلان نبوت کے وقت آپ کے دشمن بن گئے دوسری جانب ایسے لوگ تھے جو آپ کو جانتے تک نہ تھے آپ کی سچائی کو پرکھا نہیں تھا مزید یہ کہ وہ آخری نبی سے خائف تھے(کیونکہ علماء یہود آخری نبی کے متعلق انھیں مبہم خبریں دیتے اور ان کی بنیاد پر انجام تک پہونچانے کی بات کہتے) لیکن جب انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی،آپ کی باتوں کو سنا تو مزید جاننے کی خواہش نے انھیں مہمیز لگائی نتیجتا پہلے مرحلہ میں انھوں نے اسلام قبول کیا اور وفاداری کے ثبوت میں یکے بعد دیگرے دو بیعتیں کیں اور آپ کو دعوت دے ڈالی کہ یثرب کو اپنا مسکن بنالیں

غور کرنے کا پہلو یہ ہے کہ وہ کون سے اسباب تھے جن کی بناء پر اہل یثرب نے شتاب ہی دعوت اسلام پر لبیک کہا اور اسے اپنی زندگی کا دستور بناکر اس کی تعلیمات کی روشنی میں باہمی عداوت کو بھلا کردشمنوں کو گلے لگا لیا اور شیر وشکر ہوگئے.

سب سے پہلا سبب رحمت الہی ہے، افراد کی ہدایت رب العالمین کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے روشنی سے نوازے جسے چاہے تاریکی اس کا مقدر کردے.

 دوسرا سبب ایل یثرب کا نرم خو و نیک طینت ہونا ہے یہ ان اہم اسباب میں سے ہے جس نے انکے اندر قبول حق اور خیر کو اپنانے کا جذبہ بیدار رکھا اور انھیں اسلام کا جاں نثار بنا ڈالا.

تیسرا سبب ان کا ستم رسیدہ اور زخم خوردہ ہونا ہے اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ یہودیوں کے مکر و فریب نے انھیں اپنی صلاحیتوں سے استفادے کا موقع ہی نہیں فراہم کیا جس کے نتیجے میں ہنروراں ہونے کے باوجود وہ یہودیوں کے رحم و کرم پر زندگی کے پہیئے کو مشکل سے دھکیل رہے تھے.

 زخم خوردہ اس ناحیے سے تھے کہ اوس و خزرج کی آپسی لڑائی نے انھیں مضمحل اور ناتواں بنادیا تھا،جسمانی تھکاوٹ کے ساتھ ذہنی تناؤ کے شکار ہوگئے تھے اسی لئے وہ کسی ایسے کی راہ تاک رہے تھے جو ان کے نزاع کا تصفیہ کرکے انھیں امن و آشتی کی زندگی مہیا کرے، یہود کی ثالثی کے نتیجے میں عبداللہ بن ابی بن سلول کو بادشاہ بنانے پر اتفاق رائے ہوا،یہ اتفاق اپنے انجام کو پہونچتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ہوئی اور سارا معاملہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔

مسلسل جبر اور ستم جہاں انسان کی قوت مدافعت کو ختم کرتا ہے وہیں بغاوت کی چنگاری بھی پیدا کرتا ہے،یثرب میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو یہودیوں کے مکر سے آگاہ تھے اور اس بات کو بھی جانتے تھے کہ ہماری باہمی رنجش میں یہودیوں کا پورا ہاتھ ہے اسی لئے وہ خار کھائے ہوئے تھے اور موقعے کی تلاش میں تھے کہ یہودیوں سے اپنا حساب چکتا کرلیں لیکن انھیں کوئی ایسا قائد میسر نہیں تھا جو ایک جھنڈے تلے جمع کرکے انھیں یہود کے مقابلے پر لے آئے اسی لئے وہ مجبوری کی زندگی جی رہے تھے ستم بالائے ستم یہ کہ علماء یہود انھیں دھمکی دیتے تھے کہ آخری نبی کے ظہور کا وقت آیا ہی چاہتا ہے اس کی اگوائی میں ہم تمھیں نیست و نابود کردیں گے.

پہلی بیعت عقبہ کے موقع پر اوس اور خزرج کا باہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دونوں قبیلوں میں ایسے لوگ تھے جو مصالحت چاہتے تھے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں اپنے بارے میں بتایا اور قرآن کی تلاوت کی تو کچھ لوگوں نے یہود سے سنی باتوں کی بنیاد پر کہا کہ یہ وہی نبی ہیں جن کو لے کر وہ ہمیں دھمکاتے ہیں تو ایسا کریں کہ ہم ان کے ساتھ ہوجائیں تاکہ یہود ہم سے سبقت نہ کرسکیں ، یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ علم فائدے سے خالی نہیں ہوتا اہل یثرب بذات خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جانتے تھے لیکن علماء یہود کے ذریعہ انھیں علم ہوگیا تھا کہ آخری نبی کے ظہور کا وقت قریب ہے اس لئے جب انھوں نے دیکھا کہ وہی نبی خود چل کر ان کے پاس آئے ہیں جنھیں حریف اپنا حلیف مانتے ہیں تو اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں دیر کرنا نا مناسب ہے اسی لئے انھوں نے نعمت غیر مترقبہ کو گلے لگالیا،اس میں جہاں ان کی اخروی بھلائی مقصود تھی وہیں یہودیوں سے بدلہ لینے اور ستمگروں کو سبق سکھانے کا بھی موقع فراہم ہورہا تھا پھر دنیا نے دیکھا کہ یہود اپنے بنائے جال میں پھنستے چلے گئے اور بدعہدی کے نتیجہ میں جلاوطن کردیئے گئے دوسری جانب اوس و خزرج کو ایسا قائد میسر ہوا جس نے دنیا میں انکا نام کردیا لوگ ان کی تہذیب کے نام لیوا ہوگئے اور ان کی آخرت بھی سنور گئی.

1 تبصرہ
  1. محمد عاطف فوزان حیدرآباد انڈیا کہتے ہیں

    ماشاء اللہ مضمون بہت عمدہ ہے اور اہم باتوں پر قلم کار نے روشنی ڈالی ہے البتہ ایک بات قابل توجہ بلکہ قابل اصلاح معلوم ہوتی ہے کہ مدینہ کو یثرب کے نام سے اب بھی موسوم کرنا نامناسب ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اس نام کو ختم کرکے اپنے مبارک شہر کو مدینہ کے نام سے موسوم کردیا ، بلکہ ایک روایت میں تو یہ منقول ہے کہ اگر کوئی مدینہ کو یثرب سے موسوم کرے اور اسے اللہ سے استغفار کرنا چاہئے ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ سَمَّى الْمَدِينَةَ يَثْرِبَ، فَلْيَسْتَغْفِرِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، هِيَ طَابَةُ هِيَ طَابَة (مسند الامام احمد : ۱۸۵۱۹ ، مسند ابویعلی الموصلی : ۱۶۸۸)

تبصرے بند ہیں۔