بے قراری کا ثمر  یاد ہو شاید تمھیں

افتخار راغبؔ

 بے قراری کا ثمر  یاد ہو شاید تمھیں

اک محبت کا شجر  یاد ہو شاید تمھیں

.

خواہشوں کی دھوپ پر  سب نہالِ دل فدا

تازگی تھی داو پر  یاد ہو شاید تمھیں

.

آندھیوں میں بھی جسے بجھنے دیتے تھے نہ تم

اک دیا تھا معتبر  یاد ہو شاید تمھیں

.

باغ میں وہ کون تھا جس کو ہر شاخِ شجر

چاہتی تھی ٹوٹ کر یاد ہو شاید تمھیں

.

جو طلسمِ عشق سے بن گیا رشکِ بہار

چاہتوں کا وہ کھنڈر یاد ہو شاید تمھیں

.

اک ذرا سی بات بھی گر لگی مجھ پر بری

ٹوٹ پڑنا غیر پر یاد ہو شاید تمھیں

.

جس کو راغبؔ کہہ کے تم فخر کرتے تھے بہت

سائلِ رغبت نگر یاد ہو شاید تمھیں

تبصرے بند ہیں۔