تعلیم کا مقصد صالح معاشرہ کی تشکیل ہے!

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

کسی بھی دور میں تعلیم کی افادیت اور اس کی روحانیت سے انحراف نہیں کیا گیا ہے- تعلیم کو  زندہ قوموں اور مہذب سماج کی بالادستی اس کی عظمت کی علامت گردانا جا تا ہے-  تعلیم یافتہ سماج کی پہچان  صبر ؛  انکساری شکر گزاری؛  خوف خدا اور عزم و استقلال جیسی اہم ترین عادات  زندگی کا جزو لاینفک بن جاتی ہیں- حتی کہ تعلیم یافتہ سماج با حوصلہ ؛  بلند ہمت اور انسانی اقدار کا سچا علمبردار مانا جاتا ہے- اسی کے ساتھ یہ عرض کرنابھی بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ  تعلیم کمزور ترین سماج  کو طاقتور  بنانے میں  مثبت کردار ادا کرتی ہے – تعلیم کا اصل مقصد یہی ہےکہ پاکیزہ اور صالح افکار سے متصف معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئے تاکہ سماج  ہمدردی؛ غمگساری اور خیر سگالی کے جذبہ سے معمو ر ہو ادھر تعلیم یافتہ  افراد نور علم    اور اپنی سنجیدہ کاوشوں  کی بدولت  نوع انسانیت کی سعادت و کامرانی کی فکر کر سکیں جب معاشرہ میں اس نوعیت سے محنت کی جائے تو یقینا براہ راست اس کا فائدہ اہل علم کو ہونے کے ساتھ ساتھ سماج کے دبے کچلے اور علم سے محروم افراد کو بھی ہو گا؛  اور اس صداقت سے قطعی روگردانی نہیں کیجا سکتی ہے کہ تعلیم کے حصول کاجوثمرہ ہے وہ یہی ہے کہ بشریت کو زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہو تعلیم کی روشنی ان گھروں تک بھی جائے جو لاچاری مجبوری اور ناداری کیوجہ سے دولت علم سے محروم ہیں-

جب تعلیم یافتہ طبقہ ان کی حسرتوں آرزؤں اور تمناؤں کی قدر کریگا  تو پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ سماج میں کوئ گھر خاندان اور فردو بشر اپنی بے بسی کا شکوہ نہ کریگا اور پھر پورا سماج تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو جائے گا – تعلیم کے حصول کا حق بلا تفریق مذہب و ملت سب کا ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب  ؛ کسی بھی انسان کے ساتھ تعلیم کے رویہ میں بھید بھؤ نہیں برتنا چاہئے؛  لھذا ہماری مرکزی اور رہاستی حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام باشندوں کے لئے یکساں تعلیم کے مواقع فراہم کرے؛  اگر حکومت کی پالیسی  تعلیم کے  فروغ میں  معتدل  و متوازن نہیں ہے تو وہ ملک فوزوفلاح کے حصول سے عاری رہے گا کیونکہ  کسی بھی سماج کی ترقی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ اس کی عوام کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کیا جانا چاہئے اونچ نیچ اور بھید بھائو کی سیاست سماج میں ابتری اور بے راہ روی کو فروغ دیتی ہے جس کے سبب معاشرہ کا امن تباہ ہو جاتا ہے اور معاشی اعتبار سے بھی ایسے معاشرہ کو کمزور تصور کیا جاتا ہے نتیجتا سماج کی یکجہتی ختم ہوجاتی ہے اور نفرت انتشار؛حکم عدولی جیسے جرائم کا ان پڑھ معاشرہ شکار ہو جا تا ہے -پھر اس کے جو منفی نتائج بر آمد ہوتے  ہیں  وہ انتہائ ضرر رساں ثابت ہونگے نیز ان منفی افکار ونظریات کی زد میں  پوری انسانیت کے آنے کا خطرہ بنا رہے گا جنکا  کسی بھی پر امن سماج کے لئے تحمل کرنا ممکن نہیں-

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تعلیم سے وابستگی  اہل اسلام کی قدیم ترین روایت رہی ہے جب یورپ جہالت و نادانی کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اس وقت مسلمان تمام طرح کے  علوم و فنون سے آراستہ تھے مشرق وسطی خصوصا  بغداد مکہ مدینہ اور اطراف میں علم و حکمت کے بڑے بڑے کالج اور یونیورسٹیاں موجود تھیں جن کی ضیاء پاشیوں سے پورا یورپ برسہا برس تک مستفید ہوتا رہا ہے آج مغرب جو بھی علم کی شمع فروزاں ہے وہ مسلمانوں کی مرہون منت ہے – افسوس اس بات کا ہے کہ آج مسلمانوں نے اپنی قدیم تہذیب اور تعلیم کے حصول سے بیزاری کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا جس کی بدولت مسلمان پستی؛ نکبت؛  پسماندگی اور ذلت و رسوائ کا شکار ہیں – حیرت اس بات کی ہے کہ کچھ نا عاقبت اندیش افراد نے علوم کی تقسیم کر ڈالی یعنی اخروی علوم اور دنیاوی علوم جبکہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اگر ہم اپنے اسلاف کی علمی کاوشوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے   علوم  کی تحصیل میں ہمیشہ توازن   قائم کر نے کی کوشش کی ہے اور نہ اس طرح کا تصور پا یا جا تا ہے جو آج ہمارے درمیان کر دیا ہے-

عہد عباسی کو تاریخ میں امتیازی مقام حاصل ہے اس کی واحد وجہ ہیکہ عباسی خلفاء نے علوم وفنون کی ترویج واشاعت میں  اہم کردار اداکیا ہے بیت الحکمت کا قیام اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے قوم کو آراستہ کیا گیا ارسطو افلاطون اور دیگر عقلاء کی اہم ترین کتابوں کا ترجمہ کراکے علم و حکمت کے جدید گوشوں سےواقف کرایا گیا -اسی طرح عیسائیت یہودیت ہندوازم اور دیگر مذاہب کی بنیادی کتابوں کا ترجمہ بھی وجود میں آیا چنانچہ ترجمہ کے کام پر تمام مذاہب کے علماء اور اسکالرس کو جمع کیا گیا تھا- اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ جدید اور قدیم کی جو خلیج تھی وہ بہت حد تک دور ہوگئی دوسرا فائدہ یہ ہو کہ مسلمان دیگر مذاہب کی تہذیب وثقافت اور ان کے افکار  و عقائد ؛ نظریات اور خیالات سے آشنائ حاصل کی جس کی وجہ سے مذاہب کے مابین افہام و تفہیم کا سلسلہ شروع ہوا اور مذہبی منافرت کا خاتمہ ہو گیا- تاریخ کا مطالعہ بتا تا ہے کہ بیت الحکمت میں علماء اور ماہرین کو دور دراز سے  لا  کر ترجمہ  اور تصنیف و تالیف کے کام پر مامور کیا گیا تھا  ان میں بیشتر غیر مسلم تھے عباسی خلفاء کی ان کا وشوں کا یہی مقصد تھا کہ نوع انسانیت علم کے جدید زاویوں سے واقف ہوکر دنیا میں سرخروئ حاصل کرے – لھذاضروری ہے کہ جو قومیں دنیا میں تفوق اور برتری حا صل کرنا چاہتی ان کو چاہئے کہ دینی علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی جدید انکشافات عصری تقاضوں اور مشاہدات وتجربات کے نئے اصولوں سے متعارف ہوں  بھی  کیونکہ  آج کے اس ترقی یافتہ دور میں زندہ قوموں کی یہی علامت ہے-

یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہےکہ تعلیم اس انداز سے بھی مفید ہونی چاہیے کہ اسے حاصل کرنے کے بعد تمام لوگ ایک دوسرے کی سلامتی کے ضامن بن جائیں معاشرہ سے بد عنوانی شیطنت اور بدامنی جیسی مہلک بیماری کا قلع قمع ہو جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے دور میں تعلیم کی کیا اہمیت اور حقیقت ہے؟ آج کے دور میں تعلیم کا مطلب محض پیسہ کمانا اور مادی ترقی کا حصول رہ گیا ہے تعلیم کا جو بنیادی مقصد تھا کہ اس کے ذریعہ نیک اور صالح سوسائٹی وجود میں آئیگی رشوت بد اخلاقی سماجی اونچ نیچ اوردیگر بنیادی برائیوں سے سماج مبرہ ہو گا تاکہ سماج میں انصاف کا بول بالا ہو مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ اب اسے بنی نوع انسان کی بھلائی کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا۔ تعلیمی نظام میں بڑی خرابیوں اور پیچیدگیوں کے پیدا ہونے کے باوجود اب بھی موقع ہے کہ ہم تعلیم کو بامقصد اور مفید بنائیں۔ اسکول کی زندگی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بچوں کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ایک بچے کو پڑھانے کے لیے استاد کو خود بھی بچہ بننا پڑتا ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ استاد اپنے ذاتی معاملات میں اتنا الجھا ہوا ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیشے سے انصاف نہیں کرپاتا، وہ بچوں کو اصل تعلیم نہیں دے پاتا بلکہ اپنا فائدہ پیش نظر رکھتا ہے۔

اس طرح کی تدریس پڑھائی بچوں کے سر سے گزر جاتی ہے وہ کچھ حاصل نہیں کرپاتے اور تعلیم کا حقیقی مقصد پورا نہیں ہوپاتا۔ ایک حقیقی استاد بچوں کے لیے شفقت، پیار اور محبت کا نمونہ ہوتا ہے، وہ بچوں کے دل و دماغ میں اتر جاتا ہے۔ اس کا مخصوص طریقہ ہی بچوں کو تعلیم کی طرف رغبت دلانا ہے اور بچے خوشی خوشی لکھنے پڑھنے کے لیے راضی ہوجاتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ صحیح استاد اس بات پر بھرپور یقین رکھتا ہے کہ صحیح نتائج اسی وقت حاصل کیے جاسکتے ہیں، جب بچوں کو پیار اور شفقت سے سکھایا جائے۔ استاد کی کامیابی کا راز شفقت اور پیار میں ہی پوشیدہ ہے، نہ کہ بچوں کو ڈرا دھمکا کر پڑھانے میں !طلبہ کی زندگی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہوتی ہے۔

یعنی اسکول (مدرسہ) کی زندگی اور گھریلو زندگی یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ساتھ ساتھ چلنے کے علاوہ ایک دوسرے پر انحصار بھی کرتے ہیں۔ گھر کی تعلیم کے لیے بے حد مفید ہوتی ہے یہی وہ تعلیم ہے جس کی بنیاد پر بچہ اسکول میں کامیاب یا ناکام ہوسکتا ہے اب تو یہ معمول بن چکا ہے کہ بچوں کے ذہنوں میں ان کے بساط سے زیادہ ان پر دباؤ بنانے کی کو شش کیجاتی  ۔ جس طرح ایک ہی بار میں بہت سارے کھانے کھا لینا ممکن نہیں، اس طرح ایک ساتھ بہت سا علم دینا بھی ممکن نہیں۔ پھر بات آتی ہے نصابی کتب کی! ان کتابوں میں تعلیمی مواد میں مطابقت ہونی چاہیے، یعنی اگلی جماعت میں جانے کے بعد بھی پچھلی جماعت میں پڑھائے گئے نصاب سے موافقت پیدا کرنی چاہیے۔ اس طرح طالب علم جب اگلی جماعت میں پہنچے گا تو اجنبیت محسوس نہیں کرے گا۔ اس چیز کا اطلاق دیگر مضامین پر بھی ہوتا ہے۔

چنانچہ استاد کا اہم ترین مقصد یہی ہونا چاہیے کہ طلبہ کے ذہن کو سمجھ کر احتیاط و مکمل طور سے پڑھائے، بجائے اس کے کہ ٹالے یہ مقاصد طریقہ تعلیم سے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اسکول کے بعد کالج کی سطح کی تعلیم کا نمبر آتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب طالبعلم اپنی پسند کے کسی خاص شعبے یا پیشے کا علم حاصل کرتا ہے۔ اس مرحلے پر وقت کی اہمیت کا احساس ہر لمحے ذہن میں رہنا چاہیے اور کوئی بھی غیر اہم چیز پڑھانے سے بچنا چاہیے۔ حصول تعلیم کے دوران طالب علم کو یہ سہولت بھی ملنی چاہیے کہ وہ ہر طرح کے ذہنی دباؤ سے آزاد ہو۔ اس کی فکری، علمی اور فنی صلاحیتوں کو قید کرنا نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے طور پر اپنے ارد گرد کے لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح سے دوسروں پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے ہم جو کہتے ہیں یا کرتے ہیں وہ صرف ہمارے لیے ہی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے لیے بھی اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور ضروری چیز تعلیمی ماحول ہے۔

اگر ماحول اخلاقی اور باوقار ہو تو مقاصد بہت جلد اور آسانی سے پورے ہوجاتے ہیں۔ زندگی میں علم اور اخلاق دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم کا مطلب ایسی تعلیم ہے جو طالبعلم کو ایک صحیح اور مکمل انسان بنادے۔ اس طرح کی تعلیم سے طلبہ کردار کے بھی اچھے بنتے ہیں اور ان کے اخلاق بھی سنور جاتے ہیں۔ اگر ہم پوچھیں کہ کیا شہریوں کو لوٹنے کا عمل صحیح ہے؟ اس کا علم الاخلاق یہ جواب دیتا ہے کہ ایک آدمی لوٹتا ہے اور بھاگ جاتا ہے اور دوسری بار دوسرا آدمی بھی اس کی تقلید کرتا ہے تو پھر معاشرے کا ہر فرد یہی کرنے لگے گا اور یہ برا کام زندگی کا ایک معمول بن جائے گا۔ اس صورت میں معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہوجائے گا۔ لہٰذا ضابطہ زندگی یا طرز عمل جو مجوعی طور پر قابل اطلاق نہیں ہوتا، انفرادی طور پر بھی نہیں ہوسکتا۔ تعلیم کو معزز مقام دیاجانا چاہیے۔ استاد کی عزت کرنی چاہیے۔ اس معزز پیشے کا احترام کرنا چاہیے، کیوں کہ ازل سے یہ ہستی اور پیشہ معزز اور مقدس ہے۔

اگر ہم آج کے نظام تعلیم کی طرف توجہ مبذول کریں تو اندازہ ہو گا کہ جہ نصاب ہم پڑھ رہے ہیں وہ ہماری بنیادی ضروریات کی تکمیل میں نا کافی ہے یہی وجہ ہیکہ رابطئہ مدارس کے حالیہ  اجلاس میں یہ بات آئ کہ بدلتے وقت کے ساتھ یہاں کے نصاب تعلیم میں کچھ تبدیلی.کی ضرورت ہے کیونکہ مدارس کے طلباء اب دینی شعبوں میں کام کرنے کے علاوہ دیگر میدانوں میں بھی کام کررہے ہیں انہیں مناسب تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے دشوریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے لئے فضلاء دارالعلوم نے نومبر2017  کو دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے نام خط لکھا تھا جس میں نصاب تعلیم میں مناسب تبدیلی کی سفارش کی گئ ہے مثلا فضلاء مدارس کا با آسانی عصری اداروں میں داخلہ ہو جائے اسی طرح پاسپورٹ آفس میں وہاں کی سند معتبر مانی جائے نیز سند اور تعلیمی مراحل کو دسویں اور بارہویں کے طرز پر تقسیم کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے- اس لئے مدارس کے ارباب و حل و عقد کو چاہئے کہ وہ اس سمت اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کریں جب مدارس کے فضلاء دنیا کے دیگر شعبوں میں حصہ.لین گے تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آج جن محکموں میں کرپشن اور دیگر برائیوں مجسمہ ہیں   وہاں سے تمام برائیوں کا خاتمہ یقینی ہے-

ملک کی امن وسلامتی کے قیام میں مدارس کے طلباء اہم کردار ادا کر سکتے ہیں آج سماج کو ان تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہے جو امانت دار منصف اور ملک وملت کے سچے وفادار ہوں – آج سماج کے اندر نا تعلیم کی کمی ہے اور نا تعلیم یافتہ افراد کی اس کے با وجود مثالی معاشرہ کے قیام سے ہم بیزار ہیں اس کی واحد وجہ ہیکہ تعلیم میں جب سے تجارت کا تصور آیا ہے اس وقت سے آج تک تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے فضلا میں مقصدیت کے شعور کا فقدان ہے اور معاشرہ کو بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو پا رہا ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اسلام دین فطرت ہے۔ مکمل ہے ۔ یہ
    وہ دین ہے جس نے اخلاقیات کو مرکزی حیثیت دی تھی اور جس کی تکمیل کے لیے پیغمبر اسلام مبعوث کیے گئے تھے،وہ دین جس نے معاملات کو اصل دین قرار دیا تھا، آج اسی دین کے نام لیوا اخلاقیات اور معاملات کی ایسی پستی میں گرچکے ہیں کہ الاماں والحفیظ ۔
    منشیا ت کے بازار ہم نے لگارکھے ہیں، ہوس کے اڈے ہم نے قائم کررکھے ہیں، قماربازی، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،رشوت خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ، سامان میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کو ن سی اخلاقی بیماری ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی؟ معاشرتی زندگی میں جہیز کی لعنت، لڑکیوں کی وراثت کا مسئلہ، طلاق کا غلط استعمال اوربعض ہندوانہ رسم ورواج میں ہم بُری طرح پھنس چکے ہیں۔ ذات پات کے مسئلہ اورمسلکی تعصب کے عفریت نے ہمارا کچومر نکال رکھاہے ۔ غرضیکہ کون سی معاشرتی برائی ہے جس میں ہم بچے ہوے ہیں۔ انصاف بکتا ہے تو پولیس اپنے ہاتھ بے گناہوں کو ملزم ثابت کر کے رینگتی ہے۔
    دوسرا پہلو دیکھیں تو عبادات میں ہم بے ایمان کہلواتے ہیں
    کوہی تو حل ہو گا ان ساری معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے گا
    حاکمان وقت اور علما دین کی ذمہ داریوں پہ عوام کا شدید ردعمل ہے اور یہ وہ وقت ہے کہ کہا جاے کہ ہم تباہی کے دھانہ پہ ہیں۔
    اہل علم اس کاحل ڈھونڈیں.

تبصرے بند ہیں۔