درمیاں اس نے حیا کی جو ردا تانی ہے
ذیشان الٰہی
درمیاں اس نے حیا کی جو ردا تانی ہے
سامنے میرے یہی ایک پریشانی ہے
۔
کاسۂ دل میں زرِ غم کی فراوانی ہے
درد سینے میں جو تھا اب سرِ پیشانی ہے
۔
منکشف حسن ترا مجھ پہ ہوا پہلے بھی
بحرِ جذبات میں پر اب کے جو طغیانی ہے
۔
میرا پیغام اُسے پہنچانے کی جلدی میں, صبا
بات سنتی نہیں چل پڑتی ہے, دیوانی ہے
۔
زخم پر زخم لگاتا ہوں بدن پر اپنے
کہ میسر یہی اک پوششِ عریانی ہے
۔
ابر بھی گزرے اِدھر سے تو بپھر جاتا ہوں
سرِ صحرا یوں ہی قائم نہیں سلطانی ہے
۔
میرا اصرار فقط وصل پہ موقوف نہیں
اور اک بات بھی ہے تجھ سے جو منوانی ہے
۔
سیکھ لی اس نے بھی ذیشان اشاروں کی زباں
بات کرنے میں ہمیں اب ذرا آسانی ہے
تبصرے بند ہیں۔