تفسیر ابن کثیر ؒ – (اصول تفسیر کے چندبنیادی مباحث)

سراج احمد برکت اللہ فلاحیؔ

        تفسیر ابن کثیرؒکاپورا نام ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ ہے۔ یہ تفسیر کی بڑی اہم اورمستندکتاب ہے۔ مسلمانوں کے جملہ مکاتب فکر میں مقبول ہے اور ان کی درس گاہوں میں داخل نصا ب ہے۔ تفسیرقرآن کے لیے حافظ ابن کثیرؒنے باقاعدہ اصول بنائے، اپنا خاص منہج طے کیا اور اپنی تفسیر کے مقدمہ میں اس کا مفصل ذکر بھی کیا ہے۔ انہوں نے اس تفسیر میں اسی اصول ومنہج کو اختیار کیا ہے اور یہی جمہور محدثین کا اصول ومنہج قرار پایاہے۔

        آئندہ سطور میں تفسیر ابن کثیر میں اختیار کردہ اصول تفسیرکو تین ذیلی سرخیوں میں بیان کیا جارہا ہے۔ امید ہے عام قارئین تفسیر کے اصول ومنہج کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اوربالخصوص عربی مدارس کے طلبہ واساتذہ اس سے پورا پورا استفادہ کریں گے اور اس سے انہیں تفسیر ابن کثیر کی اہمیت واستنادی حیثیت کا علم بھی ہوسکے گا۔

اصولِ تفسیر: حافظ ابن کثیرؒ کے نزدیک قرآن مجید کی صحیح تفسیر کے لیے درج ذیل طریقے ہیں۔

1۔      قرآن مجیدکی تفسیر قرآن مجید سے ہی کی جائے کیوں کہ اس میں ایک ہی مضمون متعدد بار آیاہے۔ ایک مسئلہ کا بیان کسی جگہ مجمل ہے تو کسی جگہ اس کی تفصیل موجودہے۔ ایک مضمون سے متعلق جتنی آیات ہوں، خواہ وہ الگ الگ سورتوں میں ہوں، ان کی مدد سے تفسیر کی جائے اور سب کو سامنے رکھ کر ہی کسی مسئلہ کا استنباط کیا جائے۔

2۔      اگر اس مضمون سے متعلق کوئی دوسری آیت نہ ہوتواحادیث رسول ﷺکی مدد سے تفسیر بیان کی جائے۔ جیسا کہ حدیثِ معاذؓ سے معلوم ہوتا ہے۔ ’’کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍؓ حِیْنَ بَعَثَہُ اِلَی الْیَمَنِ : بِمَ تَحْکُمُ؟ قَالَ: بِکِتَابِ اللّٰہِ، قَالَ: فَاِنْ لَّمْ تَجِدْ؟ قَالَ: بِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ، قَالَ: فَاِنْ لَّمْ تَجِدْ؟ قَالَ: اَجْتَھِدُ بِرَائِیْ، قَالَ: فَضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ فِیْ صَدْرِہٖ وَقَالَ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺلِمَا یَرْضَی رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ۔ (المسانید والسنن باسناد جید)

3۔      حدیث رسولﷺ اصلا کلام اللہ کی شرح ہے۔ احادیث کے ذریعہ نبی پاکﷺ نے قرآن پاک کی تفسیر ہی بیان کی ہے۔ ’’ وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْھِمْ‘‘۔ (النحل:44)اللہ کی وحی و ہدایت اور الہام واشارہ کی روشنی میں نبی پاکﷺنے قرآنی آیات کے مطالب ومعانی بیان کیے ہیں۔ ’’اِنَّآ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرَاکَ اللّٰہُ‘‘۔ (النساء:105)غرض کہ قرآن وحدیث دونوں وحی الہی پر مبنی ہیں۔ قرآن مجید وحی متلو  اور حدیث وحی غیر متلو ہے۔

3۔      جب کسی آیت کی شرح وتفسیر سے متعلق قرآن مجید کی دوسری آیات یا احادیث رسولﷺ میں کوئی مواد نہ ہو، تو اقوال صحابہؓ کی طرف رجوع کیا جائے کیوں کہ وہ زمانۂ نزول اور اس وقت کے احوال وقرائن کے عینی شاہد ہیں۔ نبی پاک ﷺ سے بلا واسطہ قرآن مجید کی آیات کا مفہوم اور ان کا مدلول سمجھا ہے۔ وہ صحیح سمجھ اور صالح علم وعمل والے تھے۔ بالخصوص خلفائے اربعہ، عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم، تفسیر قرآن کے حوالہ سے بہت مشہور اور اہم صحابہ ؓ میں سے ہیں۔

4۔      قرآن مجید کی تفسیر کے لیے قرآن مجید، احادیث رسولﷺ اور اقوال صحابہؓ کے بعد اقوال ِتابعین ؒ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ یہی جمہور ائمہ ومفسرین کا اصول ہے۔ تفسیر قرآن مجید کے حوالہ سے مشہور تابعینؒ کے نام یہ ہیں۔ مجاہد بن جبر، سعید بن جبیر، عکرمہ مولی ابن عباس، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، مسروق بن اجدع، سعید بن مسیب، ابوالعالیہ، ربیع بن انس اور ضحاک بن مزاحم رحمہم اللہ وغیرہ۔

        تابعین ؒ کے اقوال باہم مختلف ہونے کی صورت میں حجت نہیں ہیں کہ ایک تابعی کے قول کو دوسرے تابعی کے قول پر حجت تسلیم کرلیا جائے، البتہ اگر کسی آیت کی تفسیر کے تعلق سے تابعین ؒکے اقوال میں اتفاق پایا جائے تو اسے بلا شک وریب دلیل اور حجت مانا جائے گا۔ واضح رہے کہ تابعینؒ کے اقوال میں جو اکثر اختلاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ حقیقت میں محض ظاہری اختلاف یاتعبیرات کا فرق ہوتا ہے۔ پیشِ نظر آیت یا الفاظ کے مدلولات میں وسعت کا علم ہوتا ہے۔ ہاں اگر تابعینؒ کے اقوال واقعی متضاد ہوں تو لغت اور اہل عرب کے استعمال کی روشنی میں صحیح تر قول کو اختیار کیا جائے گا۔

5۔      اگر کسی آیت کے حوالہ سے تابعینؒ کے اقوال بھی نہ ہوں، تو حافظ ابن کثیرؒ بسااوقات تبع تابعین اور دوسرے ائمہ سلف کے اقوال بھی نقل کرتے ہیں۔ البتہ اس صورت میں وہ اپنی رائے کا ذکر ضرورکرتے ہیں۔ راجح وصحیح تر کی تلاش میں لغت اور کلام عرب کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ کسی لفظ کے مدلول کو سمجھانے کے لیے اکثر بطور استشہاداشعاربھی نقل کرتے ہیں۔

اسرائیلی روایات اور ابن کثیرؒ کا موقف:     علمائے اہل کتاب کی بیان کردہ روایات یا ان سے منسوب اقوال کو اسرائیلی روایات کہا جاتا ہے۔ بعض علمائے سلف تفسیر قرآن کے ضمن میں ان کو ذکر کرنا بالکلیہ غلط اور ناجائز سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کلام اللہ کی شرح وتفسیر اور معانی ومطالب کے ذیل میں ان روایات کو بیان کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کو حق اور صحیح سمجھا جارہا ہے یا ان کو غیر معمولی اہمیت دی جارہی ہے۔ حالاں کہ نہ ان اقوال کی اتنی اہمیت ہے اور نہ ہی ان کا حق یا باطل ہونا واضح ہے۔

        لیکن حافظ ابن کثیرؒ کا موقف یہ ہے کہ استشہاد کے لیے ان روایات کو بیان کیاجاسکتا ہے اور یہی  صحیح بات ہے کیوں کہ تفسیر قرآن کے ذیل میں اسرائیلی روایات بیان کرنے کی اباحت وجواز کے تعلق سے  نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث موجود ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :بَلِّغُوْاعَنِّیْ وَلَوْآیۃً وَحَدِّثُوْا عَنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (بخاری ومسلم)

        مذکورہ حدیث کی روشنی میں ان روایات کو نقل کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عباسؓ کی سندوں سے بھی متعدد اسرائیلی روایات منقول ہیں۔ حافظ ابن کثیرؒلکھتے ہیں کہ اسرائیلی روایات کی تین قسمیں ہیں۔

(۱) وہ روایات جن کا صحیح ہونا، کتاب وسنت کی روشنی میں ہمیں معلوم ہو۔

(۲) وہ روایات جن کا باطل اور غیر صحیح ہونا، کتاب وسنت کی روشنی میں ہمیں معلوم ہو۔

(۳) وہ روایات جن کے تعلق سے کتاب وسنت خاموش ہیں۔ جن کے باطل یا صحیح ہونے کا علم ہمیں نہ ہو۔ ان روایات کی نہ تصدیق کی جائے گی اور نہ ہی تکذیب۔ ہاں حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بیان کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بطور دلیل یا مزید کسی مسئلہ کے اثبات کے لیے نہیں بلکہ انہیں محض استشہاد کے لیے بیان کیا جائے گا۔

        تفسیر ابن کثیر ؒمیں تینوں قسم کی روایتیں موجود ہیں۔ حتی کہ دوسری قسم کی روایات جن کا باطل ہونا ثابت اور معلوم ہے، ان روایتوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ البتہ ان کابیان، نقد وتبصرہ اور اس بات کی وضاحت کے ساتھ ہوتا ہے کہ ان روایات کا تعلق مذکورہ اقسام میں سے کس قسم سے ہے۔

        حافظ ابن کثیر ؒ اسرائیلی روایات بیان کرنے سے اکثر گریز کرتے ہیں اور بہت ہی کم مواقع میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ان کا خیال ہے چوں کہ احادیث نبویہ کی طرح ان روایات کی علمائے اہل کتاب نے تنقیح نہیں کی ہے اور صحیح وسقیم نیز ثابت وغیر ثابت میں فرق کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا ہے، اس لیے ان کا بیان کرنا تضییع اوقات کے سوا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی خاص فائدہ ہے۔

تفسیر بالرائے اور ابن کثیرؒ:         مجرد تفسیر بالرائے یعنی محض اپنی رائے اور فہم کی بنیاد پر قرآن مجید کی تفسیر بیان کرنا یا کسی آیت کا مطلب بیان کرنا۔ حافظ ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا بالکلیہ حرام ہے کیوں کہ حدیث رسولﷺ ہے:’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِرَأیِہٖ، أوْبِمَالَایَعْلَمُ، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ، ۔ (ترمذی، نسائی، ابوداؤد)

        وہ صحابہ کرامؓ کی بعض مثالوں کے ذریعہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ لاعلمی اور عدم واقفیت کی صورت میں توقف اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ احتیاط اسی میں ہے۔

(۱)    حضرت ابوبکرصدیقؓ سے کسی نے سوال کیا۔ ’’وَفَاکِھَۃً وَّاَبّاً‘‘ (سورۂ عبس :۳۱) اس آیت میں آخری ٹکڑا کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا : اگر میں کتاب اللہ کے بارے میں ایسی کوئی بات کہوں، جس کا مجھے علم نہیں توکون ساآسمان مجھے سایہ دے گا اور کون سی زمین میرا بار اٹھائے گی؟

(۲)    حضرت عمر فاروقؓ سے بھی اس آیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:’’فَاکِھَۃً‘‘ تو ہم جانتے ہیں، ’’اَلْاَبُّ‘‘ کیا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم۔ پھر جی میں کہا اے عمر !یہ تو سراسر تکلف ہے۔ یہ کہنے میں کہ مجھے اس کاعلم نہیں ہے، تم پر کیا وبال آجائے گا؟

(۳)    حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے پوچھا۔ ’’ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ اَلْفَ سَنَۃٍ‘‘ (السجدۃ:۵) یہاں ’یوم‘ سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی مدت کیا ہوگی؟ انہوں نے جواب دیا : سورہ معارج آیت نمبر4 میں بھی ہے’’فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ ‘‘۔ دونوں کا ذکر اللہ نے ہی کیا ہے اور دونوں کا حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، ہمیں اس کی صحیح مراد معلوم نہیں۔ ٭٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔