توڑا ستم رَوِش سے بہت اُس نے ہٹ کے آج

افتخار راغبؔ

توڑا ستم رَوِش سے بہت اُس نے ہٹ کے آج

دل نے مقابلہ بھی کیا خوب ڈٹ کے آج

۔

آنسو بہت بہے مگر آنکھیں چمک اُٹھیں

ماضی کو اپنے دیکھا جو ہم نے پلٹ کے آج

۔

اپنی مثال آپ تھی جو قوم زور میں

کم زور کتنی ہو گئی ٹکڑوں میں بٹ کے آج

۔

دیتے تھے کل فریب جو اوروں کو بے دریغ

خدشات جانے کیوں ہیں انھیں چھل کپٹ کے آج

۔

ممکن نہیں مصافحہ پر ہیں تو روبرو

اِک آئینے میں آگئی دنیا سمٹ کے آج

۔

شیریں لبوں تک آپ کے آئے نہ جو کبھی

بہلا رہا ہوں دل انھیں لفظوں کو رٹ کے آج

۔

شاید کبھی دُکھایا ہے میں نے بڑوں کا دل

یوں ہی نہیں جواب ملا ہے پلٹ کے آج

۔

چھوڑا اُسے کہیں کا نہ کبر و غرور نے

پھرتا ہے کیسا گردِ ملامت میں اَٹ کے آج

۔

راغبؔ تڑپتے دل کو ملا کس قدر سکون

برسوں کے بعد رویا جو خود سے لپٹ کے آج

تبصرے بند ہیں۔