لَوٹ رہے ہو ہاتھ چھڑا کر شہزادے

فوزیہ ربابؔ

لَوٹ رہے ہو ہاتھ چھڑا کر شہزادے

کیا ملتا ہے مجھ کو رُلا کر شہزادے

۔

بولو کیسے خود کو اب تم روکو گے

دل کی بے تابی کو بڑھا کر شہزادے

۔

کب تک اک اک لمحہ یوں ہی کاٹیں گے

دیواروں کو درد سنا کر شہزادے

۔

کتنا روئی کیا تجھ کو معلوم نہیں

آج میں تیرا ہجر منا کر شہزادے

۔

دیر تلک کیوں روٹھے روٹھے رہتے ہو

کیا ملتا ہے جان جلا کر شہزادے

۔

آج نکھار دیا ہے میری شب کا روپ

توٗ نے میرے خواب میں آ کر شہزادے

۔

اپنی آنکھوں کی قیمت نہ گرا لینا

ایسے میرا مول گھٹا کر شہزادے

۔

آج پتا ہے؟ میں نے پھر سے یاد کیا

تجھ کو کتنی بار بھلا کر شہزادے

۔

تم نے میری ہستی کو پامال کیا

میری ہر اک ضد کو مٹا کر شہزادے

۔

من کے نازک محل میں سخت اناؤں کی

کہاں گئے دیوار اُٹھا کر شہزادے

۔

پریم کی گنگا جمنا من میں بہا دی ناں

تم نے اپنے خواب دکھا کر شہزادے

۔

روپ سنوار کے تیری آس میں شہزادی

رستہ دیکھے سیج سجا کر شہزادے

۔

مجھ کو لگا لو آج پھر اپنے سینے سے

کان میں وہ اک بات بتا کر شہزادے

۔

بخت میں تیرا ساتھ میسّر ہو جائے

تو بھی سوہنے رب سے دعا کر شہزادے

۔

کس کو سنائے خاموشی کے بَین ربابؔ

دل روتا ہے درد چھپا کر شہزادے

تبصرے بند ہیں۔