جدید کاسمولوجی کا چیلنج اور فکر اسلامی

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

 موجودہ دورمیں علم کلام کی طرف پھرویسے ہی توجہ واعتناکی ضرورت ہے جیسے کہ ماضی کے ائمہ وعلمانے کی تھی،لیکن آج ہماری ساری توجہ فقہ کی طر ف ہوگئی ہے۔ اس چیز کی اہمیت ہمارے سامنے اس وقت واضح ہوتی ہے جب ہم معاصردنیامیں مذہب اورسائنس کے تعامل پر غورکرتے ہیں۔ جدید کاسمولوجی جوسائنس وٹیکنالوجی نے تشکیل دی ہے اس نے مذہب کے روایتی موقف پر جوسوال کھڑے کردیے ہیں ان پر غورفکرکرتے ہوئے پہلااصولی مسئلہ یہ سامنے آتاہے کہ آج ارسطوکا وہ ورلڈ ویوجوسترہ صدیوں تک دنیاپر چھایارہا مسترد ہوچکا ہے۔ اْس ورلڈویومیں زمین کائنات کامرکز تھی۔ وہ ساکن تھی،سورج اس کے گردچکرلگاتا تھا(پرانی ادبیات میں اسی لیے آسمان کو گردوں کہتے تھے)کائنات ارضی کا مرکزتوجہ،مخدوم اورامین انسان تھا بعض لوگ اس کوخلافت ارضی سے بھی تعبیرکرتے ہیں۔ اس ورلڈ ویومیں اسلام کے حامی اورمخالف دونوں ایک ہی پیچ پر تھے۔

آج جوورلڈ ویودنیاکورول کررہاہے وہ گلیلیو،ڈیکارتے،نیوٹن،ہبل اورآئن اسٹائن وغیرہ کے نظریات اورتحقیقات پر مبنی ہے۔ اس ورلڈ ویوکے مطابق زمین سورج کے گردگھومتی ہے،سورج اوردوسرے ستارے وسیارے اپنے اپنے محورپر گردش میں ہیں۔ انسان کوکوئی خاص پوزیشن اس زمین پر حاصل نہیں۔ بلینیوں کہکشاؤں پر محیط اس کائنا ت میں خودزمین ایک نقطہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ ارتقاء اوراب بگ ہسٹری کے تصورات نے مذہب کے نظریہ تخلیق اورانسان کی خصوصیت کوختم کرکے رکھ دیاہے۔ بگ بینگ یانیچرل ارتقاء پر مبنی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ نہ اس کائنات کا کوئی مقصدہے اورنہ انسان کی تخلیق کا کوئی مقصدہے۔ یہ کائنا ت ومافیہاسب نیچرکے اندھے قوانین کے تحت وجودمیں آئی اوران ہی قوانین کے تحت اپنے آپ بے مقصدختم بھی ہوجائے گی۔ ایسے میں خداکا وجود، حشرنشرآخرت وغیرہ کے تصورات سب غیرسائنسٹفک تصورات قرارپاتے ہیں۔

مذہب انسان کی جوتاریخ اورکہانی بتاتاہے وہ پانچ چھ ہزارسال سے پیچھے نہیں جاتی جبکہ بگ بینگ اورنیچرل ارتقاء پر مبنی تاریخ عظیم بتاتی ہے کہ کائنا ت کی عمرقریبا۳۱،ارب سال ہے۔ اس کے مطابق ہماری زمین سات ارب سال پہلے بنی اوراس پر زندگی کا وجودپانی میں تقریباچارارب سال پہلے ہوا۔ لائف نے مختلف ارتقائی منازل سے گزرکربلینوں سال پہلے حیوانی قالب اختیارکیا۔ ارلی انسان اورنیندرتھیل وجودمیں آتے ہیں لاکھوں سال کے گزرنے اورنیچرل سیلیکشن سے گزرتے ہوئے وہ ہنٹنگ گیدرنگ کے مرحلہ میں پہنچتاہے۔ ایک لاکھ نوے ہزارسال ہنٹنگ اورگیدرنگ کے مرحلہ میں رہنے کے بعدوہ آئس ایج،حجری زمانہ سے گزرکرزراعت کے دورمیں داخل ہوااورایک متمدن معاشرہ کی بنیادپڑی۔ زراعت کے بعدموجودہ صنعتی معاشرہ وجودمیں آیا۔

تاریخ عظیم کی یہ کہانی بتاتی ہے بایولوجی کے اعتبارسے مردوعورت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ مختلف معاشروں میں ہم جوفرق ان دونوں میں دیکھتے آئے ہیں وہ اصل میں کلچرل مؤثرات کی وجہ سے ہے اس کی کوئی حقیقی وجہ نہیں۔ ہوموسیپن کے مصنف کا کہناہے کہ ”انسانی سماج میں مردکے وظائف،عورت کے وظائف اوراس سے بھی آگے بڑھ کرانسانی جسم کے مختلف اعضاء کے بامقصدوظائف کا تصوران نیچلرل ہے۔ وہ اصل میں مسیحی تھیولوجی سے آیاہے ورنہ بایولوجیکلی کسی چیز کا کوئی مقصداورہدف نہیں ہوتا۔ مردقوام ہے اورعورت گھرکی ملکہ ہے وغیرہ تصورات اصل میں انسانی Imagination کے ساختہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان بنیادی طورپر چیزوں کوimagine کرتاہے۔ چنانچہ یہ انسانی کلچر،ثقافت وتہذیب،مذہب وروحانیت،اخلاقی احساس وغیرہ یہ سب اس کی imagination کا نتیجہ ہیں  ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ کاسمولوجی کہتی ہے کہ تاریخ blindly سفرکرتی ہے اوراس کائنات اوراس پر زندگی کا کوئی مقصدنہیں ،ایک دن یہ یونہی Blindly ختم بھی ہوجائے گی۔ سامعین کرام آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ جوبیانیہ ہے یہ اپنے اندرمذہب،وجودباری تعالی وغیرہ کے کتنے بڑے چیلنج رکھتاہے اورہماری اس فتنہ سے مقابلہ کی تیاری کیسی ہونی چاہیے یہ آپ پر مخفی نہیں۔

تیسرامسئلہ مغربی سائنس وٹیکنالوجی کایہ ہے کہ آج جینیٹک انجئنرنگ کے ذریعہ یعنی انسانی جینوم کوکنٹرول کرنے کے پروگرواموں کے ذریعہ یہ کوشش کی جارہی کہ اپنے من پسندانسان پیداکیے جاسکیں۔ کلوننگ کا عمل جوشروع میں ڈولی نامی بھیڑپر کیاگیااوراس کا ہمزاد پیدا کیا گیاتھااب بات اس سے بہت آگے بڑھ چکی ہے اورپیڑپودوں ،سبزیوں اوراناجوں سے گزرکراب حریم انسانی اس کی زدمیں آیاچاہتاہے۔ جاپان میں مردوں کی آخری رسومات ایک روبوٹ انجام دے رہاہے،جرمنی میں چرچ کے اندرایک روبوٹ پادری کلیسائی مذہبی فرائض انجام دے رہاہے یعنی AIآرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعہ روبوٹ اب محض مشینی آلا ت نہ رہ کرانسانی ذہن وشعورکے حامل بھی ہوں گے اوروہ دن دورنہیں جب ہمارے امام ومؤذن روبوٹ ہواکریں گے۔ کبھی فلموں میں اورفکشن میں روبوٹک بیویوں کی بات آیاکرتی تھی مگراب تووہ سچائی بن کرانسانوں کے سامنے آنے والی ہے۔ توسوال تھیولوجی کے سامنے یہ ہوگاکہ روایتی معاشرتی احکام اِن نئے قسم کے اورانوکھی نوعیت کے انسانوں پر کس طرح لاگوہوں گے؟کیاوہ سِرے سے شریعت کے مخاطب بھی رہ جائیں گے یانہیں ؟یاان کے لیے کوئی اورہی فقہ ڈولپ کی جائے گی؟

انسانی زندگی میں مختلف جذبا ت کی بڑی اہمیت ہے اوربہت سے احکام بھی انہیں جذبات مثلاٰمحبت والفت،رحم ومہربانی،نفرت وکراہمیت،غصہ وحسدوغیرہ کی بنیادپر وجودمیں آتے ہیں۔ انسانی تہذیب ان کی بنیادپر ترقی کرتی ہے،سماجی رشتے ان سے بنتے بگڑتے ہیں۔ اب ڈرگس اوردواؤں کے ذریعہ ان کوجذبات کوختم کرنے،ان کوکنٹرول کرنے یاان کوبدل دینے کی بات کی جارہی ہے۔ حتی کہ ایک بڑاپروجیکٹ اس پر تحقیق کررہاہے کہ موت کاخاتمہ انسان کی زندگی سے کردیاجائے۔ انسان کی زندگی کا دورانیہ بڑھادیاجائے وہ ہمیشہ جوان رہے اُسے کوئی مرض لاحق نہ ہووغیرہ۔ اگرایساکسی بھی درجہ میں ہوجاتاہے تو اس سے روایتی فقہی احکام پر کیااثرپڑے گاکیاان چیزوں کوتغییرِخلق اللہ کی قبیل سے سمجھاجائے گایانہیں ؟ہمارے علما گزشتہ سوسال سے بھی زیادہ عرصہ سے تصویرکے مسئلہ سے الجھے ہوئے ہیں کہ آیافوٹومیں کسی شیئی کی حقیقت خودآجاتی ہے یااس کا عکس آتاہے؟تصویراگرسرکٹی ہوتوجائزہوگی یانہیں ؟ڈیجیٹل کیمرے سے لیے گئے فوٹوپر حدیث میں آئی وعیدکا اطلاق ہوگایانہیں وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ اب سائنس وٹیکنالوجی جس دنیاکوسامنے لارہے ہیں اس میں ہمارے یہ فقہی قواعدوضوابط کچھ کام دیں گے؟فی الحال کیتھولک چرچ کی مخالفت کی وجہ سے اورکچھ اوراسباب سے بعض ملکوں میں سائنس کوکچھ پابندکیاگیاہے اوراس کی تحقیقات پر کچھ قدغنیں عائدکی گئی ہیں مگرتابکے؟جب یہ جن بوتل سے باہرآئے گاتونطشے نے توGod is dead کہ دیاتھامسقتبل قریب کا انسان فرعون کی زبان میں کہے گاکہ ”میں پیداکرتاہوں اورمارتاہوں اس لیے میں ہی خداہوں “۔ یعنی سائنس داں ہی اناربکم الاعلی کا نعرہ مارے گا۔

یہ ہیں نئی کاسمولوجی کے وہ پہلوجوارتقااورنیچرل ہسٹری کی بنیادپرمذہب کے بالمقابل کائنات کے آغازوارتقاء  اورزندگی کی تخلیق کا نیابیانیہ ہمارے سامنے لارہاہے۔ یہ اپنے اندرمذہب کے لیے کتنے خطرے لیے ہوئے ہماری معروضات سے یہ بات کسی حدتک سامنے آجاتی ہے۔ اب اہل مذہب کوسوچنایہ ہے کہ اس خطرے سے مقابلہ کی کیاتیاری ان کے پاس ہے؟

تبصرے بند ہیں۔