جذبۂ محبت کا مغنی

 ڈاکٹر عمیر منظر

شاعری ایک خدا داد صلاحیت ہے ۔اپنی محنت اور کوشش سے اسے حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔شعرا کو اس کا خاطر خواہ اندازہ ہے ۔شعری صلاحیت کبھی کبھی غلط فہمی بھی پیدا کرتی ہے ۔ریاض قاصد کو جن لوگوں نے ان کی شاعری کے ابتدائی دنوں میں دیکھا ہے وہ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد خاصی ہے ۔ ریاض قاصد کی سنجیدگی اور ان کی معصومیت کو دیکھتے ہوئے مشکل سے ہی یقین ہوتا تھا کہ یہ شاعری بھی کرسکتے ہیں ۔چہرے کی معصومیت تو اب بھی برقرار ہے ۔کبھی کبھی تو دن میں کئی کئی غزلیں کہہ لیتے تھے اور سننے والے حیرت سے ریاض کا چہرہ دیکھتے تھے ۔جامعتہ الفلاح کے یہ دن بھی کیا دن تھے ۔ان ایام کی خوشگوار یادیں اب بھی حافظہ کا حصہ ہیں اب تک یہ محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا لطف تو انھیں دنوں تھا ۔زندگی کی بے پناہ مصروفیت اور مسائل شعروادب سے پہلے جیسا لطف کہاں حاصل کرنے دیتے ہیں ۔
ریاض قاصد کی شاعری پڑھ کر سب سے پہلے جو احساس ابھر تا ہے وہ یہی کہ ہم شاعری پڑھ رہے ہیں ۔نہ تو راست انداز بیان اور نہ ایسی پیچیدگی جس پر معمے بازی کا گمان گزرے بلکہ وہ انداز جس کو پڑھنے والا شاعری کے طرز نگارش کے ساتھ بہتا چلا جائے ۔ریاض کی سادہ بیانی دھوکہ بھی بہت دیتی ہے یعنی ایسا لگتا ہے کہ اس شعر میں کوئی بات ہی نہیں ہے ایک عام سا مضمون ہے جس کو سادہ انداز میں فن کار نے باندھ دیا ہے ۔مگر جب غور کریں تو کھلتا ہے کہ یہ سادگی ،سادگی کے ساتھ ساتھ سحر کا بھی کام کرتی ہے ۔
میں اس ادا کو بتا کس حساب میں لکھوں
رلا دیا ہے کسی نے ہنسا ہنسا کے مجھے

تنہائیوں کا جشن منانے کے واسطے
یادیں تمہاری ساتھ لیے جارہا ہوں میں

چلے آو بڑا احسان ہوگا
تمہیں دیکھے زمانہ ہوگیا ہے
یہ صرف تیرے ہجوم غم سے ہماری دنیا سجی ہوئی ہے
نہ پوچھ کتنی خوشی ہے ہم کو تری طلب میں تباہ ہوکر

اتنی سی خواہش ہے دل میں
کاش وہ مجھ کو اپنا کہہ دے

ان اشعار میں محبت کے ان جذبوں کااظہار ہے جن میں معصویت کا عنصر غالب ہے ۔جذبوں کی شفافیت کا یہ عالم ہے کہ متکلم ان لوگوں سے وفا کی امید یں لگائے بیٹھا ہے جن کی سرشت میں بے وفائی داخل ہے ۔اگر یہ سچ ہے کہ انسان اپنے ہی جیسا دوسروں کو سمجھتا ہے تو وہ معصومیت جو فنکار سے وابستہ ہے شاعری کا حصہ بھی بن گئی ہے ۔جذبوں کی یہ شفافیت اور اک نوع کی چاہے جانے کی آرزو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔ان اشعار کا درو بست نوکلاسیکی شعرا کی یاد دلاتا ہے ۔دنیاکی وحشتوں سے الگ ایک ایسا شخص بھی ہے جو اپنی دنیا میں گم ہے ۔درج بالا اشعار میں وصال جسم یا بدن کی خواہش مراد نہیں ہے بلکہ متکلم ایسے جذبے سے سرشار ہے جہاں گوشت و پوست کے بجائے قلب و روح کا معاملہ ہے ۔
فطرت اور فطری حسن کی تلاش ان دنوں نہایت سرگرمی کے ساتھ جاری ہے ۔حالانکہ تلاش کرنے والوں کو معلوم ہے کہ یہ ایک بے سود کوشش ہے ۔زمین پر جس طرح مکانات اگائے جارہے ہیں اور انسانی آبادی جن مسائل کے انبار سے دبی جارہی ہے یادوچار ہے اس کا احساس کسے نہیں ہے ۔المیہ یہ ہے کہ زندگی ہی زندگی سے دست و گریباں ہے ۔اسی احساس نے فن کا رکو یہ کہنے پر مجبور کیا ہوگا کہ
محبت کی جہاں ہو حکمرانی
میں اک ایسا جزیرہ چاہتا ہوں
جذبۂ محبت کو چند لفظوں میں قید نہیں کیاجاسکتا ہے ۔اور یہ لفظ جسم اور بدن کی تشریح تک محدود نہیں ہے بلکہ تخلیق کا ر کی تخلیقی ہنر مندی اس میں معنی کی ایک وسیع دنیا آباد کرسکتی ہے ۔اردوشاعری میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ ریاض قاصد کی دنیائے محبت بھی کچھ اسی طرح ہمہ جہت اور ہمہ رنگ ہے ۔

سمجھ میں آگیا راز محبت
تصدق میں تری بیگانگی کے

جنھیں زمانے کی گردش مٹا نہ پائے گی
نقوش ایسے محبت کے چھوڑ آیا ہوں

محبت کس قدر ایثار کرتی ہے طلب ہم سے
کہ حکم یار کچھ بھی ہو بجالانا ضروری ہے

ذرے ذرے سے محبت کی کرن پھوٹے گی
اجنبی راہوں پہ کچھ دور نکل کر دیکھو

محبت کے کنول تازہ سلامت لے کے آئے ہیں
ترے کوچے میں دنیا سے عداوت لے کے آئے ہیں

مجھے اپنی محبت کا سہارا دے کے اے قاصد
مری ہستی کو ہم دوش ثریا کردیا اس نے

رکھ لو ہمیں آنکھوں میں ہم اشک محبت ہیں
نایاب نہیں لیکن ہم جیسے ہیں کم یارو

انھیں ہم سے شکایت ہورہی ہے
جواں شاید محبت ہورہی ہے

ممکن ہے اشعار کچھ زیادہ ہو ں مگر اس سے کم از کم ریاض قاصد کے عام مزاج کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور میری اس بات کو تائید بھی حاصل ہوگی جس کاذکر گزشتہ سطور میں کیا جاچکا ہے ۔لفظ محبت کا فسانہ سب کو معلوم ہے کہ اگر یہ سمٹے تو دل عاشق ہے اور پھیلے تو زمانہ ہے ۔یہ لفظ جلال و جمال دونوں کی تعبیر ہے ۔میر اور کلام اقبال کے وہ حصے جہاں محبت کابیان ہوا ہے اس کا تقابلی مطالعہ بہت دلچسپ ہوسکتا ہے ۔اقبال نے تو ’’محبت فاتح عالم ‘‘کا نعرہ بلند کیا تھا جو کہ ایک بڑی سچائی ہے جبکہ میر صاحب کہتے ہیں ۔
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
یا یہ کہ
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں ۔
ریاض قاصد بھی ایک فنکار ہیں اور ان کے اندر بھی دل درد مند ہے ۔ان کی یہی دردمندی جب اشعار کے پیکر میں ڈھلتی ہے تومحبت کے رنگ و نور کا ایک ہالہ بنتا چلاجاتاہے ۔
مجھے یقین ہے کہ ریاض قاصد اپنے قاری کو مایوس نہیں کریں گے اور اس عہد میں جبکہ شاعری اپنے محور سے دور ہوتی جارہی اور وہ بنیادی جذبے جن سے شاعری پہچانی جاتی ہے جو اردو غزل کو شناخت عطاکرتے ہیں ان کو واپس لانے کی سعی جمیل ہے ۔

 (مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔