شفیع بہرائچی حیات اور خدمات

جنید احمد نور

شہر بہرائچ کے اپنے وقت کے نامور شاعر حاجی شفیع اللہ شفیع ؔ بہرائچی کی پیدائش 1902ء میں شہر بہرائچ کے محلہ براھمنی پورہ چوک بازار میں حاجی براتی میاں نقشبندی چوناوالے کے گھر میں ہوئی تھی۔آپ کی تعلیم گھر پر ہوئی ۔ آپ شہر بہرائچ کے نامور تاجروں میں شمار ہو تے تھے۔ آپ کی دُکان ادبی محفل کا مقام تھی۔ حاجی شفیعؔ صاحب 1963ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ 6جولائی 1973ء کو ان کا انتقال ہوا۔درگاہ ریلوے کراسنگ سے متصل احاطہ حیرت شاہؒ میں ان کی آخری آرام گاہ ہے اپنے والد کے پہلو میں۔
ادبی سفر
شفیع ؔ بہرائچی حضرت ریاضؔ خیرابادی ، شوق بہرائچی اور رافعتؔ بہرائچی کے شاگرد تھے۔ حضرت ریاضؔ خیرابادی سے خط وکتابت کے ذریعہ اپنے کلام کی اصلاح کرواتے تھے ۔ آپ کی دُکان پر بہرائچ کے تمام نامور شخصیات کا آنا جانا رہتا تھا ۔ شفیعؔ صاحب بہرائچ سے شائع ہونے والے ادبی رسالے چودھویں صدی کے سرپرست تھے ۔
اہم شخصیات سے رابطہ
شوق بہرائچی اور رافعتؔ بہرائچی کے شاگرد اور دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ کیفیؔ اعظمی جب بھی بہرائچ تشریف لاتے تو شفیعؔ صاحب سے ضرورملنے جاتے تھے۔عبدالرحمن وصفیؔ بہرائچی ،ڈاکٹر نعیم اللہ خاں خیالی، جمال بابا، محسن زیدی، ایمن چغتائی نانپاروی،واصف القادری، اظہار وارثی، بابو لاڈلی پرساد حیرتؔ ،نجم خیرآبادی ، سے آپ کی گہری دوستی تھی۔آپ کی تجارت کا مرکز شہر بہرائچ کی ادبی محفل کا ایک اہم مرکزتھا جہاں پر روز شام کو شعر وسخن کی محفل جمتی تھی۔
ادبی خدمات
شفیع ؔ بہرائچی حمد نعت اور غزل پر حاکمانہ قدرت رکھتے تھے۔آپ کا کلام ماہنامہ شاعر آگرہ روزنامہ انقلاب اور ماہنامہ چودھویں صدی بہرائچ کے علاوہ مختلف رسالوں میں شائع ہو تا رہا ہے۔ شفیع صاحب کا کلام قلمی نسخوں کی شکل میں محفوظ ہے۔
نمونہ کلام
” قسم خدا کی نہ پایا کہیں شفیعؔ اب تک
جو کیف دے گئی مجھ کوسحر مدینے کی

غزل جناب الحاج شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی
ارے توبہ عذر جفا کروں کبھی ظرف ایسا میرا نہیں وہ مٹادیں چاہے ابھی مجھے کوئی شکوہ کوئی گلا نہیں
میں سمجھ گیا ہوں کلیم کو ذرا کام عقل سے لیجئے وہ تمیز جلوہ کریگا کیا جسے ہوش اپنا رہا نہیں
میرا دست آز اٹھا سہی میں سزا کا واقعی مستحق تو کرم نواز ازل سے تھا مجھے صبر پھر بھی دیا نہیں
تو اٹھا دے پردہ تو دیکھ لوں کسے ہوش ہے تجھے دیکھ کر ابھی ہر نگاہ ہے مدعی کوئی پردہ جبکہ اٹھا نہیں
میں سمجھ گیا جو ہے کعبہ میں مجھے اتفاق ہے دیر سے میں فریب جلوہ نہ کھاوئ نگا کوئی اور تیرے سوا نہیں
مجھے ذوق عذر ستم سہی مگر اسکا اتنا ملال کیوں جو گلہ بھی ہے وہ ہے آپ سے کسی غیرسے تو گلا نہیں
وہ بری کٹے میری زندگی مجھے فکر اسکی نہیں شفیعؔ وہ بگڑ کے میراکرینگے کیا کوئی بت میرا خدا نہیں
یہ غزل ماہنامہ چودہویں صدی بہرائچ کے شمارہ فروری 1953ء میں شائع ہو چکی ہے۔
حوالہ جات
*احساسات فیض مطبوعہ 2015
*روزنامہ ہندوستان بہرائچ 2014

تبصرے بند ہیں۔