رحم مادر میں بچیوں کا قتل اور اس کا قرآنی حل

ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی
قرآن مجید میں عورت کا تذکرہ دونوں اعتبار سے آیا ہے، اس کی انفرادی حیاتیاتی حیثیت سے بھی اور انسانی معاشرہ کے ایک جزء کی حیثیت سے بھی۔ قرآن مجید کی ہر ہر آیت اور حکم کا خطاب بیک وقت مردوں اور عورتوں دونوں سے ہے۔ اپنی حیاتیاتی وجود کی بنا پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں ہے۔ مرد اور عورت دو الگ الگ معاشرے نہیں ہیں بلکہ دونوں کا مجموعہ انسانی معاشرہ کو تشکیل دیتا ہے اور اسلام دونوں سے یکساں خطاب کرتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے اعمال کے اس طرح ذمہ دار ہیں جس طرح ایک صنف کے افراد الگ الگ اپنے اعمال کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کسی مرد کو محض اس وجہ سے اجر میں اضافہ نہیں ہوگا کہ وہ مرد ہے اور نہ کسی عورت کے اجر میں محض اس وجہ سے کمی کی جائے گی کہ وہ عورت ہے۔ اور اس بات کوبہت واضح انداز میں قرآن کے اندر ذکر بھی کر دیا ہے تاکہ کوئی غلط تاویل کر کے قرآن کے پیغام کو کسی ایک صنف کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش نہ کر سکے۔ قرآن میں بطور سماجی رکن کے مرد اور عورت کا تذکرہ بالعموم یکساں آیا ہے۔ البتہ مذکر صیغے کا استعمال زیادہ ہے اور وہ محض اس لیے کہ اس زمانے میں جو زبان رائج تھی اس کا اسلوب ہی ایسا تھا۔ اس کا مقصد عورتوں کے ساتھ کوئی صنفی تفریق نہیں تھا۔ قرآن میں جس طرح مرد کی تین حیثیتوں باپ، بیٹا اور بھائی کو بیان کیا ہے اسی طرح عورت کی تین حیثیتوں ماں، بیٹی اور بہن کا تذکرہ ہے۔ قرآن میں جس طرح اچھے اور برے مردوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے اسی طرح اچھی اور بری عورتوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ قرآن میں ایک مستقل سورۃ النساء کے نام سے ہے۔ جب کہ الرجال کے نام سے کوئی سورۃ نہیں۔ مرد اور عورت کی ذمہ داریوں میں اگر کوئی تفریق ہے تو مواقع کی بنیاد پر ہے۔ جس کو جو مواقع ہیں، جس کے پاس جو صلاحیت ہے، انہی مواقع اور صلاحیت کو اپنے رب کی رضا کے لیے استعمال کریں۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی مصلحت ہے کہ اس نے مرد اور عورت دو الگ الگ صنف بنائی اور اس کی یہ حکمت اور مصلحت صرف انسانوں میں نہیں ہے بلکہ تمام مخلوقات میں ہے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر بھی کیا ہے۔ سبحن الذی خلق الازواج کلّہا مماتنیت الارض و من انفسہم و مما لایعلمون۔ (یٰسین 36) ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے، خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کے نفسوں میں سے یا ان میں سے جن کو جانتے نہیں ہیں۔
انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی اس حکمت اور مصلحت کو درجہ بندی کا وسیلہ بنا لیا اور مرد و عورت کے درمیان صنفی تفریق پیدا کر دی۔ مردوں کو صرف اس لیے افضلیت کا درجہ دیا گیا کہ وہ مرد ہیں اور عورتیں صرف اس لیے زیر دست قرار دی گئیں کہ وہ عورتیں ہیں۔ اور پھر عورت کے فطری طور پر کمزور ہونے اور ماتحت ہونے کے دلائل فراہم کیے گئے۔ اس کو مزاجاً گناہگار کا درجہ دیا گیا، عورت کو شرمندگی اور خفت کی وجہ بنا لیا گیا۔ حالانکہ مرد اور عورت دونوں اللہ کی تخلیق اور نشانیاں ہیں۔ اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: للہ ملک السموات والارض یخلق مایشاء یھب لمن یشاء اناثا ویہب لمن یشاء الذکور اویزوجہم ذکرانا واناثا و یجعل من یشاء عقیما انہ علیم قدیر۔ (الشوری 49-50) ترجمہ: اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہیبانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ تعالیٰ کی اس حکمت میں انسان نے اپنے بنائے ہوئے سماجی تانے بانے کے مطابق تفریق کی اور لڑکیوں کی پیدائش کو ننگ و عار کا باعث سمجھنے لگے۔ قرآن مجید میں انسانوں کے اس رویہ کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے: واذا بشر احدہم بالانثی ظل وجہہ مسودا وھو کظیم یتواری من القوم من سوء ما بشربہ ایمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب۔ (النحل 58-59) ترجمہ: جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منھ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے۔
لڑکیوں کی پیدائش کو ننگ و عار سمجھنے کی روایت پوری دنیا میں پھیل گئی۔ ہر جگہ لڑکیوں کی پیدائش کو باعث عار سمجھا جانے لگا اور لڑکیاں غیر مطلوب حمل قرار پائیں۔ پرانے زمانے میں آلات و وسائل اور تکنیک آج کی طرح نہیں تھی اس لیے بچے کی پیدائش کا انتظار کیا جاتا تھا۔ اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو قتل کر دیا جاتا اور بیٹا ہوتا تو اسے زندہ رکھا جاتا۔ عرب میں لڑکیوں کی پیدائش پر جو رویہ ہوتا اس کا ذکر اوپر مذکور آیت میں آیا ہے، اور جو عمل ہوتا تھا اس کا تذکرہ ایک اور آیت میں اس طرح آیا ہے: واذا المودۃ سئلت بای ذنت قتلت۔ (التکویر 8-9)
حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں لڑکیوں کو قتل یا درگور کرنے کی تفصیلات موجود ہیں۔ ا. م. رازی نے کچھ وحشیانہ انداز کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً جب لڑکی بڑی ہو جاتی قریب چھ بالشت کی تب اس کو سجا سنوار کر جنگل میں لے جاتے اور خوب گہرا گڑھا کھود کر اس میں زندہ دفن کر دیتے، کبھی پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر پھینک دیتے، کبھی پانی میں ڈبو دیا جاتا، کبھی ذبح کر دیا جاتا، بلکہ بعض جگہ تو ایسا کرتے تھے کہ جب وضع حمل کا زمانہ قریب آتا تو ایک گھڑا کھود لیتے تو اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو اسی وقت دفن کر دیا جاتا تھا۔ (تفسیر کبیر، ص 20/46، 31/70)
علم و فن کی ترقی نے انسان کے ذہن و مزاج میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی۔ سماجی مصلحین پہلے بھی تھے اور تاریخ کے ہر دورانیے میں رہے ہیں۔ لیکن لڑکیوں کو ناپسندیدہ یا غیر مطلوب اولاد سمجھنے کا رجحان اب بھی ویسا ہی ہے۔ حکومتیں اور انصاف پسند لوگ لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے اس حیوانی رویہ کو دور کرنے کے لیے تعلیم و تلقین اور بوجھ و لالچ کے علاوہ سزا اور جرمانہ بھی کرتی ہیں۔ لیکن لڑکیاں آجبھی اس ناانصافی اور اس بربریت کا شکار ہیں جس کی وہ قرون مظلمہ میں تھیں۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت کی وحشت نظر آتی تھی اور آج کی وحشت شاندار عمارتوں میں انتہائی معیاری ہتھیاروں اور اوزاروں کے ذریعہ انجام دی جاتی ہے اسلیے اس کی وحشت کا اندازہ چشم ظاہر بیں نہیں کر پاتی۔ اور یہ کام کتنے بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے اس کا کچھ اندازہ ہم مختلف سروے رپورٹ سے کرسکتے ہیں جو آئے دن اخبارات میں آتی رہتی ہیں۔ پنجاب، ہریانہ، دہلی اور ہماچل پردیش میں 1991 کی مردم شماری کیم طابق ایک ہزار لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 875 تھی اور 2001 کی مردم شماری میں یہ تعداد اور بھی گھٹ گئی اور 793 ہو گئی (راشٹریہ سہارا، 22 اگست 2006)۔ یہی صورت حال ملک کے دوسرے علاقوں کی ہے۔ خواتین کی تعداد کے تناسب میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے اور اس کا اصل سبب وضع حمل سے قبل ہی جنسی شناخت کا ممکن ہو جانا ہے۔ مختلف آلات کے ذریعہ لڑکی کی شناخت رحم مادر میں ہی کرلی جاتی ہے اور نہ جانے چپکے سے کب اس معصوم جان کو صدیوں سے جمے مرد کے عظمت کی عفریت کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ باپ کی وحشت اپنی جگہ، ماں خود ایک عورت ہو کر ہی عورت کے وجود کو ننگ و عار سمجھنے لگی ہے اور اس وحشیانہ عمل میں وہ بھی برابر کی شریک رہتی ہے۔
لڑکیوں کے ساتھ نامنصفانہ رویہ ہندوستان میں نہیں دنیا کے اور ملکوں میں بھی ہو رہا ہے۔ چین دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی اس وبا سے پوری طرح متاثر ہے۔ اور دنیا کیدیگر خطوں میں بھی یہ وبا موجود ہے۔ جہاں اس کے اثرات نہیں ہیں وہاں بھی عورتوں کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیبلکہ مرد کی ہوسناکی کا عفریت وہاں دوسری وبا کھڑی کیے ہوئے ہے۔
لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کا حل اگر کہیں ہے تو اسلام کے جلو میں ہے۔ اور جہاں جہاں اسلام کی برکات ہیں وہاں یہ وبا اس تناسب سے کم ہو گئی ہے۔ اسلام کا سب سے پہلا تجربہ عرب میں کیا گیا اور وہاں قرآن مجید کی آیات اور احادیث مبارکہ کے ذریعہ لوگوں کی ذہن سازی کی گئی کہ وہ اس گھناؤنے جرم کو ترک کر دیں اور اسلام اس میں پوری طرح کامیاب رہا۔ لڑکیوں کی پیدائش جن کے لیے ننگ و عار تھی ان کے لیے خیر و برکت اور حصول جنت کا ذریعہ بن گئی۔
اسلام نے سب سے پہلے تو انسان کے ذریعہ صرف دنیا سے ہٹا کر آخرت کی طرف لگایا اور بتایا کہ دنیا کی چند روزہ زندگی پائیدار نہیں ہے بلکہ یہ عمل کا موقع ہے اور اس زندگی کے تمام اعمال کا حساب مرنے کے بعد کی زندگی میں دینا ہوگا جو ابدالاباد کی زندگی ہوگی۔ اور اس زندگی میں کامیابی اور ناکامی کا انحصار اسی زندگی کے اعمال پر ہے۔ جس کے اعمال اچھے ہوں گے وہ کامیاب ہوگا اور جس کے برے ہوں گے وہ ناکام ہوگا۔ اس لیے زندگی کو آخرت کے لیے گزارنا چاہیے اور دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس زندگی میں انسان اس زندگی کی کامیابی کو یقینی بنا لے۔ قرآن و حدیث میں سب سے زیادہ زور اس پر دیا گیا، یہ دنیا ترک کرنے کی تعلیم نہیں تھی بلکہ دنیا کو زیادہ استعمال کرنے کی تعلیم تھی۔ بس اس میں مطلوب یہ تھا کہ دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق گزارا جائے۔ سماج کے تقاضے پوریکیے گئے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی پاسداری کی جائے۔ اس پر آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے۔
ان تعلیمات کے ذریعہ انسان کا ذہن سماج کے بنائے ہوئے مزعومہ فرضی تصورات سے بلند ہو کر برتر اخلاقیات پر عمل پیرا ہوا اور سماجی اونچ نیچ اور ننگ و عار کے تصورات میں تبدیلی آئی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ خاص لڑکیوں کی پیدائش کے بارے میں لوگوں کو توجہ دلائی جائے کہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ کسی کو لڑکی دیتا ہے، کسی کو لڑکے اور کسی کو دونوں عطا فرماتا ہے اور کسی کو کچھ بھی نہیں دیتا۔ لڑکے یا لڑکی کا ہونا ننگ و عار یا فخر و نباہات کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں۔
اسلام نے مجموعی طور پر اولاد کے قتل کو حرام قرار دیا۔ اولاد کا قتل دو وجوہات سے کیا جاتا تھا، ایک خاص بیٹیوں کو قتل کیا جاتا تھا اور اس کے لیے بڑے وحشیانہ طریقے اختیار کیے جاتے تھے، دوسرے مجموعی طور پر اولاد کو اس ڈر سے قتل کیا جاتا تھا کہ ان کوک ھلائیں گے کیا۔ قرآن مجید میں تین مقامات پر اولاد کو قتل کرنے کی ممانعت کی گئی۔ دو جگہ سورہ انعام میں اور ایک جگہ سورہ بنی اسرائیل میں۔ ایک آیت میں ہے: ولا تقتلوا اولادکم من املاق نحن نزرقکم وایاہم۔ (الانعام 151)۔ ترجمہ: اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔
اور ایک دوسرے مقام پر ہے: ولا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق نحن نزرقہم و ایاکم ان قتلہم کان خطاء کبیرا۔ (بنی اسرائیل 31)۔ ترجمہ: اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔
ایک اور مقام پر اس کی بھی ممانعت کی گئی کہ مذہبی طور پر بھی اپنی اولاد کو قتل نہ کریں: وکذلک زین لکثیر من المشرکین قتل اولادہم شرکاء ہم لیردوہم ولیلبسوا علیہم دینہم۔ (الانعام 138)۔ ترجمہ: اور اس طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوش نما بنا دیا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان کے دین کومشتبہ بنا دیں۔
بیٹیوں کوزندہ دفن کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو ایک آیت میں ہے جو اوپر نقل ہوئی کہ ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کو کس جرم میں قتل کیا گیا تھا۔ یعنی جو لوگ یہ کام کرتے ہیں ان کایہ عمل اتنا گھناؤنا اور قابل نفرت ہے کہ ان سے تو ان کے جرم کے بارے میں پوچھا بھی نہیں جائے گا اور مظلوم سے اس کا جرم دریافت کیا جائے گا۔ چونکہ عرب کے معاشرے میں یہ بات رائج تھی اس لیے عرب عورتوں سے خاص طور پر بیعت یہ عہد بھی لیا جاتا تھا کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔ (الممتحنہ 12)۔ اس آیت سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ اولاد کی اصل محافظ ماں ہوتی ہے جب کہ ماں اولاد کے قتل کے درپہ ہو تو دوسرے لوگ کیا کریں۔ اس لیے امہات کو اپنی اولاد اور خاص طور پر اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرنی ہے۔
احادیث مبارکہ میں بیٹیوں کے پیدا ہونے کو برکت سے تعبیر کیا گیا ہے اور بیٹیوں کی تربیت پر جنت کا وعدہ ہے۔ بیٹیاں قیامت کے دن جہنم کے لیے آڑ بن جائیں گی۔ بیٹیوں یا لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر جنت میں خصوصی مقامات کا وعدہ ہے۔
قرآن مجید میں اور احادیث تاریخ کی عظیم عورتوں کے قصبے بیان کیے گئے ہیں تاکہ مجموعی طور پر عورت کی عظمت اور فضیلت کا تصور قائم ہوتا ہے۔
اسلام کی تعلیمات نے آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم اور ناانصافی کا حل نکالا تھا جس کے اثرات آج تک موجود ہیں اور اسلام کی روشن ہدایات ہی آج بھی اس مسئلہ کا پائیدار حل تلاش کر سکتی ہیں جس نے بہت سے معاشروں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی سنگینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

 (مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔