’رقص شرر‘ ایک مطالعہ

 ڈاکٹر عمیر منظر

قصے کہانی کے طور پر اپنی زندگی کی روداد بیان کرناممکن ہے کہ آسان ہو، مگر پکی روشنائی سے لکھنا ایک مشکل کام ضرور ہے۔وہ لوگ جنھوں نے اپنی زندگی کی سرگرمیوں کو خود نوشتوں کی شکل میں پیش کیا ہے ،یقیناایک جرأت مندانہ قدم ہے۔جوش ملیح آبادی اور ان جیسے بعض دوسرے لوگ جنھوں نے تضادات سے زندگی کی کہانی کو دلچسپ اور معتبر بنانے کی کوشش کی ہے ایسے لوگوں کو ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس داستان حیات میں بہت کچھ الحاقی بھی ہے ۔مگر وہ خود نوشتیں جہاں تضادات کی یہ جہت نہ ہو ،لکھنے والے نے جو کچھ دیکھا اور بھوگا اسے من و عن نہ سہی مگر کسی حد تک پورے کا پورا پیش کرنے کی سعی کی ہو آخر ایسے شخص کو کیا کہیں گے ۔احمد فراز کے بقول!
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں 
میں نے تو سب حساب جاں برسرعام رکھ دیا 
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد(پ:17،اکتوبر1929۔22،اپریل 2016) کو عام طور پر عالمی سطح پر مشاعروں کے ناظم کے طور پر جانا جاتا ہے۔حالانکہ وہ بنیادی طورپر استاد ہیں ۔اردو کے علاوہ انگریزی اور تاریخ میں انھوں نے ایم اے کیا ۔بعد میں اردو سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ابتد میں انھوں نے ریلوے کی ملازمت کی لیکن پھر شبلی کالج سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جو لکھنؤ یونی ورسٹی پر اختتام پذیر ہوا۔درس و تدریس کے علاوہ انھوں نے تنقیدی اور تحقیقی کتابیں بھی تصنیف کیں ۔ان کی خود نوشت ’’رقص شرر‘‘ ایک شخص کی داستان حیات ہے۔ایک زبان کی جدوجہد بھری داستان ہے جسے ملک کی تقسیم کا سبب قرار دے دیا گیا ۔
ملک زادہ منظور احمد نے زندگی کے بے شمار تجربات کیے اور اس سے کہیں زیادہ افکار و اشخاص سے ملاقاتیں کیں ،غالباً انھی عوامل نے ان کی شخصیت کے گرد ایک ایسا حصار قائم کیا کہ اس نے خود کو لوگوں کو سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ۔ایسی خود نوشت مشکل سے ملے گی جس میں اس کے لکھنے والے کو مرکزیت نہ حاصل ہو۔کوشش کے باوجود مرکزیت کو ختم کرنا مشکل ہے ۔یہ مرکزیت واحد متکلم کی صورت میں ہر جگہ موجود ہوتی ہے ۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ کمزور شخص خود نوشت نہیں لکھ سکتا ۔یہ ان کا کام ہے جو زندگی بر باد کرتے ہیں ۔اس تناظر میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمدکی خود نوشت خاص اہمیت کی حامل قرار پائے گی ۔
بظاہر یہ ایک شخص کی داستان حیات ہے مگر اس کے پڑھنے پر راز کھلتا ہے کہ اس میں ایک پورا عہد سانسیں لے رہا ہے ۔ایک زبان کی جدوجہد بھری داستان ہے جسے ملک کی تقسیم کا سبب قرار دے دیا گیا ،ایک تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ہے جو رفتہ رفتہ ماضی کا حصہ بن گیا ،اور ان سب کے نتیجے میں ہندستان کی وہ تہذیبی اورثقافتی فضا جس کو پروان چڑھانے میں کئی صدیاں شامل رہی ہیں اپنے ہی گھر میں اجنبی بنتی جارہی ہے ۔جدوجہد آزادی کے دوران مولانا آزاد،دیگر مسلم اکابرین اور قوم پرست رہنماؤں کے سخت فیصلوں نے ہی بندھے بستروں کو کھولنے پر مجبورکیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صرف مولانا آزاد ہی ایک دور افتادہ صدا نہیں بنے بلکہ سیاسی بساط پر سب کو مات ہوئی۔آزادی کے فوراً بعد بابری مسجد کے قضیہ سے لے کر اب تک مسلمانوں کے بارے میں ایک خاص ذہنیت کارفرما رہی ہے ،جس کا شکار خود نوشت نگار بھی ہوا۔جس نے جدوجہد آزادی کے دوران جواہر لال نہرو کے ساتھ تقریر کی ہو،آزادی کے لیے جیل گیا ہو ۔آزادی کے فورا بعد وہ شک کے دائرہ میں آجائے اور پولس رپورٹ نہ صرف اس کے خلاف ہو بلکہ ریلوئے کی نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ۔
عام طور سے ریلوے کے ملازمین ہراساں اور پریشان تھے ۔مگر مجھے اعتماد تھا کہ پولس والے میرے خلاف کچھ نہ کریں گے …ریلوے کی ملازمت سے خوش اور مطمئن تھا …انھوں نے(چاندوانی صاحب ) میری طرف ہاتھ بڑھائے اور کہا کہ دیکھ لیجیے پہلا لفافہ کھولا تو اس میں ڈھائی تین سو روپے تھے ۔دوسرا لفافہ کھولا تو اس میں نوکری سے علیحدہ کرنے کا فرمان تھا …آپ نوکری سے زیادہ لیڈری کے لائق ہیں ۔ پولس رپورٹ آپ کے خلاف ہے ۔(رقص شرر:82۔84)
’’رقص شرر‘‘ کی مرکزی شخصیت ہم آسانی کے لیے پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کو قرار دے سکتے ہیں۔یہ اس وجہ سے بھی کہ وہی اس کے لکھنے والے ہیں مگر جب کتاب کے اندرون میں جھانک کر دیکھیں گے تو باور کرنا پڑے گا کہ وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ جہاں جہاں وہ ہیں وہاں وہاں ان کے ساتھ اردوزبان بھی موجود ہے ۔وہ اردو کے ایسے ادیب ،شاعر اور نقا د ہیں جنھو ں نے اپنی زبان کے لیے ملک کے بیشتر علاقوں کا دورہ کیا ،اردو کے حقوق کی بازیابی کے لیے لوگوں کو بیدار کیا اور اس سے آگے بڑھ کر احتجاجی مظاہرہ ، دھرنا اور گرفتاریاں بھی دیں۔ ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب اترپردیش اردو اکیڈمی کے مختلف عہدوں سے یہ اور ان کے دیگر ساتھیوں نے استعفی دے دیا۔ ہندستان میں اپنے حقوق کے لیے دھرنا،بھوک ہڑتال اور گرفتاری ایک عام بات ہے مگر زبان کے تحفظ اور اس کے جائز حقوق کے لیے جمہوری طریقوں کو اختیار کرنے کی پہل اردو والوں خصوصاً ملک زادہ منظور احمدکے ذہن کی ایجاد ہے ۔
30،مئی 1985 کو جب اترپردیش حکومت کے وزیر خوراک جناب واسدیو سنگھ نے یہ بیان دیا کہ یوپی اردو اکادمی کو ’’جو لوگ اردو اکادمی میں رہ کر اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا منھ کالا کرکے سڑکوں پر گھمانا چاہیے ‘‘ ۔اس پس منظر میں ڈاکٹر ملک زادہ صاحب لکھتے ہیں :
حکومت کی امداد اور نامزد کردہ عہدیداروں اور ممبران کے ذریعہ چلنے والے اداروں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب سبھی ممبران نے اجتماعی طور پر اپنے استعفے احتجاجی طورپر دیے ہوں ۔چنانچہ اردو ،ہندی اور انگریزی اخبارات نے اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا اور ہمارے استعفوں کا رد عمل اردو عوام پر خاطر خواہ ہوا اور ان کے اندر اردو کے گمشدہ حقوق کی بازیافت کے لیے ایک واضح اور نمایاں جوش و خروش پیدا ہوا ۔چنانچہ تین چار دن کے بعد محبان اردو اور مستعفی ممبران کی ایک میٹنگ میں اردو رابطہ کمیٹی کی تاسیس ہوئی اور سب نے یہ عہد کیا کہ جب تک 1984 کے پارلیمانی انتخابی منشور میں اردو سے متعلق کیا گیا وعدہ پورا کرکے حکومت اردو کو اترپردیش میں دوسرا سرکاری درجہ نہیں دیتی نہ تو وہ حکومت کے کسی اردو ادارے میں اعزازی یا مشاورتی عہدہ قبول کریں گے اور نہ ہی مستعفی ممبران اپنے استعفی واپس لیں گے۔ (رقص شرر:288۔289)
رقص شرر میں اردو زبان کے حقوق کی سرگرمیوں اور اس کے لیے جاری جدوجہد کی ایک پوری داستان ہے ۔اپنوں کی کوتاہیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر اردو زبان کے ساتھ جاری تعصب کو بھی بے کم و کاست بیان کیا گیا ہے ۔اس کا خوش آیند پہلو یہ ہے کہ ایک طرف جہاں ہندستان میں اردو زبان و ادب کے قدیم مراکز بدحالی کا شکار ہورہے تھے تو دوسری طرف ہندستان سے باہر خلیجی ممالک اور تیسری دنیا میں اردو کے لیے نئے امکانات پیدا ہورہے تھے ۔مشاعروں کے توسط سے ہی یہاں اردو کا دائرہ وسیع ہورہا تھا اور شاعری کے دلدادہ مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر اردو زبان و ادب سے قریب ہورہے تھے ۔ 
مشاعروں کے توسط سے ملک زادہ صاحب نے ایک دنیا کی سیر کی ہے ۔ہندستان کا شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں وہ مدعو نہ کیے گئے ہوں ۔ہندستان کے علاوہ پاکستان،بنگلہ دیش،نیپال،امریکہ،کناڈا،برطانیہ ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بیشتر ممالک میں مشاعروں کے توسط سے آنا جانارہا ہے ۔ایران میں آپ نے کوئی مشاعرہ تو نہیں پڑھا لیکن امام خمینی کی اربعین کے موقع پر وہاں جانے کا اتفاق ہوا جوکہ خود نوشت کا ایک دلچسپ حصہ ہے ۔ اس کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انبیائے کرام اور خلفائے راشدین کی تصویرسازی اور فلم بندی اس معاشرے کے لیے کوئی نئی بات نہیں ۔ہمارے یہاں تو اس کو بہ آسانی گوارا نہیں کیا جاسکتا ہے مگر وہاں کے احوال میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :
رات کو کھانے کے بعد جب میں ہوٹل کے کمرے میں سونے کے لیے لیٹا تو میں نے ٹیلی ویژن چلا دیا اس پر فارسی زبان میں ایک ڈرامہ نشر ہورہا تھا۔یہ ڈرامہ عیدالاضحی سے متعلق تھا میں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک ہاتھ میں چھرا اور دوسرے ہاتھ میں حضرت اسماعیل ؑ کی انگلیاں پکڑے ہوئے ایک میدان میں لے جارہے ہیں ۔میں نے پیغمبروں سے متعلق کبھی کوئی فلم نہیں دیکھی تھی …سیدنا ابراہیم ؑ کو ٹیلی ویژن کے پردے پر مجھ سے نہ دیکھا گیا اور میں نے ٹیلی ویژن بند کردیا (رقص شرر:372)
رقص شرر میں اعظم گڑھ ،گورکھ پور،لکھنؤ کا بھر پور ذکر ہے ۔اس کے علاوہ اپنے وطن مالوف کا جس میں بارے میں وہ خود لکھتے ہیں :
میں جس گاؤں میں پیدا ہوا اس کا نام نہایت ہی کریہہ الصوت ہے ۔اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے یہ بھی مجھے معلوم نہیں ۔یہ قصبہ ضلع فیض آباد میں درگاہ کچھوچھہ شریف کے متصل بھدہنٹرکے نام سے موسوم ہے …میری والدہ نجیب الطرفین سیدہ تھیں ۔وہ محلہ البداد پور قصہ ٹانڈہ ضلع فیض آباد کی رہنے والی تھیں …بچپن کی جو ابتدائی یادیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں وہ اپنے آبائی وطن کی نہیں بلکہ گورکھ پور کی ہیں جہاں میرے والد ملازم تھے …گھر میں روزہ نماز کی پابندی اور مذہب کا چرچا ہے …گرمیوں کی تعطیل میں ہم لوگ ہر سال باضابطہ طورپر ٹانڈہ میں رہا کرتے تھے ۔یہاں کی روزانہ زندگی میں اس وقت تموج پیدا ہوجاتا تھا جب حضرت تشریف لاتے تھے ۔حضرت سے مراد مولانا حسین احمد مدنی تھے جو میرے خالو ہونے کے علاوہ میرے نانیہالی عزیز وں میں بھی تھے …میری باضابطہ تعلیم کا آغاز سوئنٹس میموریل ورناکیولر مڈل اسکول میں داخلہ کے بعد ہوا جہاں میری تاریخ پیدائش 17،اکتوبر 1929لکھوائی گئی تھی ۔(رقص شرر:13۔20)
رقص شرر کے توسط سے گورکھ پور ،اعظم گڑھ اور لکھنؤ کی عام ادبی اور تدریسی فضا کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔تعلیمی ادارے کس طرح خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے ، باہمی تنازعات اور تن آسانی نے حالات کو مزید خراب کیا ۔مشاعروں میں جانے کا سلسلہ تو اعظم گڑھ سے ہی شروع ہوچکا تھا البتہ گورکھ پور اور بعد میں لکھنو یونی ورسٹی آنے بعدہندستان کے دور دراز علاقوں اور ہندستان کے باہر جانے کا سلسلہ دراز ہوتا ہی چلا گیا ۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد مشاعروں کے معتبر وکیل رہے ہیں۔ ان کے انداز تعارف نے پوری ادبی دنیا میں دھوم مچائی کیا عام اور کیا خاص سب نے ان کے انداز تعارف کوسراہا ۔ان کا خیال ہے کہ وہ مشاعروں کے توسط سے لسانی جمہوریت کی توسیع کررہے ہیں مگر حالات اور واقعات نے ثابت کردیا کہ مشاعروں سے اردو کا دائرہ ضرور بڑھامگر اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ ادبی سطح پر نظر نہیں آیا ۔مشاعرے روبہ زوال ہوتے گئے اور خواہش کے باوجود ملک زادہ صاحب کچھ نہیں کرسکے کیونکہ ان کا کام محض شعرا کے تعارف کا تھا ۔ شعرا کی فہرست وہ لوگ بنارہے تھے جنھیں شاعری کی پرکھ ہی نہیں ۔وہ نہیں سمجھ سکتے کہ کس کا کلام بہترہے اور کسے دعوت دی جائے ،ان کا معیار ادبی سے کہیں زیادہ نظری رہاہے ۔ 
خلیجی ممالک ،امریکہ ،کناڈا ،پاکستان اور بنگلہ دیش نے اردوکی ایک نئی بستی بسائی ۔ان مشاعروں کے توسط سے بہت سے شعرا کے اقتصادی مسائل حل ہوئے ،جشن کی صورت میں زندہ شعرا کو مزید نوازا گیا۔اس صورت حال نے ادب میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کیا یا نہیں کیامگر ایک ایسے وقت میں جبکہ ہندستان کی سرزمین اردو کے لیے تنگ ہورہی تھی دیگر ممالک نے مشاعروں کے توسط سے مایوسی اور ناامیدی کے ماحول میں امید کی کرن روشن کی ۔رقص شرر میں بے شمارشاعروں اور مشاعروں کا ذکر ہے ۔اعظم گڑھ سے باہر باضابطہ طورپرملک زادہ صاحب پہلی بار دربھنگہ کے ایک مشاعرہ میں مدعو کیے گئے ۔مشاعروں کی دنیا میں جشن بہار،جشن جمہوریہ لال قلعہ کا مشاعرہ ،دہلی کلاتھ ملز کا مشاعرہ اور ہندستان سے باہر منعقد ہونے والے مشاعروں میں اپنے انداز تعارف سے کئی دہائیوں تک ان مشاعروں پر ڈاکٹر صاحب نے حکمرانی کی۔حقیت یہ ہے کہ مشاعروں کا کوئی تصور ملک زادہ منظور احمد کی نظامت کے بغیرناممکن ہے ۔یوں تو رسم تعارف کے فرائض دیگر لوگوں نے بھی انجام دیے شاعروں اور علمی و ادبی شخصیات کے بارے میں جو مختصر تعارفی نوٹ خود نوشت میں لکھے گئے ہیں ان کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ وقتی اور ہنگامی تحریر نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ ڈاکٹر صاحب کا مطالعہ اور شعرو ادب کے منظر نامے پر استادانہ نگاہ کا کمال ہے ۔چند جملوں سے ہی مذکورہ شخصیت اور شاعر کو سمجھا جاسکتا ہے ۔اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔
طالب علمی ہی کے زمانے سے اعظم گڑھ کے ساتھ میرے تصور میں دو شخصیتیں ابھری تھیں ۔ایک تھے صاحب شعرالہند ،مولانا عبدالسلام ندوی اور دوسرے ’’قفس تو کم بخت ٹوٹ جائے ‘‘کا اسمبلی میں نعرہ لگانے والے مرد مجاہد اقبال سہیل۔ایک نے علامہ شبلی کے جمالیاتی رنگ میں اپنی انفرادیت گھول کر نثر لکھی تھی اور دوسرے نے شبلی کے حکیمانہ ادراک کو اپنی نظموں اور غزلوں میں سمویا تھا ۔ایک ہی میخانے کے میکش ہونے کے علاوہ دونوں میں اور کوئی مشابہت و مطابقت رہی ہو یا نہ رہی ہو لیکن دونوں عجائبات قدرت میں تھے۔وہی کھویا کھویا سا انداز،وہی بہکی بہکی سی نگاہیں ،طبیعت میں باوجود تبحر علمی کے ایک استغنا آمیز لاابالی پن ،جو تخلیقی ادب کے معماروں کا طرہ امتیاز رہا ،دونوں میں پایاجاتا تھا ،اگر جھکے تو شاخ ثمر دار کے مانند،قلم اٹھایا توشہپر جبرئیل کی تیزی دکھائی ،بولے تو بازگشت ایوان حکومت میں سنائی دی ،خاموش ہوئے تو صبر ایوبی کی یاد دلائی ۔مگر دونوں صورتوں میں حبل متین تھامے رہے ۔(رقص شررص:101)
لکھنؤ جس کو بہت قریب سے ڈاکٹر صاحب نے دیکھا اور سمجھا ہے اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
میں نے جس لکھنؤ میں قدم رکھا تھا اس میں شیعہ سنی مناقشات کا دور دورہ تھا …مذہبی مراسم کی ادائیگی میں خشوع خضوع کم اور لاگ لپٹ کا مظاہرہ زیادہ ہوتا تھا ۔علمائے کرام کی تقریروں میں تموج اسی وقت پیدا ہوتا تھا جب وہ دوسرے فرقے پر پھبتی کستے…اسلام کا سارا تصور حیات صرف مدح صحابہ کے جلوس اور تبرہ بازی تک محدود ہوکر رہ گیا تھا مگر دونوں فرقوں میں کچھ ایسے علما بھی تھے جو اتحاد بین المسلمین کے حامی تھے …علی گنج والے مکان کوشلا بھون سے جب میں وکٹوریہ اسٹریٹ پر حسین مارکیٹ میں آیا تو پتہ چلا کہ محاذ جنگ میری بلڈنگ کے سامنے والی سڑک بنتی ہے جہاں فرزندان اسلام اینٹوں ،پتھروں،مٹی کے تیل اور پٹرول سے لیس ہوکر نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری لگاتے ہوئے قتل و غارت گری،لوٹ مار اور آتش زنی کرکے اپنی عاقبت سنوارتے ہیں اور سارا علاقہ سال میں کئی کئی بار کرفیوزدہ ہوجاتاہے ۔ابھی اس علاقے میں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک روز یونی ورسٹی سے واپس آتے ہوئے میڈیکل کالج کے قریب لوگوں کو افرا تفری میں وحشت زدہ ہوکر بھاگتے دیکھا ۔پتہ چلا کہ وکٹوریہ اسٹریٹ پر شیعہ سنی فساد ہوگیا ہے ۔ (رقص شررص:244۔245)
لکھنؤ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کی حالت زار کا اندازہ ان سطروں سے لگایا جاسکتا ہے :
1968 سے 1990 تک میں اس شعبہ سے منسلک رہا ۔لیکچرر کے بعد ریڈر اور ریڈر کے بعد پروفیسر ہوا مگر صرف مجھ ہی کو نہیں بلکہ شعبہ کے کسی بھی استاد کو نہ تو مشترک کمرے کے علاوہ کوئی جگہ بیٹھنے کو ملی اور نہ مشترک میز کرسی اور الماری کے علاوہ کوئی سامان ہی مل سکا۔بیس برس کے طویل عرصہ میں ،میں نے دوصدورِ شعبہ کے زمانے دیکھے مگر نہ تو کبھی کانٹی جنسی کی کوئی رقم شعبہ کو ملی اور نہ خط و کتابت کے لیے ڈاک کا کوئی ٹکٹ دیکھنے میں آیا۔میز پوش ،پردے ،صراحیاں ،گلاس سبھی چیزیں اساتذہ کے چندے سے آئیں یا کبھی کسی خوش اطوار طالبہ نے اپنے گھر سے لاکر میز پوش بچھا دیا ۔(رقص شررص:226)
ملک زادہ منظور احمد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ دہلی کلاتھ ملز کے مشاعرہ میں روز اول سے ہی میں نے اپنی نظامت کے جھنڈے گاڑ دیے تھے اور یہی وجہ ہے کہ وہ تقریباً تین دہائیوں تک اس مشاعرہ کی نظامت کرتے رہے ۔انھوں نے جگرمرادآبادی،مجاز،فراق گورکھ پوری،فیض احمد فیض ،حفیظ جالندھری ،شوکت تھانوی ،پروین شاکر،زہرہ نگاہ ،ساغر نظامی،سلام مچھلی شہری،حمایت علی شاعر،شہریار،احمد فراز ،افتخار عارف،جون ایلیا،ماہر القادری،علی سردار جعفری،جاں نثار اختر،آنند نرائن ملا،عرش ملسیانی اوراخترالایمان کا تعارف کرایا۔ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں آزادی کے بعد جوش ملیح آبادی کو چھوڑ کر برصغیر پاک و ہند کے سبھی اہم شعرا سے مجھے شرف نیاز حاصل رہا ہے (ص:256)کبھی کبھی یہ خیال آتاہے کہ آزادی کے بعدفوراً بعد کی جو نسل تھی اسے شعر وادب میں اعتبار حاصل تھا۔کتاب اور اسٹیج میں فاصلے نہیں تھے ۔بہت سی اہم اور مقبول نظمیں /غزلیں پہلے مشاعروں میں پڑھی گئیں اس کے بعد رسالوں اور کتابوں کی زینت بنیں ۔جو کچھ مشاعروں میں پڑھا جاتا تھا وہ رسالو ں میں شائع بھی ہوتا تھا مگر اب یہ صورت حال نہیں ہے ۔مجھے معلوم نہیں کہ نئے ہزارے میں ڈاکٹر صاحب نے شعرا کے تعارف کے لیے کون سی لفظیات استعمال کی ہوگی ۔اس لیے کہ اس زمانے کے بیشتر شعرا کو ملک زادہ صاحب نے خود ’’اندھیری رات کے جگنو ‘‘سے تعبیر کیا ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ رقص شرراس انسان کی کہانی ہے جو مشاعروں کے ساتھ ساتھ ادبی اور لسانی تحریکوں کا حصہ رہا اور جس نے اپنے عہدسے اپنی زبان ،تہذیب ،ثقافت اور ارفع اقدار کے لیے مکالمہ کیااور اس کی خاطر سیاست کی قربان گاہ پر گیا۔انتخابی سیاست کا حصہ بنا۔مرکزی ،صوبائی وزیروں سے تعلقات کو اردو کے لیے ہموار کیا ۔جس کے انداز تعارف سے بڑے بڑے پتھر دل موم ہوجاتے تھے مگر اردو کے مسئلہ پر سیاسی بد عہدیوں نے ان کی زبان کو شعلہ بار کر رکھا تھا ۔
اپنی تمام تر شعری سرگرمیوں کے باووجود پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے تحریری صورت میں جو کچھ پیش کیا ہے وہ نہ صرف قابل قدر ہے بلکہ بعض حوالوں سے اولیت کا سہرا بھی ان کی بعض تصنیفات کے سر ہے ۔‘‘مولانا ابوالکلام آزاد فکر و فن ‘‘اس مقالہ پر گورکھ پور یونی ورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی تھی ۔آزاد ہندستان میں سندی تحقیق کے لیے مولانا آزاد کے فکر و فن پر داد تحقیق دینے والوں میں اولیت کا سہرا آپ کے سر ہے ۔کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں مگرجو بنیادی مباحث آپ نے نصف صدی قبل قائم کیے تھے ان میں کوئی بڑی تبدیلی اب تک واقع نہیں ہوئی ہے ۔رقص شرر میں ایک جگہ آپ نے اپنی تصنیفات کے بارے میں لکھا ہے :
ادبی زندگی کا آغاز ان دو تحریروں سے کیا جو 48۔1947میں باغی کے خطوط اور باغی کی ڈائری کے عنوان سے سینٹ اینڈریوز کالج کی میگزین میں شائع ہوئیں …میرے تمام افسانے اس میں (ماہ نامہ نکہت )1953 تک تھوڑے تھوڑے عرصے بعد چھپتے رہے۔51۔1950 میں جب میں ایم اے کا طالب علم تھا تو میں نے ایک ناول دیوار دبستاں پر لکھا تھا …اعظم گڑھ کے دوران قیام میں …انجمن ترقی اردو کے دفاع میں میرے مضامین کا سلسلہ ’’قومی آواز‘‘لکھنؤمیں قسط وار چھپا۔جو انجمن ترقی اردو گورکھ پور نے ’’اردو کا مسئلہ ‘‘نامی کتابچہ کی شکل میں شائع کیا ۔مولانا ابوالکلام آزاد کے فکر و فن پر میرا تحقیقی مقالہ (پہلی بار)نسیم بک ڈپو نے شائع کیا …اسی کتاب کے دو ابواب کو مکتبہ دین و ادب لکھنؤ نے ’’غبار خاطر کا تنقیدی مطالعہ ‘‘اور مولانا آزاد الہلال کے آئینے میں‘‘طلبا کے لیے کم قیمت پر الگ الگ چھاپے ۔اتر پردیش اردو اکادمی کی فرمائش پر میں نے غزلیات نظیر اکبرآبادی کا ایک انتخاب اپنے مقدمے کے ساتھ مرتب کیا …دوبرس قبل میرے کلام کا ایک انتخاب ’’شہر ستم کے نام سے چھپا ہے ۔(رقص شرر:418)

زندگی اور اس سے متعلق بے شمار واقعات، جن میں بعض عقل کو حیران کرنے والی کہانی کامیاب کہانی کار کی طرح خود نوشت کا حصہ ہیں ۔اس میں حسن و عشق ،مشاعروں اور ادبی پروگرام ،اردو کی انجمنوں،شعبہ ہائے اردو اور اردو سے متعلق دیگر اداروں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔رقص شرر کا اسلوب نگارش ایسا ہے کہ اس کو پڑھنے والا قتیل ہوجاتا ہے ۔چونکہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا ایک بڑا حصہ سفر میں گزرا ہے اس لیے اس میں خود نوشت کے ساتھ ساتھ سفرنامے کا بھی لطف ملتا رہتا ہے۔رقص شرراپنے توانا بیانیہ اور واقعات کی بنت کے لیے جو بیانیہ ہے وہ بے مثال ہے ۔جس زمانے میں آپ لکھنؤ آئے گرچہ وہ تہذیبی اور ادبی بساط الٹ چکی تھی مگر آپ نے اپنے تہذیبی رویوں اور اسلوب نگارش سے اس کوکسی قدر آئینہ دکھا یا ہے ۔
رقص شرر کی اشاعت کا قصہ بھی دلچسپ ہے ۔اس کے لکھنے کاآغاز 1991کے آس پاس ہوا ۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ ’’میں نے اس کتاب کا آغاز اس وقت کیا تھا جب میری عمر باسٹھ برس کی تھی ‘‘اور اس کے لکھنے کی تحریک انھیں پروفیسر آل احمد سرور کی خود نوشت ’’خواب باقی ہیں ‘‘سے ملی تھی ۔مگر اشاعت 2004میں ہوئی ۔آزاد ہندستان میں اردو زبان کی جدوجہد کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اس میں ’’رقص شرر‘‘کا ذکر ضرور آئے گا ۔

 (مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔