ڈاکٹرملک زادہ منظوراحمد

میرے افکارکی لے بانگِ درا، بانگِ جرس
نایاب حسن

نکلتاہواقد،چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ہوئیں نسبتاً بڑی آنکھیں،سانولا،مگردل کش چہرہ،مجموعی خط و خال اورہیئت و پوشاک میں دانشورانہ رکھ رکھاؤکے ساتھ سادگی وبے تکلفی نمایاں؛یہ تھے جناب پروفیسرڈاکٹرملک زادہ منظوراحمد،جنھوں نے کم و بیش نصف صدی تک اردومشاعروں پراپنی نظامت کاسکہ چلایا اوربیسویں صدی کے برصغیرکے تقریباً تمام ہی اردوشعراکاتعارف کرایا،ان کی وفات کاسانحہ حقیقی معنوں میں اردووالوں کے لیے ایک ’’ الم ناک سانحہ‘‘ہے اوراب انھیں شایدہی ایسی ہمہ جہت شخصیت میسرآسکے۔ جب اُنھوں نے مشاعروں میں نظامت شروع کی تھی،اس وقت تک باقاعدہ ناظمِ مشاعرہ کی حیثیت سے ایک آدھ شخص ہی مشہورہوگااوراس وقت تک اِس طرف زیادہ توجہ بھی نہیں دی جاتی تھی؛لیکن ملک زادہ صاحب نے اپنے کمالِ فن، ہنرمندی، دلچسپ اندازِ تعارف اورمجمعوں کوقابومیں کرنے اور رکھنے کی بے پناہ صلاحیت سے مشاعروں کی نظامت کوایک نئی شناخت،نئی بلندی اورنئی منزلوں سے آشنا کروادیا، پھران کی زندگی میں ایک دورتووہ آگیاکہ مشاعرے اور ملک زادہ صاحب لازم،ملزوم ہوگئے؛بلکہ شائقینِ ادب و شعرجتناکسی مشاعرے میں کسی بڑے اورمشہور شاعرکی شرکت و آمدکی وجہ سے شریک ہوتے تھے،اتناہی وہ اس وجہ سے بھی مشاعروں میں جاتے تھے کہ اس کی نظامت ملک زادہ صاحب کرتے تھے، جنھوں نے مشاعروں میں ان کی نظامت سنی ہے،وہ جانتے ہیں اور جنھوں نے نہیں سنی ہے،وہ انٹرنیٹ،یوٹیوب وغیرہ پر کثیر تعداد میں موجود ان کی نظامت پرمشتمل مشاعروں کے ویڈیوزکودیکھ اور سن کر بآسانی یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ملک زادہ صاحب کے اندازِ بیان،طرزِ تعارف اور پیرایۂ اظہار میں کس بلاکارچاؤ،شگفتگی اور شایستگی تھی ۔اردوکے مشاعروں میں نظامت کرنابڑاآزمایش بھراکام ہے،مشاعرے کوکامیاب بنانے کی آدھی سے زیادہ ذمے داری ناظمِ مشاعرہ کی ہوتی ہے،شاعروں کوپڑھوانے کی درست ترتیب اور پھرہرایک کاموزوں ومناسب تعارف ضروری ہوتا ہے؛ تاکہ سامعین کوپہلے سے اندازہ ہوجائے کہ آنے والاشاعرکس قسم کی شاعری کرتاہے اور اس کے پڑھنے،سنانے کااسٹائل کیساہے اور وہ اسی حساب سے سننے کااپنا موڈ بنائے،اسی طرح بعض دفعہ ایسا بھی ہوتاہے کہ اگر اسٹیج پر کوئی کم مشہورشاعرکھڑاہوجائے،توسامعین میں چہ می گوئیاں شروع ہونے لگتی ہیں اور نوبت ہوٹنگ تک پہنچ جاتی ہے،ایسے موقعے پر ناظمِ مشاعرہ کارول نہایت اہم ہوتاہے کہ وہ مشاعرے کوقابومیں کرے اورسامعین کے دلوں میں آنے والے شاعرکی صلاحیتِ شعرگوئی کانقش قائم کرنے کی کوشش کرے،بسااوقات بعض شاعرداداور واہ واہی لوٹنے کے چکرمیں اسٹیج چھوڑنے کوہی تیارنہیں ہوتے اورنتیجتاً شائقین آمادۂ احتجاج ہوجاتے ہیں،ایسے وقت میں بھی ناظمِ مشاعرہ کی دانش مندی و حکمت کی بڑی آزمایش ہوتی ہے،ملک زادہ صاحب نے اپنے پچاس سالہ دورِ نظامت میں ان تمام مرحلوں اور آزمایشوں کونہایت ہی خوبی و مہارت سے عبورکیا؛چنانچہ وہ جس مشاعرے کے ناظم ہوتے تھے،اس کی کامیابی کالوگوں کوپہلے سے یقین ہوجاتاتھااور حقیقتاًبھی وہ مشاعرہ بہت کامیاب ہوتاتھا۔ملک زادہ صاحب کے بولنے کے اندازمیں ایسی چاشنی تھی اوراس خوبی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور ایک منفردلہجے میں وہ نظامت کرتے تھے کہ لوگ شاعروں کوچھوڑان کی نظامت میں ہی ڈوب جاتے تھے،برمحل اشعار،برجستہ ادبی جملے،حسبِ موقع واقعات ان کے نوک برزبان ہوتے تھے،جن سے وہ سامعین کواسٹیج اور مشاعرے کی طرف مکمل انہماک سے متوجہ رکھنے میں کام لیتے تھے۔
ملک زادہ صاحب کامیدانِ کارصرف مشاعروں کی نظامت ہی نہ تھا؛بلکہ وہ ایک نہایت ہی عالم و فاضل اورمتنوع الجہات انسان تھے،ایک روشن ضمیر دانشورتھے،ان کااپنا ادبی سراپا بڑا بالابلند تھا،وہ ایک باکمال شاعرتھے،آزادہندوستان میں امام الہندمولاناابوالکلام آزادپرتحقیق کی نیوانھوں نے اٹھائی، طالب علمی ہی کے زمانے میں’کالج گرل‘کے نام سے ایک ناول لکھا،شعروادب کی دنیامیں آئے اور وقت کے بڑے بڑے شاعروں سے تعلق وتعارف ہوا، تومعاصرشعراکے تعارف پر مشتمل ایک کتاب’’شہرِ سخن‘‘لکھی،جس پراپنے تاثرات کلااظہارکرتے ہوئے علامہ نیازفتحپوری نے اپنے شہرۂ آفاق جریدہ ’’نگار‘‘ میں لکھا:’’اس کتاب میں نئے پرانے26؍شعراکاذکرکیاگیاہے،جن سے خود مصنف کوملنے اور تبادلۂ خیال کاموقع ملاہے،اس لیے ہم اس کوانتقادی ڈائری بھی کہہ سکتے ہیں اورانتقادی جائزہ بھی؛لیکن اس کی ایک تیسری خصوصیت اور بھی ہے،یعنی یہ کہ وہ بجاے خودانشاے لطیف اور انشانگاری کابھی بڑاپاکیزہ نمونہ ہے،مجھے یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ ملک زادہ نے شعراکے متعلق جورائے قائم کی ہے،وہ نہ صرف معتدل ومتوازن ؛بلکہ صاف و بے لاگ بھی ہے،اگراسے پھیلا دیاجائے،توایک کتاب بن سکتی ہے،اس کتاب کی ایک اورخصوصیت ہے،جومجھے بے حدپسندآئی،وہ اس کااندازِبیان ہے‘‘۔اسی طرح معروف ادیب و نقاداحتشام حسین نے بھی اس کے تعلق سے تحسین آمیزکلمات تحریرکیے۔آزادی کے بعد کاہنگامہ خیزدورجہاں مسلمانوں کی سماجی و سیاسی بے سمتی،بے یقینی اور خطرات سے گھراہواتھا،وہیں مسلمانوں کے نام پرایک علیحدہ ملک پاکستان وجودمیں آجانے کے بعداردوزبان کاتحفظ بھی ایک مستقل مسئلۂ لاینحل کی شکل اختیار کرچکاتھا،ایسے میں ظاہرہے کہ ملک زادہ صاحب جن کے شب و روزکااوڑھنابچھونااردوزبان ،اردوادب اوراردوشاعری ہی تھی،وہ اس سے کیسے غافل رہ سکتے تھے؛چنانچہ انھوں نے اس موضوع پر’’اردوکامسئلہ‘‘نامی کتابچہ لکھا،پھرتحفظِ اردوزبان کوملک گیر وسعت دینے کی خاطر’ ’اردورابطہ کمیٹی‘‘ تشکیل دی،اس کے دائرۂ کارکوملک کے مختلف خطوں اور علاقوں میں پھیلایااور کام کرنے والے افرادواشخاص کواس سے جوڑکراردوکے تحفظ کے حوالے سے بہت سے ہمت ورانہ،جرأت مندانہ اور مخلصانہ اقدامات کیے،پھرانھوں نے اردوادب و زبان کی اعلیٰ قدروں کی محافظت کے لیے ہی ایک ذاتی رسالہ’’امکان‘‘جاری کیا،جس کی ایڈیٹری سے لے کرطباعت،حتی کہ پوسٹ آفس جاکرترسیل تک کاکام وہ خود ہی کرتے تھے،اردوسے انھیں جنون کی حدتک عشق تھااوراس کی حفاظت کے تئیں وہ حیرت انگیزحدتک حساس تھے،پچاس سالہ عملی زندگی میں ان کے شناساؤں،احباب و متعلقین کادائرہ بے پناہ وسیع ہو چکاتھا،جن میں وقت کے بڑے بڑے شاعروادیب کے علاوہ ایک سے بڑھ کرایک ممتازدانشور،مفکراور سرکاری اہلکار،وزراوافسران وسیاسی لیڈران شامل تھے ،ملک زادہ صاحب اردوزبان کے تحفظ کے تعلق سے ہر کسی سے ملتے،بات کرتے،انھیں تحریک دلاتے اوراس موضوع پرمثبت قدم اٹھانے کی اپیل کرتے،ایک عرصے تک یوپی اردواکادمی کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی انھوں نے اردوکے فروغ کے لیے قابلِ قدرخدمات انجام دیں۔
ملک زادہ صاحب ایک بہت کامیاب مدرس و معلم بھی تھے اور ان کی معلمانہ تربیت نے بے شمارذروں کوآفتاب و ماہ تاب بنایا،قطروں کوگہرہاے آب دارمیں تبدیل کیااورزبان و ادب کے بہت سے قیمتی ہیرے جواہر تیار کیے،ان کے کامیاب ترین شاگردوں کی تعداد دس بیس یاسوپچاس نہیں؛بلکہ ہزاروں میں ہوسکتی ہے اوران سب کی صرف فہرست سازی بھی ایک مشکل امرہے۔ان کی پیدایش17؍اکتوبر1929ء کوہوئی،1941ء میں مڈل اور1946ء میں ہائی اسکول جارج اسلامیہ اسکول گورکھپورسے پاس کیا،1947ء میں سینٹ اینڈریوزکالج میں داخل ہوئے ،1949ء میں بی اے اور1951ء میں وہیں سے ایم اے کیا،یہاں ان کے اساتذہ میں مجنوں گورکھپوری اوردیگرمعروف شخصیات تھیں،اسی دوران مشرقی ریلوے میں اپرڈویژن کلرک کے طورپرملازمت شروع کی اورآزادی کے بعدپورے ملک میں برپاہونے والے فسادات کے دوران مسلمانوں کے تحفظ اور حالات کوقابومیں کرنے کے لیے عملی طورپرنمایاں حصہ لیا،جس کے نتیجے میں انھیں اس ملازمت سے ہاتھ دھوناپڑا،اس کے بعد سے ان کا تدریسی دورشروع ہوا،سب سے پہلے گنیش شنکر ودیارتھی کالج میں پروفیسرہوئے اور سال بھریہاں تدریسی خدمت انجام دی،اگلے سال جولائی 1952ء میں جارج اسلامیہ کالج میں انگریزی کے استاذمقررکیے گئے،مگریہاں بھی ایک سال ہی برسرِعمل رہے اورجولائی1953ء میں نیشنل شبلی کالج اعظم گڑھ میں انگریزی ہی کے پروفیسر کے طورپران کی تقرری عمل میں آئی،جہاں 1964ء تک انگریزی کے لیکچرر،اس کے بعدچارسال ریڈررہے،پھرایک طویل عرصے تک لکھنؤیونیورسٹی میں اردوکے پروفیسر،پھرصدرِ شعبہ رہے اور1990ء میں ریٹائرہوئے۔
ناظم مشاعرہ ہونے کے فوائد بھی ہیں،مگرایک نقصان یہ ہے کہ خود اس کی شاعرانہ صلاحیتوں کااظہارکم ہوپاتاہے،اسے موقع ہی نہیں ملتاکہ وہ بھی اپنے اشعارسامعین کوسناسکے اور اگر ملتابھی ہے،توبہت کم،ایسے میں اگروہ شاعرہوبھی،تورفتہ رفتہ اس کی صلاحیتیں اور قوتِ کلام سکڑتی جاتی ہیں اور اظہارکے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے اس کی شاعرانہ ہنرمندیوں سے ادب والے ناواقف رہ جاتے ہیں،البتہ ملک زادہ صاحب اس حوالے سے ذراخوش نصیب رہے؛ کیوں کہ وہ اکثرمشاعروں میں چندایک ہی سہی ،اپنے اشعار بھی ضرورسناتے تھے اورچوں کہ نظامت کی طرح شاعری بھی ان کے رگ و پے میں رچی ہوئی تھی؛اس لیے ان کے اشعارمیں بڑی معنی خیزی،دل فریبی اور مقصدیت ہوتی تھی،جب وہ گورکھپورمیں تھے تواپنے استاذمجنوں گورکھپوری کے مشورے سے انجمن ترقی پسندمصنفین کی شاخ قائم کی،جس کے وہ جنرل سکریٹری بنائے گئے،ان کا واسطہ بھی زیادہ ترترقی پسندشاعروں سے رہا اوران سے قربت بھی رہی،ذہنی میلان بھی اسی طرف تھا؛چنانچہ ملک زادہ صاحب کی شاعری میں بھی انقلابی آہنگ اور پرشوکت الفاظ،افکارواسلوب کی گھن گرج سنائی دیتی ہے، تازہ کاری ،ندرت و جدت بیانی بھی ان کی شاعری کا حصہ ہے،ان کے کلام کاایک مجموعہ’’شہرِ ستم‘‘کے نام سے 1992ء میں طبع ہواتھا،جس کادیباچہ معروف ترقی پسندشاعرعلی سردارجعفری نے تحریرکیاتھا،اس کتاب کی پہلی نظم کے اشعارکچھ یوں تھے:
ہمارے شعروں میں مقتل کے استعارے ہیں
ہماری غزلوں نے دیکھے ہیں کوچۂ قاتل
صلیب و دارپہ نظمیں ہماری لٹکی ہیں
ہماری فکرہے زخمی،لہولہان ہے دل
ہرایک لفظ پریشاں،ہرایک مصرعہ اداس
ہم اپنے شعروں کے مفہوم سے پریشاں ہیں
خداکرے جوآئیں ہمارے بعدوہ لوگ
ہمارے فن کی علامات کوسمجھ نہ سکیں
چراغِ دیروحرم سے کسی کاگھرنہ جلے
نہ کوئی پھر سے روایاتِ رفتگاں لکھے
نہ کوئی پھرسے علاماتِ خوں چکاں لکھے
فصیلِ دار،سروں کے چراغ،رقصِ جنوں
سراب،تشنہ لبی،خار،آبلہ پائی
دریدہ پیرہنی،چاک دامنی،وحشت
سموم،آتشِ گل،برق،آشیاں،صیاد
روایتیں یہ مرے عہدکی امانت ہیں
علامتیں یہ مرے شعرکامقدرہیں
ان اشعارمیں شاعر نے اپنے زمانے کے کرب و دردکو،سماجی انتشاراوربکھراؤکواورمنقسم ہندوستان کے پس منظر میں برصغیرکی دوقوموں کے مابین پیدا ہونے والی غلط فہمیوں،ناچاقیوں،نفرتوں اورایک دوسرے کے تئیں بدگمانیوں کوبڑے دردکے ساتھ بیان کیاہے اوران مظاہرومناظرکواپنے عہدکی ’’روایات و علامات‘‘قراردیاہے،جن سے آنے والی نسلیں ناواقف رہیں توہی بہترہے،انھوں نے اپنے اشعارمیں زندگی کے حقائق و اسرارکوبھی بڑے لطیف انداز میں بیان کیاہے،چوں کہ ان کی طویل عمرہوئی اوراس کے ساتھ ساتھ ان کے فکروعمل کے دائرۂ کارمیں بڑی وسعت و ہمہ گیری اور پھیلاؤرہا،اس کی وجہ سے ان کے اشعار میں بھی معنی و فکرکی گہرائی و گیرائی ،تنوع اور وسعت پائی جاتی ہے:
شمع کی طرح شبِ غم میں پگھلتے رہیے
صبح ہوجائے گی،جلتے ہیں توجلتے رہیے
وقت چلتاہے اڑاتاہوالمحات کی گرد
پیرہن فکرکاہرروزبدلتے رہیے
آئی منزل توقدم آپ ہی رک جائیں گے
زیست کوراہِ سفرجان کے چلتے رہیے
آئینہ سامنے آئے گاتوسچ بولے گا
آپ چہرے جوبدلتے ہیں،بدلتے رہیے
عہدِامروزہویاوعدۂ فردامنظور
ٹوٹنے والے کھلونے ہیں،بہلتے رہیے
خوداعتمادی ،خودشناسی اور قوتِ ارادی کومضبوط سے مضبوط تررکھنے کی ان کی تلقین بھی خوب ہے:
مت بناؤ یدِبیضا کو گدا کا کشکول
وقت فرعون ہوجب،ضربِ عصاسے مانگو
موم کی طرح پگھل جائے گا شب کافولاد
دستِ داؤدکی توفیق خداسے مانگو
ملک زادہ صاحب کے بہت سے اشعاراپنی سادگی اورمعنی خیزی کی وجہ سے عوام و خواص کی زبان پربھی چڑھ گئے ہیں،جوحسبِ موقع ومحل بے ساختہ ذکر میں آجاتے ہیں۔ان کی پوری شاعری میں سماج،سیاست اور حسن و عشق کے مختلف موضوعات و معاملات کوعنوان بنایاگیاہے،الفاظ کاانتخاب تووہ اچھی طرح جانتے ہی تھے،سوانھوں نے اپنے افکارکے اظہارکے لیے عمدہ سے عمدہ الفاظ استعمال کیے ہیں اوران کی شاعری میں فکری بلندی کے ساتھ حسن و غنائیت بھی بہ درجۂ اتم پائی جاتی ہے۔
ملک زادہ صاحب کے شعرکی مانند ان کی نثربھی کمال کی ہے،یوں تووہ اپنے علمی سفرکے شروع سے ہی ادب اور ادیبوں کے ہمنشیں رہے اوران کی زبان میں ایک خاص قسم کی مٹھاس،شیرینی اور ادبی لطافت پیداہوگئی تھی؛لیکن پھر ایک زمانے تک لکھنؤمیں رہنے کی وجہ سے ان کے زبان وبیان اور قلم و تحریرمیں لکھنوی ادب و تہذیب کاعکس و نقش بھی نمایاں ہوگیاتھااوروہ اسی خصوصیت کے ساتھ لکھنے اوربولنے لگے تھے،ان کا پہلامضمون اگست1949میں عباس حسینی کے رسالہ’’نکہت‘‘ میں شائع ہوا،اس کی خوب پذیرائی ہوئی اورپھرانھوں نے رسالے کی زندگی تک اس میں مسلسل لکھا،یہ وہی رسالہ تھا،جس میں تب کے اسرارناروی اوربعدکے معروف جاسوسی کہانی نگارابنِ صفی سلسلہ واراپنی کہانیاں لکھ رہے تھے۔اس کے بعدمختلف مواقع پربہت ساری ادبی تنقیدی تحریریں لکھیں اوران کی نثریات پر مشتمل متعددتالیفات بھی ہیں؛لیکن ملک زادہ منظوراحمدکی نثرکاجادوان کی خودنوشت’’رقصِ شرر‘‘میں دیکھنے لائق ہے،اس کتاب میں انھوں نے آپ بیتی و جگ بیتی دونوں کوانتہائی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیاہے،نہایت ہی سلیس اسلوب میں لکھی گئی یہ آپ بیتی ایک ادیب و شاعرومفکرودانشورکی زندگی کاکماحقہ نقشہ کھینچتی ہے،اس کتاب کے مشمولات نہایت قیمتی ہیں اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس میں انیسویں صدی کے ایک لمبے عرصے پرمشتمل ہندوستانی ادبی منظرنامے کی نقشہ کشی کی گئی ہے،یوں تویہ ملک زادہ صاحب کی آپ بیتی ہے؛لیکن انھوں نے پوری کشادہ دلی کے ساتھ ضمناً آنے والی دیگرسیکڑوں ادبی ،علمی ،فکری،سیاسی وسماجی شخصیات اور ان سے متعلق واقعات کابھرپورذکرکیاہے،اسی طرح اس کتاب میں ہندوستان کی ادبی صورتِ حال پرحقائق کی روشنی میں بہت کچھ ایسی باتیں بھی پڑھنے کوملتی ہیں،جوصرف اِسی کتاب میں ملیں گی،بعض واقعات ایسے،جنھیں پڑھ کربے ساختہ ہنسی آئے،بعض ایسے ،جن میں ہم نئی نسل والوں کے لیے سامانِ عبرت و موعظت،مشہورادیبوں اور شاعروں کے احوالِ زندگی کی دلچسپ منظرکشی، اپنے خاندانی حالات کی تفصیلات اور طلبِ علم ، تدریسی وادبی مشاغل کے مختلف مراحل کوملک زادہ صاحب نے بڑے دل کش اسلوب میں بیان کیا ہے۔ البتہ اس کتاب کوپڑھتے ہوئے ایک چیزبہت کھٹکتی ہے کہ باوجودیکہ اس کتاب کی طباعت میںآٹھ دس سال کی تاخیرہوئی اورکئی مرحلوں سے گزرنے کے بعداس کی اشاعت ہوپائی اوراس کام کوملک زادہ صاحب کے بہت قابلِ اعتماددوستوں اورارادت مندوں نے انجام دیا؛لیکن وہ ظاہری اعتبارسے توکتاب کودیدہ زیب شکل وصورت دینے میں کامیاب رہے،البتہ کمپوزنگ کی بے شمارغلطیاں اب بھی اس میں موجودہیں،جنھیں تقریباً ہرصفحے میں دیکھ دیکھ کربڑی تکلیف ہوتی ہے،امیدکی جانی چاہیے کہ ’’رقصِ شرر‘‘کے ناشرین اورملک زادہ صاحب کے محبین اگلے ایڈیشن میں تصحیحِ اغلاط کااہتمام فرمائیں گے۔

(بشکریہ یو این این)

تبصرے بند ہیں۔