حقوق نسواں کا علم بردار کون؟

مصباحیؔ  شبیر

(دراس کرگل  لداخ،  جموں وکشمیر) 

آج سے کچھ روز پہلے یعنی ۸ مارچ کو یومِ خواتین بڑے ہی دھوم دھام سے منایا گیا۔ اس دوران ٹی اور اخبارات میں حقوقِ نسواں کی وکالت میں بہت ہی انرجی بھی صرف کی گئی۔ حقوقِ نسواں کے علمداروں نے بڑی اہتمام سے یہ دن منایا۔ اس کے علاوہ بھی بھی آئے روز ہمارے درمیان سے ہی کچھ ہمارے بھائی، بہنیں حقوقِ نسواں کی وکالت کرتے ملتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے جس کا حق ہے اسے اس کا حق ہے ملنا چاہیے ہم بھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر بات جب بھی عورتوں کے حقوق کی ہوتی ہے تو ہمارے ذہنوں میں وہ خاکے بھی ضرور ابھرتے ہیں کہ اسلام سے پہلے عورتوں کی کیا حالت تھی، اس وقت کے سماج میں عورتوں کے حقوق کی پاسداری کہاں تک ہوتی ہے۔ تو سب سے پہلے ہمیں وہ تین تہذیبیں یاد آتی ہیں جو اسلام سے پہلے مذہبی و روحانی مرکز تھیں یعنی ایران، روم اور ہندوستان کی تہذیب۔ تو ہمیں یہ بھی یاد آتا ہے کہ روم جو اس وقت کی بڑ ی اور اہم تہذیب تھی عیش وآرام کی گہوارہ بن گئی تھی، مذہبی پیشوائوں کی خانقائیں عیش ونشاط کی چکلے بن چکی تھیں۔ ایک اور جو قابل ِذکر روحانی سلطنت تھی ایران یہاں پر جو اخلاقی آگ زرتشت و مانی نے روشن کی تھی وہ یزداں اور اہرمن کا گورکھ دھندا بن گئی تھی اور ان کی کتابِ اخلاق میں کوئی تمیز بھائی بہن باپ بیٹی کا نہ تھا۔ وہی ہندوستانی تہذیب میں تو عورتوں کی حالت قابلِ بیاں ہی نہیں تھی۔ ایک عورت کئی شوہر کر سکتی تھی۔ بدمستی میں کئے گئے ہر گناہ کو کارِثواب مانا جاتا تھااور اس حالت میں محرمات تک سے تمتع کرنا ثواب تھا۔ عزت و عصمت کی کوئی قیمت نہ تھی بڑے بڑے اُمراء کی عورتیں جامئہ عصمت اتار پھینکتی تھیں ، عورتوں کی کوئی قدروقیمت نہ تھی بعض طبقوں میں لڑکیاں قتل کی جاتی تھیں ، عورت شوہر کی موت کے بعد تمام دنیاوی لذیز سے محروم کر دی جاتی تھی اس لئے وہ شوہر کے ساتھ جل کر مرنے کو زندہ رہنے پر ترجیع دیتی تھی۔ پھر خود عرب میں بھی اسلام سے پہلے عورتوں کی حالت کچھ بہتر نہیں تھی۔ بڑے بڑے شرفاء اپنی عزیز عورتوں اور شریف عورتوں کے عشق و محبت کی داستانیں بڑے بڑے مجموعوں اور محفلوں میں مزے لے لے کر سناتے تھے۔ نکاح کی کوئی تعداد مقر ر نہیں تھی بھیڑ بکریوں کی طرح جتنی عورتیں چاہیں رکھ لیتے تھے۔ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ گھر میں لڑکی کی پیدائش نحوست کی علامت مانا جا تا تھا اور لڑکی کو زندہ رکھنا اپنے خاندان کے لئے ننگ و عار محسوس کرتے تھے۔

ان وحشی صفات تہذبوں میں ڈوب جس عورت نے اپنی اصل کھو دی تھی، حقوق تو دور کی بات تھی وہ اپنی بقاء کی دعائیں مانگتی تھی۔ اسی عورت کو ہمارے نبی نے بیٹی اللہ کی رحمت کا نام دے کر اس سماج سے جنگ کا اعلان کر دیا تو اس وقت بھی ان کی سخت مخالفت ہوئی کیونکہ ان لوگوں کی فکر میں لڑکی کی پیدائش ننگِ قوم ہے کا نظریہ اتنی مضبوطی کے ساتھ پویست ہوگیا تھا جو آسانی سے پگلنے والا نہیں تھا۔ اور اس وقت ان سے لڑائی مول لینا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا پھر بھی ہمارے پیارے نبی نے اس کی پروا کئے بغیر یہ لڑائی لڑی اور عورتوں کو ان کے جائز حقوق دلا کر انہیں اس جہان میں جینا کا حق دلایا۔ اب بدلے میں انہیں کیاملا یہ اگے بیاں ہوگا۔

عورت نے ترقی کی اور بہت ترقی کے منازل طے کئے۔ زمانہ جیسے جیسے ترقی کرتا عورت بھی اتنی تیز رفتاری سے آگے بڑھی اور اسے جب یہ لگا کہ اب اس کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں ہے تو ان میں چند عورتیں بے باک ہوئیں ان کو یہ پردہ، یہ شریفوں کی زندگی ایک قید محسوس ہونے لگی تو انہوں نے اسی اسلام پر ہی یہ بہتان ِ عظیم لگانا شروع کیاجو ان کے وجود کا ضامن تھا۔ اس بیچ مغرب اور عیاش لوگ جو عورت کے نہ ملنے سے بے چین تھے، جو عورت کو اپنی محفلوں میں نچوانے کے خواہاں تھے انہوں نے موقع پا کر اس کا فائدہ اُٹھا نا شروع کیا۔ ان کی اپنی عورتوں کی تو کوئی قدر وقیمت نہ رہی اس لئے وہ مسلم خواتین کی عزت اس طرح محفوظ نہیں دیکھ سکتے تھے اس لئے ان کو تلاش تھی کچھ ایسی مسلم خواتین کی جو یہ مہم چلاتی تو وہ بھی ان کو ہمارے ہی درمیان سے چند نام ونہاد مسلم خواتین کی شکل میں ملا۔ پھر کیا تھا ان کے ہم خیال ہماری بہت ساری بہنیں اس مہم میں شامل ہوئیں جس کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اب ہماری ان بہنوں کو اسلام ہی کھٹکنے لگا۔ بس اپنے ماضی کو بھول ہماری بہنوں کو اسلام کے سارے اصول ونظریات چند مولویوں کی اپنی اختراع دیکھائی دینے لگے۔ اب طلاق ہو یا پردہ، مزرات میں حاضری ہو یا نماز میں امامت کی ذمہ داری ہر جگہ مخالفین اسلام کے فریب و سازش کے چنگل میں پھس ہماری بہنیں ہمیں کہتی ہیں کہ اسلام میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ہر جگہ عورتیں آزاد ہیں یہ ملا لوگ ہی ہمیں زبردستی پابندی کے ذد میں لاتے ہیں۔ بات اتنی اگے بڑھی ہے کہ اگر ہماری کوئی بہن کسی فلم میں کام کرے اور مولوی صاحب اسے ناجائز بتائے تو سبھی اس مولانا کو ہی پستی فکر کے شکار جاہل کہیں اور اسے  طالبانی فکر کا مارا کہتے ہیں۔ یہ صلہ تھا اس کا جو ہمارے نبی نے قربانیاں دی تھیں۔ خیر قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی ہماری بہنوں کو اس کا احساس  ضرور ہوگا۔۔

 میں اپنی تمام اسلامی بہنوں سے اتنا کہوں گا کہ جن جائز حقوق کی آپ بات کرتی ہیں وہ تو آپ کو مذہب اسلام کی پاسداری سے ہی ملیں گے۔ کیونکہ باقی لوگ جو آپ کی عزت و حقوق کی بات کرتے ہیں وہ فقط آپ کے بدن کی چاہت میں کرتے ہیں۔ انہیں بس وہیں عورت پسند ہے جو ان کے سامنے ننگی رہے۔ اپنے انگوں کی نمائش کرے۔ جو ان سے مستی و بے تکی باتوں میں ان کی ہمنوا بنے۔ یہ لوگ آپ کو صرف اپنی محفلوں میں نچواتے ہیں ، اور آپ کو نیم عریاں کرکے آپ کے ہاتھوں سے جام نوش کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کی کمپنیوں میں ، ان کے دفاتر میں ، بڑے بڑے جہازوں میں جو تعلقاتِ عامہ کا کام ہے ان سب کاموں کے لئے عورتوں کا استعمال ہوتا ہے۔ اور بہت ساری معاشی حالات کی ماری ہماری بہنوں کو یہ سب کام بھی مجبوری میں کرنے پڑتے ہیں۔ اور جو خوشی سے ان کے ساتھ ہیں ان کی حالت تو ناقابلِ بیاں ہے۔ اگر یہ لوگ واقعی عورتوں کے لئے سنجیدہ ہیں تو ان سے سوال کرو کہ کیا ان کے پاس ہماری ان بہنوں کے لئے کئی ایسے کام نہیں ہیں جہاں عورتیں آزادی سے صرف عورتوں کی موجودگی میں کام کریں۔ جہاں ان کو اپنے بدن کی نمائش نہ کرنی پڑے۔ میں پھر سے ایک مرتبہ اپنی بہنوں سے کہتا ہوں کہ آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ سب ان لوگوں کی چال ہے جو عورتوں کو صرف نمائش کا ایک آلہ سمجھتے ہیں۔ یہ اسی فکر کی چال ہے جو عورت کو پھر ایک مرتبہ غلامی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ یہ اسی لابی کا کھیل ہے جو عورت کو صرف مرد کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ مانتی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو عورت کو حسن کو بازار کی رونق بنانے میں بضدہیں۔ جبکہ مذہب اسلام میں تو کہیں ایسا نہیں ہے۔ مذہب اسلام بھی عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، بھلائی کی بات کرتا ہے، برتری چاہتا ہے مگر مذہب اسلام عورتوں کو غیر مردوں سے خلط ملط ہوکر رہنا پسند نہیں کرتا ہے۔ وہ عورت کی عزت ِ نفس کی بات کرتا ہے، وہ عورت کا پردہ چاہتا ہے تاکہ اس کی حفاظت ہو۔ وہ عورت کی تعلیم چاہتا ہے لیکن پردہ میں رہ کر اس کی بہت ساری مثالیں آپ کو ہمارے مسلم سماج میں لڑکیوں کے لئے چلائے جانے اسکولوں، مدارس، مکاتب اور دیگر اداروں میں ملیں گی۔ اس لئے میری بہنو۔ اپنی فکر کو بدلو اور رجوع کرو کیونکہ آپ کی بھلائی اسی میں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔