ماں

ادریس آزاد

الحمدللہ میری والدہ حیات ہیں۔ آج جب دل کسی بات پر بہت اداس ہوا تو نہ جانے کیوں قدم بے اختیار اماں کے گھر کی طرف اُٹھ گئے۔

اُن کے پاس بیٹھ گیا۔ بہت سی اِدھر اُدھر کی باتیں کیں۔ہم کئی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوب ہنسنے۔میں وہیں کافی دیر تک بیٹھا رہا۔ جب اُٹھنے لگا تو اماں نے کہا،

’’کیا بات ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتاؤ نا؟‘‘

میں نے کہا،

’’کون سی بات‘‘

کہنے لگیں،

’’میں تمہاری ماں ہوں۔ مجھ سے تمہارے چہرے کے تاثرات نہیں چھپ سکتے۔تم دنیا کے لیے اپنے چہرے پر یہ باکمال متانت سجا سکتے ہو میرے سامنے ابھی بھی وہی بچہ کھڑا ہے جو پرنالے میں پھنس گیا تھا‘‘

میں نے یہ سنا تو جاتے جاتے رُک گیا۔پھر وہیں ان کی پائنتی کی طرف بیٹھ گیا۔ میں نے کہا،

’’اماں! وہ پَرنالے والا واقعہ پھر سے سنائیے نا‘‘
وہ ہنس دیں،

’’تم ڈیڑھ سال کے تھے۔ زینے چڑھ کر چھت پر چلے جاتے اور وہاں اکیلے کھیلتے رہتے۔ ایک دن تمہیں اوپر جاتے ہوئے میں نہ دیکھا۔ تم چھت پر چڑھ گئے۔ چھت پر ایک بڑا سا چوبارہ تھا یا منزل کہہ لو!۔ دو تین کمرے تھے، صحن تھا۔

پھر دوسری منزل پر صرف ایک برساتی تھی۔ برساتی کے سامنے بڑا سا صحن تھا۔ اور پہلی منزل کے غسل خانوں کی چھت دوسری منزل کے پَرنالے (نکاسیٔ آب کے راستے) کے عین نیچے تھے۔پرنالہ کافی بڑا تھا۔ تم یوں کھیلتے تھے کہ پرنالے میں گھس جاتے اور اُس ننھی سی سُرنگ میں سے پھسل کر غسل خانوں کی چھت پر لٹک کر اُتر آتے۔

پھر دوسری طرف سے اوپر جاتے اور پھر وہی عمل دہراتے رہتے۔ اُس دن تم نہ جانے کیسے پرنالے میں پھنس گئے۔ پہلے پہل شاید بہت روتے چلاتے رہے۔لیکن پھر تمہیں وہیں نیند آگئی۔ادھر جب میں نے تمہیں آنکھ سے اوجھل پایا تو ڈھونڈنے لگی۔

کمروں میں، چھت پر ،دوسری منزل پر بھی گئی۔ مگر تم کہیں نظر نہ آئے۔ میری جان نکل گئی۔ گلی کے بچوں کو اِدھر اُدھر دوڑایا۔ تمہارے ابا آگئے۔ محلے کی کچھ عورتیں آگئیں۔ پھر مسجد میں اعلان کروایا گیا۔ میں بہت رو رہی تھی اور بے حال تھی۔ یہاں تک کے دو تین گھنٹے گزر گئے۔

اچانک مجھے خیال آیا کہ تم کہیں پرنالے میں نہ پھنس گئے ہو۔ میں دوڑتی ہوئی اوپر گئی اور دیکھا تو تم آدھے دوسری منزل پر اور آدھے تیسری منزل پر لٹکے میٹھی نیند سورہے تھے ۔ تمہاری آنکھوں میں آنسو خشک ہوکر جم گئے تھے۔ اور تمہارے چہرے پر بلا کا سکون تھا‘‘

اماں نے اتنا بتایا تو رونے لگیں۔ اور روتے ہوئے کہا۔

آج بھی یہ سوچتی ہوں کہ تم کتنی دیر روتے، چلاتے اور مدد کے لیے پکارتے رہے ہوگے اور یونہی پکارتے پکارتے سو گئے تو کلیجے پر گھونسہ پڑتاہے۔

تبصرے بند ہیں۔