دو بہادر مسلم خواتین

جنگ عورت کا میدان نہیں ہے۔ مرد کی غیرت برداشت بھی نہیں کرتی کہ اس کے ہوتے ہوئے عورت اس کا دفاع کرے۔ اسی لئے قدیم زمانے میں عورتیں میدان جنگ میں تو جاتی تھیں مگر وہ لڑائی میں براہ راست شرکت کے بجائے مردوں کا حوصلہ بڑھاتیں، کھانا پکاتیں، خیمے لگاتیں، مردوں تک ہتھیار پہنچاتیں، زخمیوں کی تیمارداری کرتیں اور لاشوں کو دفن کرتیں۔ مگر بہت سی عورتیں ایسی بھی ہیں جنہوں نے آگے بڑھ کر باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا۔ تیر اور تلوار چلایا، دشمنوں کو قتل کیا، لشکر وں کی قیادت کی۔ اسلامی تاریخ میں اس طرح کی بہادر عورتوں کی بڑی تعداد ہے ان میں سے میں صرف دو کا تذکرہ کررہا ہوں۔
حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب
یہ رشتے سے پیارے نبیﷺ کی خالہ اور دوسرے رشتے سے پھوپھی ہوتی تھیں۔ یہ عمر میں تقریباً پیارے نبیﷺ کے برابر تھیں۔ حضرت صفیہؓ نے اپنے بیٹے زبیرؓ کی تربیت بڑے عمدہ اندازہ سے کی ان کی خواہش تھی کہ زبیرؓ آگے چل کر ایک بہادر اور نڈر انسان بنیں۔ اس لئے وہ ان سے محنت مشقت کا کام لیتیں اور وقتاً فوقتاً ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کرتیں۔ زبیر کے چچا اور ان کے قبیلے کے دوسرے لوگوں نے انہیں بچے پر سختی کرنے سے روکا تو کہنے لگیں’’میں اسے کسی دشمنی کی وجہ سے نہیں مارتی، میں اسے اس لئے مارتی ہوں کہ عقل مند ہو، فوج کو شکست دے اور مال غنیمت حاصل کرے ماں کی تربیت کا اثر یہ ہوا کہ حضرت زبیرؓ ایک بہت ہی دلیر ، صف شکن بہادر بنے اور اپنے کارناموں سے بڑا نام کمایا۔
غزوۂ احزاب کے موقع پر پیارے نبیﷺ نے تمام عورتوں او ربچوں کو ایک قلعہ اطم میں رکھا تھا اور حضرت حسان بن ثابتؓ کو ان کا نگراں بنایا تھا۔ بنوقریظہ کے محلے اور اس قلعے کے درمیان کوئی فوجی دستہ وغیرہ نہ تھا۔ چنانچہ ایک یہودی ٹوہ لینے کے لئے قلعے کی طرف گیا۔ اتفاق سے حضرت صفیہؓ نے اسے دیکھ لیا اور حضرت حسانؓ سے کہا باہر نکل کر اس یہودی کو قتل کردیں۔ مگر حضرت حسانؓ دل کے کمزور تھے اس لئے انکار کردیا۔ حضرت صفیہؓ نے خیمے سے ایک چوپ کھینچی اور قلعے کے باہر اس یہودی کے سرپر اس زور سے مارا کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ پھر انہوں نے حضرت حسانؓ سے کہا جائیے اور اس کا سر کاٹ کر قلعے کے نیچے پھینک دیجئے مگر حضرت حسانؓ نے اس سے بھی انکار کیا۔ آخر حضرت صفیہؓ خود آگے بڑھیں یہودی جاسوس کا سر کاٹا اور اسے قلعے کے نیچے پھینک دیا۔ یہودیوں نے سمجھا کہ قلعہ کے اندر بھی مسلم فوج ہے اس لئے وہ اس طرف آنے کی ہمت نہ کرسکے۔ اس طرح حضرت صفیہؓ کی جرأت و ہمت اور بہادری کی وجہ سے مسلمان ایک بڑی مصیبت سے بچ گئے ۔
حضرت خنساءؓ بنت عمرو
عہد نبوت کی عورتوں میں حضرت خنساءؓ نے بھی بڑی شہرت پائی ۔ یہ عرب کی سب سے بڑی مرثیہ گو تھیں۔ اپنے بھائی کے انتقال کے بعد وہ ہمیشہ اس کی جدائی کو یاد کرکے زار و قطار روتیں ۔ درد و غم کی شدت کی وجہ سے انہو ں نے اپنے بھائی کے لئے جو اشعار کہے ان کی مثال نہیں ملتی مگر قبول اسلام کے بعد اس خاتون کے اندر وہ انقلاب آیا جس نے اسے بالکل تبدیل کرکے رکھ دیا۔ جنگ قادسیہ میں یہ اپنے چار جوان بچوں کے ساتھ میدان میں موجود تھیں۔ رات کے آخری حصے میں انہوں نے اپنے چاروں بچوں کو بلایاور کہا : ’’میرے بچو! تم اپنی خوشی سے اسلام لائے اور اپنی خوشی سے تم نے ہجرت کی ، اللہ کی قسم جس طرح تم ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہو اسی طرح تم ایک باپ کی اولاد ہو، تمہارا حسب اور نسب بے عیب ہے جان لو کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی کار ثواب نہیں ہے ، آخرت کی دائمی زندگی دنیا کی فانی زندگی سے بہتر ہے۔ کل جب جنگ شروع ہو تو تم دشمن پر ٹوٹ پڑنا اور جب تم دیکھو کہ جنگ خوب بھڑک گئی ہے تو خاص آتش داں جنگ میں گھس پڑنا اور راہ حق میں دیوانہ وار تلوار چلانا، ہوسکے تو دشمن کے سپہ سالار پر ٹوٹ پڑنا اگر کامیاب رہے تو بہتر اور اگر شہادت نصیب ہوئی تو یہ اس سے بھی بہتر کہ آخرت کے فضیلت کے مستحق ہوگے‘‘۔
چاروں نونہالوں نے یک زبان ہوکر کہا ’’اے والدہ محترمہ ! انشاء اللہ ہم آپ کی توقعات پر پورا اتریں گے اور آپ ہمیں ثابت قدم پائیں گے‘‘۔
بچے جب میدان میں پہنچ گئے تو خنساءؓ نے اس طرح دعا کی’’الٰہی میری متاع عزیز یہی کچھ تھی اب تیرے سپرد ہے ‘‘۔
بچوں نے ماں سے کئے ہوئے عہد کو نبھایا خوب داد شجاعت دی بلآ خر چاروں نے باری باری شہادت پائی ۔ خنساءؓ نے جب اپنے چاروں بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو بجائے اس کے کہ غم و ماتم کرتیں اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوگئیں اور بے ساختہ ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے ’’اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنے فرزندوں کی شہادت سے مشرف کیا۔ اللہ سے امید ہے کہ وہ مجھے قیامت کے دن ان بچوں کے ساتھ اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا‘‘۔
ذرا سوچئے اسلام انسان کو کتنا بدل دیتا ہے۔ یہ وہی خنساء ہیں جنہوں نے اپنے بھائی کے غم میں اپنا دل نکال کر رکھ دیا تھا اور ارثی العرب کہلائیں مگر چار بیٹے راہ حق میں قربان ہوگئے اور ان کے زبان پر ایک آہ بھی نہیں بلکہ اللہ کی شکر گزاری ہے او ربہترین اجر پانے کی امید میں صبر اور اطمینان ہے۔ اے کاش آج کی مسلم عورتیں بھی ایسی ہی ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔