قرآن کا پیغام والدین کے نام – مثالی باپ حضرت ابراہیمؑ –چند جھلکیاں (5)

’’فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہٗ السَّعْیَ قَالَ یٰبنی اِنِّیْ اَرٰی فِیْ الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَریٰ۔ قَالَ یٰٓابَتِ اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَّ الصّٰبِرِیْنَ۔ فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ۔ وَنَادَیْنٰہٗ اَنْ یٰٓاِبْرَاھِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْ یَا۔ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِیَ مُحْسِنِیْنَ۔ اِنَّ ھَذٰا لَھُوَ الْبَآؤالْمُبِیْنُ۔ وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِیْ الْاٰخِرِیْنَ۔سَلٰمٌ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ۔ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ (الصافات:۱۰۲۔۱۱۰)
ترجمہ:151 ’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیم علیہ السلام نے اس سے کہا ’بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں۔ اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟‘اس نے کہا ’ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہاہے اسے کرڈالئے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘۔آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرادیااور ہم نے ندادی کہ اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناًیہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑالیا۔ اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لئے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی ، سلام ہے ابراہیم (علیہ السلام) پر ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزادیتے ہیں ‘‘۔
ان آیات میں اس واقعہ کا تذکر ہے جس کی یاد میں ہم عید قرباں مناتے ہیں۔ اس واقعہ سے جہاں مثالی قربانی کا نمونہ سامنے آتا ہے وہیں مثالی باپ اور مثالی بیٹے کی تصویریں بھی سامنے آتی ہیں اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:
(۱) باپ کو بیٹے کے سلسلہ میں یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جو مناسب سمجھے اقدامات کرے لیکن مثالی باپ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے فیصلے اختیار کے بل پر نافذ نہ کرے بلکہ بیٹے کی پسند اور رجحان کو بھی ملحوظ رکھے۔ اسی میں دونوں کے لئے عاقبت ، سکون اور خوشی ہے ورنہ قہراً جبراً منوانے سے الٹا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ مثلاً بیٹا تعلیم کے کس میدان کو اختیار کرے۔ باپ فیصلہ کرسکتا ہے لیکن باپ اگر بیٹے کے رجحان اور پسندکو ملحوظ رکھے تو بہتر ہے ورنہ زبردستی کسی خاص کورس کرنے پر اصرار کیا جائے تو برا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ جس کی مثالیں روز مرہ کی زندگی میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح بیٹے کی شادی کہاں اور کس سے ہو باپ یہ کرسکتا ہے لیکن اگر بیٹے کی پسند معلوم کرلی جائے تو بہتر ہے۔ ورنہ اس کی رضا مندی کے خلاف محض اختیار کے بل پر اگر کہیں اس کی شادی کردی جائے تو عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ نباہ مشکل ہو جاتا ہے اور باپ بیٹا دونوں پریشان ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو خواب دیکھا تھا وہ محض خواب نہیں تھا بلکہ حکم الٰہی تھا ۔ بیٹا بھی یہی سمجھ رہا تھاکہ حکم الٰہی ہے جبھی تو فرمایا ’’اے ابا جان جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہاہے اسے کر ڈالئے‘‘۔ چنانچہ ہونا تو یہ چاہئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ذبح کرڈالتے لیکن انہوں نے خواب کا تذکرہ کرنے کے بعد بیٹے سے رائے طلب کی ’’تو اب بتا تیرا کیا خیال ہے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیٹے کے بارے میں اگر کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو یا بڑا قدم اٹھانا ہو تو معاملہ اس کے سامنے رکھ کر اس کی رائے حاصل کرنی چاہئے تاکہ کم از کم وہ ذہناً تیار ہو جائے ۔ آج کل والدین عموماً اس کا خیال نہیں رکھتے جس پر توجہ کی ضرورت ہے ۔
(۲) بیٹے سے رائے اور مشورہ طلب کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ باپ اس کا پابند ہے۔ بیٹا جو کہے باپ وہی کرے۔ بلکہ اختیار کو ملحوظ رکھتے ہوئے باپ کے لئے حتمی فیصلے کا حق بہر صورت محفوظ رہتا ہے اور باپ کا فیصلہ اگر شرع کے خلاف نہیں ہے تو بیٹے کو ماننا چاہئے ۔ رائے طلبی کا اصل فائدہ یہ ہے کہ باپ بیٹے کو اپنے فیصلے کے سلسلے میں پہلے سے ذہناً تیار کرلیتاہے۔ فیصلے میں بیٹے کے رجحان اور پسند کا لحاظ ہو جائے تو نفاذ آسان ہو جاتاہے۔ بیٹے کی طاعت و فرماں برداری اور تعمیل و عدم تعمیل کی صورت کا اندازہ ہو جاتاہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جو رائے طلب کی تھی ان کے پوچھنے کا مقصد یہ ہرگز نہ تھا کہ تو راضی ہو تو اللہ کی فرمان کی تعمیل کروں ورنہ نہ کروں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اصلاً یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ نیک بیٹے کی انہوں نے دعا مانگی تھی وہ حقیقتاً کتنا نیک ہے ؟ اگر بیٹا اللہ کی خوشنودی کے لئے جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے تو اس کا مطلب یہ کہ واقعتا وہ سپوت ہے۔نہ صرف جسمانی اعتبار سے بلکہ اخلاقی و روحانی اعتبار سے بھی انتہائی بلند ہے۔
(۳) مثالی باپ کا ایک لازوال کردار یہ بھی سامنے آتا ہے کہ بیٹے سے بے پناہ شفقت و محبت کے باوجود اللہ کی محبت اور اس کی خوشنودی بیٹے کی محبت اور خوشنودی پر غالب رہنی چاہئے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عملاً کردکھایا۔ بڑے ارمانوں اور دعاؤں کے بعد بڑھاپے میں اولاد عطا ہوئی تھی۔ وہ بھی انتہائی صحت مند اور خوبصورت بیٹاجو کہ جوان ہو چکا تھا اور بڑھاپے کی لاٹھی بننے والا تھا۔ اس سے کس قدر محبت رہی ہوگی جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ایسے بیٹے کے سلسلے میں یہ مطالبہ کہ اسے اپنے ہاتھوں میرے خاطر قربان کرو۔کون باپ ہوگا جو بڑی آسانی سے برضا و رغبت اس کے لئے تیار ہوجائے گا۔ نہ صرف تیار ہو جائے گا بلکہ ایسی احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرے گا کہ کہیں قربانی میں شفقت و محبت آڑے نہ آجائے۔ یہ اعلیٰ معیار تو دور کی بات ہے ہم ادنیٰ معیار پر بھی پورے نہیں اترتے۔
ہمارا تو یہ حال ہے کہ اللہ کی خاطر قربان کرنا تو دور کی بات ہے ۔ ہم اللہ کی پہچان تک نہیں کراتے بلکہ بیٹوں کے آرام اور راحت کی خاطر اپنا دین و ایمان بیچ ڈالتے ہیں۔ بیٹوں کی خاطر حرام کمائی کرتے ہیں۔ بیٹوں کی خاطر دوسروں کا مال ہڑپ کرلیتے ہیں۔ بیٹوں کی خاطر حقداروں کے حقوق ادا نہیں کرتے، بیٹوں کی خاطر بہت سے احکام الٰہی کو پامال کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

تبصرے بند ہیں۔