رثائی صنف ادب ’نوحہ‘ کا تاریخی و تنقیدی تجزیہ

شاہدؔکمال

 رثائی ادب کی سب سے قدیم اور حساس ترین صنف سخن نوحہ پر گفتگو کرنے کا مقصد اپنے اعتقاد کے اظہار سے زیادہ اپنے ادبی یقین کی آسودگی ہے۔رثائی ادب میں مرثیہ اور سلام کی طرح نوحہ بھی ایک مستقل صنف سخن کی حیثیت رکھتا ہے۔ علمائے ادب نے مرثیہ اورسلام کی ادبی افادیت کے پیش نظر اس کے کچھ اصول و ضوابط وضع کئے ہیں اوربیشترشعرا نے ان اصناف سخن میں خوب خوب طبع آزمائی بھی کی اور انیسؔ و دبیرؔ جیسے عظیم شاعروں نے بھی اس صنف سخن سے اعراض نہیں فرمایا۔

ہمارا اصل مقصود نوحہ پر گفتگو کرنا ہے آج جب ہم کسی نقاد یا دانشور سے نوحہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو وہ اس صنف سخن کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے پہلی بات تو یہ کہتے ہیں کہ دیگر اصناف سخن کی طرح اس میں وہ شعری محاسن یا ادبیت نہیں پائی جاتی، کہ، جس کی وجہ سے اسے ادبی زمرے میں رکھا جائے۔ مزید استفسار کی صورت میں اس کا منطقی جواز یہ پیش کیا جاتا ہے۔ چونکہ اس کا موضوع آہ و بکا ہے اوریہ صنف محض اظہار حزن والم سے متصف ہے لہذا موضوع و مواد کے اعتبار سے بھی اس کے دامن میں وسعت کا امکان بہت کم پایا جاتا ہے۔ یادوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ ابھی اس صنف سخن کے تعلق سے ماہرین ادب نے زیادہ کچھ لکھا بھی نہیں ہے۔

یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے کہ نوحہ سے متعلق رثائی ادب میں ایسا کچھ کام نہیں ہوا ہے، لیکن کیا؟ اس طرح کا جواز کسی صنف سخن کے استراد کے لئے صحیح ہے۔ ؟ اگراس طرح کی توضیحات کا تاریخی جائزہ لیاجائے، تو یہ بات وا شگاف ہوتی ہے کہ رثائی ادب کے حوالے سے معاصر عہد کے نقادین اور دانشوروں کا یہ موقف کوئی نیا نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح کے نظریاتی توضیحات کی روایت بہت پرانی رہی ہے۔ فی زماننا فرق اتنا ہے کہ پہلے یہ ایک نظریہ تھا، جو آج ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ لہذا اس طرح کے غیر ادبی رجحانات کو محض ذہنی پسماندگی سے ہی تعبیر کیا جاناچاہیئے۔

اس لئے کہ اتہام و ایرا د کا یہ سلسلہ محض ’’نوحہ‘‘ سے متعلق ہی نہیں ہے۔ بلکہ ابتدا میں مرثیہ جیسی صنف کو بھی یہ کہہ کر معتوب و مطعون کیا گیا کہ یہ صنف محض رونے رلانے اور حصول ثواب تک ہی محدود ہے، یہ ایک ایسی بحث ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے یہ سلسلہ آج بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ جاری و ساری ہے جدید و قدیم کی یہ بحثیں بحث نہ رہ کر ایک قضیہ کی صورت اختیار کر چکی ہیں جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔

 لیکن میں یہاں ایک بات ضرور کہوں گاکہ ادبی کفالت میں پرورش پانے والے اس طرح کے یتیمانہ نظریات اپنے اجتماعی اقلیت کے باوجود ادب میں کسی فرد واحد کی عقلی مجہولیت سے زیادہ اہمیت و حیثیت نہیں رکھتے اس بحث کو مزید طول دینے سے بہتر ہے کہ اس کے رموز وعلائم کو سمجھنے کے لئے بزرگ ناقدین کی تحریروں کا سہارا لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔پروفیسر ال احمد سرور کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی ہوا کہ مغرب میں سیکولر ازم کے فروغ نے مذہب کو کچھ فرسودہ اور دقیانوسی قرارد یدیااور مذہبی شاعری کو بھی خواہ کیسی اچھی شاعری کیوں نہ ہو زندگی سے فرار یا نشے اور خجالت کی شاعری کہہ کر اُسے آج کی زندگی اور اس کے تقاضوں سے بے گانہ سمجھنے کی لَے بڑھنے لگی۔ آزادی سے کچھ قبل کی تنقید میں اقبالؔ کی شاعری جس کا سرچشمہ مذہب و اخلاق ہے اسی روش کا نشانہ بنی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن جیسے جیسے ادب کی مخصوص بصیرت کا عرفان بڑھتا جاتاہے ویسے ویسے شاعری اور اس کی عظمت کے لئے کسی مخصوص سیکولر نظام یا کسی مخصوص مذہبی یا اخلاقی نظام کی چھاپ ضروری نہیں سمجھی جاتی۔‘‘ (مضمون’’انیس کی شاعرانہ عظمت ‘‘ آل احمد سرور،مشمولہ ’’انیس شناسی‘‘ مرتبہ گوپی چند نارنگ)

پروفیسر ال احمد سرور کا یہ نظریہ ادب کی کسی صنف کے پرکھنے کے لئے ایک صحت مند رویہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ بات اپنے تمام عقلی تلازمات کے مطابق بھی ہے، اس لئے کہ کسی اصناف سخن کے ادبی معیار کو اس کے مذہبی یا مسلکی سطح سے بلندہو کر ادبی بصیرت کی روشنی میں کرنی چاہے، اگر اس طرح کے منصوبہ بند نظریات کی بنیاد پر کسی تخلیق کے پرکھنے اور جانچنے کے عمل کو جائز اور درست مان لیا جائے تودنیا کا کوئی ادب معرض استراد سے باہر نہیں نکل سکتا۔

اس طرح کے غیر اعتذاری وجوہات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نوحہ کے حوالے سے صدیوں سے چلا آرہا یہ مصلحتی جمود اب ٹوٹنا چاہئے اور ایک صحتمندانہ ادبی ماحول میں ایک نئی بحث کا سلسلہ شروع ہو، تاکہ اُس سچائی کا انکشاف ہو سکے جس حقیقت پر شعوری طور پر ایک پردا ڈال دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ علمائے ادب کی یہ پر اسر ار خاموشی بڑی مصلحت انگیز محسوس ہوتی ہے۔یہ بات صر ف یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اب تو بات یہاں تک آ پہونچی کہ اس صنف سخن(نوحہ) کے استراد ی توضیحات شدت پسندانہ مذہبی عقائد کے تناظر میں جدید موصلاتی نظام کے توسط سے کی جارہی ہے۔

نوحہ سے متعلق آزاد دائرۃ المعارف، نوحہ ویکیپیڈیا کی تعریف انگریزی میں۔

               Noha (Arabic: ) is a genre of Arabic, Persian, or Urdu prose depicting the martyrdom of the Holy Imams. Strictly speaking noha is the sub-parts of Marsia. Nohas are usually poetry expressing the sorrow felt by Shia Muslims for their leaders.”Noha” (Arabic: ) is also an Arabic female name meaning "wisdom”. Literally it is the plural of minds. It is mentioned in the

   Quran several times.

نوحہ کی اردو میں تعریف آزاد دائرۃ المعارف(نوحہ ویکیپڈیا )

’’نوحہ یعنی میت کے اوصاف مبالغہ سے بیان کرنے آواز سے رونا جسے بین کہتے ہیں حرام ہے، یوں ہی گریبان پھاڑنا،منہ نوچنا، بال کھولنا،سر پر خاک ڈالنا، سینہ کوٹنا،ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہلیت کے کام ہیں اور حرام ہیں، یوں ہی سوگ کے لئے کالے کپڑے پہننا مردوں کے لئے ناجائز ہے،یوں ہی بلے لگانا نصاریٰ کی مشابہت بھی ہے، ہاں رونے میں اگر آواز بلند نہ ہوتو ممانعت نہیں ہے۔ ‘‘

نوحہ کی یہ تعریف کس ادبی اندراج کے تحت کی گئی ہے، شاید ہی اس کا کوئی معقول جواب ہو، لیکن یہ بات تشویشناک ضرور ہے کہ اس طرح ادب کی کسی صنف سخن کو مسلکی زمرہ بندیوں کے تحت بغیر کسی عقلی استدلال کے اُسے اُس کے ادبی منصب سے معزول کرنے کاجواز فراہم کرنا تہذیب ادب کے منافی ہے۔ اس لئے کہ کسی صنف کے ادبی وقار کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ اس کے فنی لوازم اور ادبی محاسن کا جائزہ لیا جائے ناکہ اس طرح کی افتراپردازی سے۔ویسے بھی ادب اس طرح کے اجتہاد ات اور حلال و حرام جیسے غیر ضروری مباحث کا متحمل نہیں ہوتا۔ جب بات حلال وحرام تک آپہونچی تو اب لازم ہے کہ اس صنف سخن(نوحہ) کا شرعی جواز بھی قرآن و حدیث اور تاریخ کے حوالے سے پیش کردیا جائے۔ تاکہ آگے چل کر اس صنف سخن پر مزید کھل کر گفتگو کی جاسکے۔لہذا ماتم وسینہ زنی سے متعلق آیات قرآنی اور کچھ مستند احادیث و واقعات کا یہاں پر ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

’’اللہ پسندنہیں کرتا ماتم کو، ہاں مگر سوائے اُس کے لئے جو مظلوم ہوں۔ ‘‘

اس آیات کے ضمن میں دیگر مفسرین قرآن نےاپنی تفاسیر کی کتابوں میں بڑی تفصیل کے ساتھ گرویہ وبکا اور ماتم کا تذکرہ کیا ہے۔یہاں پر حولے کے طور پر کچھ تفاسیر کی کتابوں کا ذکرکرنا ضرور ی سمجھتا ہوں اپنے بات کی توثیق کے لئے۔

’’تفسیر ابن کثیرجلد2 صفحہ نمبر20، صحیح بخاری شریف جلد2 صفحہ نمبر820۔‘‘

قرآن مجید سورہ الذاریات،آیت نمبر29۔ترجمہ:

’’ابراہیم کی بیوی(سارہ) چلاتی ہوئی آئیں اور اپنا منھ پیٹ کر کہنے لگی کہ (ہائےایک تو) بڑھیا اور (دوسری) بانجھ۔‘‘

قرآن مجید سورہ یوسف آیت نمبر31  ترجمہ:

’’جب مصر کی عورتوں نے یوسفؐکو دیکھا تو اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بے ساختہ کہنے لگیں قسم خدا کی یہ کوئی بشر نہیں بلکہ ایک کریم فرشتہ ہے۔ ۔۔‘‘

قرآن کی یہ آیات صریحی دلالت کرتی ہیں گریہ کنی اور ماتم زنی کے جواز پر۔ مزید قرآن میں کچھ نبیوں کی آہ وزاری ماتم داری کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ایک واقعہ اہلسنت کی معتبر کتابوں میں ملتا ہے۔

’’حضرت آدم علیہ السلام نے اس طرح ماتم کیا کہ اُن کے سینے کی ہڈیاں نظر آنے لگیں۔ ‘‘

حوالہ:معراج النبوۃ باب 1 صفحہ نمبر 248۔‘‘ پر مزید تفصیل ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے جناب یوسف کے فراق میں اپنا سر وسینہ پیٹا اور مسلسل آہ زاری فرماتے رہے جس کی وجہ سے اُن کی آنکھوں کی بینائی تک چلی گئی۔‘‘

حوالہ: تفسیر کبیر جلد5 صفحہ نمبر 158۔‘‘

اسی طرح سے کتب احادیث میں اس طرح کی کثرت سے روایات و احادیث موجود ہیں۔ جنھیں آپ میرے اس موضوع کے ضمن میں ملاحظہ کریں۔ تاکہ قارئین کو اس بات کو سمجھنے کے لئے مزید آسانی ہوجائے۔ملاحظہ کریں۔

’’جب جنگ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا جناب امیر حمزہ کو شہید کردیا گیا، اور ان کی لاش کا مثلہ کیا گیا اور ’’ہندہ‘‘ زوجہ ابوسفیان نے آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کے چچا کے سینے کو چاک کرکے ان کے کلیجہ نکال کر اُسے چبایا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے غم میں سینہ کوبی کی اور ان کی میت پرگریہ بھی فرمایا۔‘‘ (حوالہ صحیح بخاری، جلد2 ؍ صفحہ 50)

’’جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےاپنے چچا حضرت حمزہ کی شہادت پر لوگوں کو رونے اور غمزدہ ہونے کا حکم دیا۔‘‘

(حوالہ مسند ابن حنبل جلد 2 ص،41)

’’جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ’’جنگ موتہ‘‘کے شہدا پر اپنے صحابیوں کو رونے کا حکم دیا۔‘‘

(صحیح بخاری،جلد1،کتاب الجنائز،باب 786،حدیث نمبر 1166 صحیح بخاری جلد 2کتاب الجہاد،باب، 52حدیث نمبر 5،کتاب المناقب،باب،409 حدیث نمبر 945‘‘

ام المسلمین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے بھی ماتم کیا۔

’’آپ فرماتی ہیٓں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اُن کا سرمیری گود میں تھا، پھر میں نے ان کا سر تکیہ پے رکھا اور عورتوں کے ہمراہ ماتم کرتی ہوئی کھڑی ہوگئی اور میں نے اپنا منھ پیٹ لیا۔‘‘

حوالہ:کتاب مسند احمد بن حنبل طبع مصر،جلد 6، صفحہ 274۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے گریہ کیا۔

’’آپ فرماتی ہیں کہ جب سعدبن معاذ کی وفات ہوگئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور کے سبھی اصحاب روئے۔ــ‘‘

(مولانا  عبد الغنی طارق، کتاب : رسول اکرم کے آنسوــ صفحہ 18، ناشر زمزم بکڈپو دیوبند،‘‘)

خالد بن ولید کی میت پر گریہ و ماتم۔

’’خالد بن ولید، ، کی میت پر قبیلہ بنی مغیرہ کی عورتوں نے سات دن تک مکہ اور مدینہ میں گریہ کیا اور انھوں نے اپنے گریبان پھاڑے اور منھ پیٹے۔‘‘

حوالہ: کنزالعمال جلد8، صفحہ 119، راوی اہلسنت ملا متقی حسام الدین‘‘

احمد بن حنبل کی وفات پر گریہ و ماتم۔

’’متوکل عباسی کے عہد حکومت میں، اہلسنت نے امام احمد بن حنبل کی وفات پر گریہ وماتم کیا۔متوکل کو اہلسنت ’’محی السنتہ‘‘ یعنی سنت کا احیا (سنت کو زندہ کرنے والا)کرنے والاخلیفہ مانتے ہیں۔ جس جگہ امام احمد بن حنبل کی نماز جنازہ پرھی گئی تھی، وہاں پر گریہ و ماتم کیا گیا، یہاں تک کہ پچیس(25)لاکھ مسلمانوں نے وہاں پر گریہ و ماتم کیا۔‘‘

حوالہ: حیواۃ الحیوان،(علامہ اہلسنت دمیری) ذکر خلافت، متوکل و تہذیب الاسمائ (علامہ نودی) وغیرہ نے اس روایت کو بڑے وثوق کے ساتھ نقل کیا ہے۔

 خلیفۃ المسلمین حضرت عمر نے نے اپنے بھائی ’’زید ‘‘ کے لیے مرثیہ کہنے کی فرمائش کی۔جس کا ذکر  علامہ شبلی نعمانی نے کچھ اس انداز سے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے، یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

’’۔۔۔متمم بن نویرہ(عرب کا ایک شاعر)اسی زمانے (عمر فاروق کا دور خلافت)میں تھا اور وہ بھی اپنے بھائی کا شیفتہ اور عاشق تھا۔ ایک لڑائی میں خالد بن ولید نے اس کے بھائی کو مار ڈالا۔اس پر متمم کی یہ حالت ہوئی کہ گھر بار چھوڑ کر نکلا اور قبائل عرب میں پھرنا شروع کیا جہاں پہونچتا تھا تمام زن و مرد اس کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ وہ درد انگیز لہجہ میں مرثیہ پڑھتااور ہر طرف سے گریہ و زاری کی آواز بلند ہوتی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر لوگوں نے یہ سمجھا یاوہ اسی حالت میں حضرت عمر کے پاس آیا وہ اس وقت مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے۔ متمم نے مرثیہ کے اشعار پڑھنے شروع کئے حضرت عمراگر چہ نہایت مضبوط دل کے آدمی تھے لیکن ضبط نہ کرسکے بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے متمم مر ثیہ پڑھ چکا تو حضرت عمر نے کہا تیرے غم کی حالت کس حد تک پہونچی ہے ؟ اس نے کہا امیرالمومنین ! بچپن میں مجھے ایک عارضہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میری بائیں آنکھ کی رطوبت جاتی رہی تھی میں کبھی روتا تھا تو اس آنکھ سے آنسو نہیں نکلتے تھے بھائی کے مرنے کے بعد جو اس آنکھ سے آنسو جاری ہوئے تو اب تک نہیں تھمے۔حضرت عمر نے فرمائش کی کہ وہ میرے بھائی زید کا مرثیہ لکھے، اُس نے فرمائش پوری کی، لیکن جب دوسرے دن جاکر حضرت عمر کو مرثیہ سنایا تو حضرت عمر نے کہا اس میں تو وہ درد نہیں۔ اس نے کہا !امیر المومنین ! زید آپ کے بھائی تھے میرے بھائی نہیں تھے‘‘۔ (’’موازنۂ انیس ؔو دبیر ؔصفحہ ۸)

اب اگر یہ مان لیا جائے کہ نوحہ اور مرثیہ کہنا حرام ہے تومسلمانوں کے امیروخلیفہ کا اس طرح سے نوحہ اور مرثیہ لکھنے کی فرمائش کرنا گویا اس عمل کی تائید کرنا ہے۔ اگریہ فعل شرعی طور سے حرام اور ناجائز ہوتا تو غالباً اس طرح کی فرمائش کی توقع کم سے کم حضرت عمر فاروق سے بعید از قیاس تھی۔ اسی طرح کے اور بہت سے واقعات اکابرین اسلام کی نسبت سے تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں جسے نوحہ کے شرعی جواز کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

غالباً اس واقعہ کے تما م تاریخی عوامل کے بعد نوحہ گوئی کے مذہبی تقدس کے باب میں اب کسی طرح کی تشکیک کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔

نوحہ گوئی کے شرعی جواز کے استدلال کے بعد آئیے اب ہم”نوحہ گوئیـ‘‘سے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔

لیکن نوحہ پر گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ نوحہ کی دوالحاقی صنف سخن ’’روایت‘‘ اور ’’ماتم‘‘ کابھی ضمنی طور سے تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

’’روایت ‘‘مثنوی کی طرح ایک طویل نظم ہوتی ہے جس میں واقعات کربلا کو حکایتی انداز میں نظم کیا جاتا ہے۔ مثنوی اور ’’روایت ‘‘ میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ مثنوی میں مطلع کے بعد کے تمام اشعار مطلع کے قوافی کے پابند نہیں ہوتے، لیکن اس کے برخلاف ’’روایت‘‘ میں ہر دوسرے شعر میں مطلع کے قافیہ کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔

’’ماتم‘‘ ’’روایت ‘‘کی طرح نوحہ کی ایک الحاقی نظم ہے جس میں شاعر کربلا کے کسی ایک شہید کے واقعات و حالات کو تسلسل کے ساتھ قلم بند کرتاہے۔نوحہ میں اس طرح کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔

 لیکن ’’نوحہ‘‘ اور ماتم ‘‘ ان دونوں اصناف سے متعلق کچھ ناقدین نے اختلاف رائے کا اظہار کیا ہے۔یہ قتباس ملاحظہ کریں۔

’’نوحہ اور ماتم میں ایک فرق یہ بھی ہوتا ہے کہ ماتم کے اشعار غزل کی طرح غیر مربوط ہوتے ہیں اور نوحہ کے اشعار باالعموم مربوط ہوتے ہیں ‘‘۔

جبکہ مرتضی حسین فاضل کا خیال ہے کہ:

’’نوحہ وہ مبکی نظم ہے، جس میں واقعات کربلا کوتنوع و خیال آفرینی کے ساتھ نظم کئے جائیں اور جسے لحن کے ساتھ پڑھا جائے اور ماتم وہ بینہ نظم ہے، جس میں سادگی کے ساتھ واقعات کربلا منظوم ہوں اور لحن کے ساتھ پڑھنے کے لئے لکھا جائے‘‘۔

 (ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی، نظارہ لکھنؤ ابوالفضل العباس نمبر ۱۴؍جون ۱۹۶۱ء)

اس حوالے سے یہ اقتباس بھی قابل غور ہے۔

ماتم میں شعروں کے ساتھ ماتمی زبان سے جواب میں شعر یا مصرع دہراتے  اور ہاتھ سے مسلسل سینہ زنی کرتے تھے۔نوحہ رک رک کر پڑھی جانے والی نظم ہوتی ہے جس میں اگر کو ئی واقعہ نظم ہوتا تو روایت ورنہ سادہ نوحہ کہلاتاتھا۔ شروع شروع میں نوحہ بندش، اسلوب و انداز بیان کے لحاظ سے ماتم ہی جیسی چیز تھا‘‘ (نظارہ لکھنؤ ابوالفضل العباس نمبر ۱۴؍جون ۱۹۶۱ء)

’’نوحہ کی ہیئت ماتم کی ہوتی ہے اور اس کے اشعار ایسے متوازن عروضی ٹکڑوں پر مشتمل ہو تے ہیں جو ایک خاص لے یا آہنگ پیدا کردیتے ہیں اور جب ان کو غم انگیز سروں میں پڑھا جاتا ہے تو حد درجہ پر تاثیر ہوتے ہیں۔ نوحہ اور ماتم میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک مبکی ہے۔ نوحہ اور ماتم جوش،سادگی اور تاثیر سے مملو ہوتے ہیں۔ ہیئت کے اعتبار سے نوحہ غزل مسلسل سے مماثل ہوتا ہے‘‘۔ (دبستان دبیر ص ۲۴)

ان اقتباسات کی بنیاد پر ’’نوحہ ‘‘ اور ’’ماتم‘‘ میں صرف جزئیات اختلاف ضرور پایا جاتا ہے۔لیکن اسے کسی استدلال کا مجاز نہیں تصور کیا جاسکتا۔لہذا ’’ماتم‘‘ اور’’روایت‘‘ کو نوحہ کی ایک ضمنی صنف کے طور پر ہی دیکھا جانا اپنے منطقی قرائن پر دلالت کرتا ہے۔اسی طرح سے ’’نوحہ‘‘ کے ضمن میں مزید جزوی اصناف پائی جاتی ہیں جیسے۔

ترحیمہ نوحہ:اس نوحے کو کہا جاتا ہے،جو کسی کے انتقال پر اشعار کہے جائیں جس میں مرنے والے کی مغفرت اور اس کے روح کی بلندی درجات کے لئے دعائیہ اشعار نظم کئےجائیں۔ اسی طرح سے’’ تعزیتی یا شخصی نوحہ ‘ ‘ یا تعزیتی نوحہ وغیرہ بھی ہیں اس سے قطع نظرجب رثائی ادب کی اہم ترین صنف سخن مرثیہ کا تاریخی حیثیت سے جائزہ لیاجاتا ہے، تو اس کے ابتدائی نقوش عربی ادب کے قدیم آثار سے ہی دریافت ہوتے ہیں اور محققین نے اس کی تاریخی نشاندہی بھی کی ہے جس کا تذکرہ بیشتر کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہے۔

عربی ادب میں مرثیہ اور نوحہ کی معروضی بحث کافی تفصیل طلب موضوع ہے ہم یہاں پر صرف نوحہ اور مرثیہ کی تاریخی نشاندہی مولفین و مورخین مراثی کے اس قول کے تناظر میں کریں گے جس پر بالااتفاق رائے تمام علمائے ادب کا اجماع ہے۔

جب مرثیہ کی تاریخ بیان ہوتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ جتنی قدیم انسانی تاریخ ہے اتنی ہی قدیم مرثیہ کی بھی تاریخ ہے جیسا کہ ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں۔

 ’’مرثیہ کو دنیا کی قدیم ترین نسل انسانی کی مشترک صنف کلا م قراد دینا شاید غلط نہ ہوگا۔‘‘

مرثیہ کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتاہے۔

’’ حضرت ہابیل علیہ السلا م کی موت پر حضرت آدم علیہ السلام کی آنکھوں سے چھلکنے والا آنسو شاید وہ پہلا خاموش مرثیہ ہے جو فطرت نے ایک درد مند باپ کے صفحۂ عارض پر لکھا۔‘‘(اردو میں شخصی مرثیے کی روایت،ڈاکٹر عابد حسین حیدری)

اس طرح مرثیہ کا تاریخی خمیر حضرت ہابیل ؑ کی شہادت پر جناب آدمؑ کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں سے ہی تیار ہوتا ہے۔ اصل میں مرثیہ کی یہی تاریخ نوحہ کے تاریخی وجود کا اثبات ہے اور مرثیہ اور نوحہ کے درمیان یہی ایک امتیازی فرق بھی۔ اس لئے کہ مرثیہ محض کسی کی موت پر اظہار تاسف و تاثر کا نام ہے لیکن اس کے بر عکس کسی شخص کی موت پر آنسو بہانے اورسرو سینہ پیٹنے کا نام ہی نوحہ نہیں بلکہ ذات و کائنات کے انفرادی و اجتماعی دردو غم کے اظہار کا نام نوحہ ہے شاید اسی لئے حضرت حوأ کے ہجر میں حضرت آدمؑ کی آنکھوں سے نکلنے والا آنسو کا پہلا قطرہ فطرتِ انسانیت کاسب سے پہلا نوحہ قرار پایا۔ اللہ کے برگزیدہ نبی جناب عبد الغفار ؑ کی اپنی امت کی نجات اور ہدایت کی فکر میں مسلسل آہ وزاری و نوحہ خوانی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اپنے اس نبی کو ’’نوح ‘‘ کے اعزازی لقب سے یاد کیا۔ بالکل اسی طرح سے حضرت یوسفؑ کے فراق میں جناب یعقوب پیغمبر کی مسلسل نوحہ خوانی اور شدت گریہ سے ان کی آنکھوں کی پتلیوں کا سفید ہوجانایہ ایک نبیؐ کا مرثیہ نہیں بلکہ ایک مغموم و محزون باپ کا نوحہ تھا جوآج بھی تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے اور صبح قیامت تک ہرصاحبان دل سے دردو غم کا خراج وصول کرتا رہے گا۔

 ہمارے بیشتر محققین و نقاد مرثیہ کے جغرافیائی تمدن کا نقطہ اول عرب کے قبائلی تہذیب کو ہی قرار دیتے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کی تحقیقی دریافت کے مطابق۔

’’ عرب میں جو فارسی اور اردو شاعری کا سر چشمہ ہے، شاعری کی ابتدا مرثیہ سے ہوئی اور یہی ہونا چاہئے تھا عرب میں شاعری کی ابتدا بالکل فطرت کے اصول پر ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

(موازنۂ انیس ؔو دبیر ؔص ۳۸،مرتبین پروفیسر سید مجاور حسین رضوری؍ڈاکٹر سید علی حیدر)

لیکن اس کے برخلاف نوحہ کی جغرافیائی تاریخ کی دریافت جناب عیسی ؑ سے چار ہزار سے سال قبل ہوتی ہے۔ جیسا کہ سر جمیس جان فریزر اپنی کتاب ’’گولڈن باڈ‘‘ میں تحریر کرتا ہے۔

’’مقامی روایات کے بموجب جس کی پلوٹرچ بھی تائید کرتا ہے جب ایسس (isis) کو اپنے شوہر اوسائرس(osiris) کی لاش ملی تو وہ اپنی بہن نیفاطیس کے ساتھ لاش کے برابر بیٹھ گئی نوحہ و شیون کرنے لگی یہ بین بعد کے زمانے کے لئے متوفی کے لئے ایک عام نوحہ کی صورت اختیار کر گیا۔‘‘ ( مجلہ النجم کراچی، مضمون نگار افضال حسین نقوی’’مرثیہ اور انیس ‘،مطبوعہ نقوش لاہور دسمبر ۱۹۷۰ ء )

  یہاں پر محض نوحہ اور مرثیہ کی تاریخی قدمت پر بات کر نا مقصود نہیں ہے مسئلہ اس بات کا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جو نوحہ کے تاریخی استناد میں حارج ہوئے جس کی وجہ سے ہمارے محققین کہیں نہ کہیں نوحہ اور مرثیہ کی دریافت میں غیر شعور ی طور پرتحقیقی اشتباہ کے شکار ہوگئے جس کی وجہ سے نوحہ اپنی تاریخی شناخت اور ادبی وقار سے آج تک محروم رہا۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ محققین نے مرثیہ کی تاریخی استناد کی ترتیب و تنظیم کا کام مرثیہ کی لغوی یا اصطلاحی تعریف کی روشنی میں کم بلکہ انیسؔ ودبیرؔ جیسے قادر الکلام شاعر کی شاعرانہ مہارت اور مرثیہ کے عوامی مقبولیت سے مرعوب ہوکر کی ہے۔ جس کی وجہ سے نوحہ جیسی قدیم صنف سخن تحقیقی حق تلفی کا شکار ہوگئی۔ اس نقطہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس عہد کا جائزہ لیں جہاں سے ہماری اردو شاعری کا آغاز ہوا۔

ہماری اردو شاعری کاابتدائی منبع و ماخذ دکن ہے جہاں اردو کی شاعری اپنے قدوقامت کے ساتھ نمو پذیر ہوئی اس لئے دکن ہماری اردو شاعری کا مرجع اول قرار پایا۔

 شبلی ؔ ’’موازنہ انیس ؔو دبیر‘‘کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’ہندوستان میں شاعری کی ابتدا ولیؔ سے ہوئی ولیؔ نے اگر چہ کربلا کے حالات میں ایک خاص مثنوی لکھی لیکن اس کے کلام میں مرثیہ کا پتہ نہیں لگتا یہ معلوم نہیں کہ مرثیہ کی ابتدا کس نے کی لیکن اس قدر یقینی ہے کہ سوداؔ اور میرؔ سے پہلے مرثیہ کا رواج ہو چکاتھا۔ ‘‘

مسیح الزماں نے شبلیؔ کی اس تحقیق پر ایراد کیا ہے وہ کہتے ہیں :

’’ کربلا کے واقعات سے متعلق مثنوی ولی دیلوری کی ہے۔مولانا شبلیؔ کو تخلص ایک ہونے کی وجہ سے دھوکہ ہوا ہے۔‘‘

(موازنۂ انیس ؔ و دبیرؔ  مرتبین پروفیسر مجاور حسین ؍ ڈاکٹر سید علی حیدر،حاشیہ، ص۵۵ )

پروفیسر مجاور حسین کی مذکورہ کتاب کے اسی حاشیہ کا یہ اقتباس بھی قابل توجہ ہے :

’’دکن میں مرثیہ کا نقطہ آغاز حضرت شاہ اشرف بیابانی کی نوسر ہار ۱۵۰۳ ء ہے اس کے بعد حضر ت برہان الدین جانم کا نام نامی آیا ہے۔‘‘

سلطان محمد قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں، ان کے دیوان میں دیگر اصناف سخن کے ساتھ نوحے بھی درج ہیں۔ نوحہ گوئی کا یہ سلسلہ محض سلطان قلی قطب تک ہی نہیں تھا بلکہ یہ اشرف، وجہی، غواصی، نصرتی، نوری، شاہی، کاظم، مراز،مقیمی، ہاشمی وغیرہ نے بھی نوحے کہے ہیں۔ قلی قطب شاہی دور کا ایک اہم نوحہ نگاری شاعر وجہیؔ بھی ہے، جس نے اپنی مثنوی ’’قطب مشتری‘‘ کی وجہ سے کافی شہرت پائی،اور اس کی ایک نثری تصنیف ’’سب رَس ‘‘ بھی ہے۔ جس کو اردو نثر نگاری کا بہترین شہکار تصور کیا جاتا ہے۔اُس نے بھی نوحے کہے ہیں، اس کے نوحہ کے چند اشعار یہاں پیش کررہا ہوں۔

حسین کا غم کروں عزیزاں

انجو نین سوں جڑو عزیزاں

بنا جو   اول  ہے غم کا

عرش گگن ہور دھرت ہلایا

قضانے جوں جوں لکھیا ابھی

گریہ حسین پر ادھی سمایا

حسین  پو یاراں  درود  بھیجو

کہ دیں کا یوں دیوا جلا یا

تمہارے وجہی  کو  یا  اماماں

نہیں تمن بن یو اسکو سایا

 (دکن میں اردو:ص ۲۷۲)

  کمال کی بات تو یہ ہے ملا وجہی کے ان اشعار کو نصیر الدین ہاشمی اور سفارش حسین رضوی نے مرثیہ نہیں بلکہ نوحہ ہی قرار دیا ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ،قطب شاہی دور میں کربلاکےموضوعات پر کہے جانے والے بیشتر مبکیانہ اشعار کو نوحے کے ہی ضمن میں رکھا گیا ہے۔

دکن میں سترہویں صدی کے مشہور شعرانے نوحہ جیسی صنف پر باضابطہ طبع کامیاب طبع آزمائی فرمائی،اور انھوں کے کربلا کے شہیدوں سے متعلق متعدد نوحے بھی تخلیق کئے، جس سے قطی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ میں چاہتا ہوں یہاں کچھ شعرا کے کلام کو نقل کیا جائے تاکہ اردو ادب میں نوحہ کی تاریخ کے سلسلے سے کسی طرح کی تشکیک کی گنجائش باقی نہ رہے۔

علی ہور فاطمہ کا کرتے ہیں دونوں آج زاری بھی

 حسن کا ہور حسین کا ڈولہ لیا جگ پو خواری بھی

حسیناں جب چلے لڑنے سراں پر لگے پڑنے

 شہیداں ہر طرف چرنے لگیایو دوکھ پیاری بھی

عبداللہ قطب شاہ

شہ کے غم سوں دل ہے نالاں ہا ئے ہائے

 جگ برستے خوں ابھا لا ہائے ہائے

جگ کے سرور دل کے لہو سوں بھر چلے

 پھور کر پلکیاں کے بالا ہائے ہائے

علی عادل شاہ شاہیؔ

اے وائے ظالم کیوں دکھا ایسے جگر گوشیاں کیوں تس

جگ جگ جوانی پر غضب واجب کہا قہار کا

یو سر و بالا کاٹ سب خانداں کے باغ سیں

بہوائی لہو کہاں طوفاں اچیا احباء کا

تب فاطمہ زاری میں آبو لے جب کوئی یاں نہ ہوئے

اے وائے کن ما تم کرے اس سرور خوش رفتار کا

نصرتی بیجاپوری

الوداع اے الوداع شاہِ شہیداں الوداع

الوداع ابن علی دو جگ کے سلطاں الوداع

شاہِ دوعالم ہوئے مظلوم حیراں الوداع

یوچلے دنیائے فانی سوں عزیزاں الوداع

یوں شفق نیں ہے گگن پر صبح و شام اس درد سوں

 نت بھرادیں لہو منے دامن گریباں الوداع

(مرزاؔ ابو القاسم، ساکن گول کنڈہ :بحوالہ دکن میں اردو ص ۲۸۴)

دل بند مصطفیٰ کا تا بوت لے چلے ہیں

 فرزند مصطفیٰ کا تابوت لے چلے ہیں

سلطان دو جہاں کا سر دار اولیاء کا

 مظلوم کربلا کا تابوت لے چلے ہیں

حضرت کے تھے نوا سے حیدر کے تھے خلا صے

 میرے شہید پیاسے تابوت لے چلے ہیں

(سید میران ہاشمیؔ بیجاپوری بحوالہ: دکن میں اردو ص ۲۹۴)

ہائے غریب یتیم نمائے عابد تیری زاری ہے

باپ کا مرنا دکھ بھر ناتس پہ یو بیماری ہے

تیغ کھڑی لے دشمن سر پر داد بلاد کہ بھا ری ہے

 در دمصیبت عابد تم پر آج کے دن بسیاری ہے

کریں محصل سختی ایسی کہہ نہ سکیں دل کی بات

 چمکی بجلی گرجے بادل منہ کے رات اندھاری ہے

(شاہ قلی خاں شاہیؔ ساکن گولکنڈہ)

ان تاریخی دستاویزوں کی چھان بین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابتدائی عہد کے شعرا سے میرؔ و سوداؔ کے عہد تک کے شعرا کے وہ تما م رثائی کلام جو واقعات کربلا سے متعلق تھے اسے بغیر کسی منطقی نشاندہی کے مرثیہ کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے مرثیہ کی تاریخی شناخت اور نوحہ کی ادبی پہچان مشکوک سی ہوگئی اورجو تحقیقی اشتباہ مرثیہ کی ابتدائی دریافت کے دور میں غیر شعوری طور پر ہمارے ادب میں سرایت کرگئی تھی وہی آج ایک نفسیاتی الجھاؤاور تذبذبانہ رویہ کی شکل میں ظاہر ہوئی۔

شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ محققین نے مرثیہ کی دریافت کا عمل اوراس کی تحقیقی نشاندہی کو مرثیہ کے لغوی تعریف کی بنیاد پر انجام دی، جس کے سبب نوحہ اور مرثیہ میں التباس پیدا ہوگیا اور اس التباس میں بنیادی نقصان نوحہ کا ہوا جس کی وجہ سے نوحہ اپنی ادبی مرکزیت سے کٹ سے گیا۔ اس تحقیقی تسامح کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ نوحہ اور مرثیہ کا ان کی مروجہ تعریف کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔

مرثیہ کی لغوی تعریف:

مرثیہ عربی لفظ ہے اس کا مصدر رثا ہے جس کے لغوی معنی یہ ہیں ’’ مردے کی صفت، مردے کی تعریف،وہ نظم یا اشعار جن میں کسی شخص کی وفات یا شہادت کا حال اور مصیبتوں کا ذکر ہو‘‘۔(نور اللغات،ج ۴ ص۲۳۲)

مرثیہ وہ نظم ہے جس میں مردے کے اوصاف بیان کئے گئے ہوں یا وہ نظم جس میں شہدائے کربلا کے مصائب اور شہادت کا ذکرہو

( فیرورز اللغات اردو)

نوحہ کی تعریف:

نوحہ بھی مرثیہ کی طرح عربی لفظ ہے جس کے معنی صیحہ کرنے کے ہیں (یعنی بلند آواز سے گریہ کرنے کو کہتے ہیں )ماتم کرنا لاش پر چلا کر رونا۔

مرثیہ اور نوحہ اپنی ظاہر ی ساخت کی بنیاد پر دو الگ الگ لفظ ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود معنوی سطح پر دونوں کا مقصود ایک ہی ہے یعنی مردے کی لاش پر گریہ کرنا رونا چلانا سینہ کوبی کرنا وغیرہ

اب اگر اس تعریف کے تنا ظر میں غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے، کہ نوحہ اور مرثیہ کا استعمال محض لفظی مترادفات کے طور پر ہی نہیں ہوتا بلکہ اس میں معنوی تر ادف بھی پایا جاتا ہے۔ اب اگر ایسی صورت میں نوحہ اورمرثیہ کی مذکورہ تعریف کی بنیاد پر اس کے تاریخی تشخص کی بات کی جائے، تو اس میں کوئی امتیازی افتراق نہیں رہ جاتا۔لہذاایسی صورت میں مرثیہ کو نوحہ اور نوحہ کو مرثیہ کہا جائے تو اس سے انکار کا کوئی معقول جواز بھی نہیں رہ جاتا۔ لیکن اس کے موضوع کی بات کریں تو دونوں کا عمومی موضوع ایک ہے۔ اگر ہیت کے اعتبا رسے دیکھیں تو نوحہ اور مرثیہ کے درمیان ہیت کے اعتبار سے بھی کوئی امتیازی فرق نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر مرثیہ دو بیتی، مثلث، مربع، مخمس، اور مسدس کی ہیت میں کہے جاتے رہے ہیں تو نوحہ بھی مرثیہ کی طرح مثلث، مربع، مخمس اور مسدس کی شکل میں کہے گئے ہیں اور کہے بھی جارہے ہیں۔ مرثیہ اور نوحہ اپنی مجموعی کمیت و کیفیت کے اعتبار سے تو ایک ہیں لیکن نوحہ اور مرثیہ میں اگر کوئی امتیازی فرق ہے تو صرف اجزائے ترکیبی کاجسے ’’چہرہ‘‘ ’’گریز‘‘ ’’رخصت ‘‘آمد‘‘ جنگ‘‘ شہادت’’ اور بیان ِ مصائب وغیرہ یہی وہ چیز ہے جومرثیہ کو نوحہ سے ممیز کرتی ہے، اوریہ بہت بعد کی ایجاد ہے شاید میرؔ ضمیر جیسے استادِ سخن نے نوحہ اور مرثیہ کے درمیان ایک خط امتیاز پید اکرنے کے لئے مرثیہ کو ایک نئی شکل دی تھی میر ضمیر ؔ کے اس مجددانہ اقدام سے پہلے مرثیہ کا اپنا کوئی انفرادی وجود متعین نہیں تھا،جسے وثوق کے ساتھ مرثیہ کہا جاسکے۔لہذا اگر اس بنیاد پر ہم مرثیہ کو نوحہ کی توسیعی شکل کہیں تو یہی زیادہ مناسب اور معقو ل معلوم ہوتا ہے۔

پروفیسر ولی الحق انصاری فرنگی محلی کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’ہراندوہناک حادثہ پراظہار غم ایک فطری جذبہ ہوتا ہے جس کے اظہار کے مختلف طریقے ہوتے ہیں واقعۂ کربلاکے سلسلے میں بھی تقریباً عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں بھی ایسا ہی حزنیہ ادب ظہور میں آیاچنانچہ فارسی زبان میں شاہ تہماسپ صفوی کی ہمت افزائی سے ہفت بند نویسی وجود میں آئی۔ اردو زبان میں اس حزنیہ ادب کی ابتداء چار چار مصروں کے بندوں کے مرثیوں سے ہوئی۔ جنہوں نے بعد میں مسدس کی شکل اختیار کرلی ان مراثی کے علاوہ اس قسم کی ایک دوسری صنف ادب نوحوں کی شکل میں وجود میں آئی مرثیوں کے برخلاف نوحہ عموماً صرف جذبات دلی کے اظہار کا ذریعہ ہوتے ہیں اور اس حیثیت سے وہ زیادہ پرتاثیر ہوتے ہیں۔ مستزاد کی شکل میں کہے جانے والے نوحے خاص طریقہ سے پر تاثیر ہوتے ہیں۔ ‘‘(’’اشارہ ‘‘سہ ماہی نوحہ نمبر صفحہ 5)

یہ بات طے ہوگئی کہ مرثیہ کی ایک واحد شناخت اس کے عناصر ترکیبی ہیں دوسرا اس کا موضوع جو محض کربلا کے واقعات سے مختص ہوتا ہے لہذا اس سے ہٹ کر مرثیہ کا تصور ممکن نہیں۔ اس ضمن میں کچھ اہم دانشوروں کے نظریات ملاحظہ کریں۔

 ڈاکٹر وحید اختر کایہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

 ’’ مرثیہ اپنے لغوی معنی کے لحاظ سے اگر رثا کے مقصد کو پورا نہیں کرتا اور محض چند واقعات کا بیان انقلابی نعرے تک محدود رہتا ہے تو اسے مشکل سے مرثیہ کہا جاسکتا ہے ‘‘(جدید مرثیہ کے محرکات واسالیب)

جدید و قدیم کی اس بحث میں یہ بات دلچسپ ضرور ہے کہ قدیم مرثیہ کے مقابل جدید مرثیہ کی تمام تر جدت پسندانہ روایت بھی رونے رلانے اور حصول ثواب کے حصار سے باہر قدم نہ رکھ سکی اور ان دونوں کے درمیان اگر کوئی فاصلہ وضع کیا گیا تو محض ایک دنیاوی لاحقہ کا۔

مولانا الطاف حسین حالی کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ کریں۔

’’ مرثیہ کو صرف کربلا کے ساتھ مخصو ص کرنا اور تمام عمر اسی ایک مضمون کا دہراتے رہنا۔۔۔۔۔۔ شاعری کو محدود کرنا ہے۔‘‘(مقدمہ شعر و شاعری ص ۲۳۷)

پہلی بات تو یہ کہ مولانا کا یہ نظریہ کہ تمام عمر اسی ایک مضمون کا دہراتے رہنا شاعری کا محدود کرنا ہے۔ دراصل کربلا کی معنوی وسعتوں سے ناواقفیت پر دلیل ہے کربلا کا مضمون تمام کائنات انسانیت کی  سب سے اعلی ترین اخلاقی قدروں سے عبارت ہے جسے کے تسلسل اوراد سے نئے نئے مفاہیم و معنی کا جنم ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری شاعری کربلا کے اس آفاقی نصاب سے نوبہ نو علامات و استعارات وضع کرتی رہتی ہے۔

 اس ا قتباس سے مولانا کا نظریاتی منشور بالکل واضح اور روشن ہے جو اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ مولانا مرثیہ کے بنیادی اتصاف اور عمومی رجحان کوواقعات کربلاسے ہٹ کر مرثیہ کو ایک نئے عنوان سے متعارف کرانے کی ایک شعوری کوشش کر رہے تھے جس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے مولانا نے واقعات کربلا سے ہٹ کر مرثیہ کاایک نیا تعارف شخصی مرثیہ کے حوالے سے کیا  اورانھوں نے اپنے اس اقدام کے عملی جواز کے ثبوت میں اپنے ماسبق شعرا کی وہ تمام رثائی تخلیقات جواپنے ذاتی غم کے اظہار یا دوسرے حادثاتی واقعات اور سانحہ ارتحال سے متعلق تھیں اسے شخصی مرثیہ کے نام سے پیش کیں۔ مولانا کے اس اقدام سے ادب کا جو فائدہ ہوا اس سے بحث نہیں لیکن ایک نقصان ضرور ہوا کہ نوحہ  ایک بار پھر اپنی اصل شناخت سے محروم ہوگیا کتنا اچھا ہوتا کہ اگرشخصی مرثیہ کو شخصی مرثیہ کے بجائے شخصی نوحہ کہاجاتا۔

ہندوستان میں مرثیہ نگاروں نے ہندوستانی تہذیب و معاشرت، رسم ورواج اور عقیدت و اعتقاد کی زندہ تصویر یں پیش کی ہیں۔ کرداروں کا لب ولہجہ، نفسیات، حرکات وسکنات، محاورے، طرز تکلم، حفظ مراتب، طرز تخاطب ایسے رنگ پیش کیے ہیں کہ خالص عربی کردار سراسر ہندوستانی فضا کے چلتے پھرتے کردار نظر آتے ہیں۔ جدید مرثیہ نگاروں نے انہیں کرداروں کو عوام کے پیچیدہ مسائل سے ملا کر مرثیے کا موضوع کائنات گیر بنادیا جہاں مرثیے کے کردار عوام سے مخاطب نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس قدیم و جدید نوحے جن کو بینیہ و تبلیغی نوحے کہا جاتا ہے ہندوستانی معاشرت کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کرنے میں پیچھے نہیں رہے ہیں۔

 نوحہ کسی مخصوص ہیت کا پابند نہیں ہوتااور نہ کسی خاص واقعات و شخصیات کا نوحہ اپنے ذاتی جذبہ غم کے اظہار میں کسی مسلکی یا مذہبی رسوم و قیود کا پابند بھی نہیں ہوتا لہذا رثائی ادب میں دیگر اصناف سخن کی طرح نوحہ کو محض کربلا سے مخصوص کر کے نہیں دیکھنا چاہے اس لئے کہ نوحہ ہر انسان کے اپنی ذاتی غم و الم کے اظہار کا بھی نام ہے۔ وہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ انسان کربلا کے اس آفاقی غم کے مقابلے میں اپنے ذاتی غم کو کس طرح سےص دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ہے اگر وہ کربلا کے غم کو اپنے غم سے زیادہ عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اظہار کے لئے اسی کی ادبی اختصاص اور مذہبی جواز کی ضرورت نہیں ہے اور جہاں تک حصول ثواب کا مسئلہ ہے تو یہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ویسے بھی غم انسان کے اندر پائے جانے والے سب سے حساس جذبہ کا نام ہے اور اس کی معنویتی کائنات میں کافی وسعت پائی جاتی ہے اس لئے کہ گریہ و زاری کے تعلیقاتی عوامل انسانی زندگی کے مختلف شعبے پر محیط وبسیط ہوتے ہیں۔

  مرثیہ کے مقابلے میں نوحہ زیادہ تفصیل طلب موضوعات کا متحمل نہیں ہوتا اس لئے نوحہ کا آغاز نوحیت سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام بھی نوحییت پر ہی ہوتا ہے نوحہ کا ایک مخصوص دائرہ عمل ہے چونکہ انسان فطری طور پراپنے اظہار غم کے لئے کسی طرح کی فضا سازی اور ماحول آرائی کا اہتمام و انتظام نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر پیدا ہونے والی ہیجان انگریز المیاتی کرب کا برجستہ اظہار چاہتا ہے لہذا مرثیہ کی طرح نوحہ تمام ترتصنوعات اور تکلفات سے شعوری طور پر گریز کرتا ہے۔

  نوحہ کے بارے میں پروفیسر سید مہدی جعفر کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’نوحے کے تخلیقی آغاز ہی سے اختصار کی شکل میں ’نوحیت‘یعنی بین اور غم والم کا اثر انگیز برتاؤ مرثیے اور نوحے کی درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے۔ یہی اس کی فنی جہت ہے، شاعر کا کمال اس نقطہ عروج پر منحصر ہے کہ نوحہ سننے والے کا دل سنگین اور غمناک صورت گری سے تڑپ اٹھے۔ تخلیق کا ر کے لئے یہ جاں کاہ کوشش انگلیوں کو خونِ دل میں ڈبولینے کے مترادف ہے۔ ‘‘(ماخوذ از ’’سرخ دوپہر‘‘ص ۸)

 نوحہ گوئی کا فن نہایت ہی مشکل فن ہے اس میدان میں شاعر کو ایک مخصوص دائرہ کے اندر رہ کر  تخلیقی ہنرمندیوں اورمخصوص تکنیک کے ذریعہ اپنے اند ر پیدا ہونے والی ہیجان انگیز کرب کو اپنے جذبات میں تحلیل کرکے اپنی مخصوص لفظیات کے ذریعہ اس کی ترسیل کرتا ہے جس کا اثر اس کے سامع پر کچھ اس طرح ہوتا سے ہوتا ہے کہ وہ گریہ و زاری اور سینہ کوبی کے لئے مجبور ہوجاتا ہے۔

نوحہ سے متعلق بیشتر نقاد کا یہ اغلب رجحان ہے کہ نوحہ نسائی زبان میں جذبہ غم و اندوہ کے اظہار کا نام ہے۔ اس سے متعلق یہ اقتباس بہت اہمیت رکھتا ہے۔

’’لوگ خیال فرماتے ہیں کہ نوحہ تصنیف کرنا بہت آسان ہے، میرے نزدیک یہ زیادہ مشکل ہے کیونکہ عورتوں کی زبان میں جذبات شاعری اور حسن بندش کا خیال رکھنا اور محاورات کا محل پر صرف کرنا اور واقعات کربلا کو شریک کرنا مضمون کو ان الفاظ کے حوالے دینا جن لفظوں کی روشنی میں مطلب اور بھی واضح طور سے نظر آنے لگے کوئی سہل بات نہیں ‘‘۔(دولھا صاحب عروج، جوشِ ماتم، حصہ اول)

اس سے انکا رنہیں کیا جا سکتا کہ نوحہ گوئی میں نسائی جذبات کی نمائندگی مردوں کے مقابلے زیادہ ہوتی ہے اس کا ایک نفسیاتی اور طبیعاتی پہلو بھی ہے چونکہ عورتیں مردوں کے مقابلے زیادہ جذباتی اور حساس ہوتی ہیں لہذا غم و اندوہ ان کی طبیعت پر بہت جلد اثر انداز ہوتا ہے اور ایک عورت جتنی شدت کے ساتھ غم کو محسوس کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ جذباتی انداز سے اس کیفیت غم کا ظہار بھی کرتی ہے۔ مرثیہ کی طرح ہی ہندوستانی عورت کے جذبات کی یہ مختلف کیفیتیں  جو آپ نے مرثیوں میں پڑھیں ہیں وہ بعینہ نوحوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ عراق کی سرزمیں کربلا میں رونما ہونے والے واقعات کو اگر باریکی بینی سے دیکھیں گیں تو آپ یہ محسوس کریں گیں کے ایک ماں اپنے بچے کو میدان قتال میں بھیجنے کے لئے کس طرح تیار کرتی ہے اور کیا نصیحتیں کرتی ہیں یہ موضوع بہت ہی حساسیت سے عبارت ہے۔ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں جب کربلا کی کسی شہید کی ماں کے بیٹے کی لاش خیمے میں آتی ہے تو اس کے اظہار حزن و الم کا دردانگیز منظر کس طرح بیاں کرتی ہیں اس کو سننے کے بعد دل میں ایک عجیب کرب و الم انگیزیت کا احساس بیدار ہوتا ہے۔جو انسان کے اندرون کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔مجموعی طور پر کسی واقعہ کے جزیئات کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن کسی واقعہ کے اہم پہلووں کو نوحوں میں ضرور بیان کی جاسکتا ہے۔پروفیسر اطہر رضا بلگرامییہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’نوحوں کا ہندوستان ایک جامع، مکمل اور متحرک ہندوستان ہے جہاں آپ کو ایک طرف انیسؔ و دبیرؔ کا اودھ کی تہذیب و معاشرت میں رچا بسا ہندوستان نظر آئے گا تو دوسری طرف گنگا جمنا ہمالیہ، کھیت کھلیان، ندیوں، باغوں وفصلوں کو سمیٹے ہوئے ہندوستان ملے گا۔ یہاں اگر ایک طرف حفظ مراتب، طرز تخاطب کی تہذیب ہے تو دوسری طرف سادھو، سنتوں اورصوفیوں کے اپدیش بھی ہیں۔ یہاں کہیں سنت کبیرکی آواز اور میرا ؔ کے بھجن گونجتے ہیں تو دوسری طرف انقلاب وللکار بھی سنائی دیتی ہے۔۱۹۴۱ ء میں حسینی یادگار کمیٹی نے تبلیغ حسینی کے سلسلے میں جو ملک گیر کارہائے نمایاں انجام دیئے ان میں سب سے اہم کام واقعہ کربلا اور حسینی پیغام کو ہندوستانی عوام تک پہونچانا تھا۔چونکہ نوحہ کسی مخصوص طبقے سے نہیں عوام سے مخاطب تھا اس لئے وہ انہیں کی زبان ولب ولہجہ میں مخاطب ہوا۔ انہیں کی رسم ورواج واعتقادات کا نمائندہ بنا اور انہیں کے جذبات کی عکاسی کرتا ملا۔ اس لئے نوحوں نے مقامی زبان ولب و لہجہ کو اپنایا۔انہیں کے زبان زد محاورے استعمال کئے اور اس وقت کے مقبول ومعروف عوامی شعراء مثلاً اکبر ؔالہ آبادی، اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا سہارا لیا۔سنت کبیرؔ، تلسی داس، میرابائی کے مقبول عام کلام کا رنگ اپنایا اور اقبال کی ہر دل عزیز نغموں کا چولا پہنا۔انیسؔو دبیرؔ اور ان کے معاصرین نے اپنے مرثیوں میں کبھی عوام کی نمائندگی نہیں کی۔کبھی ہندوستانی عوام کو مخاطب نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج گجراتی، کشمیری، ڈونگری،سندھی، پنجابی اور مختلف شمالی ہندوستان کی زبانوں میں نوحے تو بہت مل جائیں گے جو اپنے اپنے علاقوں میں مقبول ہیں لیکن مرثیوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اور جو ہیں بھی وہ اتنے مقبول عام نہیں۔ مرثیوں کے مقابلے میں نوحوں کا ہندوستان بہت جامع، وسیع اور بہت منفرد اور متحرک نظر آتا  ہے

’’ نوحہ رثائی ادب کا اہم ستون اورقومی یکجہتی کا آئینہ‘‘

یہ بات بالکل درست ہے کہ نوحہ گوئی دماغ سوزی سے زیادہ جگر سوزی کا کام ہے جیسا کہ امید فاضلی تحریر کرتے ہیں۔

 ’’ صنف نوحہ گوئی ایک مشکل صنف سخن ہے۔ اس میں شاعر کو اپنا پتہ پانی کر پڑتا ہے تب کہیں جاکر وہ کسی کی آنکھ سے آنسو او ر دل سے آہ نکلوا سکتا ہے ‘‘(مجلہ ’’ایک آنسو میں کربلا‘‘اسلام آباد)

اردو میں نوحہ کا آغاز دکن سے ہی ہوا ہے، ولی دکنی کے کلام میں رثائی کلام پائے جاتے ہیں، لیکن مرثیہ کی تاریخ کے محققین اور مولفین نے ان کے اس رثائی کلام کو مرثیہ کے ہی زمرے میں رکھا ہے جب کہ میرے نظریہ کے مطابق یہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ مرثیہ کے محققین نے دکن کے شعرا کے جن کلام کو مرثیہ سے تعبیر کیا ہے دراصل وہ مرثیہ نہیں نوحہ ہی ہے چونکہ ان کلام کو اگر موجودہ رثائی ادب کی صنف نوحہ سے تقابلی جائزہ کریں گے تو وہ نوحہ کے تمام تلازمات کی ہی عکاسی کرتے ہیں لیکن بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ مرثیہ کی ہیت میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور معاصر عہد میں مرثیہ کے تلازمات اور اس کے ہیت متعین ہوچکی ہے، لہذا اس بنیاد پر ان تمام کلام کو جو ابتدائے اردو عہد کی اساسی دور میں جسے مرثیہ سے تعبیر کیا وہ دراصل نوحہ ہی ہے۔ محققین مرثیہ نے، مرثیہ کے باضابطہ جس عہد کی نشاندہی کی ہے وہ 1503عیسوی میں شاہ اشرف بیابانی کی’’ نوسرہار‘‘ میں موجود رثائی کلام کو مرثیہ کہا ہے اور برہان الدین جانم کے کلام کو بھی مرثیہ کہا ہے،حالانکہ وہ مرثیہ نہیں نوحہ ہے۔اسی طرح سے مرزا برہانپوری اور ہاشمی وغیرہ نے بھی بڑے پر اثر نوحہ تخلیق کئے ہیں۔ لیکن ان سب میں قلی قطب شاہ (۹۷۳ھ تا ۱۰۲۰ھ)کو ان تمام نوحہ گو شعرا کا سرخیل کہا جاتا ہے۔لیکن نصیر الدین ہاشمی نے اس بات کااعتراف کیا ہے کہ ’’شیخ اشرف‘‘ نے ’’دہ مجلس‘‘ کے عنوان سے ایک بہت ہی مفصل نظم لکھی ہے جس میں 1800؍اشعار موجود ہیں، ان اشعار میں بڑے تفصیل کے ساتھ واقعات کربلا کو نظم کیا گیا، مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں۔

دوجگ اماماں دکھ تھے سب جیو کر تے زاری وائے وائے

تن روں کی لکڑیاں جال کر کرتی ہیں خواری وائے وائے

ساتوگگن آٹھو جنت، ساتو دریا، ساتو دھرت

ایکس تھے ایک آپس میں آپ دکہ کرتے کاری وائے وائے

(دکن میں اردو :ص ۲۷۳)

لیکن جب ہم تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو بیشتر محققین و مولفین مرثیہ کی اصل تاریخ کو لے کر تذبذنہ رویہ کے شکار نظر آتے ہیں، اس لئے کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’ہندوستان میں شاعری کی ابتدا ولی ؔسے ہوئی ولیؔنے اگرچہ کربلا کے حالات میں ایک خاص مثنوی لکھی لیکن اس کے کلام میں مرثیہ کا پتہ نہیں لگتا یہ معلوم نہیں کہ مرثیہ کی ابتدا کس نے کی۔۔۔۔‘‘

اس اقتباس سے آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ مرثیہ کی تاریخ کی دریافت میں کوئی یقینی امکان کی صورت نظر نہیں آتی۔لیکن نوحہ کی باضابطہ تاریخ اردو شاعری کے ابتدائی نقوش میں بہت واضح دکھائی دیتی ہے۔لہذا ابتدائے اردو شاعری کو نوحہ کی ابتدائی تاریخ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔اسی طرح سے جیسے جیسے اردو زبان اپنے مرحلہ وار ارتقائی سفر طے کرتی رہی اسی طرح نوحہ بھی مرحلہ وار اپنی تاریخ امکان کی پیش روی کے امکانی صورت میں اپنا سفر طے کرتا رہا۔اور یہ سلسلہ محض اردو زبان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عربی زبان میں بھی نوحہ اسی طرح غیر افہامی صورت میں اپنا سفر طے کرتا رہا۔لیکن فارسی زبان میں اردو زبان ہی کی طرح نوحہ غیر مجہول تحقیقی رویہ کا شکار رہا ہے، اور جو اشعار فارسی میں کربلا کے عنوان سے کہے گئے رثائی اشعار بغیر کسی تحقیقی امتیاز کے مرثیہ کے ضمن میں ہی رکھا گیا۔

فارسی ادب کی تاریخ بہت قدیم ہے، جس کا تفصیلی ذکر موضوع کی نزاکت کے منافی ہے۔ لیکن فارسی ادب میں نوحہ کے ارتقا کا اہم دور مامون رشید کے عہد کے اس زمانے کو تصور کیا جاتا ہے جب مامون رشید نے خراسان کی زمام حکومت 205 ہجری میں ایران کی ’’طاہریہ ‘‘خاندان کے سپرد کی یہ وہ دور تھا جب فارسی زبان وادب کا ارتقائی دور تصور کیا جاتا ہے، اسی عہد میں باضابطہ خانوادہ رعصمت و طہارت کی مدح و ستائش کو فارسی شاعری کا ایک اہم حصہ تصور کیا جانے لگا۔لہذا ایسے حالات میں کربلا کے واقعات کے اظہار میں شاعروں نے بڑے فراخ دلی کا مظاہر کیا، اور یہیں سے نوحہ گوئی اور نوحہ خوانی کوعمومی حیثیت حاصل ہوئی۔

اور فارسی کے بیشترشعرا نے اس صنف میں طبع آزمائی کی یہاں تک مولانا روم کی مشہور زمانہ مثنوی کا دیوان ’’شمس تبریز‘‘ میں کچھ اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جسے نوحہ کے ضمن میں رکھا جاسکتا ہے وہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

کجائید ای شہیدان خدائی

بلا جویان دشت کربلائی

اے شہیدان راہ خدا تم کہاں ہو،اے کربلا کے میدان میں مصیبتوں کو متلاشی کہاں ہو

کجائید ای سبک روحان عاشق

پرندہ تر زمرغان ہوائی

اے آسمان میں اڑنے والے پرندوں سے زیادہ سبک رو، روحوں تم کہاں ہو۔؟

کجائید ای شہان آسمانی

بدانستہ فلک را در کشائی

اے آسمانوں کے راستوں کو کھولنے والے، آسمان کے بادشاہوں تم کہاں ہو۔؟

کجائید ای در زندان شکستہ

بدا دہ و مداران رہائی

 اے شکستہ زندانوں کے رہائش پذیروں تم کہاں ہو۔؟

کجائید ای در مخزن گشادہ

کجائید ای نوای بی نوائی

اے ہر ایک پر عیاں ہونے والے خزانوں کے در، اے بے نواؤں کی بے نوائی کرنے والے تم کہاں ہو۔؟

فارسی ادب میں مرثیہ کو لے کر محققین میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے ’’شعرا لعجم‘‘ میں سب سے پہلا مرثیہ گو ملا محتشم کاشانی کوبتایا ہے۔ لیکن پروفیسر مسعود حسن رضوی نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق فارسی کا سب سے پہلا مرثیہ گو شاعر ’’آذری‘‘ ہے۔لیکن میں ان محققین کی راے سے اتفاق نہیں رکھتا۔اس لئے کہ پروفیسر مسعود حسن رضوی نے ’’آذری‘‘ کی انتقال کی تاریخ 886 ھجری لکھی ہےجوسن عیسوی کے اعتبار سے 1461ہوتی ہے، اور ملا محتشم کاشانی کی کا دور 1527 عیسوی ہے، لیکن مولانا روم کی تاریخ 30 ستمبر سے 1207  سے 17 ؍ دسمبر 1273 ہے۔ لہذا اس اعتبار سے سب سے پہلے کربلا کے واقعات سے متعلق جو اشعار کہے ہیں وہ مولانا روم ہیں۔ لیکن مولانا روم اور آذری کے مقابلے میں کربلا کے واقعات کے حوالے سے شعر گوئی میں ملا محتشم کاشانی کو زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔چونکہ ان کے ہفت بند کوجو شہرت ملی وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔لیکن بیشتر محققین نے ملا محتشم کاشانی کے دوازدہ بند کو مرثیہ ہی لکھا ہے۔ یہ وہی تسامح ہے جو اردو شاعری میں مرثیہ گوئی کی تاریخ کی دریافت میں واقع ہوا ہے۔جس کی وجہ سے نوحہ کی تاریخ سے محققین نے پس اندازی کا رویہ اختیار کیا ہے۔میں یہاں پر ملا محتشم کاشانی کے دوازدہ بند کے کچھ بند یہاں پیش کررہا ہوں کہ آپ اس کے اسلوب نگارش کا باریک بینی سے تجزیہ کریں، تاکہ اس میں وہ تمام لوازم موجود ہیں جو ایک ـ’’نوحے‘‘ کے اندر ہونے چاہیں۔

(۱)

باز این چه شورش است که در خلق عالم است

باز این چه نوحه و چه عزا و چه ماتم است

خلق عالم یہ کیسا شور وطلاطم برپا ہے، اور مخلوق خدا کسے غم میں نوحہ کناں اور مصروف سینہ زنی ہے۔

باز این چه رستخیز عظیم است کز زمین

بی نفخ صور خاسته تا عرش اعظم است

آخر یہ کیسی قیامت بپا ہے، اور کس نے صور اسرافیل پھونک دیا ہے جس کہ وجہ سے زمین سے عرش آعظم تک ایک قیامت کا منظر ہے۔

این صبح تیره باز دمید از کجا کزو

کار جهان و خلق جهان جمله در هم است

اندھیروں سے خوف زدہ صبح پھر  کہاں سے آگئی,جس کی وجہ سے کاروبار دنیا اور نظام جہاں درہم برہم ہوگیا۔

گویا طلوع می‌کند از مغرب آفتاب

کاشوب در تمامی ذرات عالم است

ایسا لگتا ہے کہ سورج مشرق سے نہیں مغرب سے طلوع ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے تمام عالم کے ذرات میں بے چینی و اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔

گر خوانمش قیامت دنیا بعید نیست

این رستخیز عام که نامش محرم است

اگر اسے عمومی طور محرم قیامت کہا جائے تو یہ غلط نہیں ہوگا، اس لئے کہ اب اس دنیا سے قیامت دور نہیں

در بارگاه قدس که جای ملال نیست

سرهای قدسیان همه بر زانوی غم است

عالم قدس میں غم کی کوئی جگہ نہیں ہے۔لیکن وہاں بھی تمام قدسیان غم کی وجہ سے سربہ زانو ہیں۔

جن و ملک بر آدمیان نوحه می‌کنند

گویا عزای اشرف اولاد آدم است

تمام لوگوں کے ساتھ جن و ملک بھی نوحہ کناں ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ عزا و غم اولاد آدم کے لئے سب شرف کی بات ہے۔

خورشید آسمان و زمین نور مشرقین

پروردهٔ کنار رسول خدا حسین

یہ آسمان پر چمکتا ہوا سورج جس کی روشنی مغرب و مشرق میں پھیلی ہوئی ہے وہ بھی نواسہ روسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے  نواسے حسین کے گود کے پالے کی وجہ سے ہے۔

(۲)

کشتی شکست خوردهٔ طوفان کربلا

در خاک و خون طپیده میدان کربلا

  کشتی (اسلام ) کربلا میں ہونے والے غم و اندوہ کے طوفان سے شکستہ ہوگئی، اور کربلا کے خاک و خون میں ڈوب گئی۔

گر چشم روزگار بر او زار می‌گریست

خون می‌گذشت از سر ایوان کربلا

اگر زمانے کی آنکھیں اُن پر مسلسل گریاں ہوتیں تو، ایوان کربلا خون میں ڈوب جاتا۔

نگرفت دست دهر گلابی به غیر اشک

زآن گل که شد شکفته به بستان کربلا

زمانے کے ہاتھوں میں کوئی ایسا گلاب نہیں آیا جو کربلا کے گلستان میں، کھلا اور آنسو سے تر نہ ھو)

از آب هم مضایقه کردند کوفیان

خوش داشتند حرمت مهمان کربلا

کو فیوں نے کربلا کے مہمانوں کی کیا خوب مہمان نوازی اور احترام کیا، کہ انھیں پینے تک کے لئے پانی بھی نہ دیا۔

بودند دیو و دد همه سیراب و می‌مکید

خاتم ز قحط آب سلیمان کربلا

لیکن کربلا کے اُس سلیمان کی انگھوٹی خود تو پانی کے قحط میں مبتلا رہی لیکن اس کے باوجود چرند و پرند سب کے سب سیراب ہوتے رہے۔

زان تشنگان هنوز به عیوق می‌رسد

فریاد العطش ز بیابان کربلا

آج بھی اُن تشنہ لبوں کی العطش کی فریاد سے کربلا کے  بیابان کی فضائیں گونج رہی ہیں۔

آه از دمی که لشگر اعدا نکرد شرم

کردند رو به خیمهٔ سلطان کربلا

واے ہو دشمنوں کے اُس لشکر پر کہ انھیں اس وقت شرم نہیں کہ جب انھوں نے سلطان کربلا کے خیمہ کو جلادیا۔

آن دم فلک بر آتش غیرت سپند شد

کز خوف خصم در حرم افغان بلند شد

’’اس وقت  آتش غیرت سے  آسمان کا چہرا متغیر ہوگیا، جب خوف و ہراس کے عالم میں اہل حرم نے آہ فغاں کی۔‘‘

 ملا محتشم کاشانی کے یہ اشعار نوحیت سے بھر پور ہیں جس کو پڑھنے کے بعد ایک حساس دل ان اشعار کی دلگدازی اور دردانگیزی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا،ان اشعار میں نوحہ کے تمام معنوی تلازمات پائے جاتے ہیں۔ یہ بات اپنے جواز میں منطقی استدلال رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نوحہ عربی زبان کے علاوہ اردوپشتو، ہندی، گجراتی، مراٹھی، کشمیری،پنجابی، تلگو، تامل، بنگالی، بھوجپوری اودھی، ملیالی اور ہندوستان کی دیگر مشرقی زبانوں کے علاوہ فارسی میں بھی کثرت سے نوحے کہے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ مغربی زبانوں میں بھی انگریزی، فرانسیسی اور جاپانی زبان میں بھی نوحے کہے گئے ہیں۔ ہندوستان میں نوحہ کا تعلق عمومی طو رپر نسائی جذباتی کی عکاسی  کرنے کو کہتے ہیں۔ شوکت بلگرامی نے رثائی ادب کی اس صنف سخن کے سلسلے سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے۔

’’ اگر چہ بظا ہر نوحوں میں ایسی بات نہیں معلوم ہوتی جس میں شاعر اپنا زور طبیعت دکھا ئے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ آخر آخر میں جب میں نے نوحوں کو توجہ سے دیکھا تو معلو م ہوا کہ وہ ایک مختصر اور مسلسل نظم ہونے کی حیثیت سے اظہار خیال کا نہایت عمدہ ذریعہ ہیں۔ دوسرے عورتوں کی زبان جو شاعری کی جان ہے، اردو میں ریختی گو شعرا کی عنایت سے اس قابل نہیں رہی تھی کہ ثقات اسمیں زور طبیعت دکھا ئیں مگر نوحوں کا میدان بھی اس کے لئے کھلا پڑا ہے جس میں ہم بے تکلف اپنی طبیعت کی جولانیاں دکھا سکتے ہیں ‘‘۔ (جام شہادت: شوکتؔ بلگرامی: مطبع اثنا عشری دہلی: ۱۳۲۶ھ ص ۶۔۵)

رثائی ادب میں نوحہ میں آہ و بکا کے ساتھ اپنے اندرون کرب کا اظہار کرنا بہت ہی اہم ہوتا ہے، بغیر رثائی کیفیت کے نوحہ، نوحہ نہیں کہلا سکتا۔اور اس میں بھی زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔اس ضمن میں پر وفیسر محمد کمال الدین ہمدانی کم یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’دیگر اصناف سخن کی طرح نوحہ میں بھی زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اور اردو زبان کی ترقی کے ساتھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ ابتدا میں نوحہ صرف بینیہ اشعار تک محدود رہا اور نوحہ کی زبان بھی بالکل ابتدائی اور سادہ تھی۔ ہندی الفاظ کی آمیزش بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ ہاشم علی برہانوی کے نوحوں کے دیکھنے سے واضح ہوتا ہے جو علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے ایک ادبی مقالے میں پیش کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو ’’نقوش سلیمانی‘‘ اس دور کے بعد زبان،طرز معاشرت اور طرز فکر کے بدلتے ہوئے انداز کے ساتھ نوحہ گوئی کا انداز بھی تبدیل ہوتا رہا دیگر اصناف سخن، خصوصاً مرثیہ کی طرح نوحہ میں بھی وسعت فکراثر انداز ہوئی اور نوحہ میں زبان کی فصاحت و بلاغت اور الفاظ کی شان و شوکت کے اہتمام کے ساتھ نئے نئے مضامین نوحوں میں شامل کئے گئے۔ ‘‘

(نجم آفندی کے نوحے: پروفیسر محمد کمال الدین ہمدانی مشمولہ کائنات نجم (حصہ دوم )  مرتبہ ڈاکٹر تقی عابدی: ص ۱۲۱۱)

نوحہ سے متعلق بہت سے غلط فہمیاں لوگوں کے درمیان شکوک کی بنیاد پر راسخ ہوگئیں ہیں مثلا نوحہ کو مسلکی زمرہ بندی کے تحت اس پر استراد ی جواز قائم کرنا، حالانکہ کی یہ کسی صورت میں درست نہیں ہے، اس لئے کہ یہ  رثائی صنف سخن کسی ایک مسلک سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس صنف سخن کے ندام سرنوشت میں گنگاجمنی تہذیب اور مختلف تہذیب و ثقافت کی اساسی وراثت سے متصف ہے۔ناکہ کسی خاص نظریہ کے تحت اس صنف سخن کی کفالت کسی والی ریاست اوراور روسا و امرا نے کی ہے۔ بلکہ یہ ایک عوامی عقائد سے انسلاک رکھنے والی صنف سخن ہے۔ جس کی بنیاد پر اس صنف سخن پر بغیر مذہب و ملت کی قید کے مختلف عقائد و نظریات رکھنے والوں نے نوحے کہے ہیں۔

’’تیسری صدی کے اواخر تک عربی میں جو مراثی لکھے گئے ان کی زبان سادہ اور انداز جذباتی ہے۔یہ مراثی ہماری اصطلا ح کے مطابق ’’ماتم‘‘یا ’’واقعہ‘‘کہے جائیں گے۔ اس لئے کہ ان میں شاعر نے واقعہ شہادت پر اپنے تأثرات نظم کئے ہیں۔ ‘‘(دبستان دبیر، ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی۔ص۔۴۰۱)

’’اردو کا رثائی ادب صرف دکن اور لکھنؤ کے فرمانرواؤں کا رہین منت ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ شیعہ اور بعض غیر شیعہ حکومتوں نے وقتی ہمت افزائی کی ہے اور اس ہمت افزائی کی بدولت ان ادوار میں رثائی ادب کا خاطر خواہ ذخیرہ سامنے آیا ہے لیکن یہ سچا ئی بھی شک و شبہ سے بلند ہے کہ رثا ئی ادب کی اصل سر پرستی عوام اور متوسط طبقات نے کی ہے۔ والی حکومت کا مذہب کچھ بھی کیوں نہ رہا ہو۔رثائی ادب کے تخلیق کاروں میں شیعوں ہی کی طرح اہل سنت بھی بلکہ بعض اوقات شیعوں سے بھی زیاہ فعال نظر آتے ہیں۔ اسے گنگا جمنی بنا نے کے لئے کچھ خوش عقیدہ ہندو بھی نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ ان رثائی تخلیق کاروں کے کارواں کو آگے بڑھانے میں حکومتوں سے زیادہ صوفیائے کرام دکھا ئی دیتے ہیں جن میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ، سید اشرف ؒ جہانگیر سمنانی چشتی، خواجہ نظام الدؒین اولیاء کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ ‘‘

ڈاکٹر عابد حیدری ’’نوحہ کا ارتقائی سفر‘‘

نوحہ اور مرثیہ میں ایک امتیازی فرق واضح کرتے ہوئے، مولانا مرتضیٰ حسین فاضل نےبھی یہ بات تحریری کی ہے۔

’’اگر کوئی المیہ نظم لکھی جائے یا عام طریقے سے پڑھی جائے تو مرثیہ اور اگر فریاد و بکا کے ساتھ مخصوص مجمع میں پڑھی جا ئے تو نوحہ ‘‘۔ (نظارہ،ابو الفضل العباس نمبر:لکھنو : ۱۴؍جون ۱۹۶۱ء )

فی الحال مضمون کی طوالت کے پیش نظر اس بحث کو عرفیؔکے اس قول پرختم کرتا ہوں۔

’’نعت ومنقبت کی طرح نوحہ گوئی میں شاعر کو تلوار کی دھا ر پر قدم رکھنے کے مترادف ہے‘‘

اب اس کے بعد اگر مجھ سے کوئی یہ پوچھے کہ نوحہ کیا ہے ؟ تو میں اسے اپنا یہ شعر ضرور سناؤں گا

سن کسی ٹوٹے ہوئے دل کا وہ نوحہ تو نہیں

نغمۂ گل کہ جسے بادِ صبا لکھتی ہے

تبصرے بند ہیں۔