رِم جِھم برسات

شیما نظیر

بچپن میں جب برسات کا موسم آتا دھواں دار بارش ہوتی تو اسبسطاس کی نالیوں سے گرتے پانی کو دیکھ کر کتنا خوش ہوتے پھر ایک مقام سے لگاتار زیادہ مقدار میں گرنے والے پانی سے بنے گڑھے میں بھیگتے ہوئے جاکر کاغذ کی کشتی چھوڑ آتے اور ایک لکڑی کی مدد سے اسے پانی میں تیرنے مین مدد کرتے کیا دن تھے… وہ برسات کا موسم اسلیئے بھی اچھا لگتا…..کہ کئی کئی دن کی لگاتار بارش کی وجہ سے اسکول ناغہ ہوتا اور گھر میں بھی اچھے اچھے پکوان بنت

اور جوانی کےدنوں میں برسات آتا تو بارش میں بھیگنے کا اپنا مزہ ہی الگ ہوتاکسی نا کسی بہانے آنگن میں پہنچ جاتے اور جب بھیگ جاتے تو یوکلپٹس کے درخت پر بندھے جھولے کا مزہ لیتے واقعی رم جھم برسات برستے پانی کڑکتی بجلی اور گرجتے بادل بہت خوب نظارا ہوتا تھا جب بارش تھم جاتی تو چہار سو ہرا بھرا نظر آتا خود کا آنگن نیا نیا لگتا سارے درخت’ گملے’ہریالی سب اچھی لگتی

لیکن کبھی کبھی رجو انٹی کو بھی میں نے چھپ چھپ کے روتے دیکھا مانو انکی آنکھوں سے رم جھم برسات ہوتی ہو

اور پوچھنے پر وہ کبھی کچھ نہی بتاتیں یہاں تک کہ ہم باشعور ہوگئے اب ہم کالج جانے لگے تھے ……..ایک روز کالج سے آئے کمرہ میں لباس تبدیل کرنے گئے وہاں پھر رجو آنٹی کو اسی حال میں دیکھا ……

چپ چاپ کمرہ سے باہر نکل گئے

رجو آنٹی میری پھوپی تھیں

میں ان سے اور وہ مجھ سے بہت زیادہ قریب تھیں رازدار تھیں

کئی بار چھپ چھپ کے روتے انھیں دیکھ چکی تھی لیکن اسکا راز معلوم نہ تھا….

خیر ایک دن میں گھر آئی تو پتا چلا کہ رجو انٹی پھوپا کے گھر واپس جانے والی ہیں

کل پھوپا آئیں گے رجو انٹی کو لینے……..

حیرت سے میرا منہ کھلا رہ گیا

رجو آنٹی مانی کیسے

اس رات میں نے ٹھان لی ان سے بات کرکے رہونگی…

جب بات کی تب پتہ چلا کیا کیا سہا ہے انھوں نے زندگی میں

انکی شادی جب ہوئی تھی جب میں بہت چھوٹی تھی وہ سالار پھوپا کے ساتھ بڑی خوش تھیں لیکن شادی کے کچھ سال گذرنے کے بعد آہستہ آہستہ انکی خوشی کافور ہوتی چلی گئی جب معلوم ہوا کہ سالار پھوپا نے دوسری شادی کرلی کیونکہ رجو آنٹی کو بچے نہیں ہوپائے اور انکی ساس نے کچھ علاج کروایا تو پتہ چلا کہ یہ کبھی ماں نہی بن سکتیں

بس پھر کیا تھا رجو آنٹی پر سسرال کی طرف سے ظلم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے ادھر ماں بھی گزر گئیں دو بھابیاں ایک ہی گھر میں رہتی تھی میری امی بڑی بھابی اور میری چاچی چھوٹی بھابی

دونوں نے انکے حالات سننا تک گوارہ نہ کیا

اسی بیچ ایک مرتبہ پپا انکی سسرال چلے گئے اور رجو انٹی کی اتنی بری درگت دیکھی تو انھیں اپنے ساتھ لے آئے جبکہ پھوپا نے شراب پینا شروع کردیا اور دوسری بیوی کو بھی گھر لے آئے تھے رجو انٹی کو خادمہ بنا کے رکھا تھا

کوئی ایسی تکلیف نہ تھی جو وہ رجو انٹی کو نہ دیتے لیکن رجو انٹی کہتیں کس سے بھابیوں نے تو صاف منع کردیا تھا ..کہ دیکھو رجو تمھارے گھر کے حالات ہیں تم جانو اور نبھانا سیکھو

اسکے بعد پاپا انھیں گھر لے آئے تھے

پھوپا بار بار آتے رہے پر رجو انٹی نہی گئیں

پر آج اچانک رجو انٹی کیسے مان گئیں

میں اب تک غرقِ حیرت تھی…..

لیکن رجو انٹی نے کچھ نہی بتایا اور اسی رم جھم برسات کو مقدر کے دامن میں سمیٹے ہوئے نفرت کرنے کے باوجود سالار پھوپا کے ساتھ چلی گئیں جاتے وقت میں ان سے لپٹ کر بہت روئی تھی.

رجو انٹی کیا گئیں ہمارا گھر سونا سونا ہوگیا

میرا گریجویشن ختم ہوا اسی سال ارمان سے میرا نکاح بڑی دھوم دھام سے طئے پایا

اور میری ودائی مین رجو انٹی مجھ سے لپٹ کر بہت روئی لگتا تھا اب انکی آنکھیں اس رم.جھم  سے خالی ہوجائیں گی.

کچھ دن تک میں سسرال رہی ایک روز میکہ آرہی تھی کچھ روز  رہنے کیلئے تو پاپا سے کہا کہ پاپا رجو آنٹی کو بھی لالیجئے نا پھر میں دبئی چلی گئی تو ان سے ملنا مشکل ہوجائے گا

پاپا انھیں بھی لے آئے

اس دن میں نے ٹھان لیا تھا کہ آج تو رجو انٹی سے انکی واپسی کا راز معلوم کرکے رہونگی…….

پھر جو کچھ رجو انٹی نے بتایا میرے ہوش اڑادینے کیلئے کافی تھا…

میرے لیئے پہلی بار ارمان ہی کا رشتہ آیا تھا مگر ممی یہ چاہتی تھی کہ میں رجو انٹی سے اتنا زیادہ گھل مل گئی کہ کل کو میں بھی اپنی شادی کو توڑ کر گھر آکر نہ بیٹھ جاؤں ……اسی سوچ کے تحت امی نے اس دن سے رجو انٹی اور پپا کو تنگ کرنا شروع کردیا اور رجو انٹی کو پھوپا کے گھر جانے کےلیئے تنگ کرنے لگیں کیونکہ وہ نہی چاہتی تھین کہ میں بھی ایسا کوئی قدم اٹھاؤں

اس بات کو سن سن کر رجو انٹی جو پھوپا سے نفرت کرتی تھیں صرف اور صرف میرے لیئے اس گھر میں جسمیں وہ کبھی جانا نہی چاہتی تھیں دوبارہ جانے پر مجبور ہوگئی…….

میری آنکھیں انگارہ ابل رہی تھیں .

مجھے امی اس وقت زہر لگ رہی تھیں رجو انٹی سے بظاہر محبت کا ڈھونگ کرنے والی یہ خاتون کیسے اپنی اولاد کیلئے دوسروں کا برا بھی چاہ سکتی ہے؟؟

میں یقین نہ کرسکی

لیکن کسی سے کچھ نہی کہا رجو انٹی کے سامنے میں بہت چھوٹی محسوس ہورہی تھی خود کو

اور جب میں کچھ دن بعد باہر جارہی تھی تب ممی سے گلے لگی تو وہ زار و قطار رو رہی تھیں میں نے ان سے کہا کہ آپ کتنا بھی رو لیں کم ہے آپ نے اپنی بیٹی کی زندگی بنانے کیلئے رجو انٹی کو پھوپا کے پاس واپس جانے پر مجبور کیا انکے سکون کو غارت کردیا ممی مجھے آپ سے ایسی امید نہ تھی اب میں اس گھر میں تبھی آؤنگی جب رجو انٹی یہاں واپس آئینگی ورنہ یہ گھر میرے لیئے بھی پرایا ہی سمجھیں۔

تبصرے بند ہیں۔