ریومیں سندھو اورساکشی کی کامیابی۔ ۔ ۔ ۔

ہندوستانی حکومتوں اور والدین کیلئے سبق

ڈاکٹراسلم جاوید
انڈیا کی دوسری سائنا نہوال کہی جانے والی سندھو نے پہلی بار اولمپک میں حصہ لیا اور میڈل جیت کر سب کو حیرت زدہ کردیا۔ سندھو کی کامیابی اس لئے بھی قابل تعریف ہے کہ اس نے فائنل میں ورلڈ نمبر ون سے ٹکرلی تھی، جنہیں ناقابل تسخیر تصورکیا جارہا تھا، اگرکوئی ہندوستانی کھلاڑی اپنی مہم کے آغاز میں ہی عالمی چمپئن کوچیلنج دے اورفائنل مقابلے میں پہلے راؤنڈ میں چت کردے تواسے ٹاپ سے کم آ نکنا نا انصافی ہوگی۔ سندھو کی جاں سوزمحنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے اس کے فین سلور میڈل کو سونا سے کم نہیں مان رہے ہیں۔ کہنے کو تولوگ بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ورلڈ نمبر ون کو ٹکر دینا یا فائنل تک پہنچنے کی بات کرنامشکل نہیں ہے، لیکن یہ کتنا آسان ہے اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس عالمی مقابلے کیلئے میدان میں اترتے ہیں۔ بہرحال سندھو نے گزشتہ دنوں ریو میں جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کے لئیاسے کتنی سخت آزمائش اورمشقتسے گزرنا پڑا اس کا تصور کرکے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، بتایا جاتا ہے کہ جب ساری دنیا سو یا کرتی تھی اس وقت سندھواولمپک کی تیاری کیلئے اپنا خون پسینہ بہا یا کرتی تھی۔
آئیے !ہم ایک سرسری نظراولمپک کیلئے اس کی تیاریوں پر ڈالتے ہیں۔ اس کے کوچ بتا تے ہیں کہ سندھو کی صبح ساڑھے 3 بجے ہی شروع ہو جایا کرتی تھی۔ اس کے لئے خصوصی طور پر اس کے والد نے اپنا سوفیصد وقت دیاتھا۔ سندھو کی زندگی سے نوجوانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ کچھ حاصل کرنے کیلئے انسان کو کس طرح مشقت کی چکی میں گھسنا پڑتا ہے اورخود کو بھٹی میں جھونک کر کندن بنانا ہوتا ہے۔ سندھوکی زندگی کے اس غیر معمولی تگ دو میں ملک کے کروڑوں والدین کیلئے عبرت آ میز سبق موجود ہے۔
سندھو کو تین بجے تیار کرنے کیلئے اس کے والد الارم لگا کر سویا کرتے تھے۔ ساڑھے 3 بجے سندھو کوساتھ لے کر وہ 15 منٹ کے اندر اکیڈمی پہنچ جاتے تھے۔ اس کے بعد سندھوکو محنت کی بھٹی میں تپانے کا عمل شروع ہوجایا کرتا تھا۔ نتیجہ کارپی وی سندھو نے جمعہ کی رات اولمپک میں تاریخ رقم کی ہے، اس کی اس کامیابی پرآج سندھو، اس کے والدین اورکوچ کے علاوہ سارے ملک کاسر فخر سے اونچا ہورہا ہے۔ سندھوسلور جیتنے والی ہندوستان کی پہلی خاتون کھلاڑی بن گئیں ہیں۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے ان کوکوچ کی کئی سختیوں اور آزمائش سے گرنا پڑاہے۔ خود اس کے کوچ بتا تے ہیں کہ گزشتہ 3 ماہ سے اس کے پاس فون نہیں تھا۔ کوچ گوپی چند کا کہنا ہے کہ اب وہ سندھو کواس کا فون لوٹا دیں گے۔ اس نے ملک کے لئے تمغہ جیت لیا ہے۔ اسے انجوائے کرنے کاپورا حق ہے۔ سندھو کا ہندوستان واپس آنے کے بعد’رستم‘ دیکھنے، آئس کریم اور بریانی کھانے کاپرگرام ہے۔
اس بات کو بھی ماننا پڑے گا کہ کسی فرد کی کامیابی صرف اس کی تن تنہا کارکردگی اور لگن کا نتیجہ نہیں ہوا کرتی، بلکہ اس میں والدین اوراستاذ کی محنت اور خلوص بھی کارفرماہوا کرتی ہے۔ سندھو کی کامیابی میں بڑا ہاتھ اس کے کوچ پی گوپی چند کا بھی ہے۔ بتاتے ہیں کہ گوپی چند کی ٹریننگ کافی سخت ہوتی ہے۔ سائنا نہوال سے لے کر سندھو تک ان کے ٹریننگ فارمیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ’’گزشتہ 3 ماہ سے سندھو کے پاس موبائل فون نہیں تھا‘‘۔ مگر اب وہ جیت چکی ہے، لہذا میں اسے اس کا فون واپس کر دوں گا۔ غورطلب ہے کہ’’گزشتہ 12-13 دن سے سندھوکو اس کا فیوریٹ میٹھا دہی کھانے سے بھی کوچ نے روک رکھا تھا، یہ اس کی سب سے زیادہ پسندیدہ چیز ہے۔ گوپی کہتے ہیں کہ میں نے اسے آئس کریم بھی نہیں کھانے دیاتھا۔ اب وہ جو چاہے، کھا سکتی ہے‘‘۔ مختصر یہ کہ سندھو اورساکشی کی لگن و محنت، ان کے والدین اوراستاذ(کوچ) کی مستعدی اورایثار نے ہندوستان کو دو تمغے دلائے ہیں۔ اگر ملک کے سبھی والدین اپنے نونہالوں کو کا میابی کی بلندی تک پہنچانے کیلئے سندھو کے والد جیسا عز م پیدا کر لیں تو خاندان ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سندھو اورساکشی کی کامیابی کے بعد ہمارے ملک کی سرکاروں اورکھیل کے اداروں نے انعاما ت کی بارش شروع کردی ہے اور دونوں فاتح لڑکیاں دودن میں ہی کروڑ پتی بن چکی ہیں۔ حالاں انعامات کی بارش کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ عین ممکن ہے کہ انعامات کی شکل میں کچھ اور رقم ان پر نچھاور کئے جائیں۔ مگراس انعام کی بڑی رقم میں ایک سوال ہماری حکومتوں اور کھیل سے متعلق اداروں کے کم فہم سربراہوں کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہوگیا ہے، جسے آج کے نیوز پورٹل پر ہرجانب اٹھا یا جارہا ہے۔
پورٹلس پر یہ چرچا عام ہے کہ ریو میں تمغہ جیتنے کے بعداب تک مرکز، ریاستی حکومتوں، کھیل اور دوسری تنظیموں نے سندھو کو 13 کروڑ روپے کے قریب نقد انعامات سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں بی ایم ڈبلیو کار اورشاہی رہائش مہیا کرانے کااعلان بھی کیا گیا ہے۔ ساکشی کو بھی تقریبا پانچ کروڑ کا انعام دیے جانے کا اعلان ہو چکا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کامیاب ہونے والے جاں فرو شو ں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ لیکن یہ بھی سوچئے! کہ اگر کھلاڑیوں کوتیار کرنے اورانہیں ٹریننگ دلانے پراگر اتنی رقم خرچ کی گئی ہوتی شاید نتیجہ کچھ اور بہتر ہوتا، اور ہم ہندوستانیوں کیلئے کئی اورتمغے خوشی اور جشن منانے کا موقع فراہم کرتے۔ اولمپکس میں سب سے زیادہ تمغے جیتنے والے امریکہ، برطانیہ اور چین جیسے ممالک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وہاں کھلاڑیوں کی تربیت اور تیاری پر زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمغوں کی فہرست میں یہ ممالک ہمیشہ سب سے آگے رہتے ہیں۔
امریکہ، چین، فرانس، جنوبی کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں کھلاڑیوں کو بہت ہی کم نقد انعام دیا جاتا ہے۔ البتہ یہ ممالک کھلاڑیوں کی صلاحیت کو نکھارنے اور بہتربنانے پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور مشق کے تعلق سے جو اعدادو شمار سامنے آ رہے ہیں وہ انتہائی شرمناک اور حوصلہ شکن ہیں۔ انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کی مستقل کمیٹی کے مطابق ہندو ستا ن میں ایک شخص کی تربیت پریومیہ صرف 3 پیسے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جن ممالک میں کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور تربیت کو اہمیت دی جاتی ہے اوراس کی تیاری میں پانی کی طرح رقم بہائی جاتی ہے اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ریو میں اب تک ہونے والے مقابلوں میں امریکہ 35 سونے، 33 چاندی اور 32 کانسے کے تمغے جیت چکا ہے اور اس طرح وہ مجموعی طور پر 100 میڈلز کے ساتھ پہلے نمبر پر براجمان ہے۔ برطانیہ 22 گولڈ، 21 سلور اور 13 کانسے اور مجموعی طور پر 56 میڈلز کے ساتھ دوسرے نمبر پر برقرار ہے اور چین 20 گولڈ، 16 سلور اور 22 برانز میڈلز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ جرمنی ایک درجہ ترقی پاکر چوتھے نمبر پر پہنچ گیا ہے اور وہ 13 طلائی، 8 چاندی، 11 کانسے کے تمغوں کے ساتھ پانچویں سے چوتھے نمبر پر آیا ہے، جبکہ روس ایک درجہ تنزلی کے بعد چوتھے سے پانچویں نمبر پر چلا گیا ہے، وہ 12 سونے، 15 چاندی اور 17 کانسے کے ساتھ مجموعی 44 تمغے حاصل کرکے پانچویں نمبر پر چلا گیا، جاپان 12، طلائی، 6 چاندی اور 18 کانسے کے تمغوں کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے، فرانس 8 سونے، 12 چاندی اور 14 کانسے کے تمغوں کے ساتھ ساتویں نمبر پر قائم ہے، اٹلی 8 طلائی، 10 چاندی اور 6 کانسے کے تمغوں کے ساتھ آٹھویں نمبر پر قائم ہے، ہالینڈ 8 سونے، 4 چاندی اور 4 کانسے کے تمغوں کے ساتھ نویں نمبر پر ہے، آسٹریلیا 7 سونے، 10 چاندی اور 10 کانسے کے تمغوں کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے۔ جبکہ اس بڑے اعداد شمار میں ہندوستان بالکل پھسڈی نظر آتا ہے، اس کی وجوہات بھی ہمارے سربراہوں کے سامنے ہیں۔ اے کاش!انعامات کی بارش سے پہلے ہم اپنے کھلاڑیوں کی تیا ر یو ں پر دھیان دیں اوروالدین اپنے بچوں کی تربیت میں سندھوکے پاپا جیسی لگن پید ا کر لیں تو ہمارے بچوں کو کامیابی کے آسمان تک پہنچنے میں کو ئی بھی دشواری آڑے نہیں آسکے گی۔

تبصرے بند ہیں۔