اردوناول کی گم ہوتی ہوئی دنیا (1\2)

مشرف عالم ذوقی

(1)

وقت کے ساتھ ناول اور فکشن کی دنیا بہت حدتک تبدیل ہوچکی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارا نقاد آج بھی فکشن اورناول کو اپنی اپنی تعریف وتشریح کے محدود پیمانے میں قید کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا واقعی کہانی کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ ایک انجام یا کلائمکس ہوتا ہے۔ کہانی ایک صدی سے زیادہ کا سفر طے کرچکی ہے۔ اور ہماری زندگی تہذیب کی اس اندھیری سرنگ میں گم ہے جہاں نہ کوئی آغاز ہے نہ انجام— اس تیز رفتار بھاگتی ہوئی زندگی کا کوئی انجام کیونکر لکھا جاسکتا ہے۔ ناول کے ساتھ بھی ٹھیک یہی معاملہ ہے۔ ایک نئی دنیا ہمارے سامنے ہے۔ اس نئی دنیا میں حقیقت فنٹاسی کا فرق اٹھ چکا ہے۔ اچھے ناول کے لیے نئی نئی زمینیں موجود ہیں۔ علامت سے فنتاسی تک کی ایک بڑی دنیاسامنے ہے۔ ایک جرمن ناول نگار جرمنی میں فروخت ہونے والے چاکلیٹ کی الگ الگ قسموں کو لے کر ایک ناول کی تخلیق کرتا ہے۔ ہر چاکلیٹ ایک بچہ، بچہ کے ماں باپ اورماں باپ کی دنیا سے وابستہ کہانیوں کو سامنے رکھتا ہے اور اسی کے ساتھ ایک حیران کرنے والی دنیا سامنے آتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے تجربے صرف باہر ہورہے ہیں۔ آج اردو میں بھی اس طرح کے تجربے مسلسل ہورہے ہیں۔ مثال کے لیے مرزا اطہر بیگ کے ناول ’غلام باغ‘ یا ’ صفر سے ایک تک‘ کا مطالعہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ ناول کی یہ نئی زمین پریم چند اورقرۃ العین حیدر کی زمینی حقیقت سے بہت حد تک مختلف ہے۔

مرزا اطہر بیگ کے ناول صفر سے ایک تک کا موازنہ اندنوں جوائز کے ناول یولیسنر کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے پہلے ناول غلام باغ کو اردو ناول کی تاریخ کا تیسرا بڑا واقعہ قرار دیاگیا۔ صفر سے ایک تک دراصل سائبر اسپیس کے منشی کی سر گزشت ہے اور اس سر گزشت میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی نئی دنیا کو ناول کا موضوع بنایا گیا ہے۔ دراصل ان دونوں ناولوں میں مرزا اطہر بیگ نے ایک تخیلاتی دنیا سے کام لیا ہے اور ناول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زبان کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ مرزا اطہر بیگ اپنے ناولوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، یہ جاننا بھی دلچسپ ہے۔

’’دیوانگی ’’غلام باغ‘‘ کے بنیادی موضوعات میں سے ایک ہے۔ فلسفے کے طالب علم کی حیثیت سے بھی یہ موضوع مجھے بہت Fascinateکرتا ہے۔ ہمیشہ سے یہ احساس رہا ہے کہ فرزانگی اور دیوانگی میں بال برابر کا فرق ہے۔ دیوانگی کا موضوع ناول کے پلاٹ سے بھی متعلق تھا۔ اس ناول میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں زبان کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ مجھے یہ محسوس ہورہا تھا کہ دیوانگی بڑی حد تک ایک لسانی مسئلہ ہے۔ جب ہمارے لسانی نظام میں کسی سطح پر بگاڑ پیدا ہوتا ہے تب ہی دیوانگی کا اظہار ہوتا ہے۔ بہرحال، یہ ایک علمی مسئلہ ہے، تو ناول کے کردار کئی بار اس سطح پر آتے ہیں، جب دوران گفتگو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کلام ان کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ ہذیان کی سطح آجاتی ہے، مگر بات دیوانگی برائے دیوانگی پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہ وجود کی، انسان کے انسان سے تعلق کی ایک اور سطح تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ کبیر اور زہرہ کا تعلق، عورت مرد کے تعلق کی انتہائی شکل تک پہنچنے کی کوشش ہے، جہاں من و تو کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔ ‘‘

          (مرزا اطہر بیگ سے گفتگو، اجرا، شمارہ 13)

مرزا اطہر بیگ کے ساتھ ہی مستنصر حسین تارڑ بھی ناول کی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔ ’خس وخاشاک زمانے‘ تارڑ کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کے بغیر اردو ناولوں پر گفتگو ممکن ہی نہیں ہے۔

اپنے ناول نگار دوستوں سے مخاطب ہوں جو افسانوں اور ناولوں میں تجربوں کا دم بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تجربہ تو ہونا ہی چاہئے، مگر زیادہ تر لوگ تجربہ تب کرتے ہیں جب ان کے پاس وہ فن یا ہنر نہیں ہوتا، جو مکالمہ نگاری پر قدرت رکھتا ہو، جہاں کردار نگاری کا جال بچھایا جاتا ہو، جہاں ایک کہانی صدیوں پر محیط فکر وفلسفے کا نیا باب روشن کرتی ہو… ہم تجربہ کررہے ہیں … یا ایسی کئی کہانیاں اس وقت اچھی لگتی ہیں، جب ہم کسی مخصوص لمحے ان کو پڑھنے بیٹھے ہوں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ان کی چمک ماند پڑنے لگتی ہے… پھر وہ تجربہ، جو ایک وقت میں سر چڑھ کر بولتا ہے… وہ ناول یا کہانی وقت کے ساتھ افسانہ گمشدہ بن چکی ہوتی ہے… علی اکبر ناطق ہوں، خالد جاوید، یا ایسے کئی نام… یہاں تجربوں کی شاندار روایت رہی ہے… مگر ڈر ہے… کہ آنے والی صدی میں کہانیوں کی تفہیم کے لیے فاروقی نہ ہوں گے، تو قاری تک ان کہانیوں کو کون پہنچائے گا۔ مغرب کے ایسے ہزاروں لاکھوں اثاثے تجربے کے نام پر وقت کی بھیڑ میں کھو گئے۔ انکا بھی وہی حشر نہ ہو…

 مستنصر حسین تارڑ کو پڑھتے ہوئے ایک وسیع دنیا آباد ہے… کیا ایسی کردار نگاری وہ لوگ کرسکتے ہیں جو صرف تجربے کا دم بھرتے ہیں ؟ میرا جواب ہے نہیں … کیونکہ یہاں ہوایا خلا میں معلق تحریر نہیں ہے۔ یہاں زندگی کو پیش کرنے کی جرأت کی گئی ہے۔ جو زیادہ مشکل کام ہے اور جنہیں یہ ہنر نہیں آتا وہ تجربے سے کام چلاتے ہیں۔ علی اکبر کے یہاں بیانیہ شاندار ہے۔ تجربے کی دھوپ بھی۔ نیا دینے کی کشمکش بھی۔ خالدجاوید کو بھی اسی راستے پر چلنا ہوگا۔ اور ان لوگوں کو بھی جو محض تجربوں کو ادب سمجھتے ہیں … ہم سب شب خونی جدیدیت کا حشر دیکھ چکے… ایک وقت میں چونکا دینے والی کہانیاں اب ماضی کا افسانہ بن چکی ہیں۔ ادب محض لفظوں کی بھول بھلیاں کانام نہیں … یہاں منہ میں چھالے اگانے ہوتے ہیں۔ لہو تھوکنا پڑتا ہے… زندگی قربان کرنی ہوتی ہے… اور مستنصر حسین کی طرح زندہ کرداروں سے نئے فلسفوں کی دھوپ چرانی ہوتی ہے۔ علی اکبر سے امیدیں ہیں لیکن ابھی منزل دور ہے… ان لوگوں کو خالد طور، مستنصر، مرزا اطہر بیگ کے ساتھ ہماری داستانوں اور مثنویوں کے خزانے کو بھی ساتھ لینا ہوگا۔ صرف تجربہ عظیم تخلیق کے لیے کافی نہیں۔

سارتر کا ایک کردار اپنی کہانی دیوار میں ایک سوارخ کے بہانے موہوم سی روشنی کا طلبگار تھا۔ صدیوں پر محیط ناول خس وخاشاک زمانے میں تارڑ آزادی اور غلام فضا دونوں ایام میں اسی روشنی کو تلاش کرتے رہے۔ وہ بونے تو نظر آئے۔ جو کنواں کی گہرائیوں سے نکل کر بختے کو تقسیم کا خوف دکھا رہے تھے۔ لیکن ایک تقسیم کے بعد بھی تقسیم کا سلسلہ بند کہاں ہوا— ہندو پاک کے ڈرائونے خواب سے نکل کر یہ داستان سقوط بنگلہ دیش، ایران، افغانستان، عراق کے پس منظر میں جب اپنے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں دکھاتی ہے، تو ارتقا، سائنس اور تیزی سے بھاگتی نئی دنیا کا خوف ذہن ودل پر طاری ہوتا ہے— تارر کے پاس لفظیات کا خزانہ ہے۔ ہزاروں مثالیں، تشبیہیں ایسی ہیں جو اس سے پہلے مغرب کے کسی ناول کا حصہ بھی نہیں بنیں۔ یہاں کچھ بھی مغرب سے مستعار نہیں، یہاں داستانی رنگ ہے۔ اور ذلیل ہونے کے لیے ہماری، آپ کی خوفناک دنیا منتظر… ہزاروں کرداروں کو تارڑ نے اس فنکاری سے سمیٹا ہے، کہ یہ کام نہ فاروقی کے بس کاتھا، نہ کسی اور کے— میں نے آگ کا دریا دو بار پڑھا ہے۔ اور ان لوگوں سے معذرت کے ساتھ جو ادبی صحیفے کو پڑھتے نہیں، پرستش کرتے ہیں … کہ یہ ناول آگ کا دریا سے بھی میلوں آگے کی چیز ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ پاکستان میں جہاں بیکار کے ناولوں پر مسلسل لکھا جارہا ہے، اس ناول پر آفاقیت اور عالمگیریت کے حوالے سے گفتگو کے دروازے کیوں نہیں کھلے۔ ایک ناول نگار کی حیثیت سے میں مستنصر حسین تارڑ کو اس غیر معمولی تخلیق کے لیے مبارکباد دیتا ہوں … اسے لکھنا آسان نہیں تھا۔ اس میں صدیاں قید ہیں۔ اور صدیوں کو قلمبند کرنے کے لیے، جس غیر معمولی زبان، اسلوب اور لہجے کی ضرورت تھی، تارڑ کے پاس یہ خزانہ موجود تھا۔ یہ ناول اردو زبان کے لیے ایک کرشمہ ہے— اس ناول کی آمد سے ہماری زبان کے قد اور وقار میں اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح رضیہ فصیح احمد کے ناولوں خصوصی طور پر صدیوں کی زنجیر کا تذکرہ نہ ہو تو ناول پر گفتگو مکمل نہیں ہوسکتی۔ مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ نقادوں نے ناول پر گفتگو کرتے ہوئے قرۃ العین حیدر کے ارد گرد اپنی محدود دنیا بنا لی تھی۔ اور اس دنیا سے باہر دیکھنا انہیں منظور نہیں تھا۔ جس زمانے میں قرۃ العین گردش رنگ چمن تحریر کررہی تھیں، اسی زمانے میں سقوط بنگلہ دیش کے حادثے کو سامنے رکھ کر رضیہ فصیح احمد اپنا شاہکار صدیوں کی زنجیر مکمل کر رہی تھیں۔ جس زمانے میں آگ کا دریا لکھا گیاتھا، اسی زمانے میں سنگم لکھاگیا۔ مگر گفتگو آگ کا دریا سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ہندوستانی منظر نامہ کا حوالہ بھی ضروری ہے کہ اسی زمین نے لہو کے پھول (حیات اللہ انصاری)، بے جڑ کے پودے (سہیل عظیم آبادی) انقلاب (خواجہ احمد عباس) بہت دیر کردی (علیم مسرور) شکست کی آواز (عبدالصمد) جیسے شاہکار اردو کو دیئے۔ شکست کی آواز کی کہانی محبت سے شروع ہوتی ہے اور جادو پر ختم ہوتی ہے۔ اور یہ جادو ہے، نئی تہذیب کا تحفہ یعنی موبائل فون— آج کی تیز رفتار زندگی کا جس کے بغیر تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ شکست کی آواز، صفر سے ایک تک، پوکے مان کی دنیا، لے سانس بھی آہستہ تک آتے آتے ایک نئی دنیا کے دروازے ہمارے لیے کھل جاتے ہیں۔ سائبر اسپیس سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اس کے بھیانک نتائج تک حقیقت یہ ہے کہ ایک خوفزدہ کر دینے والی دنیا بھی ہماری ساتھ ہوتی ہے۔

(2)

اردو ناول اپنی عمر کے 142 سال مکمل کرچکا ہے۔ ظاہر ہے یہ مدت کوئی کم مدت نہیں ہے۔ آغاز سے ہی اردو ناول کو دیگر اصناف پر فوقیت حاصل ہے۔ اردو ناول نگاری کی ابتدا ڈپٹی نذیراحمد سے ہوئی۔ اورڈپٹی صاحب نے 1869 میں مراۃ العروس کے نام سے اپنا پہلا ناول قلمبند کیا۔ 142 سال کی طویل مدت میں ہندو پاک سے شائع ہونے والے ناولوں کی تعداد کسی بھی لحاظ سے 200۔ 300 سے کم نہیں ہوگی۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ پاکستان میں تحریر کیے گئے زیادہ تر ناولوں کی بازگشت سے ہندستانی نقاد محروم رہا۔ اسی طرح بیشتر ہندستانی ناولوں کی گونج پاکستان میں نہیں سنی جاسکی۔ اور یہ قصہ ہنوز جاری ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد، پریم چندر راشد الخیری، شرر، مرزا ہادی محمد رسوا، کے ناولوں سے آگے بڑھیے تو لسانی تہذیبی اورتجربے کی سطح پر بھی ایسے بے شمار ناول ملتے ہیں جنہیں یا تو نظرانداز کیاگیا یا جنہیں نقادوں کی سرپرستی نہیں مل سکی۔ یہ وہی نقاد تھے جنہوں نے قرۃ العین حیدر اور دو ایک ناول نگاروں کو چھوڑ کر بیشتر ناول پرگفتگو کو ہی تضیع اوقات جانا۔

پاکستانی ناولوں کی ایک جھلک

 شوکت صدیقی۔ خدا کی بستی۔ جانگلوس۔ خدا کی بستی کو شہرت ملی۔ جانگلوس نقادوں سے پڑھاہی نہیں گیا۔ ہندستان کے زیادہ تر ادیبوں نے صرف جانگلوس کانام سنا ہے۔ مطالعہ نہیں کیا۔

عرصہ پہلے اردو میں ایک ناول شائع ہوا ’خدا کی بستی‘ اس بستی کے سارے کردار وہی تھے جو خدا کی زندہ بستیوں میں بھی آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اچھے برے، غنڈے، موالی، شدت سے محبت کرنے والے اور اسی شدت سے نفرت کرنے والے بھی۔ چھوٹے موٹے چور اچکے، جیب تراش، سیاست پر باتیں کرنے والے اور اپنے عہد میں ہونے والی سیاست کا ایک حصہ بن جانے والے بھی تخلیق کار تھے— شوکت صدیقی اور ناول کا نام تھا خدا کی بستی۔ ناول کا شائع ہونا تھا کہ اردو کی ادبی دنیا میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ اس سے قبل اتنے انوکھے موضوع پر اور اتنے انوکھے انداز سے اردو میں کچھ بھی نہیں لکھا گیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ناول کے کتنے ایڈیشن آگئے اورآج کی تاریخ میں اردو کو بین الاقوامی پہنچان دینے والوں کی قطار میں یہ ناول بھی شامل ہے۔ دنیا کی تقریبا سبھی زبانوں میں اس ناول کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔

پاکستان کا انڈرورلڈ ان کے افسانوں میں ہمیشہ نشانے پر رہا۔ ’خدا کی بستی‘ سے ان کے دوسرے ناول جانگلوس تک اس انڈرولڈ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ جانگلوس کے علاوہ 1990 میں ان کا ایک ناول شائع ہوا ’چار دیواری‘ چار دیواری شوکت کے ’ناسٹیلجیا‘ کی کہانی ہے جہاں وہ اپنے بچپن کی یادوں کو اپنے ادب کا حصہ بناتے ہیں۔ اس میں ان کی زندگی بھی ہے اور ان کی ہجرتیں بھی شامل ہیں۔ وہ لکھنؤ میں پیداہوئے لیکن پاکستان ہجرت کرنے کے بعد بھی وہ لکھنؤ کو بھول نہیں سکے۔ لکھنؤ آخر آخر تک ان کے وجود کا ایک حصہ بنارہا ہے۔

’خدا کی بستی‘ کے کھیل نرالے ہیں۔ یہ بستی کل بھی وہی تھی، جو شوکت صدیقی نے دیکھی اور محسوس کی تھی۔ یہ بستی آج بھی وہی ہے۔ لیکن اس گلوبل تہذیب نے ہمارے انسان ہونے کے احساس یا جذبوں کو ہماری روح سے خارج کردیا ہے۔ اردو ادب اچھے لکھنے والوں سے خالی ہوتا جارہا ہے۔ ہندستان سے پاکستان تک لکھنے کے نام پر گہرے سناٹے کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔

ایک وقت تھا جب منٹو، بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، غلام عباس، خواجہ احمد عباس اور شوکت صدیقی جیسے تخلیق کاروں کی وجہ سے اردو ادب کو دنیا کے بہترین ادب میں شمار کیا جاتا تھا۔ اردو کی شروعات داستانوں سے ہوئی۔ اور ان افسانہ نگاروں میں داستانیں کہنے کاجادو برقرار تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ داستانیں سنانے والے ماضی کی داستان بنتے چلے گئے۔ قصہ گوئی کی روایت دم توڑ گئی۔ انتظار حسین نے اس بہانے قصہ گوئی کی اس روایت کو زندہ ضرور رکھا ہے، لیکن اردو کو بین الاقوامی سطح پر پہچان دینے والے اب آہستہ آہستہ ہمارے درمیان سے رخصت ہوتے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر احسن فاروقی۔ شام اودھ، آبلہ دل کا، رخصت اے زنداں، سنگم—یہ ناول ہندستان میں دسیتاب نہیں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دوست ناول نگار بھی احسن فاروقی کے ان ناولوں کی چمک سے کوسوں دور ہیں۔ سنگم اسی پائے کا ناول تھا، جومقام قرۃ العین حیدر کے آگ کا دریا کوحاصل ہے۔

عزیز احمد۔ خون، مرمر، گریز، آگ، شبنم، (کتنے ناول ہندستانی نقاد یا ادیبوں تک پہنچے؟)ایم اسلم۔ رقص ابلیس، قدرت اللہ شہاب۔ یاخدا، عبداللہ حسینی۔ (بھاگ، قید، نشیب، اداس نسلیں، نادار لوگ، اداس نسلیں کے علاوہ کتنے ناولوں پر گفتگو کے در وا ہوئے؟ )جمیلہ ہاشمی۔ (تلاش بہار۔ دشت سوس منصور علاج کے دردناک تاریخی قصے کو ناول کی شکل دی گئی ہے۔ تلاش بہار میں مشترکہ تہذیب کا حوالہ ملتا ہے۔ ان تینوں ناولوں کا ذکر اکثر سننے میں آتا ہے لیکن سوال اپنی جگہ قائم ہے۔ کیا یہ ناول ہندستانی ناولوں پر لکھنے والوں کی نظر سے گزرا ہے۔ ؟)رضیہ فصیح احمد۔ آبلہ پا۔ صدیوں کی زنجیر۔ 71 کا سانحہ، سقوط کے واقعات پر تحریر کردہ اس ناول پر کیا ہندستان میں گفتگو کے دروازے کھلے۔ ؟) غلام ثقلین نقوی۔ (میرا گائوں۔ فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گائوں کے بہانے پاکستانی معاشرے کی آواز بن کرابھرنے والا یہ ناول کیا کسی کو یاد ہے؟)فضل کریم فضلی۔ (خون جگر ہونے تک۔ اس دردناک ناول میں قحط بنگال کو موضوع بنایاگیا ہے۔ )

ممتاز مفتی۔ ( علی پور کا ایلی۔ اللہ نگری، بہت سے لوگ علی پور کا املی کانام تو لیتے ہیں لیکن مطالعہ…؟)صدیق سالک۔ فطرت، نثار عزیز بٹ۔ ( نگری نگری پھرا مسافر۔ کاروانِ وجود، دریا کے سنگم)، الطاف فاطمہ۔ (نشان محفل، دستک نہ دو۔ چلتامسافر۔ )رحیم گل۔ جنت کی تلاش، انور سجاد۔ (خوشی کا باغ۔ ذکرآتا ہے لیکن مطالعہ؟)، انیس ناگی۔ (دیوار کے پیچھے، محاصرہ، کیمپ)فہیم اعظمی۔ جنم کنڈلی، بانو قدسیہ۔ راجہ گدھ، (یہ ناول ہندستان سے بھی شائع ہوا ہے)، رشیدہ رضویہ۔ (لڑکی ایک دل کے ویرانے میں )، محمدخالد اختر۔ (چاکیواڑہ میں وصال)امراء طارق۔ ( معتوب)، مستنصر حسین تارڑ۔ ( راکھ، بہائو، قلعہ جنگی، قربت مرگ میں محبت، ڈاکیا اور جولاہا) انور سن رائے۔ چیخ، عاصم بٹ۔ دائرہ، خالدہ حسین۔ کاغذی گھاٹ، محمدحمید شاہد۔ مٹی آدم کھاتی ہے۔، آمنہ مفتی۔ جرأت رندانہ، اطہربیگ۔ غلام باغ (اس کاذکر آگے آئے گا)، مصطفی کریم۔ راستہ بند ہے۔، شمیم منظر۔ زوال سے پہلے، نسیم انجم۔ نرک، محمدامین۔ بارخدا، کراچی والے، محمد الیاس۔ برف۔

کس کس کا ذکر کیجئے۔ صرف پاکستانی ناول کو لیا جائے تو یہ فہرست کافی لمبی ہوجاتی ہے۔ لیکن ان ناولوں کا ذکر یوں مقصود ہے کہ ہم ان ناولوں کے مطالعہ سے محروم ہیں۔ آج دنیا بھر کے اردو ویب سائٹس اردو کتابوں کو جگہ دے رہے ہیں جہاں اردو کتابیں ڈائون لوڈ کرنے کے بعد پڑھی جاسکتی ہیں لیکن یہ ناول بسیار تلاش کے باوجود مجھے ان سائٹس پر نظر نہیں آسکے۔ اس لیے مجموعی طور پریہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم زیادہ تر انہی ناولوں پر کام کرتے ہیں جو آسانی اورسہولت کے ساتھ ہمیں دسیتاب ہیں۔

اشرف، شاد، بابایحیٰ اوراطہر بیگ کی دنیا

پاکستان میں اردو ناولوں کی ایک بڑی دنیا آباد ہے۔ اوریہ خوشی کامقام ہے کہ وہاں ناول پڑھے بھی جاتے ہیں۔ (ہندستان کی طرح نہیں کہ خود پیسہ لگائیے اور ناول احباب میں تقسیم کرتے رہیے۔ اگرآپ کاتعلق کسی مخصوص گروہ (گروپ) سے ہے تو پھر تیار رہیے— آپ کے ناولوں پرگفتگو کی شروعات ہوگی ورنہ ناول لکھ کرآپ خاموش رہ جائیے) اشرف، شاد کے ناول بے وطن اوروزیراعظم نے شائع ہوتے ہی دھوم مچادی۔ بابایحیٰ کے مہنگے ترین ناول ہاتھوں ہاتھ بک گئے۔ اطہر بیگ کے ناول غلام باغ کے کئی ایڈیشن منظر عام پر آگئے۔ 878 صفحات پر مشتمل اس ناول کا دیباچہ عبداللہ حسینی نے تحریر کیا۔

’ غلام باغ اپنے مقام میں اردو ناول کی روایت سے قطعی ہٹ کر واقع ہے۔ بلکہ انگریزی ناولوں میں بھی یہ تکنیک ناپید ہے۔ اس کے ڈانڈے یورپی ناول خصوصی طور پر فرانسیسی پوسٹ ماڈرن ناول سے ملتے ہیں۔ ‘

 یہ ناول پاکستانی نوجوانوں نے ہاتھ ہاتھ لیا۔ سوچنے کی بات یہ تھی کہ فلسفیانہ مباحث میں الجھی ہوئی، 878 صفحات پر مشتمل ناول نوجوانوں میں اتنا مقبول کیسے ہوگیا؟

 مرزا اطہر بیگ سے اس کا جواب سن لیجئے—’ قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنا آج کے لکھاری کے لیے سب سے بڑاچیلنج ہے۔ ‘

لیکن افسوس کچھ ہندستانی ناول نگار یہ بھول بیٹھے کہ قاری جیسی بھی کوئی شے ہے، جہاں تک ناول کو پہچاننے کی ان کی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔ لیکن اس چیلنج کو حسین الحق، عبدالصمد، پیغام آفاقی، غضنفر، علی امام نقوی، شفق (بادل اور کابوس)، رحمان عباس، (ایک ممنوعہ محبت کی کہانی) نورالحسین، (اہنکار) احمدصغیر، جیسے ناول نگاروں نے بڑی حدتک قبول کیا۔ لیکن ہم ایک بار پھر ایک ایسے ناخوشگوار موسم کا گواہ بن گئے ہیں جہاں کچھ لوگ ایک مخصوص گروپ سے وابستہ ہوکر ایک بڑی مہم کے ذریعہ اردو قارئین کو اچھے ناول کے نام پر فریب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے پاس پلیٹ فارم ہے۔ رسائل ہے۔ اور وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ اردو ناول نگاری کی ایک وسیع تردنیا ہے۔ اور ماضی تاحال اچھے لکھاریوں کی کمی کبھی نہیں رہی۔

بہرکیف، گزشتہ ایک صدی میں اپنی فکر اورامتیازات کے حوالے سے ایسے کتنے ہی نام ناول کے افق پر ابھر کرسامنے آئے، جن کو لے کر ناقدین کے یہاں کوئی باقاعدہ نظریہ سازی عمل آرا نظر نہیں آئی۔ کچھ ناول اپنے وقت میں ابھرے۔ یہ مدت دوچارسال رہی۔ پھر یہ گم ہوگئے۔ گیان سنگھ شاطر سے پلیتہ تک مندرجہ ذیل سطور میں، میں نے جو مختصر نوٹس لیے ہیں، انہیں قارئین تک پہنچانا اپنافرض سمجھتا ہوں۔

 گیان سنگھ شاطر (ناول)

ادب، ادب ہوتا ہے۔ ادب میں کشف وکرامت اورمعجزے جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ مگر جب کبھی گیان سنگھ شاطر جیسی حیرت زدہ کردینے والی کوئی کتاب سامنے آتی ہے تو اس اکیسویں صدی میں بھی معجزے کا قائل ہونا پڑتا ہے۔

 یہ ایک سوانحی ناول ہے اوراسے قلمبند کرنے والا فن کا روہ ہے جس نے اپنی شخصیت کی پرتیں کھولنے کے لیے اس زبان کا انتخاب کیا، جس زبان سے وہ خود بھی انجان تھا۔ لیکن وہ محسوس کرتاتھا کہ جذبات واحساس کے اظہار کے لیے اردو سے بہترکوئی دوسرا وسیلہ نہیں۔ حقیقت شناسی کی جس سڑاند سے، وہ اپنی ذات کے موتی لٹانا چاہتا تھا، اس کے لیے صحیح معنوں میں اردو زبان کی مٹھاس کی ضرورت تھی۔ اس زبان کی رعنائی، دلکشی، شیرینی، روانی، لطافت، رچائوہی اس آپ بیتی کو بھر پور صحت اورزندگی بخش سکتا تھا۔

یہ ایک انوکھا سوانحی ناول ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ کو اپنی زندگی کے واقعات کس سن سے یاد ہیں تو شاید آپ عمر کے پانچویں یا چھٹے پڑائو تک پہنچیں۔ یادداشت پرکچھ زیادہ ہی زور ڈالیں تو شاید پرچھائیوں کی صورت اس سے بھی کم عمر کی کچھ دھندلی دھندلی سی تصویریں آنکھوں کے آگے گڈ مڈ ہوجائیں، مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ پیدائش کے وقت سے لے کر چھوٹی چھوٹی تمام باتیں آپ کو یاد ہوں — گیان سنگھ شاطر کی ایک تو سب سے بڑی خوبی مجھے یہ نظر آئی کہ لگتا ہے آنکھیں کھولتے ہی یہ شخص اپنی ذات کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اورایسا لکھا کہ آپ کسی بھی واقعہ کی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے— ایک فن پارہ کی اس سے زیادہ کامیابی اورکیا ہوگی؟—

یہ کتاب صرف آپ بیتی تک محدود نہیں ہے۔ شاطر نے اس میں ایک پورا جہان آباد کررکھاہے۔ جانا پہچانا بھی اوران دیکھا سا بھی— ایک ماں ہے، شفقتوں والی ماں — بیٹے پر اپنی دعائوں کاسایہ کرنے والی ماں — اپنے شوہر کے سائے سے ڈر جانے والی ماں — اندر ہی اندر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر جانے والی ماں، روایتی زنجیروں میں جکڑی ڈری ڈری سی خوفزدہ سی ماں — ایک تایا بھی ہیں جوعورت کی عظمت کے قائل ہیں — انتہائی فیاض، بردبار، ایک ایسا انسان جو کسی کا بھی آئیڈیل ہوسکتا ہے— اورایک بھائیا جی جو انسانوں سے حیوانوں جیسا اورحیوانوں سے درندوں جیسا سلوک کرتے تھے— تایا جی جہاں عورت کو تخلیق کاسرچشمہ سمجھتے تھے اورکہتے تھے کہ عورت سرشٹی ہے— وہیں بھائیا جی کی رائے بالکل مختلف تھی— وہ کہتے تھے—’’ عورت اورکتیاکی نفسیات ایک سی ہے— اسے روٹی کپڑا نہ دو، اس کے چڈے سے لپٹے رہو اور تھن چونگھتے رہو۔ یہی اس کی زندگی ہے اور یہی آسودگی‘‘—

یہ دوغیر معمولی کردار ایسے ہیں، جو اردو ادب کی تاریخ میں اضافہ تو ہیں ہی، شاطر کا مقام متعین کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ عجیب وغریب کردار، تایاجی جہاں ایک آئیڈیل کے طور پر دل ودماغ کے گوشہ میں اپنی جگہ محفوظ کرتے ہیں، وہیں بھائیا جی، بھائیا جی کے خیال، بھائیاجی کی مردانگی، بھائیا جی کی عورتوں کے بارے میں سوچ، بھائیا جی کی گفتگو، ان کا لب ولہجہ— اگر منٹو کے بارے میں کہا جائے کہ اس نے صرف ٹو بہ ٹیک سنگھ دیا ہوتا تب بھی اردو ادب ان کا احسان مند ہوتا— یہی بات ان کرداروں کے حوالے سے کہی جاسکتی ہے۔ ایسے ناقابل فراموش کردار دے کر گیان سنگھ شاطر اردو زبان کا دامن وسیع کرگئے ہیں۔

ایک طرف جہاں یہ انوکھے کردار ہیں اورشاطر کا بچپن ہے، اس کا نسائی حسن ہے، اس کی جوانی ہے، جوانی کی ترنگیں ہیں، سرمستیاں ہیں اور مجبوریاں ہیں، وہیں سرزمین پنجاب میں اگی ہوئی وہ حیرانیاں ہیں، جنہیں دیکھنے کی تاب رکھنے والی آنکھیں ہونی چاہئیں اور جسے اپنے مخصوص انداز بیان میں، شاطر نے انوکھا پنجاب بنادیا ہے۔ بیدی نے اپنی کہانیوں میں جس پنجاب کا چھلکا بھر اتارا تھا، بلونت سنگھ نے جس کے گودے میں پنجابی مردوں کی آن، بان اورشان دیکھنے کی جرأت کی تھی، شاطر نے اس پورے پنجاب کو تہہ در تہہ اس طرح کھول دیا ہے کہ آنکھیں ششدر رہ جاتی ہیں۔

اس انوکھی اورنادر تحریر کے لیے گیان سنگھ شاطر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اردو ادب کو گیان سنگھ شاطر جیسا شاہکار دے کر قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ مگر افسوس گیان سنگھ کی اشاعت کے دوایک برس بعد ہی شاطر ایسے کھوئے کہ اس وقت وہ کہاں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا۔ نہ انہوں نے کوئی افسانہ خلق کیا اور نہ اس ناول کے بعد دوسرا کوئی ناول۔ مگراپنے اس ناول کی وجہ سے وہ اردو ناول کی دنیا میں اپنی ایسی موجودی درج کراگئے ہیں، جسے بھولنا آسان نہیں ہوگا۔

فائر ایریا(مصنف: الیاس احمد گدی)

’فائر ایئریا‘الیاس احمد گدی کا پہلا ناول ہے—فائر ایریا لکھنے کے دوتین سال بعد ہی الیاس احمدگدی انتقال بھی کرگئے —بہرکیف الیاس احمد گدی اردو کی افسانوی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے— وہ چند لوگ جو علامت اور تجرید کے بہائو میں بہے پھر واپس آگئے — ایسے چند گنے چنے لوگوں میں الیاس احمد گدی کو آسانی سے رکھا جاسکتا ہے۔ ایسا اس لیے بھی کہ الیاس احمد گدی کہانی کہنے کے فن سے واقف تھے اور انہیں ماجرا سازی کا ہنر آتاتھا۔

کچھ برس پہلے ہندی میں مشہور کتھا کار سنجیو کا ایک ناول شائع ہواتھا— ساودھان! ’نیچے آگ ہے‘— یہ ناول فائر ایریا یعنی کولفیلڈ میں کام کرنے والے ان مزدوروں کی زندگی پر مبنی تھا جو اندر دہک رہی آگ کی بھٹی میں اپنے حال اور مستقبل کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ تب خیال آیاتھا یہ ناول غیاث صاحب نے کیوں نہیں لکھا؟ یا اس موضوع پرالیاس صاحب نے قلم کیوں نہیں اٹھا یا— جب کہ دونوں کا تعلق اسی فائر ایریا شہر سے ہے جہاں اکثر کولیری میں ہوئے حادثات میں مزدوروں کی زندگیوں کاسودا ہوتا رہتا ہے۔

 اس لحاظ سے میں الیاس احمد گدی کو یاد کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ اس بہانے انہوں نے کولیری کی اس دنیا میں جھانکنے کی کوشش کی، جہاں گھٹن ہے، گھپ اندھیرا ہے، کھولتے ہوئے گرم لاوے ہیں … اندرآگ ہے اوراس آگ میں کندن کی طرح تپتا ہوا مزدور ہے۔ جو ہوا، خوشبو، سردوگرم کے احساسات، محبت ونفرت کے جذبات، زندگی کی خوشیاں، دھوپ کی تپش، بہاروں کے قافلے اوراپنے خوابوں، ارمانوں تک کو بھول بیٹھاتھا— یہ مزدور اپنے سرد وگرم احساس کی واپسی کے لیے الیاس احمد گدی جیسے اہل قلم کی پرزور تحریر کامنتظر ضرورت تھا۔ بڑے کینوس پر اگر ناول کی بساط بچھائیے تو اسی حساب سے کردار بھی آئیں گے، واقعات وحادثات کے لشکر ہوں گے جو کردار کے شانہ بشانہ چلیں گے— الیاس  احمد گدی نے فنی گرفت کے ساتھ ان کرداروں کو کولیری کے حبس زدہ ماحول میں چھوڑدیاجہاں سہدیو ہے، کالا چند ہے، مجمدار ہے، ورماصاحب ہیں …ختونیا ہے، اس کا جوان انقلابی بیٹا ہے، اس کا مرحوم شوہر ہے اور کولیری کے مالک ہیں — استحصال ہے اوراستحصال کرنے والے ہیں … آگ کی بھٹی ہے۔ اٹھتے ہوئے شعلے ہیں … شعلوں میں گھرے ہوئے انسان ہیں … جدوجہد ہے اورپھر ایک دھیما احتجاج… ایک خاموشی بھراغصہ…

الیاس احمد گدی نے اس ناول میں کہیں شاعری نہیں کی ہے۔ ماحول ویسا ہی پیش کیا ہے جیسا کولیری کا ہونا چاہئے۔ کرداروں کے مکالمے ویسے ہی رہنے دیے ہیں جیسا کہ یہ بول سکتے ہیں۔ علاقائی زبان کے علاوہ بہار کی دوسری بولی ٹھالی پر بھی مضبوط گرفت دیکھی جاسکتی ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فائرایریا کی تخلیق وہ شخص کررہا ہے جو بہار کے جغرافیائی حدود، زبان، ماحول اور کلچر سے بخوبی واقف ہے، اوراس واقفیت نے فائر ایریا کو ایک عمدہ اورکامیاب ناول بنادیا ہے۔ یہ مکمل طورپر ریسرچ کا موضوع تھا۔ ایسے ناول کی تخلیق ہوا میں ممکن نہیں تھی۔ اورخوشی ہے کہ الیاس احمد گدی نے کولیری کی عام زندگی کوحقیقت نگاری کے جلوے کے ساتھ اس ناول میں سمو دیا۔ آج الیاس احمد گدی کی کہانیاں کسی کو یاد نہیں لیکن الیاس احمد گدی اس ناول کے ذکر کے ساتھ اب بھی زندہ ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔