سیدنا حضرت علیؓ: پیکرِ علم و حکمت، مجسمۂ زہد و قناعت

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

سوانحی نقوش:

آپ کانام نامی اسم گرامی  علی المرتضیٰؓ اور کنیت ابوالحسن و ابوتراب ہے۔ کم سن بچوں میں سب سے پہلے آپﷺپر ایمان لےآئے، رشتے میں آپﷺکے سب سے قریبی صحابی تھے۔ یعنی آپﷺکے دادا اور سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کےدادا ایک تھے۔ آپؓ نے آپﷺکے گھر میں ہی پرورش پائی۔ پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ آپﷺسےحضرت علیؓ کے لیے حضرت فاطمہؓ کا رشتہ مانگ لیا جائے پس یہ دونوں حضرات آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کے لیے سیدہ حضرت فاطمہ زہراؓ کا رشتہ آپﷺسے مانگا۔ آپﷺنے حضرات شیخین کی سفارش کو قبول فرمایا۔ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے شادی کے اخراجات مہیا کیے، یوں سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ، داماد رسولﷺبنے۔ ان چاروں صحابہ کا آپﷺسے کتنا پیارا رشتہ ہے دو بڑے حضرات شیخین سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا حضرت عمرفاروقؓ آپﷺکے سسر ہیں اوریہ دو حضرات سیدنا حضرت عثمانؓ غنی اور سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ داماد ہیں ۔

سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ چونکہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اس لیے کتابت وحی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر صلح کا مسودہ آپؓ ہی کے مبارک ہاتھوں سے لکھا گیا۔ آپؓ نامور جنگجو اور تجربہ کار جرنیل تھے فتح خیبر کا سہرہ بھی آپؓ کے ہی سر ہے۔

غزوہ خندق میں عرب کے مشہور پہلوان عمرو بن عبد ودّ کو ایک ہی وار میں ہلاک کیا۔ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ مگر کمال درجہ کا علم و فراست اور فہم تھا کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں ان کے مشیر ومعاون خصوصی اور رازدار رہے حتٰی کہ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ ان کے مشوروں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھےاور اکثر اوقات سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کے مشورہ پر فیصلہ فرماتے تھے۔ آپؓ کا زمانہ خلافت عمومی طور پر مسلمانوں کی خانہ جنگی کا زمانہ تھا ویسے بھی خیر کا زمانہ دور ہوتا جا رہا تھا اور شر کی طرف انسانیت بڑھ رہی تھی مگر پھر بھی آپؓ کی خدا داد فراست نے بہت حد تک امت کی اجتماعیت کو منتشر ہونے سے بچائے رکھا خوارج اور روافض کی دسیسہ کاریوں کے باعث، جب ایک طرف روافض کی حد سے بڑھی ہوئی محبت نادان دوست کا کردار ادا کر رہی تھی اور دوسری طرف خوارج کا کلیجہ بغض اہل بیت میں جل بھون کر سیاہ ہو رہا تھا ان دگرگوں حالات میں حضرت علی المرتضیٰؓ نے جس دانائی سے گلشن اسلام کی حفاظت کی اس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ عاجز وقاصر ہے۔

خارجیوں کی جب سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کی مدبرانہ قیادت کے سامنے دال نہ گلی تو انہوں نے سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ، سیدنا حضرت امیرمعاویہؓ اور سیدنا حضرت عمرو بن عاصؓ کو شہید کرنے کا پلان بنایا۔ اور حملے کا دن پندرہ رمضان المبارک متعین کیا خارجیوں کے وار سے سیدنا حضرت امیرمعاویہؓ زخمی ہوئے؛مگر علاج کروانے سے ٹھیک ہوگئے اور سیدنا حضرت عمرو بن عاصؓ کسی عذر کی وجہ سے مسجد نہ جا سکے اور فجر کی نماز میں ان کی جگہ پر غلطی سے خارجہ نامی شخص کو خارجیوں نے شہید کر دیا البتہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ پر عبدالرحمٰن بن ملجم کا کاری وار پڑا اور آپؓ جانبر نہ ہوسکے اور جام شہادت نوش کر گئے۔ سیدنا حضرت علی المرتضی ٰ اللہ عنہ نے اٹھارہ بیٹے اور سولہ بیٹیاں پسماندگان میں چھوڑے۔

فضائل ومناقب:

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فضائل و مناقب تو حد شمار سے خارج ہیں ، ان کے دیگر فضائل سے قطع نظر وہ اہل حق کے نزدیک خلیفہ راشد ہیں ، امام برحق ہیں ، اہل بیت کے سرخیل ہیں ، مام اَحمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کے فضائل میں اِس کثرت کے ساتھ روایات مروی ہیں کہ کسی صحابی کے متعلق اس کثرت سے منقول نہیں ۔ (تاریخ الخلفاء)

حضرت زربن حبیش (تابعی) کہتے ہیں کہ سیدنا علی نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑا (یعنی اگایا ) اور ذی روح کو پیدا کیا درحقیقت نبی امی ﷺ نے مجھ کو یقین دلایا تھا کہ جو (کامل ) مؤمن ہوگا وہ مجھ سے (یعنی علی سے ) محبت رکھے گا اور جو منافق ہوگا وہ مجھ سے عداوت رکھے گا۔ ” (مسلم )

حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا تھا : (دنیا وآخرت میں قرابت ومرتبہ میں اور دینی مدد گار ہونے کے اعتبار سے ) تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسی علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام تھے بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ (بخاری ومسلم )

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ خداﷺنے فرمایا اللہ اَبوبکر پررحم کرے اُنہوں نے اپنی لڑکی کا نکاح میرے ساتھ کردیا اور مجھے دارُالہجرت (مدینے) تک سوار کرکے لائے اور غار میں میری رفاقت کی اور بلال کو اپنے مال سے آزاد کیا۔ اللہ عمر پر رحم کرے وہ سچ کہتے ہیں اگرچہ تلخ ہو، حق نے اِس حال میں چھوڑ دیا ہے کہ اُن کا کوئی دوست نہیں ۔ اللہ عثمان پر رحم کرے اُن سے فرشتے حیا کرتے ہیں ۔ اللہ علی پر رحم کرے، اے اللہ! حق اُسی طرف پھیردے جس طرف علی پھریں ۔ "”

 حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک خط میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھا ہے کہ آپ کی بزرگی جو اِسلام میں ہے اور آپ کی جو قرابت نبی علیہ السلام سے ہے، میں اُس کا منکر نہیں ہوں ۔ ( شرح نہج البلاغہ اِبن میسم )

 قاضی ابوبکر بن العربی“العواصم من القواصم” میں لکھتے ہیں :

ترجمہ:…”اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو روئے زمین پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی خلافت کا مستحق نہیں تھا، چنانچہ نوشتہ الٰہی کے مطابق انہیں خلافت اپنے ٹھیک وقت میں ملی، اور برمحل ملی۔ اور ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے وہ احکام و علوم ظاہر فرمائے جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: “اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔ ” اور اہل قبلہ سے قتال کرنے میں ان کے علم و تفقہ کے جوہر ظاہر ہوئے، مثلاً انہیں دعوت دینا، ان سے بحث و مناظرہ کرنا، ان سے لڑائی میں پہل نہ کرنا، اور ان کے ساتھ جنگ کرنے سے قبل یہ اعلان کرنا کہ ہم جنگ میں ابتداء نہیں کریں گے، بھاگنے والے کا تعاقب نہیں کیا جائے گا، کسی زخمی کو قتل نہیں کیا جائے گا، کسی خاتون سے تعرض نہیں کیا جائے گا، اور ہم ان کے مال کو غنیمت نہیں بنائیں گے، اور آپ کا یہ حکم فرمانا کہ اہل قبلہ کی شہادت مقبول ہوگی اور ان کی اقتدا میں نماز جائز ہے وغیرہ، حتیٰ کہ اہل علم کا قول ہے کہ: ”اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اہل قبلہ کے ساتھ قتال کے یہ واقعات پیش نہ آتے تو ہمیں اہل بغی کے ساتھ قتال کی صورت ہی معلوم نہ ہوسکتی۔ ” (العواصم من القواصم ص:۱۹۴)

حضرت علی کا ایک عجیب فیصلہ:

قوت فیصلہ اور افتا و قضا میں حضرت علی اپنی مثال آپ تھے، دربار رسالت سے آپ کو ‘واقضاھم علی‘کا پروانہ ملا تھا، چناں چہ ایک مرتبہ حضرت علی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا تھا۔ وہاں کے لوگ شیر کا شکار کرنے کے لئے گڑھا کھودا کرتے تھے اور مختلف تدبیروں سے شیر کو اس گڑھے میں گرا کر اسکا شکار کرتے تھے، ایک دن انہوں نے ایسا ہی ایک گڑھا کھودا اور شیر کو اس میں گرا لیا، آس پاس کے لوگ تماشا دیکھنے کے لئے گڑھے کے ارد گرد جمع ہو گئے اور اتنی دکھا پیل ہوئی کہ ايک آدمی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور گڑھے میں گرنے لگا، گرتے گرتے اس نے سنبھلنے کے لئے ایک پاس کھڑے ہوئے آدمی کا ہاتھ پکڑا، اس سے دوسرے آدمی کے بھی پاؤ اکھڑ گئے اور وہ بھی گرنے لگا اس نے سنبھلنے کے لئے ایک تیسرے آدمی کا ہاتھ پکڑا، اور تیسرے نے چوتھے کا، یہاں تک کہ چاروں گڑھے میں آ رہے، شیر ابھی زندہ تھا، اس نے چاروں کو اتنا زخمی کیا کہ وہیں ان کی موت واقع ہو گئی، اب مرنے والوں کے رشتہ داروں میں جھگڑا شروع ہوا کہ کہ انکا خون بہا کون دے؟ گفتگو میں تیزی آ گئی یہاں تک کہ تلواریں تک نکل آئیں اور خونریزی ہوتے ہوتے بچی، حضرت علی نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ان چاروں کی دیت (خون بہا) گڑھا کھودنے والے پر ہے، لیکن اس ترتیب سے کہ پہلے کو چوتھائی دیت، دوسرے کو تہائی دیت، تیسرے کو آدھی دیت، اور چوتھے کو پوری دیت ملے گی، بعد میں یہ قصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے اس کی تصویب فرمائی،

علامہ قرطبی تحریر فرماتے ہیں کہ اس فیصلہ کی وجہ یہ ہے کہ چاروں خطاءً قتل ہوئے تھے اور گڑھا کھودنے والا انکی دیت کا ذمہ دار تھا لیکن پہلا شخص مقتول ہونے کے ساتھ ساتھ تین آدمیوں کو کھینچنے کی وجہ سے انکا قاتل بھی تھا لہذا جو دیت اس کو ملتی اس کے تین حصے ہر مقتول پر تقسیم ہوکر اس کے لئے صرف چوتھائی حصہ بچا، اسی طرح دوسرا شخص دو آدمیوں کا قاتل ہے اس لئے اس کی دیت کے دو تہائی حصے اس کے دو مقتولوں کو اور ایک حصہ خود اس کو ملے گا، تیسرا شخص ایک آدمی کا قاتل تھا، اس لئے آدھی دیت اس کے مقتول کی اور آدھی دیت خود اس کی ہوگی اور چوتھے نے کسی کو نہیں کھینچا اس لئے اسے پوری دیت ملے گی.(تفسیر قرطبی ص۱۶۳، ج۱۵، تفسیر و اتیناہ الحکمۃ و فصل الخطاب)

اوصاف و خصائل:

ایک مرتبہ حضرت معاویہ نے اپنے عہد ِ خلافت میں ضرار اسدی سے جو حضرت علی کے اَصحاب میں سے تھے درخواست کی کہ اے ضرار ! علی کے کچھ اَوصاف بیان کرو۔ ضرار نے پہلے تو کچھ عذر کیا اُس کے بعد کہا کہ اَمیر المومنین سنیے :

اللہ کی قسم علی مرتضیٰ بڑے طاقتور تھے، فیصلے کی بات کہتے تھے اور اِنصاف کے ساتھ حکم دیتے تھے، علم اُن کے اَطراف وجوانب سے بہتا تھا اور حکمت اُن کے گرد سے ٹپکتی تھی۔ دُنیا اور اُس کی تازگی سے متوحش ہوتے تھے اور رات کی تنہائیوں اور وحشتوں سے اُنس حاصل کرتے تھے، روتے بہت تھے اور فکر میں زیادہ رہتے تھے، لباس اُن کو وہی پسند تھا جو کم قیمت ہو اور کھانا وہی مرغوب تھا جو اَدنیٰ درجہ کا ہو، ہمارے درمیان بالکل مساویانہ زندگی بسر کرتے تھے اور جب ہم کچھ پوچھتے تو جواب دیتے تھے اور باوجودیکہ ہم اُن کے مقرب تھے مگر اُن کی ہیئت کے سبب اُن سے بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی، وہ ہمیشہ اہلِ دین کی تعظیم کرتے تھے اور مساکین کو اپنے پاس بٹھلاتے تھے، کبھی کوئی طاقتور اپنی طاقت کی وجہ سے اُن سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی اُمیدنہ کر سکتا تھا اور کوئی کمزور اُن کے اِنصاف سے مایوس نہیں ہوتا تھا۔

خداکی قسم ! میں نے اُن کو بعض اَوقات دیکھا کہ جب رات ختم ہونے کوہوتی تھی تو اپنی داڑھی پکڑ کر اِس طرح بے قرار ہوتے تھے جیسے کوئی مار گزیدہ بے چین ہوتا ہے اور بہت دردناک آواز میں روتے تھے اور فرماتے تھے اے دُنیا ! میرے سوا کسی اور کو فریب دے تومیرے سامنے کیوں آتی ہے مجھے کیوں شوق دِلاتی ہے، یہ بات بہت دُور ہے، میں نے تجھ کو تین طلاقِ بائنہ دے دی ہیں جن میں رُجوع نہیں ہوسکتا، تیری عمر کم ہے اور تیری قدر ومنزلت بہت حقیر ہے، آہ ! زادِ راہ کم ہے اور سفر لمبا ہے اور راستہ وحشت ناک۔

یہ سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہنے لگے، اللہ کی رحمت نازل ہو اَبو الحسن پراللہ کی قسم وہ ایسے ہی تھے۔

تبصرے بند ہیں۔