سیدنا صدیقِ اکبرؓ

وردہ صدیقی

(نوشہرہ کینٹ)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ توحید پر لبیک کہنے والے اولین لوگوں میں سے عظیم شخصیت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔

آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی جان اور مال کے ذریعے دین اسلام، مسلمانوں کی عزت کی حفاظت کی اور ہر مشکل گھڑی میں حضور ﷺکے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔

آپ کا نام عبداللہ ہے۔ والد بزرگوار کا نام حضرت عثمان ہے۔ جو ابو قحافہ کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام حضرت سلمہ بنت صخرہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو بکر ہے۔ آپ کنیت ہی سے مشہور ہیں۔

آپ کی کنیت ابو بکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نیک عادات و اطوار کے مالک تھے۔ بچپن ہی سے سچ بولا کرتے تھے اور سچ کا ساتھ دیا کرتے تھے۔ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کی من و عن تصدیق کی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر سب سے پہلے بغیر کسی معجزے کی ایمان لائے آپ کی نبوت کی تصدیق فرمائی اس لئے آپ کا لقب "صدیق” سچ بولنے والا عطا ہوا۔

اس کے علاوہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا لقب” عتیق” بھی ہے اس بارے میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن والد بزرگوار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے ابوبکر اللہ عزوجل نے تجھے آگ سے آزاد کردیا۔” چنانچہ اس دن کے بعد آپ کا لقب عتیق مشہور ہوگیا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ قریش کے قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے اور آپ اپنی  عادات اطوار ،خوش اخلاقی اور ایمانداری کی وجہ سے مکہ میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ظاہری علوم سے بھی آراستہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اہلیان مکہ آپ کو کئی مواقع پر اپنا سفیر مقرر کیا کرتے تھے۔

آپ کی دیانت اور ذہانت کا یہ عالم تھا کہ نوجوانی میں ہی آپ کے قبیلے والوں نے آپ کو فیصلوں پر مقرر کردیا تھا۔ آپ اصولوں پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتے اور اپنے فیصلوں میں بھی انصاف سے کام لیتے تھے۔

آپ کا پیشہ تجارت تھا اور تجارت کی غرض سے کئی ممالک کا سفر کیا۔ آپ کی دیانتداری اور شرافت کی وجہ سے مشرکین مکہ اپنا مال تجارت آپ رضی اللہ عنہ کو دیتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ بچپن سے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے اور اکثر و بیشتر ان کے ہمراہ رہا کرتے تھے۔ کئی سفرِ تجارت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قبل از اسلام ہی معاشرتی برائیوں سے دور بھاگتے تھے۔ آپ نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ کبھی بتوں کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوئے۔ زمانہ جاہلیت کی تمام جاھل رسوم کے  باغی اور ان کے منکر تھے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب دیکھتے کہ کوئی شخص اپنے کمزور غلام پر تشدد کر رہا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ اس غلام کو خرید کر آزاد فرما دیتے۔ آپ کے آزاد کردہ غلاموں میں حضرت سیدنا بلال حبشی، حضرت عامر بن فھیرہ اور ابو نافع جیسے جلیل القدر صحابہ کرام بھی شامل ہیں۔

حلیہ مبارک

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ وہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا حلیہ مبارک بتائیں تو آپ نے فرمایا: ” اِن کا رنگ گورا تھا۔ جسم دبلا تھا اور رخسار حلقے تھے۔ ان کی کمر منحنی تھی کہ تہبند ٹھہرتا نہ تھا اور کمر سے ڈھلک جاتا تھا۔ چہرے کی رگیں ابھری ہوئی تھی اور آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی انگلیوں کی جڑیں گوشت سے خالی تھی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت کے ساتھی بھی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ سفر میں ہر دم آپ کا خیال رکھتے۔ دشمن کے نقصان پہنچانے کے ڈر سے کبھی دائیں بائیں ، کبھی آگے پیچھے چلتے۔ غارِ ثور میں پناہ لینا چاہی تو پہلے خود جاکر غار کی صفائی کی۔ پھر حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر بلایا۔ اس دوران سانپ نے بھی آپ کو ڈس لیا۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لعابِ شفا سے سب تکلیف جاتی رہی۔ مدینہ پہنچنے تک صدیق اکبررضی اللہ عنہ آپ کی حفاظت کے لئے فکرمند رہے۔ یہاں تک کہ بخیر وعافیت مدینہ پہنچ گئے۔

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر کے موقع پر جرات و شجاعت کی بے مثال داستان رقم کی۔ آپ رضی اللہ عنہ تلوار ہاتھ میں لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرماتے رہے۔  مشرکین مکہ جب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے۔  آپ رضی اللہ عنہ ان کے حملے کو ناکام بنا دیتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس نازک موقع پر حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ایک لمحے بھی غفلت نہیں برتی۔

غزوہ احد کی سخت جنگ ہو یا غزوہ احزاب میں مشکل ترین خندق کی کھدائی، تبوک کا لمبا سفر ہو یا  خیبر کی لڑائی ہر جنگ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں شریک رہے۔

حضور صلی اللہ علیہ کے غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر شعبان المعظم میں واقعہ افک پیش آیا۔ واقعہ افک کے پیش آنے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کو بھی اس بات کا شدید غم تھا کہ اِن کی پاکباز بیٹی پر تہمت لگائی گئی ہے۔  لیکن آپ رضی اللہ عنہ کبھی زبان پر شکوہ نہیں لائے۔ ایک مرتبہ یہ کہا کہ” اللہ عزوجل کی قسم !ایسی بات کبھی ہمارے بارے میں زمانہ جاہلیت میں بھی نہیں کی گئی۔” چنانچہ جب اللہ عزوجل کی جانب سے ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکبازی کی گواہی دی گئی تو آپ رضی اللہ عنہ سر بسجود  ہوگئے کہ اللہ عزوجل نے ان کے خاندان کی عزت کی گواہی دی۔

فضائل و مناقب

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں۔  اللہ تبارک و تعالی نے آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا ہے۔

سورہ بقرہ میں اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور اسے خرچ کرنے میں پوشیدہ رکھتے ہیں اور کبھی ان کا اظہار بھی ہو جاتا ہے۔ پس ایسے نیک لوگوں کے لئے اللہ کی جانب سے بے شمار اجر و ثواب ہے۔”

اس کے علاوہ سورہ توبہ میں بھی اللہ تبارک وتعالی نے "اِذ قال لصاحبہ لاتحزن اِن اللہ معنا”  میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ کا ذکر فرمایا ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے” ابوبکر رضی اللہ عنہ بوجہ کثرت صلو ۃو صیام تم سے افضل نہیں بلکہ اس طبعی محبت کی وجہ سے  افضل ہیں جو اِن کے قلب میں میرے لئے موجود ہے۔”

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ابوبکر رضی اللہ عنہ غار میں بھی میرے ساتھی تھے اور حوضِ کوثر پر بھی میرے ساتھی ہوں گے۔”

سیدنا حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :” میری امت میں ابو بکر اور عمر سے زیادہ افضل، متقی، عدل و انصاف کرنے والا اور پرہیزگار کوئی دوسرا شخص نہیں ہے.”

حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ وسلم نے فرمایا: "اگر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو اسلام جاتا رہتا”

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” مجھ پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے احسانات بے شمار ہیں۔  اِن سے بڑھ کر کسی کا احسان نہیں۔  انہوں نے اپنی جان اور مال کے ذریعے سے میری مدد کی اور اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا۔”

ترمذی شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” میں نے سب کے ساتھ کا بدلہ چکا دیامگر ابوبکر کے احسانات کا بدلہ بروز محشر اللہ عزوجل خود دیں گے.”

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ نے فرمایا: "پہلے آسمان پر اسی ہزار فرشتے اس شخص کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا ہے اور  دوسرے آسمان پر اسی ہزار فرشتے اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں جو سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھم سے بغض رکھتا ہے”

سیرتِ مبارکہ

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نیک عادات و اطوار کے مالک تھے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اپنی پاکبازی، رحمدلی، دیانتداری اور راست گوئی کی وجہ سے مشہور تھے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اپنے کام خود کر دیا کرتے تھے۔ دوسروں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔اگر سفر کے دوران گھوڑے کی لگام ہاتھ سے چھوٹ جاتی تو بجائے کسی کو کہنے کے خود ہی اتر کر گھوڑے کی لگام دوبارہ تھام لیتے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کی عادت کریمہ تھی۔ جب کبھی بیت المال سے نیا کپڑا لیتے تو پرانا لباس بیت المال میں جمع کرادیتے تھے۔ آپ رضی اللہ اِسراف اور فضول خرچی کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ اس میں ہمیشہ سادگی اختیار کی۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہایت منکسر المزاج تھے۔ کسی کی خدمت کرنا عار نہیں سمجھتے تھے۔ خلافت پر فائز ہونے کے بعد بھی اکثر بھیڑ بکریاں خود ہی چراتے تھے۔ اہل محلہ اور علاقے کی بکریوں کا دودھ دھوتے تھے۔ جب آپ خلافت پر فائز ہوئے تو ایک بچی نے ماں سے فکرمندی سے پوچھا کہ اب ہماری بکریوں کا دودھ کون دھوئے گا۔  آپ کو علم ہوا تو فرمانے لگے :”  اللہ کی قسم! میں بکریوں کا دودھ بھی دھونگا اور خلافت کا یہ منصب مجھے لوگوں کی خدمت کرنے سے نہیں روک سکتا”

آپ زہد اور تقوی کے زیور سے آراستہ تھے۔ ہمیشہ خود کو حرام کھانے سے بچایا۔ ایک مرتبہ غلام نے کہانت سے کمائے ہوئے مال کا کھانا کھلا دیا۔ جب آپ کو معلوم ہوا تو فوراً قے کر دیا۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رات بھر جاگتے اور رکوع اور سجود کیا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کثرت سے نمازیں پڑھا کرتے اور دن کو روزہ رکھا کرتے تھے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح خوب مہمان نواز اور فیاض تھے۔ آپ مہمان کی آمد کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ مہمان کی خاطر داری میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ آنے دیتے تھے۔ نہایت فصیح اور بلیغ اور احسن الکلام تھے۔

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو  دیگر اصحاب پر فوقیت حاصل تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حِکمت و بصیرت کی وجہ سے آپ سے مختلف امور میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آپ کو مشیر نبی ہونے اور راز دار نبی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ مختلف علوم و فنون میں خاصی مہارت رکھتے تھے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بخل سے شدید نفرت تھی۔ مسلمان بھائیوں کی خوب مالی امداد کیا کرتے تھے۔ ہر مشکل وقت میں آپ کا مال دینِ اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش پیش ہوتا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:” مجھے جس قدر فائدہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے مال اور اِیثار سے پہنچا ہے اتنا فائدہ کسی اور کے مال اور اِیثار سے نہیں پہنچا”۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا تو خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور روتے ہوئے عرض کی۔ ” یا رسول اللہ! میری ذات, میرا مال،  میرا سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تو ہے”۔

امامت و خلافت

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے مصلی کا وارث بنا دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وصال سے قبل کچھ دیر کے لئے افاقہ ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز کی ادائیگی کے لئے غسل فرمایا۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ امامت فرما رہے تھے۔ حضور صلی اللہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا فرمائی اور اپنا آخری خطبہ دیا۔

"میں سب سے زیادہ جس کے احسانات کا ممنون ہوں وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور اگر دنیا میں کسی کو میں اپنا دوست بناتا ہوں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوتے۔ اسلام کا رشتہ دوستی کے اس رشتے کے لیے کافی ہے اور مسجد کا رخ کوئی دریچہ ابوبکر کے دریچے کے علاوہ باقی نہ رکھا جائے.”

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے خلافت کا منصب سنبھالا۔  اس وقت آپ رضی اللہ تعالی کی عمر 61 برس تھی۔  مدینہ منورہ میں منافقین اسلام کے خلاف سازشوں  میں مصروف تھے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر ان کی ہر سازش کو ناکام بنادیا۔

حضرت سیدنا علی المرتضی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے میں نے ان سے پوچھا کہ میرے ساتھ کون ہجرت کرے گا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہجرت کریں گے اور آپ کے بعد وہ امت کے نِگران ہوں گے اور وہ آپ کی امت میں سب سے فضیلت والے ہیں۔”

حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کو اِمامت کے لیے آگے کیا۔ حالانکہ میں بھی وہاں موجود تھا اور تندرست تھا۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  چاہتے تو مجھے بھی امامت کے لئے آگے کر سکتے تھے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم دیا۔ ہم نے بھی اسے پسند کیا جسے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند کیا.”

آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد امور خلافت میں کوتاہی نہیں کی۔ آپ  بطور خلیفہ بہترین منتظم تھے۔ آپ کے دور خلافت میں بیت المال کا کوئی چوکیدار نہ تھا۔ بیت المال میں جو کچھ آتا، تقسیم فرمادیتے تھے۔

جمع القرآن و تدوین حدیث

    حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا ایک عظیم الشان کارناموں میں سے ایک کارنامہ قرآن مجید کو جمع کرنا بھی ہے۔جس کی بدولت آج ہر مسلمان کو قرآن مجید پڑھنے میں آسانی ہو گئی ہے۔

جنگ یمامہ میں جب بہت سے حفاظ کرام شہید ہوئے اور قرآن مجید کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو رائے دی کہ قرآن مجید کو جمع کیا جائے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی یہ کام حضرت زید بنا ثابت رضی اللہ عنہ کے ذمے لگایا کیونکہ وہ جوان اور کاتب وحی بھی تھے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے مختصر دور خلافت میں قرآن مجید کو اکٹھا کرنے کے علاوہ تدوین حدیث کا کام بھی سرانجام دیا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی خلافت کے مختصر عرصے میں حدیث کا ایک مجموعہ تیار کیا۔ جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مستند پانچ سو احادیث موجود تھی۔ آپ نے احادیث کا مجموعہ اپنی بیٹی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ کے سپرد کیا۔

منکرین زکوۃ کی سرکوبی

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب منصب خلافت پر فائز ہوئے۔ اس وقت ایک اہم اور نازک مسئلہ منکرین زکو ۃکا اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ مسلمانوں کا ایک گروہ تھا۔ جو خود کو تو مسلمان کہتا تھا اور دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا تھا مگر زکوۃ کا منکر تھا۔ بعض اکابر صحابہ کرام کے اختلاف کے باوجود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اِصرار تھا کہ منکرین زکو ۃکے خلاف جنگ کی جائے۔ آپ رضی اللہ تعالی نے منکرین زکوۃ کی سرکوبی کے لئے لشکر روانہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ زکو ۃکے منکر تھے انہوں نے زکوۃ ادا کرنا شروع کردی۔

   آپ رضی اللہ عنہ کی  معاملہ فہمی ، اسلامی اور سیاسی بصیرت ہی تھی کہ اگر منکرین زکو ۃکے خلاف لشکر ترتیب نہ دیا جاتا تو دین اسلام کے بنیادی ارکان ایک ایک کر کے ختم ہو جاتے ہیں۔

نبوت کے دعویدار

حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔”

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت سے جھوٹے نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوئے۔ اسود عنسی اور ابن صیاد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے قبل ہی نبوت کا جھوٹا دعوی کردیا تھا۔ مگر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبوت کے ان جھوٹے دعوے داروں کا بھی خاتمہ کرکے اس فتنے کو ختم کر دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مسیلمہ کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں ایک لشکر بھیجا۔ جس نے اس جھوٹے دعویدار  کے لشکر کو شکست دی اور مسیلمہ کذاب واصل جہنم ہوا۔

وصال

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مرض الموت کی ابتداء 7 جمادی الثانی کو ہوئی۔ آپ رضی اللہ نے غسل کیا  تو آپ کو بخار ہو گیا۔ جو پندرہ دن تک رہا۔ اس دوران آپ رضی اللہ عنہ کے حکم پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ امامت فرماتے رہے۔

بلآخر 63 سال کی عمر میں  21 جمادی الثانی 13 ہجری کو آپ اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ کی نماز جنازہ حضرت سیدنا عمر فاروق  رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور قبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھودی گئی۔

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی کا بہترین سرمایہ حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کے ایمان کا جو معیار بتایا گیا ہے، اس میں سے ایک حضور اکرم صلی اللہ وسلم کی محبت اپنی جان، مال، اولاد الغرض تمام دنیاوی نعمتوں سے بڑھ کر ہونی چاہیے اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر اس کسوٹی پر کوئی پورا نہیں اترتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہنے کے سبب اپنے اقوال و افعال میں سب سے زیادہ مشابہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے۔

تبصرے بند ہیں۔