صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کا حکم 

محمد عرفان شیخ یونس سراجی

نبی کریم ﷺ کی بعثت قبل جہاں  لوگ زیغ وضلال، شرک وبدعات، اوہام وخرافات، بت پرستی  وقبر ستی   میں  مستغرق تھے وہیں شجر وحجرکو تبرکا وتیمنا چومنے چاٹنے  اور ایمان کش اعمال   انجام دینے کو  اپنی سعادت مندی اور خوش نصیبی سمجھتے تھے۔لیکن جب ہمارے آئیڈیل ونمونہ جناب احمد مصطفی ﷺ کی  بعثت ہوئی اور نبوت سے سرفراز ہوئے ، تو اعلاء کلمۃ اللہ اور توحید کی صدا عام کرنے  کے لیے  مصائب وآلام کی پرواہ کیے بغیر  یکسر جٹ گیے۔نتیجتا تیئیس سال کی قلیل مدت میں توحید کی خوشبو اپنے صحابہ کرام کے قلوب واذہان میں گھول دیا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  ہمہ وقت آپ کے  سکھ دکھ اور غم میں شریک رہے ،جب بھی  آپ  کو کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اپنا تن من اور دھن لٹانے کے لیے  تیار ہوجاتے ۔نبی کریم ﷺ اپنے یار غار کے تئیں فرماتے ہیں: ”مَا نَفَعَنِي مَالٌ قَطُّ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ»، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: وَهَلْ أَنَا وَمَالِي إِلَّا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟“.(صحيح ابن حبان:6858) ترجمہ: ”مجھے کسی مال نے کبھی بھی اتنا فائدہ نہیں پہونچایا جتنا کہ ابو بکر کے مال نے پہونچایا،یہ سنتے  ہی ابو بکررضی اللہ  عنہرونے پڑے اور گویا ہوئے: (ایسی بات کیوں کہہ رہے ہیں)کیا میں اور میرا مال آپ کے لیے نہیں ہے؟“۔یعنی میں اور میرا مال سب کچھ آپ پر قربان ہیں۔تاہم نبی کریمﷺ کی محبت کے جھوٹے دعویداران  صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکی تنقیص وتذلیل میں  ایمان باختہ جملے کستے ہیں ،سب وشتم  اور نازیبہ کلمات کی بوچھار کرتے ہیں ،یہ جانتے ہوئے کہ اسلام کی نشرواشاعت میں ان  پاک باز ہستیوں نےدقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ،اس کی سربلندی   کی خاطر ، اسے  عالمگیر بنانے کے لیے انتھک جاں فشانیاں کیں،بنابریں نبی کریمﷺکا فرمان ہے :”خَیرُ الْقُرُونِ قَرْنِی، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ،ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِيْنَهُ،وَيَمِيْنُهُ شَهَادَتَهُ“.(صحیح بخاری،ح:2652،وصحیح مسلم،ح:2533) ترجمہ:”سب سے بہتر  لوگ  میرے زمانے کے ہیں،پھر جو اس کے بعد ہیں ، پھر جو اس کے بعد ہیں ، پھر اس کے بعد ایسے لوگ  آئیں گے جن کی گواہی  قسم پر  اور ان کی قسم گواہی پر سبقت لے جائے گی“۔

علاوہ ازیں  نبی کریم ﷺکا فرمان ہے :”أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللهِ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَّعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِيْ فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيْرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْنَ، تَمَسَّكُوْا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّواجِذْ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ“(سنن أبی داود،ح:۴۶۰۷) ترجمہ: ”میں تمہیں اللہ کا تقوى اختیار کرنے اور سمع وطاعت (أمراء وحکام کی بات سننے اور فرماں برداری کرنے) کی وصیت کرتا ہوں،اگرچہ تمہارے اوپر کوئی حبشی غلام (امیروحاکم)مقرر کیوں نہ ہوجائے،بنابریں کہ یقینا تم  میں سے جو بھی میرے بعدزندگی بسر کرےگا ،عنقریب بہت زیادہ اختلاف وانتشار اور انارکی دیکھےگا،اس لیے میری سنت اورمیرے بعد ہدایت یاب خلفا راشدین کی سنت  کو   انتہائی  مضبوطی وپختگی کے ساتھ پکڑ لو، اور” دین میں”ہرنئی ایجاد کردہ  امور  سے پرہیزو اجتناب کرو، اس لیے کہ ہر ایجاد کردنئی  چیز بدعت ہے ،اورہر بدعت گمراہی ہے“۔

اس حدیث میں نبی کریم ﷺنے اپنی سنت  کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت اختیار کرنے کی پرزور تلقین کی ہیں۔

صحابہ کرام کی  شان میں گستاخی کاحکم:

 صحابہ  کرام رضی اللہ عنہم کو سب وشتم کرنااور گالی دینا ،اور ان کی شان میں جائز سمجھتے ہوئے گستاخی کرنا کفر ہے۔یہ بات معلوم ہے کہ تمام صحابہ عادل اور ثقہ ہے ،جس پر تمام علماء وفقہاء کا اجماع ہے۔

 تمام صحابہ  کو گالی دینا یا تمام کی عدالت  میں طعن  اور قدح کرنا  ایمان کا مناقض ہے ،یہ ایسے ہے جیسے کوئی انہیں کفر وفسق اور ضلال کی طرف نسبت کررہا ہو۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں پور ےجزم کے ساتھ ان تمام  قبیح جملے کسنے والے کی تکفیر کرتا ہوں جن کے اقوال کے ذریعہ امت  کی تضلیل اور تمام صحابہ کرام کی تکفیر  ہوتی ہو۔(الملل والنحل۱۷۴/۱)

اور امام سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یقینا تمام صحابہ کو گالی دینا اور ان کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے۔مزید براں فرماتے ہیں:بایں طور امام طحاوی کا قول ذکر کرنا مناسب ہے ، وہ فرماتے ہیں :بعض  صحابہ کرام رضی اللہ  عنہم سے بغض وعداوت  رکھنا کفر ہے ، اور رہی بات جملہ صحابہ کرام سے بغض وعدوت  رکھنے کی  تویہ  بلاشبہ کفر ہے۔(فتاوی السبکی ۵۷۵/۲)

ابن کثیر رحمہ اللہ  رقمطرازہیں: جس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ گمان رکھا کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ  کی خلافت کی وصیت چھپالی ، تواس نے تمام صحابہ  کو نبی کریمﷺ کی معاندت اور دشمنی میں  فسق وفجور کی جانب منسوب کردیا ۔ لوگوں میں سے جس کی  اس مقام  تک رسائی ہوگئی وہ  بالاجماع اسلام سے خارج   اور کافر ہوگیا،اور اس کا خون بہانابھی حلال ہوگیا۔(البدایہ والنہایہ۲۵۲/۵)

محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس نے جمہور صحابہ کو فسق وفجور اور کفر کی طرف منسوب کیا اور تمام  کو باطل  پر محصورکردیا،تویقینا اس نے نبی ﷺ کی اہانت کی، اور نبی کریمﷺ کی اہانت  کفر ہے ۔(الرد علی الرافضہ ،ص:۸)

اس باب میں علماء فقہاء کے  کتاب وسنت اور اجماع سلف کی روشنی میں بہت سارے اقوال مختلف  مصنفات میں  کثرت سے موجود ہیں۔

 بلا شبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت  ہمارے لیے حجت ہے، اور ان کی شان میں گستاخی کرنا یا انہیں کفر ونفاقاور فسق وفجورجیسی قبیح صفات سے متصف کرنا  بالاجماع کفر ہے۔

 آخر  میں  اللہ تعالی سے دست بدعا ہوں  کہ ہمارے دلوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت جاں گزیں  کردے  ،نیز ان  کی شان میں گستاخی کرنے والوں  کو سامان عبرت بنادے۔آمین

تبصرے بند ہیں۔