طلعت پروین کی آزاد نظمیں

ٹی۔ ایم  ضیا ء الحق

طلعت پروین بہار کی یا اردو دنیا کی چند قلمکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے آزاد نظم کی شروعات کی۔ طلعت ایک فطری شاعرہ ہیں یا یہ کہیں کی فطری ادیبا۔ اور ساتھ ساتھ ایک ہمدرد خاتون ہونے کی وجہ کر اِن کی نظمیں مظلوم اور بے کس کی آواز ہوتی ہیں۔

نام طلعت پروین اپنے والد سید مبین الدین کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں اور بہار کے گیا ضلع کے منگرائن گاؤں ان کا وطن اور قطب الدین لین پٹنہ میں اپنے خاوند سید اقبال احمد کے ہمرا ہ رہتی ہیں۔

طلعت کو بچپن میں خوشگوار مذہبی فضا ملی جس سے ان کی ذہن اور نگاہ کی تربیت ایک خاص انداز سے ہوئی۔ والدین کی نگرانی میں ابتدائی تعلیم ہوئی۔ اس کے بعد گیا گرلس ہائی اسکول سے میٹرک اور آگے کی تعلیم گیا او رپٹنہ میں ہوئی اور ابھی سید نہال احسن ڈگری کالج باڑھ میں ہوم سائنس کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

طلعت کو لکھنے کا شوق بچپن سے ہی ہے۔ اسکول میں تھیں تب سے لکھنا شروع کر دیا۔ مگر چھپنے اور چھپانے سے دور رہیں۔

کالج میں طالب علموں کے اصرار پر فیس بک پر لکھنا شروع کیا تو ملک بھر میں پذیرائی ملنے لگی۔ جب طلعت نے اپنی نظم’ وہ صبح کبھی تو آئے گی‘ لکھی تو اتر پردیش کی ایک ادبی تنظیم ’ گفتگو‘ نے ان کو سوبھدرا کماری چوہان سمّان سے نوازا۔ نظم کی کچھ لائن آپ بھی دیکھ دیکھیں۔

کہنے کو چند سالوں میں

وقت بہت بدلا ہے۔ یا حالات

بہت رلاتے ہیں ! لوگوں کی سوچ

اور جینے کا نظریہ! سب کچھ

بہت بدلا ہے!

ترقی کی طرف گامزن

اونچ نیچ سے پرے

لوگ تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں

کہنے کو اس سماج سے جاہلیت ختم ہو چکی ہے

………

طلعت نے نظم بھی کہی۔ نظم کا ایک شعر جو بہت مشہور ہوا۔

کھیل تماشہ دیکھ رہے سب ملک کی بربادی کا

کیسے جشن مناؤں بولو بھارت کی آزادی کا

طلعت کی نظم’ ماں ‘ ، بہت اداس ہو میں ‘ ، ’ ہصثمسفر‘، سندیسہ پیار کا‘ اور ہوتا نہیں زمیں بوس برگد کو ملک بھر میں پذیرائی ملی اور ہندی اور ارد وکے کئی ادبی رسالے میں چھپی۔

دو نظم آپ کی نظر

سندیسہ پیار کا

اس نے ایک نو خیز کلی کو

پیار کا سندیسہ بھیجا ہے

حیرت ہے اس بڈھے پر جو

نتنی اور پوتی کی عمر کی

لڑکی کو سندیسہ بھیجے

عشق کی اس سے پینگ بڑھائے

خود سے بھی وہ دھوکہ کھائے

اس کی سمجھ میں یہ بھی نہ آئے

چہرے کی اس نگری میں

کھیل ہیں سب یہاں نرالے

کچھ اجلے ہیں تو کچھ کالے

اندھا راجا چوپٹ نگری

اس نگری میں سب چوپٹ

وہ بھی چوپٹ تو بھی چوپٹ

عقل کے گر ہوں ناخن تم میں

ہوش کو اپنے ذرا سنبھالو

بڈھوں سے تو خود کو بچالے…

اور دیکھیں دوسری نظم ماں

ماں

دھوپ بھی میں ہوں

چھاؤں بھی میں

سرد ہوا کا جھونکا میں

بارش کی پھوہار ہوں میں

دھرتی کا سنگار ہوں میں

گلشن کی مہکار ہوں میں

اس دنیا میں بس پیار ہوں میں

الفت کا اظہار ہوں میں

ہر غم تیرا میرا غم

تیری الجھن میری ہے

تیری جبیں پر ایک شکن بھی

میری جان پہ بھاری ہے

تیری ہنسی پر میں قربان

تجھ پہ نچھاور دل اور جان

میرے جسم کا حصہ تو

رگ رگ میں ہے تو ہی تو

کہتی ہے دنیا مجھ کو ’ہاں ‘

بیٹے! میں ہوں تیری ماں

2 تبصرے
  1. Avatar photo
    ٹی۔ ایم ضیا ء الحق کہتے ہیں

    پیت عمدہ

  2. Avatar photo
    ٹی۔ ایم ضیا ء الحق کہتے ہیں

    بہت شکر یہ

تبصرے بند ہیں۔