علم، عمل، سر سید اور ہم

عالم نقوی

ہم  سبھی لوگ  اپنے عمومی رویے کے مطابق سر سید کے بارے میں  افراط یا تفریط کے شکار ہیں۔ اگرچہ ہم ایک بت شکن قوم ہیں لیکن دیگر ہم وطنوں کی طرح   ہم نے بھی کچھ شخصیتوں کے بت بنا رکھے ہیں اور ’پرستش ‘ نہ سہی اپنی محبوب شخصیات کو ’آدمی ‘ کے بجائے ’فرشتوں ‘ کا درجہ ضرور  دے رکھا ہے۔ سر سید اور مولانا آزاد  کا شمار انہیں شخصیتوں میں کیا جا سکتا ہے ۔

پچھلے دس بارہ  برسوں کے دوران جب سے ہم نے سرسید کی تحریروں  کو اور سر سید کی شخصیت و   افکار کے  بارے میں پڑھنا شروع کیا ہے،  معتدل اور حقیقت پسندانہ نظریات کی کمی شدت سے محسوس کی ہے۔ یا تو وہ  ’نثری قصیدے‘ ہیں کہ جن میں تعریف و توصیف شاعری کی طرح ’مبالغے ‘کی سرحدوں میں جا نکلتی ہے۔ یا ’ہجو ‘ ہے کہ جس میں  بیشتر کردار کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔ یا تو وہ بالکل  ’’معصوم ‘‘ نظر آتے ہیں  یا محض ’’ غلطیوں کے پتلے‘‘ !

 ’آدمی کی جون ‘میں اُنہیں  دیکھنے اور سمجھنے کی ایماندارانہ  کوشش خال خال ہی نظر آتی ہے۔ اگر ایک گروہ انہیں ’رحمۃا للہ علیہ ‘ کے لاحقے کے بغیر یاد کرنا گناہ سمجھتا ہے تو دوسرا گروہ انہیں’’لعنت اللہ علیہ‘‘ ‘کہنے سے باز نہیں آتا کیونکہ وہ ان کے خلاف کفر و اِرتداد کے سابقہ فتووں سے آگے کچھ دیکھ ہی نہیں پاتا ۔

جبکہ حقیقت صرف اتنی  ہے کہ سر سید بھی ہمارے اور آپ کے جیسے ہی  ’آدمی ‘ تھے جن سے غلطیاں بھی ہوئیں اور تاریخ ساز عملی، تعلیمی اور تہذیبی   کام بھی۔ تاہم وہ ’ بڑے ‘ ضرور تھے جس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ ان کا لکھا اور بولا ہوا بیشتر سرمایہ محفوظ ہے جس میں اُن کے ’آدمی ہونے ‘کے ساری شہادتیں مِن وَ عَن موجود ہیں۔ اور دوسرا ثبوت یہ ہے کہ انہیں چاہنے والے اُن سے عشق کرتے ہیں اور ان کی بعض فکری و تحریری غلطیوں کی بنا پر ان  سے اتفاق نہ رکھنے والے اُن سے اُتنی ہی شدید نفرت !اس جگہ یہ اعتراف  ضروری ہے کہ خود ہم بھی ماضی میں ، کسی قدر، افراط و تفریط کے شکار رہ چکے ہیں۔

سر سید اور اقبال دونوں ہی’ اپنے وقت کی پیداوار بڑے لوگ ‘تھے۔ اقبال کے ابتدائی کلام اور سفر یورپ سے واپسی کے بعد کے کلام  و افکار میں نمایاں فرق ہے۔ یہاں تک کہ بائیں بازو والے  بعض مفکرین انہیں مارکسی اور اشتراکی شاعر  و  دانشور لکھ دیتے ہیں اور ’شاعر ِ مشرق ‘، شاعر قرآن اور اسلامی فلسفی تو وہ ہیں ہی !کچھ یہی حال سر سید کا بھی ہے۔ ان کے افکار و نظریات میں تضادات سے کسی کو انکار نہیں لیکن ان کے ناقدین اور عاشقین کے رویے اس سے کہیں زیادہ متضاد، باہم متصادم  اور متغائر ہیں۔

ہم  برادر شمیم طارق  سے متفق ہیں کہ ’’سر سید نے )بر صغیر کے مسلمانوں کو تعلیم و تہذیب کا ایک نیا شعور اور ایک ایسی تعلیم گاہ عطا کی جہاں ذہن و کردار کو تقویت حاصل ہونے کے ساتھ ملازمت کے حصول کی راہ بھی کھلتی ہے۔ ۔ سر سید کے تصور تہذیب کو اس نصب العین سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو اقوام کی باعزت زندگی کا معیار اور ضامن ہے‘‘ (سہ ماہی فکر و نظر جون ۲۰۱۷ ص ۷۔ ۸)

لیکن آئیے  آگے بڑھنے سے پہلے ہم آپ کو  سر سید کے بعض قابل اعتراض افکار کی جھلک دکھاتے ہیں :

   ’مسافران ِلندن ‘علی گڑھ مسلم یانیورسٹی اولڈ بوائز ایسو سی ایشن پاکستان کی ۱۹۹۶ میں شایع کردہ ایک کتاب ہے جس میں سر سید کے وہ خطوط ہیں جو اُنہوں اپنے قیام ِلندن کے زمانے میں لکھے تھے۔ اس کتاب کے صفحہ ۱۸۸ تا ۱۹۱پر مندرج ان کے ایک خط کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو :

’’۔ ۔ ہم ہندوستان میں انگریزوں کو ایک نہایت بد اخلاقی کا ملزم ٹھہرا کر (اگرچہ اب بھی میں اس الزام سے ان کو بری نہیں کرتا ) یہ کہتے تھے کہ انگریز ہندوستانیوں کو بالکل جانور سمجھتے ہیں اور نہایت حقیر جانتے ہیں، یہ ہماری غلطی تھی۔ وہ ہم کو سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ در حقیقت ہم ایسے ہی ہیں۔ ۔ میں بلا مبالغہ نہایت سچے دل سے کہتا ہوں کہ تمام ہندوستانیوں کو ’اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک ‘ امیر سے لے کر غریب تک، سوداگر سے لے کر اہل حرفہ تک، عالم فاضل سے لے کر جاہل (تک سب کو) انگریزوں

کی تعلیم و تربیت اور شائستگی کے مقابلے میں در حقیقت ایسی ہی نسبت ہے جیسے نہایت لائق اور خوبصورت آدمی کے سامنے میلے کچیلے وحشی جانور کی۔ پس (کیا )تم کسی جانور کو قابل تعظیم یا لائق، ادب کے، سمجھتے ہو ؟کچھ اس کے ساتھ اخلاق اور بد اخلاقی کا خیال کرتے ہو ؟ہر گز نہیں کرتے۔ پس ہمارا کچھ حق نہیں ہے۔ (اگر چہ وجہ ہے )کہ انگریز ہم ہندوستانیوں کو ہندوستان میں کیوں نہ وحشی جانور کی طرح سمجھیں۔ ۔ ۔ جو کچھ میں نے یہاں(لندن میں ) دیکھا اور دیکھتا ہوں امکان نہ تھا کہ وہ ہندوستان میں وہم و گمان میں بھی آ سکتا۔ ۔ ۔ تمام خوبیاں دینی و دنیاوی جو انسان میں ہونی چاہئیں، وہ خدا تعالیٰ نے یورپ کو اور اس میں با لتخصیص انگلینڈ کو مرحمت فرمائی ہیں۔ ۔ ۔ اگر ہندستان کے لوگ بھی عموماً تربیت پا جاویں تو ہندوستانی بسبب اپنے قدرتی اوصاف کے انگلستان سے نہیں تو یقینی اس کے قریب قریب گلزار ہو جاوے۔ ‘‘

اب ذرا سرسید کے اُس لکچر کے کچھ اقتباسات  بھی پڑھ لیجیے جو انہوں نے دسمبر ۱۸۸۷ میں لکھنو کے کسی اجلاس عام  میں دیا تھا َ :

’’اگر کوئی ملک، گورمنٹ فتح کرے۔ برما لے لے۔ افغانستان سے لڑے (یا )اس سے صلح کرلے۔ ان سے ہم لوگ جو ملک کے باشندے ہیں کچھ سروکار نہیں رکھتے۔ ۔ گورمنٹ نے ایک کونسل رکھی ہے جو قانون بناتی ہے۔ ۔ اس کونسل میں چند ممبر تنخواہ دار ہیں۔ علاوہ ان کے ہر صوبے سے جو گورمنٹ کی دانست میں نہایت ہوشیار اہلکار گورمنٹ کے ہیں، ہر صوبے سے بلاتی ہے۔ ۔ گورمنٹ ہندستانی رئیسوں  میں سے جن کو وہ اس کرسی پر بیٹھنے کے قابل اور با عتبار و عزت کے مناسب سمجھتی ہے اُن کو بلاتی ہے۔ شاید اس بات پر لوگوں کو شبہ ہوا ہوگا کہ با عتبار عزت کے کیوں بلاتی ہے با عتبار لیاقت کے کیوں نہیں بلاتی ہے ؟۔ ۔ کیا ہمارے ملک کے رئیس اس کو پسند کریں گے کہ ادنیٰ قوم یا ادنیٰ درجہ کا آدمی خواہ اس نے بی اے کی ڈگری لی ہو یا ایم اے کی۔ اور وہ لائق بھی ہو، اُن پر بیٹھ کر حکومت کرے ؟ اُن کے مال جائداد و عزت پر حاکم ہو ؟ کبھی نہیں۔ ۔ گورمنٹ مجبور ہے کہ سوائے معزز کے کسی کو نہیں بٹھا سکتی اور نہ وائسرائے اس کو ’مائی کُلیگ ‘یا ’مائی آنر یبل کُلیگ یعنی (صاحب ) بہادر یا معزز صاحب کہہ سکتا ہے۔ نہ شہنشاہی جلوسوں میں جہاں ڈیوک اور ’اَرل‘ اور بڑے بڑے معزز شامل ہوتے ہیں، بلایا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ (ماہنامہ فکر نَو علیگڑھ ستمبر ۲۰۱۷ ص۹)‘‘

ظاہر ہے کہ سر سید کے یہ افکار اور ان کی بعض تفسیری غلطیاں انتہا پسندانہ رد عمل کو دعوت دینے کے تمام امکانات اپنے اندر رکھتی ہیں لیکن آج ان کی پیدائش (۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ء)کے دوسو برس اور  موت (۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء)کے ایک سو بیس سال بعد کہ جب ان کا سارا سرمایہ حیات  اور اس کےعملی و فکری  نتائج ہمارے سامنے موجود ہیں تو  ہمارے لیے اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چنداں مشکل نہیں رہ جاتا ۔ ایک تو یہ کہ’’ حق کا معیار خود حق ہوتا ہے، شخصیت نہیں‘‘۔  دوسرے یہ کہ ہمارے  کچھ بڑوں اور بعض بزرگوں سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں تو  انہیں مطعون کرتے بیٹھنے کے بجائے ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم  اُن سے سبق سیکھیں، عبرت حاصل کریں اور خود کبھی  وہ غلطیاں نہ دہرائیں !

مختار مسعود مرحوم اپنی آخری کتاب ’حرف شوق ‘ کے دوسرے باب ’سر سید احمد خان کون تھے ‘ میں لکھتے ہیں  ’ایف سی کالج لاہور میں ثروت جعفری تاریخ پڑھا رہے تھے۔ ایک شوخ زبان طالب علم نے کہا : سر! سر سید اگر علی گڑھ میں ایک کالج نہ بناتے تو بر عظیم کے مسلمانوں کو کیا فرق پڑتا ؟اس لیے کہ آپ ہی ابھی کہہ رہے تھے کہ سر سید کے انتقال کے وقت ایم اے او کالج میں صرف ۳۴۳ طلبا ء پڑھتے تھے۔ اس میں سے غیر مسلم طلبا کی تعداد (۵۳) منہا کردیں تو مسلمان طلبا کی کل تعداد تین سو بھی نہیں بنتی۔ انگریزی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اتنی قلیل تعداد مسلم ہند کی ویران وسعتوں کو کیسے گلزار بنا سکتی تھی ؟استاد نے جواب دیا :فرق صرف اتنا پڑتا کہ آج تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی موٹر میں تشریف لانے کے بجائے اس ادارے کے وسیع سبزہ زار میں بیٹھے ہوئے کہیں گھاس کھود رہے ہوتے !۔ ۔ سر سید ایک معالج اور مصلح تھے۔ ان کا سب سے بڑا کام بر عظیم کے انتہائی دقیانوسی مسلمانوں میں جدید ترین انگریزی (بالفاظ دیگر انسان شناسی کے نئے افکار اور سائنس کی تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں ہے۔ ۔ سر سید کے انتقال کے ایک سو (بیس ) سال بعد جدید اور نافع علم کو عام کرنے کے سلسلے میں اس عظیم انسان کو (اب )کسی وکیل صفائی کی ضرورت نہیں رہی‘‘۔ ۔ (حرف شوق ص۲۵۵۔ ۲۵۷)

تبصرے بند ہیں۔