عورتوں کی زندگی کے دو رخ: میکہ اور سسرال

جہاں گیرحسن مصباحی

اللہ تعالیٰ نے سیدناحضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور جنت میں رہنے کا حکم دیا ۔کچھ دنوں کے بعداُنھیںتنہائی اور اکیلےپن کا احساس ستانے لگاتواُنھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعامانگی کہ یااللہ!مجھے ایک مونس وہم نشیں عطا فرما۔چناں چہ خالق کائنات جل شانہ نے سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سےسیدہ حضرت حوا علیہا السلام کوپیدافرمایا اور جنت میں اُن کا ساتھی بنایا۔پھر وہ دونوں دنیا میں بھیجے گئے اور یوں اُن کی اولاددنیا میں پھیلتی چلی گئی۔
دنیا میں آنے کے بعد نسل انسانی کا فروغ شروع ہوا۔ انسانی آبادی بڑھنے لگی۔زندگی گزارنے کے بہترسے بہتر وسائل پیدا ہونے لگے۔ایک سے بڑھ کر ایک طرزِ زندگی اپنائے جانے لگے،لیکن جیسے جیسے زندگی ترقی سے ہمکنارہوتی گئی ویسے ویسے کچھ ایسے مسائل اور مشکلات بھی سامنے آتے گئے جن سے ہر کسی کا سامنا ہوتاہے۔ان تمام چیزوں سے قطع نظر عورتوں کے سامنے جو مسائل آئے وہ انسانی معاشرے کے لیے کسی ناسورسے کم نہ تھے۔خواہ اُن کے ذاتی مسائل ہوں، خاندانی مسائل ہوں،ازدواجی مسائل ہوں،معاشی مسائل ہوں یا پھر کوئی اورمسائل ۔
اب سوال پیدا ہوتاہےکہ عورتوں کےیہ مسائل کیسے دور ہوں گے؟اُنھیں دورکون کرےگااورکس طریقےسے ان مسائل کو دور کیا جاسکتا ہے؟
اس سلسلے میں میرا ماننا ہے کہ چندایک مسئلوں کو چھوڑ کر بہت سے ایسے مسائل ہیں جنھیں عورتیں اگرچاہ لیں تو وہ خود دورکرسکتی ہیں اور اِس کے لیے اُنھیں کہیں دورجانے کی ضرورت نہیں ہے ،بس ذرافکر وسوچ میں تبدیلی لانی ہوگی اور فکر اسلامی سے غذا لینی ہوگی۔
عام طورپر عورتوں کی زندگی دو طرح سے گزرتی ہے:
شا دی سے پہلے کی زندگی
ماں باپ کے گھر کی زندگی ،جہاں اُن کا بچپن گزرتا ہے،وہ تعلیم وتربیت پاتی ہیں اور بڑی ہوتی ہیں۔ یہاں اُنھیں رشتے کی شکل میں مختلف لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ کوئی بھائی ہے توکوئی بہن ہے۔ کوئی ماں ہے توکوئی باپ ہے، اورکوئی چچا ہے تو کوئی چچی،غرض کہ مختلف رشتوں کے بیچ اُنھیں رہناپڑتا ہے اور ہرایک کے ساتھ وہ بڑی آسانی سے اپنی زندگی گزارتی ہیں ۔کسی سے کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جو اُلجھن کا باعث ہو ۔اس کے دو اسباب ہیں:
1۔اُنھیں ہر کسی سے پوراپورا تعاون ملتا ہے اور وہ بھی سب سے گھلی ملی رہتی ہیں۔
2۔خدانخواستہ کوئی بڑی غلطی بھی ہوجاتی ہے ،تو اُسے نظر انداز کردیا جاتا ہے،یا پھر اگر والدین کی طرف سے کوئی سختی ہوتی ہے تو بیٹیاں یہ گمان کرکے برداشت کرلیتی ہیں کہ چلو! کوئی نہیں ،گھر کے بڑے بزرگ ہی تو ہیں ۔اتنا حق تو اُنھیں ملنا ہی چاہیے۔
دنیوی اعتبارسے دیکھاجائے غیرشادی شدہ عورتوں کی زندگی بڑی جاں گسل اورمشکل ہوتی ہے۔ خاص کر آج کی ہوس پرست دنیا میں تواُن کی زندگی اور بھی مشکل ہوگئی ہے، جہاں آئے دن اُن کی عزت وعصمت نیلام ہوتی رہتی ہے، اِن مشکلات سے نکلنادشوار توضرور ہے لیکن ناممکن نہیں، بشرطیکہ دنیا کی برائیوں سے خود کو پاک رکھنے کے لیے اُن مقدس عورتوں کی زندگی سے روشنی حاصل کی جائے جنھوںنے عورت ہونے کے باوجودنفس کی پاکیزگی کا مظاہرہ کیاہے اور معرفت الٰہی کا نمونہ بن کردکھایا،جن کی گودمیں انبیاومرسلین علیہم الصلاۃ والسلام اور اولیائے کرام علیہم الرحمہ نے تربیت پائی ،جن کی راتیں یادالٰہی میں اور دن خدمت خلق میں گزرا ۔
مثال کے طورپرفرعون کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہاکی پاکیزہ زندگی سے ہدایت کانورحاصل کرناہوگاجنھوں نے ظلمت اورتاریکی میں رہنے کے بعد بھی اپنے نورِایمان کو پراگندہ نہ ہونے دیا اورحضرت رابعہ بصریہ رضی اللہ عنہاجیسی عظیم ہستی سے ،شرم وحیا اور عفت وپاک دامنی کی بھیک مانگنی ہوگی،جن کی نظر بےارادہ بھی کسی اجنبی شخص پرپڑجاتی تواللہ کے خوف سے بےہوش ہو جاتی تھیں۔
شادی کے بعد کی زندگی
یہ عورتوں کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ایک طرح دیکھاجائے تو شادی کے بعدہر عورت کی زندگی ’’پل صراط‘‘کی مانند ہے،اِسے پار کرنے میں کافی سمجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ذراسا بھی توازن بگڑا مانوگئے کام سے۔ حالاں کہ انسان تو ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے اُنھوں نے اپنی پہلی زندگی (میکے) میں دیکھےتھے ،بس تھوڑا سا فرق ہوتا ہے کہ وہ میکے والے کہلاتے ہیں اور یہ سسرال والے۔
لیکن اگرعورتیں یہاں بھی تھوڑی سی عقلمندی کا ثبوت دیں اور سسر کو اپنے باپ کی جگہ ،ساس کو اپنی ماں کی جگہ رکھیں، دیورکو اپنا بھائی،نندکو اپنی بہن اور شوہر کو شوہر سمجھیں تو بہت ساری الجھنوں سے وہ بچ سکتی ہیں۔
اسی طرح سسرال والے بھی ایک بہو کو وہی محبت اور ہمدردی دیں جو اُسے اُس کے میکے میں میسرتھی تو پھرپریشانی کی کوئی بات ہی پیدا نہیں ہوگی اورزندگی گزارنا بڑا آسان ہوجائے گا۔ ایک بات اور جو عام طور پر عورتوں میں دیکھی جاتی ہے کہ وہ سسرال کی ہر چیز اور ہرمعاملے کو اپنے میکے کی چیزوں اور معاملات سے مقابلہ کرتی ہیں جواِنتہائی غلط بات ہے،کیوں کہ یہ بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔اگر وہ کچھ بھی نہ کریں، محض اپنے شوہر کی خوشی کا ہی خیال رکھیں تومیکے کی طرح سسرال میں بھی وہ ایک اچھی اور مثالی زندگی بسر کرسکتی ہیں۔ اس لیے کہ کوئی گھٹیاسے گھٹیاشوہر بھی یہ نہیں چاہتاکہ اُس کی بیوی اُس کے گھر والے کو تکلیف پہنچائے یا ستائے۔
اس کے علاوہ جب کبھی بحیثیت بہویابیوی عورتوں کے دلوں میں کوئی شیطانی وسوسہ پنپنےلگے تووہ فوراًاُن نیک عورتوں کی ازدواجی زندگی کویادکریں اوراُن کے نورِحیات سے اپنی ازدواجی زندگی کوروشن کریں جن کی پہچان ایک مکمل بیوی کے روپ میں ہوتی ہے۔جنھوں نے شوہر کی محبت کو دینی فریضہ اور اُس کی دل جوئی کو عبادت سمجھ کر اداکیا ۔کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے،پیارے نبی سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کو سامنے رکھیں۔
مثال کے طورپر اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا شمارمکہ کے گنے چنے دولت مندوں میں ہوتا تھا،مگر اپنے شوہر سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وہمدردی اور دل جوئی کا جو سلوک اُنھوں نے پیش کیا اِس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے بحیثیت بیوی اپنے شوہرتاجدارکائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرجس محبت والفت کے پھول نچھاورکیے اور مشکل ترین وقت میں بھی آپ پر جس خوش اعتمادی کا اظہارکیا وہ آج کی اس عصمت سوزدنیامیں ہرعورت کے لیے ایک نمونہ ہے۔
رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی عزیزترین بیٹی سیدہ فاطمہ زہرارضی اللہ عنہانے شوہر کی جو خدمت کی ہے اور تنگ دستی میں جو صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی مثالی ہے۔
کیا کوئی اس کا بدل پیش کرسکتا ہے؟اس لیے عورتوں کو چاہیے کہ اپنی خاندانی ،خانگی اور معاشرتی زندگی کوبہترسے بہتر بنانے کے لیے، اِن عظیم اسلامی عورتوں کی زندگی کو اپنا نمونہ بنائیں اور دنیاوآخرت میں کامیابی کے لیے ان کے اخلاق وکردار کی ضیاؤں سے اپنی بے رنگ زندگی میں چارچاند لگائیں،تبھی وہ پُروقارہوسکتی ہیں اوراس کائنات میں محبت و الفت کا رنگ بھر کر اِس شعر کوسچ ثابت کرسکتی ہیں کہ :؎
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

تبصرے بند ہیں۔