قرآن مجید کا فلسفئہ انتخاب

قمر فلاحی

مد مقابل کے مقابلے میں کسی چیز کو بہتر سمجھ کریا شرف بخشتے ہوئے منتخب کرنے کو اصفی اصطفی کہتے ہیں۔

أَفَأَصۡفَٮٰكُمۡ رَبُّڪُم بِٱلۡبَنِينَ وَٱتَّخَذَ مِنَ ٱلۡمَلَـٰٓٮِٕكَةِ إِنَـٰثًا۔  إِنَّكُمۡ لَتَقُولُونَ قَوۡلاً عَظِيمًا۔ (بنی اسرائیل ۴۰)

کیسی عجیب بات ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹوں سے نوازا اور خود اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں بنا لیا؟ بڑی جھوٹی بات ہے جو تم لوگ زبانوں سے نکالتے ہو۔

دین اسلام پسند کیا ہوا چنندہ اور منتخب دین ہے:

وَوَصَّىٰ بِہَآ إِبۡرَٲهِـۧمُ بَنِيهِ وَيَعۡقُوبُ يَـٰبَنِىَّ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصۡطَفَىٰ لَكُمُ ٱلدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسۡلِمُونَ۔ (البقرہ ۱۳۲)

اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوبؑ اپنی اولاد کو کر گیا اس نے کہا تھا کہ: "میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا۔

حضرت آدم ،نوح ،آل ابراہیم ،آل عمران، علیھم السلام ، سارے جہان میں منتخب ہستیاں ہیں:

إِنَّ ٱللَّهَ ٱصۡطَفَىٰٓ ءَادَمَ وَنُوحًا وَءَالَ إِبۡرَٲهِيمَ وَءَالَ عِمۡرَٲنَ عَلَى ٱلۡعَـٰلَمِينَ ۔(آل عمران ۳۳)

اللہ نے آدمؑ اور نوحؑ اور آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے) منتخب کیا تھا۔

وَٱذۡكُرۡ عِبَـٰدَنَآ إِبۡرَٲهِيمَ وَإِسۡحَـٰقَ وَيَعۡقُوبَ أُوْلِى ٱلۡأَيۡدِى وَٱلۡأَبۡصَـٰرِ  إِنَّآ أَخۡلَصۡنَـٰهُم بِخَالِصَةٍ ذِڪۡرَى ٱلدَّارِ  وَإِنَّہُمۡ عِندَنَا لَمِنَ ٱلۡمُصۡطَفَيۡنَ ٱلۡأَخۡيَارِ ۔ (ص۔۴۵،۴۶۔۴۷)

اور ہمارے بندوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا ذکر کرو بڑی قوت عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے، ہم نے اُن کو ایک خالص صفت کی بنا پر برگزیدہ کیا تھا، اور وہ دار آخرت کی یاد تھی، یقیناً ہمارے ہاں ان کا شمار چنے ہوئے نیک اشخاص میں ہے۔

اللہ کے منتخب بندوں پر اللہ کی سلامتی ہوتی ہے:

قُلِ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ وَسَلَـٰمٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ ٱلَّذِينَ ٱصۡطَفَىٰٓ ۗ ءَآللَّهُ خَيۡرٌ أَمَّا يُشۡرِكُونَ۔ (النمل ۵۹)

(اے نبیؐ) کہو، حمد اللہ کے لیے اور سلام اس کے اُن بندوں پر جنہیں اس نے برگزیدہ کیا (اِن سے پوچھو) اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنہیں یہ لوگ اس کا شریک بنا رہے ہیں؟

حضرت مریم علیھا السلام کو اللہ تعالی نے سارے جہان کی عورتوں کے مقابلے میں چنا:

وَإِذۡ قَالَتِ ٱلۡمَلَـٰٓٮِٕڪَةُ يَـٰمَرۡيَمُ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصۡطَفَٮٰكِ وَطَهَّرَكِ وَٱصۡطَفَٮٰكِ عَلَىٰ نِسَآءِ ٱلۡعَـٰلَمِينَ ۔(آل عمران ۴۲)

پھر وہ وقت آیا جب مریمؑ سے فرشتوں نے آکر کہا، "اے مریمؑ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا۔

حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی تمام لوگوں کے مقابلے میں چنا، انہیں ہم کلامی کا شرف بخشا۔ حضرت مریم علیھا السلام کو عورتوں میں اور حضرت موسی علیہ السلام  کو مردوں میں چنا گیا  :

قَالَ يَـٰمُوسَىٰٓ إِنِّى ٱصۡطَفَيۡتُكَ عَلَى ٱلنَّاسِ بِرِسَـٰلَـٰتِى وَبِكَلَـٰمِى فَخُذۡ مَآ ءَاتَيۡتُكَ وَكُن مِّنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ۔ (الاعراف ۱۴۴)

فرمایا "اے موسیٰؑ، میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میر ی پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو پس جو کچھ میں تجھے دوں اسے لے اور شکر بجالا”۔

جنہیں اللہ تعالی نے کتاب کا وارث بنایا وہ اللہ کے منتخب لوگ ہیں:

لہذا ہم کتاب اللہ کے وارث بن کر اللہ کے منتخب بندوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔

ثُمَّ أَوۡرَثۡنَا ٱلۡكِتَـٰبَ ٱلَّذِينَ ٱصۡطَفَيۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا   ۖ   فَمِنۡهُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِهِۦ وَمِنۡہُم مُّقۡتَصِدٌ وَمِنۡہُمۡ سَابِقُۢ بِٱلۡخَيۡرَٲتِ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۚ ذَٲلِكَ هُوَ ٱلۡفَضۡلُ ٱلۡڪَبِيرُ۔ (فاطر ۳۲)

پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چن لیا اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے۔

جنہیں اللہ تعالی نے فرشتوں اور انسانوں میں رسالت کیلئے چنا وہ منتخب ہستیاں ہیں:

ٱللَّهُ يَصۡطَفِى مِنَ ٱلۡمَلَـٰٓٮِٕڪَةِ رُسُلاً وَمِنَ ٱلنَّاسِ ۚ  إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعُۢ بَصِيرٌ۔ (الحج ۷۵)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی وہ سمیع اور بصیر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔