قرآن مجید کا فلسفئہ ‘شفاعت‘

قمر فلاحی

شفاعت قرآن مجید کی اہم اصطلاح ہے، اس کا تعلق عقیدہ سے بھی ہے، شفاعت کے معنی پیروی کرنے کے ہوتے ہیں جو اپنی کمیوں کو دور کروانے اور اپنے ناحق حقوق کی حصولیابی کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اگر شفاعت کو مطلق آزاد کر دیا جائے تو شرک کی شکل اختیار کر لیتی ہے جیسا کہ غیر مسلموں نے اپنے دیوتائوں سے متعلق یہ خیال قائم کر لیا تھا کہ روز محشر یہ ہمارے شفیع ہوںگے۔جبکہ ایسا کوئی عہد وپیماں اللہ سبحانہ نہیں باندھا ہے۔

روز محشر مومنین کو شفاعت نصیب ہوگی مگر انمیں بندوں کی مرضی اور خواہش بالکل شامل نہیں ہوگی، اللہ تعالی کچھ بندوں کیلئے کچھ خاص بندوں کی شفاعت کروائے گا جس کا وعدہ اس نے پہلے ہی کر رکھا ہے کہ کن کی شفاعت کن کے حق میں ہوگی، مگر ہر شفاعت میں اللہ کا اذن شامل حال ہوگا۔ من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ۔ [ البقرہ ۲۵۵] ما من شفیع الا من بعد اذنہ [یونس ۳]

جو عقیدہ غیرمسلموں کو اپنے بتوں کے تعلق سے شفاعت سے متعلق تھا بد قسمتی سے تقریبا وہی عقیدہ مسلمانوں کی بعض جماعتوں میں داخل ہوگیا ہے کہ ہمارے پیر و ولی ومرشد ہماری شفاعت فرمادیں گے۔ یاد رکھیے صرف نام بدلا ہے عقیدہ ایک ہی ہے اور یہ عقیدہ بھی باطل ہے۔

شفاعت صرف انکی کروائی جائے گی جن سے اللہ راضی ہوچکا ہوگا۔ ولا یشفعون الا لمن ارتضی [الانبیاء ۲۸]

ایسے مجرمین کو جو نماز نہیں پڑھتے ہیں، جو مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے ہیں،جو دین کا مذاق اڑانے والوں کا ساتھ دیتے ہیں،جو یوم جزاء کا انکار کرتے ہیں ایسے لوگوں کو کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت کا کوئ فائدہ نہ ہوگا یعنی ان کی شفاعت ہی نہیں کی جائیگی۔ [ المدثر ۴۳،تا ۴۸]

اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سےڈر رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کیے جائیں گےکہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ کوئ انکا مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفیع ہوگا،اس امید سے کہ وہ ڈر جائیں۔ [الانعام ۵۱] یعنی ڈرانے کا فائدہ انہی کو ہوتا ہے جو بعث بعد الموت اور یوم حشر پہ یقین رکھتے ہیں۔

اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہونچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہونچا سکیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے شفارشی [پیروی کار]ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہوجو اللہ تعالی کومعلوم نہیں،نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے۔ [یونس ۱۸]

آج بزرگوں کی سجدہ تعظیمی کے نام پہ عبادت بھی ہورہی ہے اور قدم بوسی بھی، ان سے نمازیں بھی معاف کروائے جارہے ہیں اور انہیں وسیلہ بھی بنایا جارہا ہے جس کی سند اللہ تعالی نے انہیں نہیں دی ہے۔

اور مجرمین کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک کر لے جائیں گے، کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگاسوائے ان کے جنہوں نے اللہ تعالی کی طرف سے کوئ قول و قرار لے لیا ہے۔[مریم ۸۶۔۸۷]

قول و قرار[عہد] کا مطلب ایمان و تقوی ہے،یعنی اہل ایمان و تقوی میں سے جن کو اللہ تعالی شفاعت کرنے کی اجازت دے گا،وہی شفاعت کریں گے،ان کے سوا کسی کو بھی شفاعت کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔

جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کرنے کا اختیارنہیں رکھتے۔ ہاں [مستحق شفاعت وہ ہیں] جو حق بات کا اقرار کریں اور انہیں علم بھی ہو۔ [الزخرف ۴۳] شھد الحق سے مراد انبیاء و صالحین ہیں جنہیں شفاعت کرنے کا اذن دیا جائےگا۔
کیا میں [اللہ رحمن ] کو چھوڑ کر ایسوں کو معبود بنائوں کہ اگر[ اللہ ]رحمن مجھے کوئی نقصان پہونچانا چاہے تو ان کی شفارش مجھے کچھ بھی نفع نہ پہونچا سکےاور نہ وہ مجھے بچا سکیں۔ پھر تو میں یقینا کھلی گمراہی میں ہوں۔  [یسین ۲۳]

اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی شفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالی اپنی خوشی اور اپنی چاہت سےجس کے لیے چاہے اجازت دے دے۔ [النجم

تبصرے بند ہیں۔