قرآن مجید کا فلسفئہ ’عہد، وعدہ اور میثاق‘

قمر فلاحی

درج ذیل مضمون میں اسلام کے نظآم عدل و انصاف [ judiciary system] کی ایک جھلک سامنے آگئی ہے، اور ہر ایک کے مابین کیا باریکی اور فرق ہے وہ بھی سامنے آگیا ہے ۔اور یہ عیاں ہوگیا ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالی ہی کا کلام ہے اس کلام میں ہر ایک لفظ کو چن چن کر رکھا گیاہے اور تضاد سے پاک بنایا گیا ہے

عہد جس میں دونوں طرف سے قرار کیا گیا ہو،یعنی تم ایسا کروگے تو میں بھی ایسا کروں گا۔ یہ شرائط کے ساتھ وابسطہ ہوتا ہے۔

وعدہ جس میں ایک طرف سے قرار کیا گیا ہو۔ اس میں شرط نہیں ہوتی بلا شرط ہوتا ہے ۔

عہد ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جس کا مواخذہ ہو،جس کے متعلق سوال کیا جائے، ان العھد کان مسئولا[بنی اسرائیل ۳۴] جدید قانون میں اس کا مترادف agreement ہے ۔

نقض عہد ہوتا ہے نقض وعدہ نہیں ہوتا۔

الذین عاھدت منھم ثم ینقضون عھدھم فی کل مرۃ۔[الانفال ۵۶]

وعدہ کے لیے جدید قانون میں Affidavitکی اصطلاح ہے ۔ یہ صرف ایک جانب سے ہوتاہے ، وعدہ قرآن مجید میں تمام جگہوں پہ صرف اللہ تعالی کے لیے استعمال ہوا سوائے ایک جگہ کہ جہاں وعدہ کا استعمال اللہ تعالی نے حضرت ابرھیم علیہ السلام کیلئے کیا ہے ۔وما کان استغفار ابراھیم لابیہ الاعن موعدۃ وعدھا ایاہ۔ [التوبہ ۱۱۴]۔ظاہر ہے یہ وعدہ ایک جانب سے تھا اور اس میں کوئی شرط نہیں تھی ۔

الم اعھد الیکم یابنی آدم ان لا تعبد الشیطان [یسین ۶۰] یہ عہد اللہ سبحانہ اور بنی آدم کے درمیان تھا جس کی رضامندی بنی آدم نے ظاہر کردی تھی اور اس کے بدلے میں اللہ تعالی نے ان سے یہ عہد کیا ہے کہ وہ انہیں جنت میں جگہ دیگا۔ یہ شرط کے ساتھ معاہد ہ ہوا ہے ۔اسی لیے ایک جگہ کہا گیا کہ اوفوا بعھدی اوف بعھدکم تم اپنا عہد پورا کرو میں اپنا عہد پورا کروں گا۔ [ البقرہ ۴۰]

یہاں ایک باریک اشارہ یہ ہیکہ شیطان کی بات ماننا شیطان کی عبادت کرناہے،اور اللہ کی بات نہ ماننا اللہ تعالی عبادت سے انکار کرنا ہے ۔

براء ۃ من اللہ و رسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین ۔[التوبہ ۱]

عہد کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔

الا الذین عاھدتم عند المسجد الحرام فما استقاموا ۔[التوبہ ۷]

عھد کی نگہداشت کرنی ہوتی ہے۔ والذین ھم لاماناتھم وعھدھم راعون۔[المومنون ۸] یہ مومنوں کی خاص صفت ہوتی ہے۔
عہد کو پورا کرنا ایفاء عھد کہلاتا ہے ۔یعنی عہد پورا کرنے میں کمی نہ کرنا ۔نقص نہ کرنا۔

واوفوا بعھد اللہ اذا عاھدتم۔[ النحل ۹۱]

عھد سے متعلق سوال کیا جائے گا۔ ان العھد کان مسئولا[بنی اسرائیل ۳۴]

عھد جب بہت مضبوط ہوتا ہے تو اسے میثاق کہتے ہیں ۔ والذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ یقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل ویفسدون فی الارض اولئک لھم اللعنۃ ولھم سوء الدار۔[الرعد ۲۵]

اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں،اور جن چیزوں کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں ،اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں،ان کیلئے لعنتیں ہیں اور ان کے لیے برا گھر ہے۔

ظالمین کو اللہ کا وعدہ نہیں ملنے والا ہے ۔یعنی ظالمین اپنے ظلم سے اللہ تعالی کے عھد کے ثمرہ سے محروم ہوجاتے ہیں ۔یہ اگریمنٹ منقطع ہوجاتی ہے۔

اور جو لوگ ایفاء عہد کریں گے اللہ تعالی انہیں اجر عظیم سے نوازے گا۔ [الفتح ۱۰]
میثاق bill ; declaration

میثاق اور عہد میں ایک گنا مماثلت ہے ،مگر میں عرض کر چکا ہوں کہ قرآن مجید مترادفات سے خالی ہے ،قانون کی کتاب میں مترادفات کے کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے ۔یہ ادبی کلام میں ہوتا ہے مگر ان مترادفات میں بھی کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے ۔

قال لن ارسلہ معکم حتی توتون موثقا من اللہ ۔[یوسف ۶۶] حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں ہرگز یوسف ع کو تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا الا آنکہ تم وضاحتی بیان دیدو ایک ساتھ مل کر بل پاس کرو کہ تمہاری موجودگی میں یوسف کے ساتھ کوئی زیادتی و لاپرواہی نہ ہوگی۔

میثاق بھی وعدہ کی طرح ایک جانب سے ہوا کرتا ہے ۔واذ اخذنا میثاق بنی اسرئیل لا تعبدون الا اللہ ۔[البقرہ ۸۳]

یاد کرو اس وقت کو جب اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے وضاحتی بیان درج کرایا تھاکہ تم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو گے۔[بنی آدم سے جب عہد لیا گیا تو ان کیلئے عہد کا لفظ استعمال کیا یہ قول و قرار دونوں جانب سے ہوا] مگر بنی اسرائیل سے قول وقرار نہیں ہوا بلکہ انہیں ہدایتinstruction دی گئ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واذ اخذ اللہ میثاق الذین اوتو الکتاب لتبیننہ للناس۔[آل عمران ۱۸۷]۔۔۔۔۔۔۔اہل کتاب کو یہ ہدایت دی گئی کہ تم اس کتاب کو لوگوں کے سامنے واضح کروگے اسے نہیں چھپائوگے۔

میثاق کو توڑنے کی سزا اللہ کی لعنت،اور دل کا سخت ہونا ہے ۔[المائدہ ۱۳

تبصرے بند ہیں۔