قرآن اور  حضورؐ کی حیات طیبہ لازم و ملزوم ہیں

ترتیب و پیشکش: عبدالعزیز

 کسی نے سچ کہا ہے کہ قرآن اور عملی قرآن یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا وہ قرآن کو دیکھ لے لیکن جنہوں نے پورا قرآن نہیں دیکھا تھا ان کیلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی تھے۔ ان کی حیات طیبہ کا ایک ایک واقعہ، قرآن کی ترجمانی کرتا ہے اور اس کے احکام کو صحیح عملی تصویر پیش کرتا ہے۔ جس نے آپؐ کو دیکھ کر قرآن پڑھا اسی نے ہدایت پائی اور جس نے آپؐ کو دیکھے بغیر اس کا مطالعہ کیا وہ ہدایت سے محروم رہا۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، جہاد وغیرہ جیسے اہم قرآنی احکام پر عمل کس طرح کیا جائے اور معروف و منکر کو کس طرح پہچانا جائے؟ اس کا جواب صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے مل سکتا ہے۔ گویا قرآن کی ہر آیت اور ہر واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کی تصدیق ہے اور بالواسطہ یا بلا واسطہ آپؐ ہی سے اس کا تعلق ہے۔ مولانا جامیؔؒ نے صحیح فرمایا تھا کہ:۔    ؎

ہمہ قرآن در شانِ محمدؐ

  حضرت عائشہؓ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ قرآن ہے یعنی جو کچھ قرآن میں ہے اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر کرکے دینا والوں کو دکھایا۔

مولانا ابو الکلام آزادؒ نے کہا ہے کہ’’ پس اگر ہمیں مسلمان بننے کیلئے قرآن کریم کی تلاوت کی ضرورت ہے تو یقین کیجئے کہ اسے ایک عملی زندگی کی صورت میں دیکھنے کیلئے اس ’’اسوہ حسنہ‘‘ کے مطالعے کی ضرورت ہے: ’’لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ‘‘ اور یہ پچھلی ضرورت پہلی ضرورت جتنی ہے، پہلی سے کم نہیں ۔‘‘

 علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے    ؎

وہ دانائے سبل، مولائے کل‘ ختم الرسل جس نے

غبار راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول‘ وہی آخر

وہی قرآں ‘ وہی فرقاں ‘ وہی یٰسین‘ وہی طٰہٰ

سورہ توبہ کی آیت 100 میں ہے کہ شروع شروع کے مہاجرین اور انصار نیز وہ جنہوں نے اللہ کے رسول کے پیروی کی وہ سب جنتی ہیں یہ شروع شروع کے لوگ وہ تھے جبکہ پورا قرآن نازل نہیں ہوا تھا۔

          سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

          ’’وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی‘ نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کیلئے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے‘ یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔‘‘

مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی نے سورہ توبہ کی 100 کی آیتوں کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’کفار و مشرکین او رمنافقین پر تنقید اور ان کی علامات کے بیان کے بعد اب ان لوگوں کا تذکرہ فرمایا جارہا ہے جو اسلام کا اصل سرمایہ اور امت کے کل سر سبد ہیں نبی کریمﷺ نے دعوت دین کا آغاز فرمایا اور تو آپ روئے زمین پر بالکل تنہا تھے مکہ کا جاہلی معاشرہ شرک کی دلدل میں سر تک دھنسا ہوا تھا۔ ان کے پیش نظر مادی زندگی اور عیش و عشرت کے علاوہ کوئی مقصد نہ تھا اخلاق نام کی کوئی چیز تلاش سے بھی ان میں نہیں ملتی تھی حقوق العباد کا دور دور تک کوئی تصور نہیں تھا بھلائی کی ہر بات سے انہیں چڑ تھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہ اپنے اعتقادات اپنے طرز زندگی اور طور اطوار میں اس حد تک جامد واقع ہوئے تھے کہ ان میں کسی طرح کی تبدیلی کا تو کیا سوال تھا اس پر تنقید سننا بھی انہیں گوارا نہ تھا ایک حیوانی زندگی تھی جس میں جنگل کا قانون کار فرما تھا اور اسے وہ چھوڑنے کیلئے کسی طرح بھی تیار نہ تھے آنحضرتﷺ کی دعوت ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مکمل تبدیلی کا پیغام تھی جن آستانوں پر وہ جھکتے تھے اور جو جو انہوں نے طاقت و سطوت کے مراکز بنا رکھے تھے ان کے خلاف کھلی بغاوت تھی ظاہر ہے ایسی دعوت کو وہ کس طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتے تھے چنانچہ جیسے ہی آنحضرتﷺ نے کھلے عام ان کے باطل عقائد اور ان کی حیوانی زندگی پر تنقید شروع کی تو وہ اس دعوت کو روکنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اذیت کی بھٹیاں سلگنے لگیں ظلم کے نئے نئے طریقے ایجاد ہونے لگے انہوں نے اپنی پوری قوت اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کیلئے صرف کر ڈالی ایسی حالت میں اس دعوت کو قبول کرنا اور آنحضرتﷺ کے دست حق پرست میں ہاتھ دینا قیامت کو دعوت دینے کے مترادف تھا لیکن اس حالت میں بھی یکے بعد دیگرے لوگ اسلام کی طرف بڑھتے گئے انہوں نے اس راہ کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اس راہ میں مال بھی لٹا وطن چھوڑنا پڑا تو چھوڑ دیا جان کی ضرورت پڑی تو جان کا نذرانہ پیش کردیا وہ لوگ جنہوں نے اس راہ پر سب سے پہلے قدم اٹھایا انہیں یہاں السبقون الاولون کہہ کر ذکر فرمایا گیا یہ وہ بارش کے پہلے قطرے ہیں جنہوں نے جلی ہوئی زمین پر گرنا برداشت کیا پھر اس کی جرأت و استقامت نے دوسروں کو حوصلہ بخشا پھر ایسا سماں بندھا کہ جل تھل ایک ہوگیا ان لوگوں کا راہ حق میں قربانی و ایثار ان کی جرأت و شجاعت نے ان آیات میں ان کی تحسین فرمائی اور ان کے تذکرے کو اپنی قانونی کتاب میں جگہ عطا فرمائی۔‘‘

سوال یہ ہے کہ السبقون الاولون کون لوگ ہیں جن اہل علم نے ’من المھاجرین‘ میں ’من‘ کو تبعیض کیلئے قرار دیا ہے انہوں نے صحابہ کے دو طبقوں میں کون لوگ شامل ہیں اس میں مختلف اقوال ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ السبقون الاولون وہ لوگ ہیں جو تحویل قبلہ سے پہلے مسلمان ہوئے دوسرا قول یہ ہے کہ یہ وہ صحابہ ہیں جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے ایک رائے یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حدیبیہ کی بیعت رضوان میں شریک ہوئے ان میں مہاجر بھی شامل ہیں اور انصار بھی اس کے بعد جتنے ایمان لانے والے صحابہ ہیں چاہے وہ مہاجر ہوں یا انصار دوسرے درجے میں ہیں ۔

 بعض مفسرین کا خیال یہ ہے کہ ’من المہاجرین‘ میں حرف ’من‘ تبعیض کیلئے نہیں بلکہ بیان کے معنی میں ہے پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام صحابہ کرام باقی امت کی نسبت سے السبقون الاولون ہیں اور باقی امت کے لوگ جنہوں نے السبقون الاولون کا اتباع مکمل طریقے اور نہایت حسن و خوبی کے ساتھ کیا وہ دوسرے درجے پر ہیں اس تفسیر کی رو سے تمام السبقون الاولون کے مصداق ہوں گے اور باقی امت کے صالحین جنہوں نے احسان کے ساتھ صحابہ کی پیروی کی وہ صحابہ کے بعد شمار ہوں گے۔

  احسان کا معنی ہوتا ہے کسی کام کو کمال حسن و خوبی سے انجام دینا یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ امت کے جن لوگوں نے مکمل اخلاص اور راست روی کے ساتھ صحابہ کی پیروی کی صحابہ ہی کی طرح اپنا مال نچھاور کیا اللہ کی رضا کو اپنا مقصد بنایا کسی موقع پر کسی مصلحت کا شکار نہ ہوئے نازک سے نازک موقع پر بھی قدم پیچھے نہ ہٹایا ہر قربانی بے دریغ پیش کی ان کا مقام صحابہ کرام کے بعد ہے اللہ تعالیٰ دونوں کی تحسین فرما رہا ہے اور اپنی رضا کے سرٹیفیکٹ سے نواز رہا ہے۔

  کوئی آقا جب اپنے غلام سے اور کوئی افسر اپنے ما تحت سے خوش ہو کر جو کلمات تحسین کہتا اور اظہار خوشنودی کرتا ہے اس کا تمام تر تعلق اس غلام یا ملازم کی ظاہر محنت سے ہوتا ہے غلام یا ملازم در پردہ کیا ہے یا اس کے احسانات اپنے آقا کے بارے میں کیا ہیں آقا اس سے بالکل بے خبر ہوتا ہے۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ آقا اور افسر اپنے غلام اور ماتحت کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوں اور اس کے نفاق کو اس کی حقیقی زندگی قرار دے کر بیجا اظہار خوشنودی کر ڈالیں لیکن اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جاننے والا ہے وہ نیتوں سے بھی واقف ہیں اور ان کے محرکات سے بھی وہ دل میں چھپے ہوئے خیالات کو بھی جانتا ہے اور ان کے اسباب کو بھی اس لئے جب وہ کسی کی تحسین فرماتا اور اظہار خوشنودی کرتا ہے تو وہ ایک ایسا اظہار ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں اس سے آپ صحابہ کرام اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگوں کو بلند قسمت کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اظہار خوشنودی فرما کر انہیں کتنا بڑا اعزاز بخشا ہے۔

  رضی اللہ عنہم و رضو عنہ ’’اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے‘ اللہ کے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان کے ایمان و اخلاص کو قبول فرمایا ان کی قربانیوں اور وفا شعاریاں صلہ حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہریں ان کا جہاد و قتال اس کی بارگاہ میں شرف قبولیت پاگیا گویا ان کی پوری زندگی ایمان و عمل اور اخلاص کی ایسی سچی تصویر ہے جس پر ریا کاری کی کوئی پرچھائیں نہیں ۔

 اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انہیں جس حال میں رکھا وہ صابر و شاکر رہے جو ذمہ داری ان پر ڈالی نہایت جان فشانی سے محض اللہ کی خاطر اسے ادا کیا کوئی مصیبت آئی تو آزمائش جان کر خندہ پیشانی سے برداشت کیا وہ ہر حال میں اللہ کی حمد و ثنا مشغول رہے۔

  آخر میں فرمایا کہ جولوگ اللہ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور اللہ نے دنیا ہی میں اپنے کلام پاک میں ان کیلئے اظہار خوشنودی فرمایا اور خود بھی اللہ کے ہر فیصلے پر مطمئن اس کی ہر نعمت پر شکر گزار اس کی ہر آزمائش پر صابر اور ہر حال میں ان کا نفس ’نفس مطمئنہ‘ بنا رہا یہ وہ لوگ ہیں جو کامیاب و بامراد ہوئے اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

 مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے سورہ توبہ کی آیت 100 پر روشنی ڈالتے رقمطراز ہیں :۔

  اب یہ بتایا جارہاہے کہ اسلامی معاشرہ کے گل سرسبد اور اصل سرمایہ کون لوگ ہیں ۔ یہ بتانے سے مقصود ایک طرف تو کہ عام مسلمانوں کے سامنے ان لوگوں کو پیش کر دینا ہے جن کے عمل ان کے لئے مثال اور نمونہ ہیں اور جن کی انہیں پیروی اور تقلید کرنی ہے، دوسری طرف منافقین پر یہ واضح کر دینا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قدوسیوں کی اس جماعت میں گھسائے رکھنے کی اب کوشش نہ کریں ۔ اس جماعت میں شامل رہنا ہے تو ان کے رنگ ڈھنگ اختیار کریں ورنہ اپنے انجام سے دو چار ہونے کیلئے تیار رہیں ۔ فرمایا کہ اس امت کا ہر اول دستہ مہاجرین و انصار میں سے وہ سابقون اولون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے نبی کی دعوت پر لبیک کہی، جو اس وقت اسلام کی طرف بڑھے جب ایک قدم بھی اس کی طرف بڑھنا گونا گون مزاحمتوں کا مقابلہ کئے بغیر ممکن نہ تھا اور جو اس وقت نبی کی حمایت و مدافعت کیلئے اٹھے جب اس کی حمایت و مدافعت تمام احمرو اسود سے لڑائی مول لینے کے ہم معنی تھی۔

 دوسرے درجے پر وہ لوگ ہیں جو اگر چہ اولیت واسبقیت کا درجہ تو حاصل نہ کر سکے تاہم جنہوں نے پورے اخلاص اور پوری راست بازی سے سابقین اولین کے نقش قدم کی پیروی کی۔ اس پیروی میں انہوں نے کسی نمائش، کسی مصلحت، کسی غرض یا کسی نوع کے تذبذب اور نفاق کو دخیل نہیں ہوئے دیا۔ ایک مرتبہ بڑھ کر انہوں نے پیچھے مڑنے کا نام نہیں لیا۔ جن سے کٹنا تھا ان کو کاٹا تو اس طرح کہ کوئی تسمہ لگا نہیں رہنے دیا اور جن سے جڑے تو اس طرح نہیں کہ ع

منہ پھیر کر ادھر کو ادھر کو بڑھا کر ہاتھ

  بلکہ اس طرح جڑے کہ ع

تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

اسی خلوص و صداقت اور ظاہر و باطن کی اسی کامل ہم آہنگی اور ہم رنگی کو یہاں ’احسان‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ’احسان‘ کے معنی ہم دوسرے مقام میں واضح کر چکے ہیں کہ کسی کام کو کمال حسن و خوبی سے انجام دینے کے بھی ہیں ۔

 ’رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ‘۔ یہ ان سابقین اولین کیلئے عظیم بشارت بھی ہے اور ان کی بڑی سے بڑی تعریف بھی جو اس دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہو سکتی ہے۔ فرمایا کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ ان سے اس لئے راضی ہوا کہ وہ اپنے بندوں سے حق کی راہ میں جو صبر و ثبات، جو عزیمت و استقامت، جو جانبازی و سر فروشی چاہتا ہے اس کا انہوں نے حق ادا کر دیا اور انہوں نے اللہ اور رسول سے جو عہد باندھا زندگی کے تمام نشیب و فراز میں ، تمام مزاحمتوں اور مخالفتوں کے علی الرغم، پوری خوبی سے اس کو نبھایا۔ ان کے رب نے ان کو جو قوتین اور صلاحیتیں عطا فرمائیں ان کو انہوں نے درجہ کمال تک پروان چڑھایا اور ان کو اپنے رب ہی کی رضا طلبی میں صرف کیا۔ شیطان کو ان میں ساجھی بننے کا، اپنے امکان کے حد تک کوئی موقع نہیں دیا۔

 اللہ سے ان کے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کو ہر رنگ میں انہوں نے اس کے عدل، اس کی حکمت اور اس کی رحمت پر محمول کیا۔ ان کو اگر کوئی افتاد پیش آئی تو اس کی انہوں نے اپنی کسی خامی کا علاج سمجھا، کوئی مشکل پیش آئی تو اس کو صبر و عزیمت کا امتحان جانا، سکھ ملا تو دل و جان سے اس کے شکر گزار ہوئے۔ دکھ ملا تو صابر و مطمئن رہے کسی حال میں بھی اپنی امید کے چراغ کو انہوں نے گل نہیں ہونے دیا۔ طوفان اٹھے، بجلیاں چکمیں بلکہ کبھی کبھی برق خرمن سوز سارے خرمن کو جلا کر خاکستر بھی کر گئی لیکن ان کے نفس مطمئنہ کو کوئی چیز بھی ہلا نہ سکی وہ بد ستور ’راضیۃ مرضیہ‘ کی چٹان پر جما رہا اور بالآخر اس نے ’فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی‘ کی ابدی بشارت حاصل کی۔

   ’واعدلہم جنت تجری‘۔ یہ صلہ بیان ہوا ہے اس رضا و اطمینان پر فائز ہونے کا۔ فرمایا اصل کامیابی یہ ہے۔ جس کو بازی کھیلنی ہو اس کیلئے بازی کھیلے۔ اس چند روزہ دنیا کے پیچھے، جس کی ہر چیز فانی ہے۔ زندگی برباد کرنا اپنے آپ کو ابدی خسران و نا مرادی کے حوالہ کرنا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔