قرآن مغالطوں سے پاک کتاب ہے

ادریس آزاد

 ایک مرتبہ حضرت رشید میاں کا درس ِ حدیث سنا۔ اس دن کی حدیث مبارکہ تھی، خیرکم من تعلم القرآن وعلمہُ ۔تم میں سے بہتر وہ ہے جو قران سیکھے اور (دوسروں کو) سکھائے۔ حضرت نے بعض شارح محدثین کے استناد کے ساتھ قران سیکھنے والوں کے چھ درجے بتائے۔ چھ کے چھ درجات تو یاد نہیں رہے۔ البتہ پہلا اور آخری درجہ ذہن میں رہ گیا۔

سب سے اوّل درجے میں اُس شخص کا مقام ہے جو قران کو سمجھنے کے لیے محنت کرے۔ اور سب سے آخری درجے میں اُس شخص کا مقام ہے جو قرانِ پاک کو بغیر معانی کے زبانی یاد کرلے یعنی حافظ ِ قران۔درمیان کے درجات میں قرأ سے لے کر مدرسین و معلمین تک کچھ لوگ شامل ہیں۔

میں نے مولانا اشرف علی تھانوی کے ہاں دیکھا ہے کہ آپ قرانِ پاک کو سمجھنے کے لیے کئی مرتبہ منطقی مقدمات قائم کرتے ہیں۔ ایک بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ یہ منطقی مقدمات ریاضی یا فلسفہ کے موضوعات پر قائم نہیں کیے جاتے۔ یہاں صرف قران کی ایک آیت کو دوسری آیت یا حدیث کے ساتھ صغریٰ کبریٰ قائم کرکے سمجھا جاتاہے۔ اس طرح کہ مقدمات سرسید کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ میرے نزدیک قرانِ پاک کے مضامین میں منطقی ربط بے پناہ ہے اور کبھی کبھار یہ ربط بے حد حیران بھی کردیتاہے۔ میں نے خود بھی ہمیشہ ایسے تمام مضامین جو علوم ِ انفس و آفاق کے حقائق سے متعلق ہوں، کو سمجھنے کے لیے صغری کبریٰ قائم کیے ہیں اور مجھ پر آیات یوں کھلی ہیں کہ کئی کئی دن تک سرشاری کی سی کیفیت رہی ہے۔ مثال کے طور پر میں بہت پریشان ہوا کرتا تھا یہ سوچ سوچ کر۔ ۔۔۔۔۔۔۔ انااعطینٰک الکوثر میں، جس کوثر کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ کیا چیز ہوسکتی ہے؟

بہت سے مفسرین نے اسے محض حوض ِ کوثر کہہ کر گویا صاحبِ کوثر کی شان اُلٹا کم کردینے کی جسارت کی ہے۔ میں ہمیشہ سمجھتا تھا کہ ’’کوثر‘‘ فقط حوض ِ کوثر نہیں ہے۔ یہ اس سے بڑھ کر کچھ اور ہے اور کچھ بہت ہی خاص ہے۔ زیادہ تر مفسرین ’’الکوثر‘‘ قرانِ پاک کو سمجھتے ہیں۔ غرض ایک سے زیادہ معانی کردیے جاتے ہیں جو عربی بلاغت اور فصاحت کی شان تو ضرور ہے لیکن قرانِ مبین (واضح کتاب) کی شان نہیں۔

قران کا دعویٰ ہے کہ وہ بہت واضح ہے۔ چنانچہ یہ لازم ہوجاتاہے کہ بات مبہم نہ ہو۔ جو بات مبہم نہ ہو وہ ڈائریکٹ ہی سمجھ آجاتی ہے۔ البتہ جو بات مبہم ہو اس کے لیے ساتھ تفصیلی وضاحت یعنی تفسیر لکھنا پڑتی ہے۔ میرا غالباً ایک شعر بھی ہے کہ، معنی ِ صحف ِ مبیں صاف ہے شیشے کی طرح بات مبہم ہو تو تفسیر لکھی جاتی ہے۔

خیر! کوئی بات واضح کیسے ہوتی ہے؟ ہم کیسے سمجھیں گے کہ قران کی بات واضح ہے؟ اگر کسی آیت کا مفہوم سمجھانے کے لیے ہمیں بہت سے معانی کو بیک وقت استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے تو ہم کیسے جانیں گے کہ بات واضح اور بالکل صاف ہے؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے۔ کیونکہ واحد اسی سوال کے بل بوتے پر مخالفینِ قران اِتراتے ہیں۔ اُن کا کہناہے کہ جو معنیٰ چاہو نکال لو! یہ تو آسمانی صحیفہ ہے اور تمام آسمانی صحیفوں کی طرح کثیرالمعانی جملوں کا مجموعہ ہے، بلکہ دیگر آسمانی صحیفوں سے بھی زیادہ مبہم ہے کیونکہ اُن میں قصے کہانیاں ہوتی ہیں، جن کے مختلف معانی نہیں نکل سکتے۔ اس میں قصے کہانیاں نہیں حقائق بیان کرنے کے دعاوی ہیں چنانچہ اس کے ایک سے زیادہ مفہوم نکلنا اور بھی زیادہ آسان ہے۔ بالفاظ دیگر اس میں شاعری جیسی کیفیت پائی جاتی ہے۔حالانکہ قران کا دعویٰ ہے کہ وماھوبقول شاعر۔ یہ شاعر کا قول نہیں ہے۔

لیکن میں نے ہمیشہ آزمایا کہ جب کسی آیت یا کسی لفظ (قرانی اصطلاح) کی ٹھیک سے تفہیم نہ ہوپارہی ہو تو منطقی انداز میں سمجھنے سے وہ بات کھل جاتی ہے۔ اور تو اور قران باقاعدہ اپنی بعض اصطلاحات کا اصلی معنیٰ بتانے کے لیے کسی خالص منطق کی کتاب کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقاعدہ الگ سے اس کو پری سائزلی ڈیفائن کرتاہے۔ اسے منطق میں Precising Definition کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، القارعہ ماالقارعہ  وماادراک ماالقارعہ

القارعہ۔ القارعہ  کیا ہے؟ اور تم کیا جانو کہ القارعہ  کیا ہے؟ اب اِس کے بعد بتایا جائے گا کہ القارعہ  کیا ہے۔ اُس مفہوم کو ذہن میں رکھنا ضروری ہوتاہے۔

میں اُوپر ذکرکررہا تھا کہ میں ں ے ’’الکوثر‘‘ کو سمجھنے کے لیے اِسی طرح کافی عرصہ پریشانی میں گزارا اور پھر ایک دن مجھے ایک اور آیت نظر آئی۔ اور ایک نہایت خوبصورت استخراجی مقدمہ قائم ہوگیا۔ اب استخراج ایک ایسی چیز ہے جس سے زیادہ مضبوط نتیجہ، مفہوم یا معنٰی متعین کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ یہ اصولی کلی ہے۔ دوجمع دو چار ہوتے ہیں۔ یہ ایک استخراج ہے۔ اب اِس میں کسی شک کی گنجائش سیارہ مریخ پر بھی ممکن نہیں۔ خیر! میں عرض کرتاہوں،

مقدمہ کبریٰ: انااعطینٰک الکوثر
بے شک تجھے خیر ِ کثیر عطا کی گئی۔

مقدمہ صغریٰ: من یؤتِ الحکمۃ فقد اوتیَ خیراً کثیرا
جسے حکمت عطاکی گئی اُسے خیر کثیر عطا کی گئی۔
۔۔
استنتاج: انااعطینٰک الحکمۃ
بے شک تجھے حکمت عطا کی گئی۔
۔۔
اور یوں بالکل واضح ہوگیا کہ کوثر کا حقیقی معنیٰ ’’حکمت‘‘ ہے۔ میں سمجھتاہوں قرانِ پاک کو سمجھنے کے لیے صرف صرف و نحو کے ماہرین پر ہمارا جو اکتفا صدیوں سے چلا آرہا ہے یہ ناکافی ہے۔ جہاں محدثین اور عبادِ اربع کی روایات سے مدد لی گئی ہے وہاں منطق سے کبھی اس انداز میں مدد نہیں لی گئی کہ مضامین کے مفاہیم کا نہایت واضح پہلو سامنے آجائے۔ قران جو دوسروں کو حکم دیتاہے کہ

قولوا قولاً سدیدا

کہو سیدھی سیدھی بات

اور خود بھی دعویٰ کرتاہے کہ وہ کتاب ِ مبین (واضح کتاب) ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی آیات کے معانی اِس انداز میں ایک سے زیادہ ہوں کہ جس کا جو جی چاہے وہ وہی مطلب نکال لے۔ میں تو ہمیشہ سے یہ سمجھتا آیا ہوں کہ ’’لاریب‘‘ والا دعویٰ دراصل ہے ہی یہی کہ اس کتاب میں کوئی منطقی مغالطہ موجود نہیں۔ ریب کو شک کہا جائے تو شک کا اور کیا مطلب ہوسکتاہے؟ شک کے باقی تمام معانی تو مجہول سا تاثر دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں۔ کیا شک نہیں ؟ یہ شک نہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے؟ ایسا دعویٰ شروع میں ہی بلادلیل کیسے قائم کردیا گیا؟ کوئی مفسر بھی یہ معنیٰ نہیں کرتا۔ ضرور اِس اصطلاح ’’لاریب‘‘ کا یہی مفہوم ہے کہ اس میں کوئی منطقی مغالطہ موجود نہیں ہے۔ میری یہ بات خود قران کی ہی آیات سے ثابت ہوتی ہے۔

هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَـٰبَ مِنۡهُ ءَايَـٰتٌ۬ مُّحۡكَمَـٰتٌ هُنَّ أُمُّ ٱلۡكِتَـٰبِ وَأُخَرُ مُتَشَـٰبِهَـٰتٌ۬‌ۖ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِمۡ زَيۡغٌ۬ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَـٰبَهَ مِنۡهُ ٱبۡتِغَآءَ ٱلۡفِتۡنَةِ وَٱبۡتِغَآءَ تَأۡوِيلِهِۦ‌ۗ وَمَا يَعۡلَمُ تَأۡوِيلَهُ ۥۤ إِلَّا ٱللَّهُ‌ۗ وَٱلرَّٲسِخُونَ فِى ٱلۡعِلۡمِ يَقُولُونَ ءَامَنَّا بِهِۦ كُلٌّ۬ مِّنۡ عِندِ رَبِّنَا‌ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّآ أُوْلُواْ ٱلۡأَلۡبَـٰبِ (٧)

وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اُس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنیٰ واضح ہیں ) وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں (جن کے معنیٰ معلوم یا معین نہیں ) سو جن لوگو ں کے دل ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں اور حالانکہ ان کا مطلب سوائے الله کے اور کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہمارا ان چیزوں پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سےہی ہیں اور نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو عقلمند ہیں (۷)

وَمَا يَعۡلَمُ تَأۡوِيلَهُ ۥۤ إِلَّا ٱللَّهُ‌ۗ وَٱلرَّٲسِخُونَ فِى ٱلۡعِلۡمِ

۔۔۔۔ کا ترجمہ غیر نحوی صرفی مفسرین نے یہ بھی کیا ہے کہ، ’’اور ان کا معنٰی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا یا پھر وہ لوگ جانتے ہیں جو مضبوط علم والے ہیں ‘‘۔

اگر قرانی مضامین کی تفہیم فقط صرفی نحوی مفسرین پر چھوڑی جاتی رہی تو کئی صدیاں مزید گزر جائینگی لیکن ہمارے ہاتھ وہ واضح معانی نہ آئینگے جن کا ذکر قران نے خود کیا ہے۔ ضروری ہے کہ قران کی تعلیم دیتے وقت صرف و نحو کے ساتھ ساتھ منطق بھی پڑھائی جائے اور بہت محنت کے ساتھ پڑھائی جائے۔ منطق قدیم بھی اور منطق جدید بھی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ بہت محنت طلب کام ہے اور کسی ایک فرد یا ایک ادارے کا کام نہیں بلکہ کئی اداروں کا کام ہے۔ لیکن اگر قران کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کوئی آیت بھی متشابہہ نہ رہیگی اور ٹیڑھے دل والوں کے پاس کوئی اعتراض باقی نہ رہیگا۔ کافی عرصہ پہلے میرے گھر پر ہی ایک محفل میں میں نے اسد رضا اور شوذب سے سنا کہ قران جب یہ کہتاہے کہ ’’تم اس کے بیانات میں تضادات نہیں پاؤگے‘‘ تو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قدرے پریشانی ہوجاتی ہےکیونکہ بعض بیانات ایسے ہیں جن میں تضاد سا محسوس ہوتاہے۔ مثال کے طور پر،
لیس کمثلہ شی

اُس(اللہ) کی مثال کسی شئے کے ساتھ نہیں دی جاسکتی۔

پھر

اللہُ نورالسمواتِ والارض

اللہ آسمانوں اور زمین کا نُور ہے

یہاں پہلی آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی مثال کسی شئے کے ساتھ نہیں دی جاسکتی لیکن دوسری آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔ اِس طرح مثال تو دے دی گئی ہے۔ تو کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ میں نے عرض کی۔ ضرور تضاد ہے اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ روشنی شئے(آبجیکٹ) ہے۔ اور میرا یہ جواب فقط استخراج کے ایک سلسلہ کی آخری کڑی تھا جو میں نے نُور یعنی روشنی کے سلسلہ میں قائم کیا تھا۔ جس کی تفصیل کی یہ جگہ نہیں۔

بعینہ اسی طرح ایک مرتبہ ایک پروفیسر دوست فرمانے لگے کہ قران کی بعض آیات میں تضاد بالکل واضح ہے۔ انہوں نے مثال کے

طور پر درج ذیل آیات پیش کیں،

آیت ۱: ۱ور بے شک الله جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔

آیت ۲: اور جو اس (اللہ) کی طرف رجوع کرتا ہے (اللہ) اسے ہدایت کرتاہے۔

ان میں سے ایک آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ ہدایت اپنی مرضی سے کرتاہے اور پھر دوسری آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی طرف جو رجوع کرتاہے اللہ اسے ہدایت دیتاہے یعنی اللہ ہدایت بندے کی مرضی سے کرتاہے۔ یعنی یہ تو ایک ایسا مغالطہ بھی ہے جسے Traditional square of opposition پر بھی ظاہر کیا جاسکتاہے جو منطق کے فارمل مغالطوں کو پہنچاننے کا حتمی ٹُول ہے۔ تب میں نے انہیں کاغذ پر قضیات بنا کر استخراج کرکے یہ سٹیٹمنٹس دکھائیں،
قضیہ

وَڪَذَٲلِكَ أَنزَلۡنَـٰهُ ءَايَـٰتِۭ بَيِّنَـٰتٍ۬ وَأَنَّ ٱللَّهَ يَہۡدِى مَن يُرِيدُ (١٦)

اور اسی طرح ہم نےاس قرآن کو واضح آیتیں بنا کر نازل کیا ہے اور بے شک الله جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے (۱۶)

قضیہ

ٱللَّهُ يَجۡتَبِىٓ إِلَيۡهِ مَن يَشَآءُ وَيَہۡدِىٓ إِلَيۡهِ مَن يُنِيبُ (١٣)

الله جسے چاہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے راہ دکھاتا ہے (۱۳)
اب

ذرا آسان الفاظ میں دوبارہ،

قضیہ: اور بے شک الله جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے
قضیہ: اور جو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ اسے ہدایت دیتا ہے
۔۔
یعنی

۱۔ اللہ اسے ہدایت دیتا ہے جسے ہدایت دینے کا ارادہ اللہ کرتاہے۔
۲۔ (اور) جو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ اسے ہدایت دیتاہے۔

استنتاج: جسے ہدایت دینے کا اللہ ارادہ کرتاہے وہ اللہ کی طرف رجوع کرتاہے۔
اسی طرح اگر قضیات کو اوپر نیچے لکھ دیا جائے تب،

استنتاج: جو اللہ کی طرف رجوع کرتاہے اللہ اُسے ہدایت دینے کا ارادہ کرتاہے۔

کیونکہ یہاں قضیات کو جامع حدود کی موجودگی میں کبریٰ صغریٰ بنا کر پیش نہیں کیا گیا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم اس کے ساتھ ملتا جلتا ایک مقدمہ قائم کرتے ہیں، مثال کے طور پر،

۱۔ کوئی کتاب صرف اسی کو سمجھ آسکتی ہے جس کے لیے مصنف نے لکھی ہے۔
۲۔ جو کوئی کسی کتاب کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتاہے کتاب صرف اسی کو سمجھ آسکتی ہے۔

اب کہاں گیا وہ تضاد جو پروفیسرصاحب کو نظرآیا تھا؟

جیسا میں نے اوپر عرض کیا کہ مجھے خود اپنی تلاوت کے دوران منطقی استخراجی مقدمات بہت مدددیتے ہیں۔ اور ایسی ہی کسی تلاوت کے دوران میرا یہ خیال بھی بناہے کہ،

۱۔ اللہُ نورالسمواتِ والارض (آیت)
۲۔ العلم نورٌ (حدیث)

استنتاج: اللہ علم السمٰواتِ والارض

پھر میں نے انھم ملاقوا ربھم کے ساتھ اس کے قضیات ملائے تو مجھے یقین ہوگیا کہ علم کے حصول کے وقت جو لذت، لطف، سرشاری اور سرور سا محسوس ہوتاہے وہ ملاقات ِ الٰہی کی ہی ایک شکل ہے۔ اسی طرح کا ایک مقدمہ سرسید احمد خان کا ہے،

۱۔ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور قرانِ پاک اللہ تعالیٰ کا قول
۲۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے قول و فعل میں تضاد ممکن نہیں

چنانچہ قرانِ پاک اور کائنات میں تضاد ممکن نہیں۔

اب یہاں تضاد سے مراد سائنس کا نت بدلتاہوا علم نہیں بلکہ علم سے مراد سائنس کے نِت بدلتے ہوئے تضادات ہیں۔

علم مسرتِ حقیقی بخشتا ہے اور ملاقات ِ الٰہی ایسا ہی کوئی لطف ہوگی نہ کہ جسم میں نصب دو آنکھوں سے کسی ’’شئے‘‘ (آبجیکٹ) کا دیکھنا۔ البتہ اس علم کی چونکہ کوئی حدود نہیں ہیں اور پھر اس کو مزید انفس و آفاق میں تقسیم کردیا گیا فلہذا عین ممکن ہے کہ انفس میں ملاقات ِ الٰہی علم کی کسی ایسی شکل میں ہو جو بعینہ سرور بخش ہونے کے ساتھ ساتھ یکسر معروضی علوم سے مختلف ہو۔

تبصرے بند ہیں۔