مدرسہ ڈسکورس اِن نیپال!

محمد عرفان ندیم

ہم تیس جون کی رات گیارہ بجے ہوٹل پہنچے تھے اور اگلے دن صبح نو بجے ہماری ورکشاپ کاآغاز ہو گیا تھا۔ یہ ورکشاپ مدرسہ ڈسکورس پروجیکٹ کے تحت ہو رہی تھی، مدرسہ ڈسکورس ایک تعلیمی پروجیکٹ ہے جس میں پاکستان، ا نڈیا اور ساؤتھ افریقہ کے ایسے طلبا ء شریک ہیں جو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اس پروجیکٹ کا آغاز جنوری 2017میں ہوا تھا، اس آئیڈیے کے خالق ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ تھے، یہ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں ا ور دارالعلوم دیوبند اور ندوہ سے فارغ ہیں۔ یہ آج کل امریکہ کی یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے منسلک ہیں، یہ کیتھولک یونیورسٹی ہے جہاں مختلف ادیان و مذاہب پر تحقیق و ریسرچ ہوتی ہے۔

جارج ٹیمپلٹن امریکہ کی مشہور فاؤنڈیشن ہے، ڈاکٹر صاحب نے اس فاؤنڈیشن اور یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کر کے کچھ اسکالرشپس حاصل کیں اور اس پروجیکٹ کا آغاز کر دیا۔ یہ یونیورسٹی میں مختلف ذمہ داریوں پر فائز ہیں، ایک ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی ہیں لہذا یہ اس پروجیکٹ کو ذیادہ وقت نہیں دے پا ئے چناچہ انہوں نے اپنے کولیگ ڈاکٹر ماہان مرزا کو ہائیر کر لیا۔ ڈاکٹر ماہان مرزا کمال شخصیت ہیں، یہ ہر دلعزیز ہیں اور طلباء میں گھل مل جاتے ہیں، یہ اس پروجیکٹ کا حصہ بنے اور واقعی کمال کر دیا۔ یہ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں، والد صاحب ایئر فورس میں تھے، بچپن لندن میں گزرا وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد یہ والد کے ساتھ مختلف ملکوں اور شہروں میں شفٹ ہوتے رہے اور بالآخر یہ ڈاکٹر اسرار احمد کے حلقے میں پہنچ گئے۔ کچھ وقت ان کے ساتھ اور ان کی مجالس میں گزارا، ا ن سے عربی سیکھی اور پھر یہ امریکہ منتقل ہو گئے۔ ییل یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی اور زیتونہ کالج  امریکہ میں پڑھانا شروع کر دیا۔

آج کل یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے منسلک ہیں اور ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کے ساتھ مل کر مدرسہ ڈسکورس پروجیکٹ کو چلا رہے ہیں۔ ترتیب کچھ یوں ہے کہ سارا سمسٹر کلاسز ہوتی ہیں اور سمسٹر کے آخر میں ورکشاپ رکھی جاتی ہے۔ ہفتے میں دو دن کلاس ہوتی ہے، ایک ہفتہ قبل طلباء کو ریڈنگ مٹریل بھیج دیا جاتا ہے جسے وہ ذاتی طور پر سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ریڈنگ عربی، انگلش اور اردو ٹیکسٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔ کورس کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ طلباء کو پہلے اپنی روایت اور تراث سے واقف کر وایا جائے کہ اس وقت ہمیں جو سوالا ت اور چیلنجز درپیش ہیں یہ کوئی نئے نہیں بلکہ ہماری روایت کو بھی اس طرح کے سوالات اور چیلنجز درپیش تھے، ہماری روایت نے انہیں کس طرح رسپانڈ کیا۔ پھر بتدریج اس پہلو کی طرف بڑھا جائے کہ اس وقت جدید سائنس اور جدید فکر نے جو نئے سوالات اور چیلنجز ہمارے سامنے کھڑے کیے ہیں ہمیں انہیں کس طرح رسپانڈ کرنا ہے۔ نیز ہمیں نئے علم الکلام کی ضرورت کا اندازہ اور احساس ہو اور اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی پتا چلے کہ ہماری روایت اصل میں ہے کیا۔

مغرب اور خود ہماری سیکولر فکر کی طرف سے مذہب، جنس، قانون اور فقہ کے حوالے سے جو سوالات اٹھ رہے ہیں طلباء کو ان سے واقف کر وایا جائے، ان سوالات کی علمی بنیادیں کیا ہیں اور یہ کہاں سے آ رہے ہیں نیز ہمیں انہیں رسپانڈ کرنے کے لیے کیا علمی پوزیشن اختیار کرنی ہے اور اس کے لیے مطلوب رویے کیا ہیں۔ ان سوالات اور چیلنجز کا جواب ہم نے روایت اور جدید علمی مباحث کے دائرے میں رہ کر کیسے دینا ہے۔ یہ وہ بنیادی اہداف و مقاصد تھے جو اس پروجیکٹ اور کورس سے مطلوب تھے۔ یہ لوگ ان اہداف و مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہو ئے ہیں ا س کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اس پروجیکٹ کی بدولت ایک نیا علمی ڈسکورس ضرور پروان چڑھا ہے، یہ پروجیکٹ تالاب میں پھینکا جانے والا پہلا پتھر ہے اور انشا ء اللہ آنے والے دنوں میں اس کی ارتعاش ہماری روایتی مذہبی فکر میں ضرور محسوس کی جائیں گی۔ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات مضبوط بیک گراؤنڈ کے مالک ہیں، ایک دار العلوم دیوبند اور ندوہ کے فیض یافتہ ہیں اور دوسرے ڈاکٹر اسرار احمد کے خوشہ چین رہے ہیں۔ اگرچہ کچھ مسائل میں یہ حضرات اپنی الگ سوچ رکھتے ہیں لیکن اس کی وجہ ان کا وہ ماحول اور سوسائٹی ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں، اس ماحول کے تناظر میں ان کی سوچ بالکل مناسب اور معتدل ہے۔

انڈیا میں ڈاکٹر وارث مظہری لیڈ فیکلٹی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، یہ دار العلوم کے فارغ ہیں اور ماہنامہ ترجمان دار العلوم دیوبند کے مدیر بھی رہے۔ یہ پی ایچ ڈی ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وزیٹنگ فیکلٹی کا حصہ رہے اور آج کل جامعہ ہمدرد میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ تحقیق اور ریسرچ کا اچھا ذوق رکھتے ہیں اور اب تک کئی ریسرچ پیپر لکھ چکے ہیں۔ معتدل سوچ اور متوازن فکر ان کی پہچان ہے۔ پاکستا ن میں مولانا عمار خان ناصر اس پروجیکٹ کو دیکھ رہے ہیں، یہ اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے روایتی مذہبی فکر میں شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، یہ اپنے مطالعے اور استدلال کی بنیاد پر الگ سوچ رکھتے ہیں اور روایت کی از سر نو تفہیم کے قائل ہیں۔ یہ روایت کے ساتھ جدید علوم اور نئی تحقیقات سے استفادے کو فرض سمجھتے ہیں۔ ہماری روایتی مذہبی فکر کا اپنا ایک مخصوص مزاج او ر ماحول ہے اور یہ خود کو اس سوچ اور فکر کا پابند نہیں رکھ پائے لہذا یہ مین اسٹریم سے کٹ گئے۔ میرا گمان ہے کہ اس بعد سے دونوں فریقوں کو نقصان پہنچاہے۔ مولانا عمار خان ناصر کا سارا علمی کا م اور ان کی کریڈبیلٹی مشکوک ہو گئی اوردوسری طرف روایتی مذہبی فکر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھا سکی۔ بہر حال میری خواہش ہے اور دعا بھی کہ یہ بعد کسی طرح دور ہو اور از سر نو ایک علمی و فکری فضا قائم ہو۔

 یہ ورکشاپ پندرہ دنوں پر محیط تھی اور اسے ’’سمر انٹنسو ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ورکشاپ کا مرکزی عنوان ’’مذہبی علمیات اور نئے امکانات‘‘تھا جس کے تحت کچھ ذیلی مباحث ڈسکس ہوئیں۔ پہلے تین دن ’’ جنس اور اسلامی قانون ‘‘ پر تفصیلی گفتگو ہوئی، یہ تین دن ڈاکٹر سعدیہ یعقوب کے لیے خاص تھے، ڈاکٹر سعدیہ یعقوب بیس سال پہلے کراچی سے امریکہ منتقل ہوئیں اور آج کل یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے منسلک ہیں۔ اس کے بعد ہیومن نیچر اور بائیو ٹیکنالوجی پر گفتگو ہوئی، اس پر یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے آئے ہوئے پروفیسر جیرالڈ میکنی نے بھر پور گفتگو کی، پھر تین دن ’’جنس، مذہب اور عالمگیریت کے تناظر میں قیام امن ‘‘ کے حوالے سے لیکچرز ہو ئے، اس پر بھی یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے آئے ہو ئے ڈاکٹر اطالیہ عمیر اور پروفیسرجیسن سپرنگ نے گفتگو کی اور آخری تین دن ’’جنوبی ایشیا کے تناظر میں معاصر علمی دنیا میں کلامی مباحث ‘‘پر گفتگو ہوئی جس پر مولنا عمار خان ناصر نے سیر حاصل گفتگو کی۔

اس موضوع پر ڈاکٹر وارث مظہری صاحب نے بھی گفتگو کرنی تھی لیکن انہیں ہنگامی طور پر واپس انڈیا جانا پڑا جس کی وجہ سے وہ شریک گفتگو نہ ہوپائے۔ ایک دن کے لیے فقہ اکیڈمی انڈیا کے مولانا امین عثمانی صاحب بھی تشریف لائے اور فکر انگیز گفتگو کی۔ صبح نو سے ساڑھے بارہ بجے تک لیکچرز اور دو سے پانچ بجے تک ڈسکشن ہوتی تھی۔ آخری دن طلباء نے پریزنٹیشنز دیں اور اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ جمعے کے دن کھٹمنڈو کی مرکزی مسجد میں جمعے کی نماز اور مطالعاتی سفر کا اہتمام تھا۔ ہوٹل میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام تھا لیکن اکثر طلباء سستی کر جاتے تھے۔ (باقی آئندہ)

تبصرے بند ہیں۔