مسلمانانِ ہند کی تعلیمی پسماندگی کے اسباب‎

مسعود جاوید

سال گزشتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان رحمۃاللہ علیہ کی پیدائش کے دو سو سالہ سالگرہ Bicentennial celebration  کے موقع پر اس سے بہتر اور خراج عقیدت کیا ہوتا  کہ پورے ملک میں دو سو معیاری اسکول کی بنیاد رکھی جاتی۔ ویسے تو سرسید کا احسانمند ہر مسلمان ہے اور اس نیک کام میں ہر ایک کو حصہ لینا چاہیئے مگر علیگ برادری کی ذمہ داری اوروں سے زیادہ ہے کہ وہ اپنی مادر علمی اور اس کے بانی کے احسانوں کا کسی حد تک بدلہ چکانے  کے طور پر اس مشن کو اپنا فریضہ سمجھیں۔ وما جزاء الاحسان الا الاحسان۔

1866  میں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا  اور اپنے معلنہ ‘ اغراض و مقاصد یعنی  ہندوستان میں دین اسلام کی بقاء ‘ میں بہت حد تک کامیاب ر ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا قصبہ ہو جہاں دینی مکتب یا مدرسہ نہ ہو  اور جہاں کوئی عالم یا حافظ مسجد کا امام نہ ہو۔  اس ولی اللہی مکتب فکر کے لوگوں نے  لاتعداد  ‘ گرچہ غیر منظم’ مدارس ومکاتب کا جال پورے ملک میں پهیلا دیا اور سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اگر مسلمانوں کی شرح خواندگی ساڑھے تین سے چار فیصد ہے تو اس میں ان مدارس کا بہت بڑا رول ہے۔ ان مدارس نے دینی تعلیم کے نام پر بچوں  کو کم از کم  साक्षर   تو بنایا۔ ان مدارس کے نصاب میں بہت ساری کمیاں  ہیں اور بدلتے ہوئے حالات کے مد نظر تجدید و اصلاح کی سخت ضرورت ہے اس لئے کہ بانی دارالعلوم کے مطمح نظر اس وقت عیسائی مشنری کی اسکولوں کے ذریعہ عیسائیت کی نشرواشاعت کا دفاع کرنا تها۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے لائحہ عمل ” اصول ہشتگانہ ” میں یہ ذکر دیا تها کہ کس درجہ تک خالص دینی تعلیم کے بعد طلبہ کو عصری تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ مگر افسوس 152 سو سال سے زائد کا عرصہ گزر نے کے بعد بهی مدارس نے ان کی اس بات پر عمل نہیں کیا۔

آریہ سماجی مذہبی رہنماؤں میں  بهی مشنریوں کی حرکت سے تشویش تهی۔ انہوں نے بهی دینی ادارہ قائم کیا مگر دینی اور عصری دونوں تعلیم کو ساتھ ساتھ رکها اور 1886 میں پنڈت دیانند سرسوتی کے افکار کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مہاتما ہنس راج نے لاهور میں دیانند اینگلو ویدک اسکول D۔A۔V قائم کیا۔ جس کے اغراض و مقاصد مذہبی ویدک تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم دینا ہے۔ ہندوستان کی یہ واحد غیر سرکاری تعلیمی سوسائٹی هے جس کے  800 سے زائد اسکول 75 کالج اور ایک یونیورسٹی ہے۔ 50000 سے زیادہ کا عملہ والا یہ ادارہ ہر سال 200000 دو لاکھ طلبہ کو تعلیم سے آراستہ کرتا ہے۔

1875 میں سر سید احمد خان رحمۃاللہ علیہ نے مسلمانوں کی عصری تعلیم کے لیے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کیا۔ بلاشبہ یہ وقت کی اہم ضرورت تھی۔ تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے مسلمان حاشیہ پر تهے کوئی قدر و قیمت نہیں تهی انگریزی استعماریت کی وجہ سے ٹوٹ چکے تهے ہر طرف مایوسی اور احساس کمتری خیمہ زن تهی۔ اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے تعلیم سے بہتر اور کوئی حربہ نہیں تها۔

ان کی اس دور اندیشی اور وزن کا احسانمند ہر مسلمان ہے۔ تاہم ان کے لوگوں نے ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہیں کیا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ایک تناور درخت یہ بلا شک ایک عظیم کارنامہ ہے  مگر اس کے بانی رح کا خواب نہیں ہے۔ سر سید کا خواب تها کہ ہندوستان کا کوئی مسلمان عصری تعلیم سے محروم نہ رہ سکے۔ اس کے لئے ضرورت تهی کہ اس تناور درخت کی شاخیں بهی ہوں  جو کہ افسوس اس کے قیام کے 143 سال بعد  بهی (  باستثناء حالیہ قائم ہوئی  تین برانچ یونیورسٹیوں کے)  علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی نگرانی اور اس کے مرتب کردہ نصاب والے سر سید ماڈل اسکول کا جال نہیں بچهایا گیا۔ آج سرسید کی پیدائش کے  دو سو سال پر علیگ برادری اسکول کے اسی طرز پر یا کسی بهی نوعیت کے معیاری تعلیم کے دسویں اور بارہویں درجہ تک کے اسکول کا جال بچھانے کا عہد کرکے  سرسید رحمۃاللہ علیہ کو بہترین خراج عقیدت  پیش کر سکتے ہیں۔

ڈی اے وی نے اپنی ساری توانائی فاؤنڈیشن مذہبی ویدک تعلیم کے ساتھ بنیادی معیاری تعلیم پر صرف کی اس نے بڑی بڑی یونیورسٹیز قائم نہیں کیا لیکن اپنے با اہل طلباء کے لئے دوسروں کو کالج کهولنے پر مجبور کیا۔ ہندوستانی مسلمان کا علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کو اپنی معراج سمجھ کر بیٹھ جانا مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ اس لئے کہ ہمارے بچوں کے لئے معیاری بنیادی تعلیم کی سہولیات فراہم نہیں کی گئی۔ اگر فاؤنڈیشن پر توجہ ہوتی تو ہمارے بچے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے محتاج نہیں ہوتے۔ ان دونوں اداروں میں بهی اہلیت ٹیسٹ میں جو بچے بچیاں پاس نہیں ہوتے ان کا داخلہ نہیں ہوتا۔ مگر افسوس ہماری ملی قیادت کی ترجیحات فقط ان دونوں اداروں کی مائناریٹی کیرکٹر پر اخباری بیان بازی کرنا رہا۔ اگر ہمارے بچے بارہویں تک کی معیاری تعلیم حاصل کر لیتے ہیں تو ملک اور بیرون ملک بے شمار ارکاری نیم سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جو اپنی رینکنگ بڑهانے کے لئے با صلاحیت طلباء کی تلاش میں رہتے ہیں اس مقصد کے لیے ان کے یہاں ٹیلنٹ سرچ پر کافی توجہ دی جاتی ہے۔ دوسال قبل اخبار میں خبر چهپی تهی کہ پنجاب اور ہریانہ کا وفد پٹنہ گیا اور با صلاحیت طلباء – بلا امتیاز مذہب برادری اور علاقہ  – کو بغیر ٹیوشن فیس تعلیم دینے کا آفر دیا۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہم اگر معیاری بنیادی تعلیم بارہویں جماعت تک دلادیں تو اس سے آگے اعلیٰ اور پروفشنل ایجوکیشن کی راہ خود ہموار ہو جائے گی مالی اعانت اسکالر شپ دینے کے لیے بهی متعدد ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔۔۔۔۔ یعنی بارہویں جماعت کے بعد : جو بڑهکر خود اٹها لے ہاتھ میں،  مینا اسی کا ہے۔۔۔۔۔۔ تو پہلے اس لائق تو ہم بنائیں کہ ملک و بیرون ملک کے کالجز ان کو داخلہ دینے کے متمنی ہو سکیں۔ اس لئے ضرورت ہے کل ہند سطح پراسکول چین بنانے کی۔

بات کڑوی ہے مگر ذاتی مشاہدہ پر مبنی حقیقت سے قریب ہے بعض استثناء کے ساتھ  کہ جنوبی ہند کی ملی قیادت ارکان خمسہ : 1- اردو سرکاری زبان 2- على گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار 3- فرقہ وارانہ فسادات 4- سرکاری ملازمت میں مسلمانوں کا تناسب اور 5- مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک discrimination کو ہی مسلمانوں کا اول تا آخر مسئلہ نہیں بنایا اس لئے تعلیمی اور اقتصادی میدان میں اچهی پیش قدمی کی ہے  جبکہ شمالی ہند کی ملی قیادت نے اپنی معراج دارالسلطنت دهلی میں قیام اور اقتدار کی غلام گردش یا اقتدار کی گلیاروں سے قربت حکمران جماعت اور اپوزیشن پارٹی کے لوگوں میں اپنی پہچان بنانا رہا ہے۔ پوری عمر اپنے علاقے کی خدمت کرنے کے بجائے دہلی میں بسیرا کئے رہے۔ دہلی کے سیاسی و سماجی حلقوں میں اپنی پہچان بنا لیا مگر اپنے علاقے میں ایک اسکول ایک ووکیشنل ٹریننگ سنٹر یا حکومت کی جانب سے مہیا اقلیتوں کے لئے مختلف اسکیموں اور مالی امداد سے اپنے علاقے کے مستحق افراد کو آگاہ کرنے کا اور مانیٹرنگ کا کوئی سلسلہ شروع نہیں کیا۔ ان سے جب سوال کیا تو جواب کچھ اس طرح کا تها : یہ چهوٹے چهوٹے کام گلی اور محلے کے نیتا کا ہے ہم تو مسلمانوں کے بڑے مسائل کے حل کے لئے دہلی میں ہیں۔! اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ بڑے مسائل نے ان کو گهر بار بیوی بچوں کو چھوڑ کر دہلی میں رہنے پر مجبور کیا ہے یا ظلّ سرکار میں رہنے کی اندرونی خواہش نے۔ اس کے برعکس جنوبی ہند کی ملی قیادت اپنے علاقے میں اپنی پہچان بنائی زمین سے جڑے رہے ان کی ضروریات کو پورا کرنے اور مسائل کو حل کرنا اپنی تنظیموں کا غرض اساسی بنایا۔ لاکھوں بچوں کو ووکیشنل ٹریننگ دلا کر خلیجی ممالک بهیجا اور اب ان کے بچے مالی وسائل کی قلت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہیں ہیں۔ ان کی دہلی آمد و رفت بغرضِ ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اپنے مسائل اللہ محمد مسلمان کے نام پر نہیں وہ ملک کی اقلیتوں کے ساتھ مل کر اپنے حقوق لیتی ہے اپنے ووٹ کو بارکیننگ ایشو بناتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔