معلم و متعلم کا رشتہ

محمد وجہ القمر فلاحی

موجودہ دور میں ہر ایک موقع کو یاد کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی دن مقرر کر لیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں میں گاہے بہ گاہے تروتازگی کا احساس پیدا کیا جا سکے اور انھیں اس مشغول تر دور میں بیدار رکھا جا سکے۔

۵؍ ستمبر کو بھی یوم اساتذہ کی شکل میں منایا جانے لگاہے اور ۵؍ ستمبر آتے ہی ہر طالب علم چار و ناچار اپنے اساتذہ کو مبارکباد دینے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ ہمیشہ ہمیش ایک دوسرے سے جذباتی لگاؤ اور اخلاقی قدروں سے بندھا ہوا ہو لیکن اس انمول اور لازوال رشتہ کو مختصر و محدود کردیا گیا ہے۔ اس موقع پر میرے بھی جذبات وقتی طور سے اپنے مشفق اساتذہ کو مبارکباد دینے کے لئے ابال کھا رہے ہیں چہ جائے کہ میری بیشتر کوشش یہ رہی ہے کہ اساتذہ کے لئے سدا اپنے دل میں احترام و اکرام کے جذبات بیدار رہیں اور کبھی بھی اخلاقی قدروں کی پامالی نہ ہو۔ کیوں کہ معلم قوم کا معمار کہا جاتا ہے لہذا ہر اعتبار سے معلم کی حیثیت مسلم ہے۔ معلم صرف کتابی جملوں کو رٹانے والا یا پڑھانے والا ہی نہیں بلکہ وہ ایک رہنما کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ وہ صرف طلبا کو کتابی اسباق پڑھا کر د ست بردار نہیں ہو جاتا بلکہ طلبا کی ہمہ جہت ترقی کا ضامن بھی ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر معلمین کو ملک و قوم کا سپوت اور اچھا شہری بنانے کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے معلمین کو درس و تدریس کے عمل کو با معنی بنانے کے لئے بے انتہا قابلیت کا مالک ہونا ضروری ہے۔ اور معلمین کو اپنا کام پیشہ کی صورت میں نہیں بلکہ ’’مقصد حیات‘‘ کی شکل میں انجام دینا چاہئے۔ پروفیسر ہمایوں کہتے ہیں کہ’’ معلم قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے ہوتے ہیں ‘‘ اور جان آڈمس ’’ معلم کو انسان ساز‘‘ کہتا ہے۔ چوں کہ ایک قابل معلم ہی مستقبل کی نسل کا سرپرست، قوم کا معمار اور مرکزی شخصیت کا حامل ہوتا ہے جس پر بچہ اور نسل انسانی کا انحصار ہوتا ہے اور اسی وجہ سے جیسا معلم ویسا شاگرد ہوگا۔ اسی لئے ڈاکٹر ای۔ اے۔ پائیرس کہتے ہیں کہ ’’ قوم کا مدرس جس وضع کا ہوگا تو قوم بھی اسی وضع کی ہوگی اور اس کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہم بہترین نوعیت کی قوم بننا چاہتے ہوں تو ہمارے لئے معلم کو بھی بہترین نوعیت کا ہونا چاہئے۔ بچوں کی عادات، ذوق سلیم اور اخلاق کی تربیت میں معلم کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے‘‘۔ اس اعتبار سے ہر ایک معلم کو مثالی معلم ہونا چاہئے جسے اپنے پیشے سے رغبت، زبان و بیان پر عبور، مطالعہ کا شوق، خوش مزاج، ہمدرد، فن تدریس میں مہارت، وقت کا پابند، رہبر اور اچھی شخصیت کا مالک ہونا چاہئے تبھی وہ مثالی معلم کہلانے کا حقدار ہوگا۔

درس و تدریس دراصل ایک فن ہے جس کے استعمال سے معلم اپنے شاگردوں کی ذہنی آبیاری کرکے اس کے مستقبل کو سرسبز و شاداب کرتا ہے۔ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سماج کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے لیکن اس کی خصوصی ذمہ داری والدین اور اساتذہ ہی مانے جاتے ہیں لہذا وہی عموماً فکر مند بھی نظر آتے ہیں۔ ملک و قوم کی ضروریات کے لحاظ سے اگرچہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ بہت ہی کم اور انتہائی ناکافی ہے لیکن جن محدود وسائل اور مشقتوں کے ساتھ یہ کام انجام پا رہا ہے اسے غنیمت ہی کہا جا سکتا ہے۔

اس عظیم موقع پر میں ایک طالب علم کی حیثیت سے ان تمام علم کے پیاسوں کو اپنی ذمہ داری اور فرائض کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اساتذہ خواہ کیسے بھی ہوں اور ہم نے ان سے بالواسطہ یا بلا واسطہ علم حاصل کیا ہو ہم تمام کو ان کی قدر کرنی چاہئے تاکہ اساتذہ ہم پر اپنے علم کا آخری باب بھی وا کرسکیں کیوں کہ علم کا خزانہ اسی پر کھلتا ہے جو دل و جان سے اس کی تلاش میں منہمک رہتا ہے اور اساتذہ اپنے تمام تر علم کو ان شاگردوں کے حوالے کرتے ہیں جو اس کا بھار سہنے کی حیثیت رکھتے ہیں لہذا ہم تمام کو اساتذہ کی قدر و منزلت میں کسی طرح کی کمی نہیں کرنی چاہئے اور ان کی صحت و تندرستی کے لئے ہمیشہ دعا گو رہنا چاہئے۔ اور اہم بات یہ کہ اس مادہ پرست دور میں جب کہ تمام تر اخلاقی قدریں پامال ہوتی نظر آرہی ہیں ہم تمام کو اس کا مکمل پاس و لحاظ رکھنا ہوگا اور اقدار کی پاسداری میں ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی اور اس بات کی طرف توجہ دینی ہوگی کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ معاش و معیشت سے اوپر ہو تبھی جا کر اخلاقی قدریں معمول میں آسکیں گی اور انسانیت کی تعمیر میں ممد و معاون ہوسکیں گی۔

استاد چونکہ روحانی باپ کی حیثیت رکھتا ہے لہذا ہمیں ان کے ساتھ وہی برتاؤ کرنا چاہئے جو اپنے والدین کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایک طالب علم اور استاد کا رشتہ ایک دوست اور راز دار کا بھی ہونا چاہئے تاکہ استاد و شاگرد میں بلا جھجھک علم کا تبادلہ ہوتا رہے۔ ایک طالب علم کی ذمہ داری اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس نے جو علم اپنے اساتذہ سے حاصل کیا ہے اسے دنیا میں پھیلانا ہے اور ان کے ذریعہ بتائے گئے راستوں کو دنیا کے سامنے واضح کرنا ہے۔

یوم اساتذہ کے موقع پر حکومتوں کو خواہ وہ مرکزی ہوں یا صوبائی ہر طرح سے اساتذہ کے لئے منظم اور جامع منصوبہ تیار کرنا چاہئے اور انھیں فکری و معاشی حیثیت سے اتنا متمول کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے جس سے وہ بلا خوف و خطر اور دل جوئی کے ساتھ اپنے طالب علموں کو علم سے سیراب کرسکیں۔ کیوں کہ کہیں نہ کہیں ان تمام رہنماؤں کا تعلیم وتعلم کا منبع کوئی نہ کوئی استاد ہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک گیر سطح پر جشن یوم اساتذہ کا انتظام کرنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ اساتذہ کو ان کی کار کردگی پر انعام و اکرام سے نوازا جانا چاہئے تاکہ مستقبل میں تعلیم کا بہتر معیار متعین ہو سکے۔

رہبر بھی یہ، ہمدم بھی یہ، غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

تبصرے بند ہیں۔