ٹیچرس ڈے

الطاف حسین جنجوعہ

1954میں بھارت کے سب سے بڑی شہری ایوارڈ ’بھارت رتن‘ انعام یافتہ اور 13مئی 1962تا13مئی 1967تک ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ ہند رہے ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش (5ستمبر)کو ملک بھر میں ’یوم اساتذہ‘کے طور منایاجاتاہے۔ بنیادی طور پر استاد ہونے کی حیثیت سے ان کے جنم دن 5 ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پر مناکر انہیں عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ہندوستانی سماجی ثقافت کے دلدادہ ایک ماہرتعلیم، عظیم فلسفی اور عظیم مقرر تھے۔ ڈاکٹر رادھاکرشنن نے اپنی زندگی کے 40 اہم سال ٹیچر کے طور پرگزار دئے۔ ان میں ایک لائق ٹیچر کے سارے گن موجود تھے۔ سن 1962 میں جب وہ صدر بنے تھے، اس وقت کچھ شاگرد اوران کے کچھ مداح ان کے پاس گئے تھے۔ اسی وفد سے بات چیت کے بعدانہوں نے اپنا جنم دن یوم اساتذہ کے طورپر منانے کی خواہش ظاہر کی تھی جس کا ہی نتیجہ ہے کہ سارے ملک میں ڈاکٹر رادھاکرشنن کی پیدائش کے دن 5 ستمبر کویوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رادھاکرشنن کسی تعارف کے محتاج نہ ہو کرہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنی الگ شہرت رکھتے تھے اور آج بھی ان کانام عزت واحترام سے لیاجاتاہے۔ اس مضمون میں رادھا کرشنن کے اوصاف ومداح اور خوبیاں بیان کرنا نہیں کیونکہ وہ کیا تھے، کیسے تھے، یہ سب ہمیں کتابوں سے معلوم ہوتا ہے یاکسی بزرگ سے سنتے ہیں۔ زندگی بہترین کتاب اور زمانہ بہترین استاد ہوتا ہے۔ زمانے میں انسان آخری سانس تک سیکھتا ہی رہتا ہے۔ اسی فلسفے اوراسی پس منظر کے تحت استاد وہی کہلاتاہے کہ جو شاگردوں کی شخصیت سازی میں اپنا حصہ ڈالے، ان کی فکری تشکیل اور کردار سازی میں اہم کردار سرانجام دے۔ جو استاد صرف وقت گزارنے کیلئے کلاس میں اونگھتا رہے اور رسماً لیکچر دے کر چلا جائے یا پھر اپنی انرجی کو ٹیوشنیں پڑھانے کے لئے بچا کر رکھ کر پیسے کمانے کی مشین بن جائے، وہ صحیح معنوں میں استاد کہلانے کا حقدارنہیں۔ بنیادی طور پر استاد اور تعلیم کا شعبہ ایثار کیش پیشہ ہے، اس کے ساتھ ایک تقدس منسلک ہے۔ اس لئے اس شعبے میں صرف ان لوگوں کو آنا چاہئے جن میں بے لوث خدمت کا جذبہ اور ایثار و قربانی کی صلاحیت موجود ہو۔ جس استادنے اپنے شاگرد پر انمٹ نقوش چھوڑے، نئی منزلوں کی طرف آگے بڑھنے سے قبل اس کی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا، اس میں پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جذبہ پیدا کیا اوراسے نئی منزلوں سے آشناکردیا۔ اپنی پاکیزہ فکر، صالح کردار اور گہرے مطالعے سے شاگردوں کے ذہن پر خوش گوارنقوش مرتب کئے، اس کی ذہنی و فکری تشکیل میں کردار سرانجام دیا اوراسے معرکے سرکرنے کے قابل بنایا۔ قابل، لائق اورذہین وفطین شاگردوں کی سوچ و فکراورشخصیت پرایسے استادکی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ غور وفکر کے چراغ جلاکر اپنی شخصیت کا ایکسرے کریں اور اپنے باطن میں گھس جائیں تو آپ کو اپنی شخصیت کے سنوارنے میں کئی ایسے استادوں کے چھپے ہوئے ہاتھ ملیں گے۔ اچھے طالب علم کی بہت سی عادات زندگی کے رویئے بول چال اور روز مرہ کی زبان کے الفاظ و محاورے اپنے ایسے ہی استاد سے ضرورملتے ہوں گے کہ جنہوں نے اسے نہ صرف پڑھایا بلکہ اس پر توجہ دی اور اس کی کردار سازی کی۔ اسی لئے توکہاجاتاہے کہ استادمعمارقوم ہوتاہے اور قوموں کی تعمیر میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اچھے افراد کی وجہ سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اچھے معاشرے سے ایک بہترین قوم تیار کی جا سکتی ہے۔

یہاں پر میں ان اساتذہ کے اوصاف، خوبیاں بیان کرنا چاہوؤں گا جن سے مجھے پرائمری سے لیکر یونیورسٹی سطح کی تعلیم تک بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اول سے لیکر یونیو رسٹی تک کے 18سالہ تعلیمی سفرکے دوران سینکڑوں اساتذہ/لیکچررز/پروفیسروں سے پڑھنے، سیکھنے، ان سے بات چیت کرنے، ان کی محفل کا حصہ بننے یا انہیں کسی تقاریب کے دوران سننے کا موقع ملا لیکن کچھ اساتذ ہ ایسے ہوتے ہیں جوکہ اپنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور زندگی کے آخری دم تک وہ یاد رہتے ہیں۔ آج تک درجنوں اساتذہ سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے او ریہ عمل آج بھی جاری ہے جوکہ آخری سانس تک جاری رہے گا۔ اساتذہ صرف وہی نہیں ہوتے جوآپ کو سکولوں، کالجوں یایونی ورسٹی سطح پر آپ کو کلاسز کے اندر پڑھاتے ہیں بلکہ ہر وہ شخص آپ کے لئے استاد کی حیثیت رکھتا ہے جو سکولی تعلیم کے علاوہ بھی زندگی کے مختلف شعبہ جات اور مختلف موڑوں پر آپ کو کچھ نہ کچھ سکھاتاہے۔ ایک شخص کے پہلے اساتذہ والدین ہوتے ہیں جوپیدائش کے بعد سکول جانے کے قابل ہونے تک بچے کی تربیت کرتے ہیں، اس کو اچھی اچھی باتیں سکھاتے ہیں۔ مجموعی طور والدین کی طرف سے دی گئی تعلیمات کا اثر کافی رہتا ہے۔ سب سے پہلے میں اپنے والدین کو بطور اساتذہ دل کی عمیق گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتاہوں جنہوں نے میری ایسی ٹھوس بنیاد رکھی جس کی بنا پر آج میں اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس فانی اور عارضی زندگی کے آزمائشوں اور جدوجہدبھرے سفر میں پرائمری سکول، مڈل سکول، ہائرسکینڈری سکول، ڈگری کالج اور یونیورسٹی کے بعدصحافت اور وکالت شعبہ جات میں آگے بڑھنے میں اب تک درجنوں اساتذہ نے بہت کچھ سکھا ہے۔ ان میں سے چند ایک ایسے ہیں جنہوں نے قلب وذہن پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ پرائمری سکول کنیجالی پٹھانہ تیر مینڈھر جہاں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی میں جناب ماسٹر پرویز خان اور جناب ماسٹر محمد شریف صاحب پسندیدہ استاد رہے جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ان کے کردار، اخلاق، سادہ طرز زندگی وسنجیدہ پن نے کافی متاثر کیا۔ چھٹی سے آٹھویں کلاس تک گورنمنٹ مڈل سکول لسانہ (سرنکوٹ)میں تین سالہ تعلیم کے دوران ماسٹر محمداکبر اور ماسٹر بشیر احمد خان اور آنجہانی کستوری لعل نامی اساتذہ نے زندگی میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی، حوصلہ افزائی کی بلکہ غلطیوں کو معاف بھی کیا۔ آنجہانی ماسٹرکستوری لال کی ایک سبق آموز بات یاد ہے …سکول میں صبح کی دعائیہ مجلس ہورہی تھی تو گذشتہ روز غیر حاضر رہے کچھ طلبہ وطالبات کو سزا دینے کے لئے انہوں نے مجھے کمرے سے چھڑی لانے بھیجا، چھڑی نہ ملی تو وآپس آکر میں نے ان (ماسٹر کستوری لال)سے کہاکہ ’تم نے جہاں رکھی تھی، چھڑی وہاں نہیں ملی‘۔ (مارننگ اسمبلی)کے بعد انہوں نے میں مجھے اعلیحدہ بلا کر کہا’بیٹا میں تمہیں ’تم‘اور ’آپ ‘الفاظ میں فرق سمجھاتاہوں، انہوں نے کہاکہ ’’تم عمر میں چھوٹے اور ’آپ ‘عمر میں بڑھوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ ’آپ‘لفظ ہر ایک کے لئے احتراماًاستعمال کیاجائے، اس سے دوسروں کی نظر میں آپ کی قدرومنزلت وعزت بڑھ جاتی ہے۔ تعلیمی سفرکے جاری سلسلہ کے دوران ہائرسکینڈری سکول لسانہ میں 9 ویں اور10ویں کلاس کے دوران ماسٹر نثار قریشی(گرسائی)اور ماسٹر محمد ایوب سہڑ ی خواجہ کے طرز انداز نے کافی متاثر کیا۔ ماسٹر نصار قریشی ریاضی جبکہ ماسٹر محمد ایوب صاحب اردو پڑھاتے تھے۔ نثار قریشی کی زیر رہنمائی اور انتھک محنت کی بدولت DIETکے زیر اہتمام ’ریاضی‘کے ضلع سطحی مقابلہ میں اچھی کارکردگی کا موقع میسر ہوا۔ 11ویں اور12ویں کے دوران یوں جناب محمد اشرف چوہان، لیکچررمحمدلطیف، لیکچرر ظہو احمد بھٹی او رماسٹر محمد سعیدپسندیدہ رہے، انہیں بھی آج خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ان میں سے کچھ ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں جبکہ کچھ ابھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں لیکن ان کے علاوہ جس شخصیت نے مجھے کچھ الگ کرنے کے لئے سوچنے کی ترغیب وتحریک دی وہ جناب انور خان صاحب تھے۔ اردو کے لیکچرر انور خان کا شمار ضلع پونچھ کے صف اول کے ادیب وشعرا ء میں ہوتاہے۔ چونکہ وہ ایف ایم ریڈیو پونچھ سے پہاڑی /اردو پروگرام بھی پیش کیاکرتے تھے، اس وجہ سے ان کی معلومات عامہ سے متعلق جانکاری، گہری عملی مطالعہ نے رقم کے اندر بھی مطالعہ کارحجان پنپناشروع ہوا۔ میری زندگی میں پہلی مرتبہ اندر کی چنگاری بھڑکی۔ ان کی وساست سے پہلی مرتبہ ضلع سطح پر مباحثہ مقابلہ میں شرکت کی۔ اس سے قبل کی تعلیم تو محض نصابی کتابوں تک محدود ہوا کرتی تھی لیکن اب علم کی چنگاری نے ایک تڑپ پیدا کردی۔ انور خان صاحب کا پڑھانے کا انداز منفرد تھا، وہ ایک بات کو سمجھانے کے لئے کئی کئی موضوعات، واقعات وتورایخوں کا حوالہ دیتے تھے جن سے ان کی عملی مہارت پر رشک آتا تھا۔ ہائر سکینڈری سکول کے بعد اگلہ پڑھاؤڈگری کالج پونچھ تھا۔ انور خان صاحب کی شفقت اور ہمدردی آج بھی ہے، کئی معاملات میں آج بھی وہ بھرپور رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ میری خوش قسمتی رہی کہ کالج کی 3سالہ مدت کے دوران جناب پروفیسر شبیر حسین شاہ، جناب ڈاکٹر مشتاق احمد لون، جناب پروفیسر جمیل احمد خان، جناب پروفیسر زمان، پروفیسر خادم حسین، جناب پروفیسر مصرف حسین شاہ، جناب پروفیسر گردھاری لعل شرما، جناب پروفیسر فاروق احمد، جناب پروفیسر خادم حسین، جناب پروفیسر وجاہت حسین شاہ جیسی سرکردہ علمی شخصیات سے مستفیدہونے کا سنہری موقع ملا۔ پروفیسر مصرف حسین شاہ کالج میں، اُن دنوں این ایس ایس پروگرام افسر تھے، ان کی زیر قیادت این ایس ایس رضاکار کے طور کام کیا اور سال2006میں بہترین NSS رضاکار کا انعام بھی پایا۔ گاؤں کے ماحول سے نکل کر یک دم شہرمیں آکر وہاں پر نامی گرامی نجی سکولوں اور اچھے عملی وتہذیبی گھرانوں کے طلبہ وطالبات کے ساتھ مقابلہ کرنا کافی مشکل تھالیکن پروفیسر مصرف حسین شاہ نے بھرپور حوصلہ افزائی کی، احساس کمتری کو دور کیا۔ این ایس ایس کے 10روزہ سرمائی کیمپ کے دوران کوئز، مباحثہ، پوسٹر بنانے، تقریری، مضمون نویسی مقابلہ جات اور صفائی ستھرائی وغیرہ کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے بعد کافی ہمت ملی۔ پروفیسر مصرف  موصوف آج بھی وقتاًفوقتاًرہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹرجمیل احمد خان جوکہ اردو کے پروفیسر تھے، انتہائی سادہ، شریف النفس اور نرم لہجہ میں بات کرتے تھے، ان کی ہربات بے حد متاثر ہوا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ گریجویشن سال دوئم کے امتحانات چل رہے تھے، میرا نمبر عین مین دروازے کے ساتھ لگا تھا۔ جواب نامہ دینے کے بعد جب میں امتحانی مرکز سے باہر نکلنے لگا تو انہوں نے مجھے پکارا، میرے منہ سے غیر دانستہ طور پر ’جی‘کی جگہ’کہ‘لفظ نکل گیا جس کے لئے میں آج تک شرمندہ ہوں۔ پروفیسر جمیل خان صاحب جن کے چہرے میں ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، میرے قریب آئے اور دھیمی آواز میں مجھ سے کہا’’بیٹا ’کہ‘لفظ غیر مہذب ہے، جب آپ یہ لفظ زبان سے اد اکرتے ہو تو زیادہ طاقت لگتی ہے اور ساتھ ہی زیادہ منہ کھلتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جب ’کہ‘کو جب کوئی دوسرا سننے گاتو اس کواچھا بھی نہیں لگتا، اس کے برعکس لفظ’جی‘کہنے میں کم طاقت لگتی ہے اور اس کے استعمال سے سننے والوں پر آپ کے تئیں اچھا تاثر قائم ہوتا ہے‘‘…۔ پروفیسر شبیر حسین شاہ جوکہ ان دنوں گورنمنٹ ڈگری کالج راجوری کے پرنسپل ہیں، 2006تا2008پونچھ ڈگری کالج میں شعبہ جغرافیہ کے سربراہ ہواکرتے تھے، موصوف وہ شخصیت ہیں جن سے دوران کالج سب سے زیادہ متاثر رہا۔ ان کا پڑھانے انداز قابل رشک تھا۔ ان کی دو تین باتیں آج تک بھی میرے دل ودماغ میں تازہ دم ہیں۔ جغرافیہ کے پریکٹیکل میں انٹرویو کے دوران انہوں نے مجھ سے پوچھا’بیٹا آپ کے والد کیا کام کرتے ہیں تو میرے یہ بتانے پر کہ والد محترم پیشہ سے مزدور ہیں توتو جواب میں انہوں نے مسکراہتے ہوئے کہا’’بیٹا اندھیرے میں بلب جلے تو اس کی روشنی کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے، جہاں پہلے ہی 250سے300ولٹیج کے بلب ہوں تو وہاں اگر نیا بلب لگایابھی جاتا ہے تو اس کی روشنی کوئی خاص فرق قائم نہیں کرتی، لہٰذ ا آپ اور زیادہ محنت کرنا، اللہ آپ کو زندگی میں ترقی دے اور قابل رشک جگہ پر پہنچاے‘‘۔ ان کے یہ جملے آج بھی میرے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ ’ایجوکیشن ‘کے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد لون جو کہ ان دنوں گورنمنٹ ڈگری کالج سرنکوٹ کے پرنسپل ہیں، منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ طنزو مزاح، کلاس کے اندر خوشگوار ماحول پیدا کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ میرے لئے خوش قسمتی تھی کہ مجھے ان سے گریجویشن سال او ل اور دوئم میں پڑھنے کا موقع ملا۔ پارٹ فسٹ میں ان کی کلاس آخر یعنی1:20تا2:00بجے ہوا کرتی تھی، عموماًاس وقت ہرکوئی تھکا ہوتا ہے اور گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے لیکن ان کے کلاس میں داخل ہوتے ہی ہرطالبعلم تازہ دم اور خشاش بشاش ہوجاتا تھا۔ ان کے لیکچر کو کوئی بھی مس نہیں کرتا تھا چاہئے کچھ بھی ہوجائے۔ وہ خاموش رہیں تو تب بھی ہنسی آتی تھی، وہ کچھ کہیں تو بھی  ہنسی سے طلبا وطالبات لٹ پٹ ہوجاتے تھے۔ انہوں نے جو بھی پڑھایااس میں سے بیشتر آج بھی مجھے یاد رہے۔ ان کے پڑھانے کے بعد کتاب کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہی محسو س نہیں ہوتی تھی۔ پڑھانے سے قبل وہ کچھ ایسا لطیفہ یا مذاحیہ بات کرتے تھے جس سے ہر ایک طالبعلم کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوجاتی تھی۔ دوران کلاس بھی یہ عمل جاری رہتا تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے ذرا سنجیدہ اور محتاط لہجہ میں طلبا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا’’بیٹا گریجویشن مکمل کرنے کے بعد تمہیں آگے اندھیرا ہی اندھیرا نظر آئے گا، اس اندھیرے میں آپ کو روشنی ڈھونڈنی ہے، کالج کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ایک زندگی کا اصلی امتحان شروع ہوتا ہے، اس تقابلی دوڑ میں آپ کو کسی مقام پر پہنچانے میں سخت جدوجہد کرنے ہے‘‘۔ پروفیسر گردھاری لعل شرما انگریزی کے پروفیسر تھے جوکہ ڈگری کالج پونچھ کے پرنسپل رہنے کے بعد ان دنوں ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں، انگریزی پڑھانے کا جوان کا انداز تھا وہ اپنے 18سالہ تعلیمی سفر کے دوران کہیں دیکھنے کو نہ ملا۔ آسان اور عا م فہم انگریزی میں نصابی سبق کو اس طریقہ سے سمجھاتے تھے کہ اس کو یاد کرنے میں زیادہ مشقت نہیں لگتی تھی۔ علاوہ ازیں وہ وقتاًفوقتاً کالج میں منعقد ہونے والی تقاریب میں کافی سبق آموز باتیں اور نصیحتیں دیتے تھے، جن کی اہمیت آج معلوم ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران بھی متعدد پروفیسر حضرات سے پڑھنے کا موقع ملا جنہیں 5ستمبر کے اس موقع پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ کالج ویونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ لتحصیل ہونے کے بعد صحافت اور وکالت پیشہ میں قدم رکھا تو اس میں بھی چند شخصیات نے انتہائی اہم رول ادا کیا، وہ یوم اساتذہ کے دن خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ایڈوکیٹ فردوس احمد  ٹاک جوکہ ان دنوں پی ڈی پی سے وابستہ رکن قانون ساز کونسل ہیں، 2010تا2015 کشمیر عظمیٰ/گریٹر کشمیر کے بیوروچیف جموں تھے، نے صحافت کی نہ صرف اے، بی اور سی سکھائی بلکہ اس میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ آج صحافتی شعبہ میں کچھ لکھتا ہوں یاجس مقام پر ہوں تو اس میں ان کا رول ناقابل فراموش ہے۔ وہ صرف صحافت میں ہی نہیں بلکہ وکالت میں بھی میرے استاد رہے ہیں۔ بظاہر چہرہ سے وہ سخت گیر شخصیت معلوم ہوتے ہیں لیکن ہمدردی، سادگی، مدد، رہنمائی میں ان کا جواب نہیں۔ کم الفاظ میں بہت بڑی بات کہنے میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ صحافتی پیشہ کا آغاز ایک بہترین پلیٹ فارم سے کرنے میں ان کا رول انتہائی اہم رہا۔ شروع شروع میں غلطیوں پر غلطیاں مجھ سے سرد ہورہی تھیں، ایک دن انہوں نے بھلا کر مجھے کہاکہ ’’الطاف اخبار میں آپ کی اچھائیوں کو کوئی نہیں دیکھتا بلکہ یہاں پر آپ کی چھوٹی سی چھوٹی غلطی پر تنقید ہوگی، لہٰذا کوشش کرؤکہ کم غلطیاں ہوں ‘‘۔ وہ بہت کم بتاتے تھے لیکن جو بتاتے وہ بہت ہی پر اثر ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے ایک خبر کرنے کو کہا، خبر بنائی تاہم اس میں وہ دم نہیں تھا تو انہوں نے مجھ سے کہاکہ ’’صحافت کا فارمولہ 5W’sاور 1Hہے۔ مطلبWhat, when, where, why, whom and whose. اورHowہے، یہی صحافت ہے‘‘۔ صرف یہی نہیں بلکہ جب وکالت شروع کی تو وہاں بھی انہوں نے بہت زیادہ رہنمائی کی۔ مجھے یاد ہے کہ عدالت میں پہلے ہی روز جب بھی ان کے ساتھ گیاتو انہوں نے مجھے ایک فوجدار ی مقدمہ میں بطور کونسل پیش ہونے کو کہا۔ انہوں نے مجھے بتایایہ جج صاحب کہ سامنے یہ بات بولنا، مجھے سمجھ نہیں آرہاکیاکرؤ، پہلا دن اور پہلی مرتبہ جج کے سامنے پیشی پر انہوں نے میرے چہرے کو بھانپتے ہوئے کہاکہ میرا حوصلہ بڑھایا۔ Clientسے انہوں نے جوفیس لی تو وہ اس میں سے 300روپے مجھے دیئے اور کہاالطاف یہ تیری پہلی کمائی ہے، وہ 300 روپے آج بھی میں نے محفوظ رکھے ہیں۔ وکالت جب شروع کی تو میرا لب ولہجہ اور انداز ویسا نہیں تھا۔ عدالت احاطہ میں ایک روز کھڑے بات کررہے تھے، کہ میرا ایک کلاس میٹ وہاں سے گذرا اور مجھ سے سلام ودعا کی۔ اس کے جانے کے بعد فردوس ٹاک صاحب نے مجھے کہا الطاف یہ تیرا کلاس میٹ ہے، میں نے کہاہاں تو انہوں نے کہااس میں اور تم میں کتنا فرق ہے، اس کے اندر خود اعتمادی اور دلیری دیکھی، اس سے سیکھو، وکالت میں ایسا ہونا ضروری ہے۔ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد گرچہ ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہے تاہم صحافت اور وکالت میں بطور صحافت وہ بہت ہی محترم اور دل کے بہت قریب ہیں۔ وکالت میں ایڈوکیٹ جناب حسین احمد صدیقی، محمد سلیم ملک، وقار حسین سلاریہ اور راجیوگورکھا سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور آج بھی سیکھنے کا یہ عمل جاری ہے۔ صحافت کے اساتذہ میں محترم رحمت اللہ رونیال صاحب، عبدالحمید بانڈے، آصف ٹاک، ریاض احمد ملک اور تنویر احمد خطیب صاحب بھی قابل ذکر ہیں۔ رحمت اللہ رونیال صاحب نے صحافت کو نکھارنے میں کافی رہنمائی کی۔ انہوں نے خبروں کی سرخیاں لگانے، مختلف خبریں بنانے کا طریقہ بتایا۔ عبدلحمید بانڈے اور آصف ٹاک کی شفقت، پیار ومحبت اور حوصلہ ہمیشہ ساتھ رہا۔ ریاض احمد ملک صاحب اس پیشہ کے رموز واوقاف سیکھانے میں پیش پیش رہے۔ محترم تنویر احمد خطیب صاحب اکثر عالمی، ملکی وریاستی سطح کے متعدد موضوعات کے بارے میں مطالعہ کرنے کا کہتے ہیں اور اکثر اس بارے پوچھتے بھی رہتے ہیں جس سے خود بھی ڈر رہتا ہے کہ ہرمعاملہ کے بارے میں جانکاری ہونی چاہئے۔ علا وہ ازیں وہ دیگر کئی نصیحتیں بھی کرتے رہتے ہیں جن کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم اپنے ہی گاؤں لسانہ کے جناب مشتاق احمد صاحب جوکہ پیشہ سے مزدور ہیں، کا میں زندگی بھر احسان مند ہوں۔ سروال جموں سے تعلق رکھنے والے ’نریندر سنگھ جموال ‘کمپیوٹر کے استاد رہے، ان سے بہت کچھ سیکھا۔ لسانہ گاؤں کے ہی جناب ماسٹر رفیق صاحب کی رہنمائی، نصیحت اور حوصلہ افزائی بھی رہی۔ استاد کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ جوآپ کو سکول کے اندر پڑھائے بلکہ ہر وہ شخص ہے جس سے آپ کو کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، جس سے آپ روزمرہ زندگی میں مختلف مراحل پر کچھ سیکھتے ہو۔ ماں کی کھوکھ سے لیکر قبر تک سیکھنے کا عمل جاری وساری رہتا ہے، اس دوران سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں سے آپ کچھ نہ کچھ سیکھتے ہو، یہ سبھی لوگ اساتذہ کہلاتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں اپنے اساتذہ کرائم کی عزت کرنے ان کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مجھے فخر ہے کہ میں بھی اساتذہ کی بے لوث رہنمائیوں، کرم فر مائیوں اور ان کی شفقتوں کا رکا منت ہوں۔ آج اپنے استاتذہ کرام پروفیسرشبیر حسین شاہ، پروفیسر مصرف حسین شاہ، پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد لون، پروفیسر گردھاری لعل شرما، پروفیسر فاروق احمد، پروفیسر جمیل احمد خان، زمورد مغل، انور خان، نثار قریشی، محمد پرویز خان، محمد شریف، محمو ایوب، شبیر خان، محمد اکبر، محمد رفیق، مشتاق احمد، کستوری لال، نریندر سنگھ جموال کابطورخاص تذکرہ کررہاہوں کہ جنہوں نے میری رہنمائی کی اور شاہراہ ِ پر انگلی پکڑ کر میری صلاحیتوں کو نکھارا سنوارا۔ ان محترمان میں سب کے سب اپنے درویشانہ جلال و جمال میں یکتاہیں، انہی کی محبت وشفقت سے میری زندگی میں لالہ وگل نے جنم لیااورمیرے چمن میں بہارآئی، میں زانوئے تہہ کئے بیٹھے ان صبحوں اور شاموں کو آواز دینا چاہتا تھا جو نہ جانے کہاں کھو گئیں لیکن آج بھی دل کے عطردان میں عود کی طرح سلگتی رہتی ہیں۔ میں گئے زمانے کے کھنڈروں کے بیچ ان کو روز و شب کو حافظے کی شمعیں لے کر تلاش کرتا رہا ہوں، جن کا مجھ پر بڑ ااحسان ہے۔ میں ان پاک نفوس لوگوں سے نگار خانہ دل آباد کرنا چاہتا ہوں جن کی یادوں کی پر چھا ئیاں میرے چار سو موجود ہیں۔ چنانچہ اسی بہانے بدلتے موسموں کے رنگ و پیرہن اور آتی جاتی رْتوں کی بو باس، گئے زمانوں کی بھولی بسری یادیں تازہ ہو تی ہیں۔ کبھی ماضی کی دْھند میں لپٹے خوشحال چہروں کے خدوخال نمایاں ہونے لگتے ہیں، کبھی گردپوش بستیوں کے بام و در ابھرنے لگتے ہیں اور کبھی بھر جانے والے پرانے زخم کا کوئی ٹانکا بھی ادھڑ جاتا ہے اور لہو رسنے لگتا ہے۔ بہر کیف اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اور ان کے ہم پلہ اپنے ان اساتذہ کرام کے لئے خلوص ِ دل سے دست بدعاہوں۔

اسلامی تعلیمات میں اساتذہ کی تکریم کا حکم جا بجا ملتا ہے۔ یہاں تک کہ نبی رحمت کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے معلم بنا کر معبوث کیاگیا ہے۔ آپ کا بحثیت معلم دنیا کے لیے انمول کردار تھا۔ دیگر معاشروں اور مذاہب کے مقابلے میں اگر اسلام میں استاد کے مقام کے بارے میں ذکر کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اساتذہ کی تکریم کا اس قدر قائل ہے کہ وہ انہیں روحانی باپ کا درجہ دیتا ہے۔ استاد شاگرد کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے نتیجے میں اسے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ اسی پس منظرکے تحت مسلمان کئی صدیوں تک علم و سائنس کے استاد رہے ہیں اور دوسری قوموں نے ان ہی سے استفادہ کیا۔ اساتذہ علم کے حصول کا برائے راست ذریعہ ہیں اس لیے ان کے احترام کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ مسلمان طالب علم کی حیثیت سے ہمارے لیے زندگی کا ایک ایک پل اساتذہ کی عزت اور احترام سے ہو نا چاہیے۔

مجھے فخر ہے کہ میں بھی اساتذہ کی  بے لوث رہنمائیوں، کرم فر مائیوں اور ان کی شفقتوں کا رہیں منت ہوں۔ آج اپنے استاتذہ کرام پروفیسرمولوی محمدابراہیم ا?ف رعناواری سرینگر، مولاناقاضی غلام حسن ا?ف گناپورہ ہندوارہ، پروفیسرنجم الدین ا?ف صفاکدل سری نگر، پروفیسرعبدالعزیز ا?ف گاندربل، مولانامحمداکبرشاہ ا?ف گنگ بگ لولاب اور اسیر زندان پروفیسرڈاکٹرمحمدشفیع خان شریعتی خانصاحب بڈگام کابطورخاص تذکرہ کررہاہوں کہ جنہوں نے میری رہنمائی کی اور شاہراہ ِ پر انگلی پکڑ کر میری صلاحیتوں کو نکھارا سنوارا۔ ان محترمان میں سے سوائے پروفیسرابراہیم کے سب کے سب اپنے درویشانہ جلال و جمال میں یکتاتھے، انہی کی محبت وشفقت سے میری زندگی میں لالہ وگل نے جنم لیااورمیرے چمن میں بہارا?ئی، میں زانوئے تہہ کئے بیٹھے ان صبحوں اور شاموں کو آواز دینا چاہتا تھا جو نہ جانے کہاں کھو گئیں لیکن آج بھی دل کے عطردان میں عود کی طرح سلگتی رہتی ہیں۔ پروفیسرڈاکٹر شریعتی کے سوا میرے یہ سب اساتذہ وفات پاچکے ہیں۔ میں گئے زمانے کے کھنڈروں کے بیچ ان کو روز و شب کو حافظے کی شمعیں لے کر تلاش کرتا رہا ہوں، جن کا مجھ پر بڑ ااحسان ہے۔ میں ان پاک نفوس لوگوں سے نگار خانہ? دل آباد کرنا چاہتا ہوں جن کی یادوں کی پر چھا ئیاں میرے چار سو موجود ہیں۔ چنانچہ اسی بہانے بدلتے موسموں کے رنگ و پیرہن اور آتی جاتی رْتوں کی بو باس، گئے زمانوں کی بھولی بسری یادیں تازہ ہو تی ہیں۔ کبھی ماضی کی دْھند میں لپٹے خوشحال چہروں کے خدوخال نمایاں ہونے لگتے ہیں، کبھی گردپوش بستیوں کے بام و در ابھرنے لگتے ہیں اور کبھی بھر جانے والے پرانے زخم کا کوئی ٹانکا بھی ادھڑ جاتا ہے اور لہو رسنے لگتا ہے۔ بہر کیف اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اور ان کے ہم پلہ اپنے ان اساتذہ کرام کے لئے خلوص ِ دل سے دست بدعاہوں۔

بہرکیف! طالب علم ایک خاندان کا فرد ہی نہیں ہوتا بلکہ پوری قوم کی امیدوں اور امنگوں کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں اساتذہ کی بہترین تعلیم و تربیت ہی انہیں عملی زندگی میں نئے نئے راستے دکھا سکتی ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے کشمیرمیں بھی تعلیم کے شعبے میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے خاطرخواہ ترقی کی ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بلاشبہ تعلیم کے میدان  نجی شعبے کی اونچی پرواز اور ترقی نے تعلیم جیسے مذہبی فریضے کو رفتہ رفتہ ایک مقدس مشن کی بجائے محض کاروبار بنا دیا ہے۔ غریب طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو نجی شعبے کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دلانے کی سکت نہیں رکھتے اوروہ معیاری تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں، جس کی وجہ وہ قوم وملت کے لیے کارہائے نمایاں نہیں ادا کر پاتے۔ تاہم یہ بات افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ آج کے استادکو بھی وہ احترام نہیں دیا جاتا جس کا وہ حقدار ہے۔ بلاشبہ وہ قوم کا معمار ہے۔ آج ایک طرف استاد ہو اور دوسری طرف ایک پولیس کانسٹیبل تو لوگ خوف سے اس پولیس والے کو سلام کریں گے مگر استاد کونہیں۔ الیکشن ہو یا مردم شماری ہو یا خانہ شماری ان سب میں اساتذہ کی ڈیوٹی لگادی جاتی ہے، حتیٰ کہ اب تو سرکاری سطح کے جلسے اور جلوسوں میں خصوصی طور پر حکم نامہ جاری کئے جاتے ہیں کہ ان میں تمام اساتذہ حاضرہوکر نیتاو?ں کی شان بڑ ھا ئیں۔ حالانکہ یہ اس کے فرایض منصبی کی بے حرمتی اور بے تعظیمی ہے۔ ان کاموں کے لئے دوسرے بے کار اور بدنام محکموں کے ملازمین کافی ہوتے ہیں۔ استاد کاکام نسل نوکوتعلیم سے ا?راستہ کرنا ہے نہ کہ حکمرانوں اور سیاست کاروں کے جلسے جلوس کی نام نہاد زینت بڑ ھا نا۔ کشمیرمیں اور بھی سرکاری ادارے اور صیغے ہیں مگر ایسے ہر نامراد کام کے لئے حکومت کو صر ف اساتذہ ہی فارغ اور فالتو نظر آتے ہیں۔

یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے! کیاوجہ ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے ویران اور کوچنگ سینٹرز آباد رہتے ہیں۔ اساتذہ کی تعلیمی ا داروں سے عدم دلچسپی اور نجی ٹیوشن سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز پر بڑی تندہی اور انہماک سے کام کرتے ہیں توایسے میں قوم مایوسی کی شکارہے۔ نجی اداروں میں وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ اگر یہ سب نجی اداروں یا ان کے مالکان سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کا تقاضا ہے تو پھر سرکاری خزانے سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کے تقاضے کیا ہوئے؟ماضی میں اساتذہ کی تنخواہیں کم تھیں لیکن ان کا احترام بہت زیادہ تھا اب تنخواہوں میں قدرے اضافہ ہو چکا ہے لیکن احترام میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ معاشرتی اقدار کا زوال بھی ہو سکتا ہے لیکن اس زوال کو روکنے کے لیے اساتذہ کو اپنا طرز عمل میں تبدیلی لانی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اساتذہ آج بھی اپنے طلبا کے آئیڈیل ہیں اوردیگرخطوں کی طرح ریاست جموں وکشمیربھی اپنی بقا اور ترقی کے لیے اساتذہ پر انحصار کرتی ہے۔ اس اعتماد کو بحال رکھنا اور مسابقت کے اس دور میں ثابت قدم رہنا اساتذہ ہی کو زیب دیتا ہے وہ ہمت ہار بیٹھیں تو پوری قوم ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو جائے گی۔ ہماری کوئی دردمندانہ استدعا، کوئی گذارش، کوئی اپیل اساتذہ کو ان کی اہمیت اور افادیت کا احساس دلا دے تو ہم اسے کلمہ خیرسمجھتے ہیں۔ استادکامنصب فرائض سے غفلت، کار منصبی سے کوتاہی اور کام میں تساہل برتنے کی اجازت نہیں دیتا۔ دیکھنایہ ہے کہ ا?ج استاد اور طالب علم کے مابین خلوص اور عقیدت کا رشتہ عنقا کیوں ہو چلا ہے، آج کے اساتذہ کو طلبا اور ان کے والدین کی جانب سے وہ پذیرائی کیوں نہیں مل رہی جو ان کے اساتذہ کو حاصل تھی۔

ایک ایسے دور میں جبکہ طالبعلم معلم سے زیادہ ذہین اور زیادہ ذرائع رکھتا ہے، معلم کو خود کو منوانے کیلئے کچھ بڑھ کر کرنا پڑے گا۔ معاشرہ استاد سے بہت کچھ چاہتا ہے۔ اگر معاشرے کو درست کرنا ہے تو ہمیں بنیاد پریعنی استاد کے رول پر توجہ دینی ہو گی۔ ہمارے اساتذہ کو ٹیم پلیئر اور ٹیم لیڈر کا رول ادا کرنے کے لئے تیار ہونا ہو گا۔ استاد کو اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ روحانی والدین کا لفظ کتابوں میں تو اچھا لگتا ہے مگر وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اب استاد کو اپنا بنیادی کردار نبھانا ہو گا۔ اگر استاد آج خود کو رول ماڈل کے کردار میں ڈھال لیں تو طلبا خود بخود فالوور کے رول میں ڈھل جائیں گے۔ کوئی قوم تب طاقتور ہوتی ہے جب وہ وقت ضرورت منتشر ہجوم نہیں بلکہ مربوط قوت کے طور پر سامنے آئے۔ ایک قوم نا قابل شکست قوت تب بنتی ہے جب اسے اپنے کردار کا ادراک ہو۔ ہرمیدان میں کامیابی کی ضمانت کیلئے ہمارے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا، ۔ وقت کی ضرورت کو سمجھنا ہو گا، نہیں تو اس نظام تعلیم سے اگلے سو سال میں بھی کوئی تبدیلی، کوئی انقلاب نہیں آنے والا!

نسل انسانی کی بہترین پرورش کی ذمہ داری بنیادی طور پردولوگوں پر ڈالی گئی ہے، والدین اور اساتذہ…… یہ ذمہ داری اس قدر اہمیت کی حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ کسی المیے سے کم نہیں عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ آج کل استاد بننا کوئی نہیں چاہتا۔ جب ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں تو لوگ تنگ اور اپنے خوابوں کے کیر ئر کو چکنا چور ہو تے دیکھ کر مجبوراً ٹیچر بن جاتے ہیں۔ جتنے ٹوٹے ہوئے دل سے اساتذہ اپنا کام کرتے ہیں، اتنے ہی منفی خصائل   طالب علمو ں میں در ا? تے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے ہاں پرائمری سطح پر بالکل غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے ہاتھوں میں معصوم ذہنوں کی باگ ڈور سونپ دی جاتی ہے۔ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے پہلے سات سال ہی ذہن کی شعوری اورغیر شعوری نشوونما میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اچھے معلم کے لیے ضروری ہے کہ صرف نصابی کتب پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دے۔ ہمارے ہاں اخلاقیات پر بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں، چھوٹے بچوں کو کہانیاں سننے کاشوق بھی بہت ہوتا ہے، استاد خود بھی موقع کی مناسبت سے چھوٹی چھوٹی کہانیاں بنا کر ان کی سیرت سازی کے لئے سنا سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔