موجودہ دنیا کی خوں آشام تہذیب کا تاریخی پس منظر (2|3)

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ ندوی 

برطانوی اور فرانسیسی سامراج کا یہ رنگ سب گہرا مشرق وسطی میں ہو جاتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں دولت عثمانیہ کی عالمی تباہی کا نقشہ فرانس‘ برطانیہ اور روس نے مل کر تیار کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ 1917 کے انقلاب روس کے بعد بالشوبک تحریک کے انقلابیوں نے خود کو اس سے الگ تھلگ کر لیا تھا۔ لیکن فرانس اور برطانیہ کا باہم اتفاق جاری رہا۔ جب شریف حسین مکہ نے اس سلسلے میں برطانیہ سے انکشاف حقیقت کے طور پر یہ جاننے کی کوشش کی کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد کہیں جزیرۃ العرب کی آزادی کا خواب صرف خواب ہی تو نہیں رہ جائے گاتو بڑی ملمع سازی سے ان کو قانع کر لیا گیاکہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔  اس طرح دھوکے کا یہ سلسلہ بدستور جاری رہا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلاکہ عالمی عربی آج تک اس فریب کی بھٹی میں جل رہا ہے۔ سائیکس پیکاٹ سے لے کر بلفور اعلانیہ تک کی پوری تاریخ مغربی تہذیب کا وہ گھناؤنا پہلو ہے جس کی وجہ سے کوئی قوم مہذب کہلانے کا دعوی نہیں کر سکتی۔  عراق وفلسطین‘ شام اور لبنان اور اردن وحجاز میں برطانیہ اور فرانس نے جو نقشہ تیار کیاوہ کسی بھی طرح اس خطہ میں بسنے والی قوموں کے مزاج کے موافق نہیں تھا۔ عراق اور شام کی زمین کو باٹنے کے لئے دونوں استعماری طاقتوں نے جس خست کا اظہار بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری صدی کے دہائی میں کئے ہیں وہ خوں ریزی اور ظلم کی تاریخ میں منفرد باب ہے۔ 1946 تک شام اور لبنان میں فرانسیسی استعمار کی تاریخ قتل وغارت گری اور حقوق انسانی کی پامالی جیسے واقعات سے پر ہے۔ 1948 میں ان ہی استعماری قوتوں کی مدد سے اس خطے میں صہیونی اسرائیل کا قیام اور فلسطینی معصوموں کی زندگی اور مستقبل سے کھلواڑ ‘ عورتوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم ‘ انھیں ان کی زمین اور زندگی سے محروم کرنے کی پوری داستان میں کلیدی کردار مغربی تہذیب کے قائدوں نے ہی ادا کیا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کے ذریعہ کیا جانے والا تشدد دراصل مغرب وامریکہ کی حمایت سے ہی آج تک جاری ہے جو ہر حساس عرب قلب وجگر کو زخمی کرتا ہے اور کئی موقعوں پر نوجوانوں کا ایک طبقہ جذبہء انتقام سے سرشار ہوکر تشدد کی راہ اختیار کر لیتے ہیں اور پھر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے مغربی میڈیا صرف ایک طرفہ واقعہ کو اپنی مرضی کے مطابق بیان کرکے اسلام اور مسلمان کے خلاف نفرت کا ایک نیا بازار گرم کردیتا ہے۔  لیکن کوئی اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف اس لئے اقدام نہیں کرتا کیوں کہ دہشت گردی کا یہ پودا خو د مغرب نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا جو آج تناور درخت بن چکا ہے جس کے کانٹوں کی چبھن سے سارا عرب اور مسلم جسم وجاں لہولہان ہے۔ مغرب کی یہی سامراجی طاقتیں ہیں جنہوں نے سمندروں (بحرعرب اور بحرہند)اور خشکیوں ( برصغیر ہند‘ افغانستان اور جزیرۃ العرب وغیرہ) کو جنگ کے میدان میں اس لئے تبدیل کر دیا تھاتاکہ دنیا کے تمام مادی وسائل اور انسانی بستیوں پر قابض ہو جائیں اور انھیں اپنی تہذیبی رعونت کا شکار بنا لیں۔ مغربی تہذیب کی یہی تعلی مزاجی اور غرور کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں خود کو مہذب قوموں کی قیادت کا دم بھرنے والی ان طاقتوں نے کبھی بھی انسانی قدروں کا پاس ولحاظ نہیں کیا۔ انیسویں صدی کا مشہور برطانوی دانشور تھومس میکالے کا یہ جملہ کہ مغرب کی ایک الماری کتاب کا مقابلہ مشرقی قوموں کی تمام لائبریریاں بھی مل کر نہیں کر سکتیں‘ محض بے جا غرور اور مغربی تہذیب کی طبعی رعونت کا ہی غماز تھا۔ مشہور عرب امریکی مفکر ایڈورڈ سعید نے اپنی شاہکار تصنیف Orientalism (استشراق) میں مغربی تہذیب کی اسی مبغوض فطرت کی مکمل تشریح پیش کی گئی ہے خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی زہر افشانی کی ایک علمی اور تحقیقی بحث سامنے لائی گئی ہے۔ ہل مصر کے خلاف کرومر کا نفرف انگیز فلسفہ بطور خاص قابل ذکر ہے۔ اس حقیقت کو بھلا کون بھلا سکتا ہے کہ اسی تہذیب کی کوکھ سے ہٹلر جیسا درندہ صفت انسان پیدا ہواجس نے نسلی برتری کے زعم کو ایسی ہوا دی کہ لاکھوں معصوم جانوں کو صفحہء ہستی سے مٹانے کا سبب بنا۔ جرمنی کو اسی شخص کی وجہ سے دنیا میں بدنامی اٹھانی پڑی اور دوسری عالمی جنگ کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ ہٹلر کے علاوہ مسولینی بھی بیسویں صدی میں مغربی تہذیب کے بطن سے ہی فاشزم کے نظریہ کو پیدا کرنے میں کامیاب ہوااور لیبیا کے مسلمانوں پر سب سے پہلے اس بیمار ذہنیت کا تجربہ کیا گیا۔ لیبیا کی تاریخ آزادی کا قاری جب ان ہولناکیوں کا مطالعہ کرتا ہے جن سے لیبیا کے باشندوں کو گزرنا پڑاتو مغربی تہذیب کی خوں آشام طبیعت کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ تاریخ کے اس دور نے البتہ یہ بھی ثابت کردیا کہ ظلم کی گھن گرج کے سامنے اہل حق سینہ سپر رہنے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔  عمر مختار کی زندگی نے اسلامی تاریخ میں ایک زریں باب کا اضافہ اسی دور میں کیا تھا۔ بیسویں صدی کا نصف اول لیبیا میں مسولینی کے نظریہ فاشزم پر مبنی ظلم کی تاریخ ہے اور ایسا ہونا لازمی تھا کیوں کہ اٹلی بھی اسی مغربی تہذیب کا ایک اہم مرکز ہے جس کی داستان یہاں جاری ہے۔ فاشزم کا یہی وہ نظریہ ہے جس نے آر ایس ایس کے بانیوں کو خاصا متأثر کیا اور اس کے منحوس اثرات سے ہزاروں معصوم جانیں تباہ ہو چکی ہیں اور ہندتو کا یہ نظریہ آج ہندوستان جیسے کثیر تہذیبی ملک کی فضا میں ہرروز زہر گھول رہا ہے۔
انیسویں اور بیسویں صدی عہد حاضر میں جاری وساری نظریات کی تخلیق کا زمانہ ہے۔ کارل مارکس نے ہیگل کے Utopian Socialism کو ایک نئے انداز میں پیش کیا تھاجس کو Scientific Socialism کے نام سے جانا گیا۔ پوری انسانی تاریخ کا اقتصادی تجزیہ کرکے مارکس نے یہ ثابت کیا تھا کہ پیداوار کے وسائل جن کے ہاتھ میں ہوں گے وہ ہمیشہ اس طبقے کا استحصال کرے گا جو مزدور کہلاتا ہے۔ پہلے طبقہ کو بوژوازی جب کہ دوسرے طبقہ کو پرولتاری کہا جاتا ہے۔  مارکس کے مطابق سماجی نابرابری کے خاتمے کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام وسائل پیداور پر پرولتاری طبقہ کا تسلط ہوتاکہ مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل ممکن ہو سکے اور پھر ہر شخص کی محنت اور ضرورت کے مطابق مادی وسائل کی تقسیم کی جا سکے۔ گویا مارکس کے نزدیک انسانی تہذیب میں مادہ کے علاوہ کسی اور شے کی حیثیت کچھ زیادہ نہیں ہے۔ مارکس کا یہی نظریہ نظریہ اشتراکیت کہلاتا ہے۔ چارلس ڈارون نے انسانی زندگی کی حیاتیاتی تشریح کرکے انسان کا رشتہ خدا سے پہلے ہی کاٹ دیا تھا ‘ کارمارکس نے اقتصادی تشریح کے ذریعہ خدا بے زاری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔  اس نظریہ کا بھی لازمی نتیجہ خوں ریزی ہی ہونا تھا جو ہوکر رہا۔
8 مارچ 1917 کو روس میں انقلاب اسی مارکسی نظریہ کی عملی شکل مانی گئی تھی۔ حالاں کہ مارکس کے نظریہ تاریخ مادیت کے اعتبار سے یہ انقلاب فرانس یا انگلینڈ میں آنا چاہئے تھاجو سرمایہ دارانہ نظام اقتصاد کا مرکز تھا جب کہ روس اس وقت صرف ایک زرعی اقتصاد پر مبنی ایک ملک تھا۔ بہرکیف انقلاب کو رونما ہونا تھا اور وہ برپا ہوا۔ لیکن یہ تاریخ کا المیہ ہی ہے کہ انسانی آبادی کو ظلم ونابرابری سے آزادی دلانے کے نام پر رونما ہونے والا انقلاب بھی کوئی مثبت حل پیش نہ کرسکا۔ پرولتاری طبقہ کو تمام خوبیوں کا حامل سمجھنے والے مارکس کے پیروکاروں کے نزدیک یہ طبقہ خود لینن کی نظر میں قیادت کے لئے نا اہل قرار پایا اور نتیجتاً وین گارڈ پارٹی کی تشکیل عمل میں آئی اور خود تمام قوتوں اور ثروتوں کا مالک بن بیٹھا۔ اسٹالن کا دور آیا تو ہر طرف خاک وخون میں تڑپتی انسانی زندگیاں نظر آئیں۔ مساوات کا خواب کبھی شرمندہء تعبیر نہ ہو سکا۔ اشترکیت کے نظریہ نے اتنے مسائل نہیں حل کئے جتنے کہ مشکلات پیدا کر دئیے۔ مشرقی یورپ سے لے کر سینٹرل ایشیا تک کی زمین کو ریڈ آرمی کی ظلم آگ نے اتنا گرم کردیا کہ پوری انسانی آبادی درد انگیز آبلوں سے بھر گئی۔ پوری دنیا اشتراکی سویت یونین اور سرمایہ دارانہ نظام کا علم بردار مغرب میں تقسیم ہو گئی۔  مغرب کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔ دونوں گروہوں نے پوری مہذب دنیا کو سرد جنگ میں ڈھکیل دیا۔  یہ جنگ تقریباً چالیس سال تک جاری رہی۔ دونوں ممالک نے گرچہ ایک دوسرے پر حملے نہیں کئے لیکن سب سے زیادہ مہلک ہتھیار بشمول نیوکلیائی بم اسی چالیس سالہ سرد جنگ کے دوران تیار کئے گئے۔  1959 میں چے گویرا اور فڈال کاستروکی قیادت میں اشتراکی انقلاب کا ملک کیوباخاص طور پر دنیا کی توجہ کا مرکز تب بن گیا جب اسی سرد جنگ کے دوران 1962 میں نیوکلیائی بحران کا واقعہ یہاں پیش آیا۔ قریب تھا کہ دو عالمی جنگوں کے بعد شاید دنیا ہمیشہ کے لئے وجود کھو دے کیوں کہ نیوکلیائی میزائل امریکہ اور روس دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف تعینات کر دیئے تھے۔ لیکن وقت رہتے دونوں خیموں نے صحیح فیصلہ لیا اور اس بحران کو ختم کیا گیا۔ لیکن سرد جنگ کا سلسلہ بدستور جاری رہا اور بالآخر 25 دسمبر 1991 کو سویت یونین کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا اورمیخائیل گوربا چیف آخری صدر سویت یونین کی حیثیت سے تاریخ کے پنوں میں سمٹ کے رہ گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا علم بردار امریکہ فاتح بن کر ابھرا اور دنیا کا اکلوتا سپر پاور کہلایا۔ آج کی دنیا امریکہ کی با لادستی سے ابھی تک آزاد نہیں ہو سکی ہے۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔