نافع علم وتعلیم: توکل علی اللہ  اور ترقی!

 عالم نقوی

پہلے ایک خبر ملاحظہ فرمائیے  جو 30 اگست کے اخباروں میں شایع ہوئی ہے ۔گریٹر نوئڈا میں نالج پارک نام کا ایک  بہت وسیع علاقہ ہے جہاں صرف اسکول ،کالج ،یونیورسٹی ،انجینئرنگ اور میڈیکل کالجز  واقع ہیں۔ یہیں ایک جے آر ای کالج بھی ہے جہاں 28 اگست کو  طلبا نے اس لیے مظاہرہ کیا کہ وہاں کئی روز سے پڑھائی نہیں ہو رہی تھی۔ اور ٹیچر اس لیے کلاس نہیں لے رہے تھے  کہ انہیں کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی تھیں !لہٰذا طلبا نے پیر کی شام کو ٹیچروں کے گھر جانے کے وقت کالج کے گیٹ پر تالا ڈال دیااور کالج کے باہر دھرنے پر بیٹھ گئے ۔ ظاہر ہے کہ پھر ٹیچروں نے پولیس کو فون کیا ہوگا ۔پولیس افسروں نے دھرنے پر بیٹھے طلبا سے گفتگو کی تو وہ بھی حیران رہ گئے کہ  بھاری فیس دینے والے لڑکے ’نہ پڑھائے جانے اور وقت برباد ہونے ‘ سے ناراض تھے !پولیس نے ٹیچروں سے بات کی تو پتہ چلا کہ وہ  پیٹ پر پتھر باندھ کر پڑھا رہے ہیں کیونکہ انہیں تین مہینے سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں !طلبا کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کا ہے وہ اسے حل کریں لیکن طلبا کا وقت برباد  نہ کریں ۔جب ٹیچروں نے   پولیس کے سامنے اگلے روز سے  کلاس لینے کا وعدہ کیا تو  طلبا نے کالج گیٹ کا تالا کھولا اور انہیں گھر جانے کی اجازت دی ۔طلبا کے ایک وفد نے منگل کو کلکٹریٹ پہنچ کر ڈی ایم کو ایک میمورنڈم بھی دیا ۔

ٹیچروں کو تنخواہ تو ابھی نہیں ملی ہے لیکن انہوں نے  پڑھانا شروع کر دیا ہے ۔ ’جے رادھا رمن ایجو کیشن سوسائٹی ‘۔جے آر ای ۔کے زیر اہتمام چلنے والے اس کالج کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ ہما شما تو  وہاں اپنے بچوں کو پڑھانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے  ۔ مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ ’جے آر ای سوسائٹی ‘دو کمپنی مالکان مل کر چلاتے ہیں اور کالج کے اخراجات اور منافع میں برابر کے حصہ دار ہیں لیکن چند مہینوں سے اخراجات اور منافع کی بندر بانٹ میں کھنڈت پڑ جانے سے ایک کمپنی مالک نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے  تو دوسرے نے  ٹیچروں کی تنخواہیں روک لیں طلاب اور ان کےوالدین کے بارے میں کسی نے نہ سوچا جن کی سرپرستی کی بدولت اتنے مہنگے تعلیمی ادارے پھل پھول رہے ہیں ۔بہر حال یہ جھگڑا تو طے ہو ہی جائے گا ۔ہم نے  اپنے کالم کی شروعات اس خبر سے اس لیے کی ہے  موجودہ سنگین حالات کے تناظر میں  ہم بھی علم ،تعلیم ،توکل اور ترقی ہی پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔

ہمارے نزدیک یہ حالات ہماری ہی غلطیوں کا خمیازہ اور بے عملی کا ثمرہ ہیں ۔ علم دین اور علم دنیا کی تقسیم کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ۔اگر  کوئی تقسیم ہے بھی تو   علم کے نافع  یا  غیر نافع  ہونے کے تعلق سے ہے اور بس ۔ علم اگر نافع ہے تو مطلوب بھی ہے اور محمود بھی ۔غیر نافع ہے تو اسلام اُس کے قریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں دیتا ۔ توکل بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا نام نہیں ۔اور ترقی تو اس کے سوا اور کچھ ہے ہی نہیں کہ زمین میں ظلم و فساد نہ ہو ،عدل و صلاح کا دور دورہ ہو اور  بنیادی انسانی حقوق محفوظ و مامون ہوں ۔صلاح و فلاح ،عدل و انصاف ،تحفظ ناموس اور آزادی رائے کے بغیر جو بھی ہو وہ  فرعونیت ،نمرودیت ،قارونیت ، یزیدیت ،فسطائیت یا نازیت تو ہو سکتی ہے ترقی نہیں !

برادر ضیاالدین ملک فلاحی کا یہ تجزیہ درست ہے کہ آج زمینی حقیقت  یہ ہے کہ ملت کسی ایک مسئلے میں متحد نہیں ۔مسجدیں جو ملت کو متحدہ پلیٹ فارم عطا کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہیں ،آج افتراق و اختلاف کی آماجگاہ بن چکی ہیں ۔۔ایسے پُر فِتَن دَور میں امت کے اندر ،قنوطیت  کو ختم کرکے اتحاد و یگانگت کے ساتھ حرکت و عمل  کی روح پھونکنا لازمی ہے تاکہ امت کی ہر فرد ، بے عمل اور کاہل  ہونے کے بجائے   عزم و  ہمت  او ر عزیمت  کا پیکر بن سکے۔علم نافع ہی در اصل تعلیمی ترقی کا دوسرا نام ہے (ماہنامہ  حیات نو ۔مئی 2017 ص 13)

لیکن بقول ڈاکٹر محمود مرزا یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تعلیم جس قدر عام ہوئی ہے معیار تعلیم میں اسی قدر گراوٹ بھی در آئی ہے اور تعلیم کے بنیادی مقاصد مفقود ہوتے چلے جارہے ہیں کیونکہ تعلیم آج انسانیت کی فلاح و بہبود کا سر چشمہ ہونے کے بجائے ایک تجارت بن چکی ہے ۔۔نجی تعلیمی اداروں کی اجارہ داری سرپرستوں کی کمر توڑ رہی ہے یا ان کے بچوں کے اعلی ٰ تعلیم کا حصول  ناممکن بنائے دے رہی  ہے تو دوسری طرف سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے گرتے  تعلیمی معیار کے سبب اُن پر سے  لوگوں کا اعتماد اُٹھتا جا رہا ہے (ایضاً ص 17۔18) پروفیسر مسعود عالم فلاحی کی یہ بات بھی درست ہے کہ ملت کا زوال اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب تعلیم کو دینی اور دنیاوی خانوں میں تقسیم کر دیا گیا جبکہ شرعی مصادر میں ایسا ایک بھی اشارہ نہیں جو دینی علم اور دنیوی علم میں تفریق کرتا ہو ۔یہ تقسیم اُمَّت کے دورِ زوال اور غیر اسلامی نظریوں کے راہ پاجانے کی دین ہے ۔اسلام نے تو علم کی تقسیم صرف نافع اور غیر نافع کی شکل میں کی ہے ۔علم کی دینی و دنیوی تقسیم ہی نے اُمَّت کو ترقی کی راہ سے ہٹا دیا جس زمانے میں یورپ لیتھو پریس سے کتابیں شایع کر رہا تھا اُس دور میں عثمانی خلافت کے علما اس بات پر ’تَفَقُّہ ‘ کر رہے تھے کہ لیتھو پریس کا استعمال جائز ہے یا ناجائز۔

برطانوی دور ِ حکومت میں ہندو دانشور بڑھ چڑھ کر انگریزی تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن عین اسی وقت مسلم علمائے کرام یہ فتوے دے رہے تھے کہ انگریزی پڑھنا حرام ہے ۔حالانکہ زبانیں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں انسانوں کی نہیں اور انبیائے کرام کو جس قوم میں بھی مبعوث کیا گیا  انہوں نے اُسی قوم کی زبان میں کلام کیا ۔سب جانتے ہیں کہ برہمن اپنے اور کچھ دیگر بہ خیال خود نام نہاد اعلیٰ ذات والوں کے سوا اور کسی کو ہندو نہیں مانتے نہ اُن کے لیے  اپنے جیسے برابر کے  حقوق تسلیم کرتے  ہیں لیکن جب اُن پر یہ واضح ہوگیا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد جو نظام رائج ہوگا وہ جمہوری ہوگا اور جس کے ووٹ زیادہ ہوں گے اسی کی حکومت بھی  ہوگی تو انہوں نے دلتوں کو جنہیں وہ پہلے اچھوت کہتے تھے ، ہریجن کا نام دے کر ،ہندو کہنا شروع کر دیا اور انگریزوں کو متاثر کرنے کے لیے دھڑا دھڑ اصلاحی تنظیمیں قائم کرنا شروع کردیں اور برہمو سماج  کے لوگوں ،آریہ سماجیوں ،ہندو مہا سبھائیوں راشٹریہ سیوم سیوکوں اور گاندھیوں نے ’ہری جنوں ‘ کے گھر جا جا کر کھانا پینا شروع کر دیا ،اپنی تعلیم گاہوں ،اور کچھ مندروں (سب نہیں ) کے دروازے بھی پروپیگنڈے کے ساتھ ہریجنوں پر کھول دیے ۔گاندھی جی نے ’صفائی کرمچاریوں ‘ کی کالونیوں میں جاکر (جنہیں اس وقت بھنگی کہا جاتا تھا )قیام کرنا اور اپنا فضلہ خود صاف کرنا شروع کر دیا ۔ اور جب بابا صاحب امبیدکر نے دلتوں کے لیے علٰحدہ الکٹوریٹ کا مطالبہ کیا تو گاندھی کمال چالاکی سے دھرنے پر بیٹھ گئے اور بالآخر دلتوں کو ’ریزرویشن ‘ دے کر ان کو ہندو سماج سے الگ اپنی شناخت قائم کرنے سے روک دیا ۔

آج تین فیصد برہمن اور چند فیصد ٹھاکر اور بنیے اپنی اسی پالیسی کی بدولت حکومت کر رہے ہیں ۔ریزرویشن کا ’’لالی پاپ ‘‘دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقوں کے ہاتھ میں اسی لیے تھمایا گیا تھا کہ وہ خود کو ’ہندو ‘ ہی کہتے اور سمجھتے رہیں ۔لیکن مسلم علما اور نام نہاد ’اشرافیہ ‘ نے  برہمنوں کی اس چال سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور مسلمانوں کے دبے کچلے ہوئے کمزور اور پسماندہ طبقات کی تعلیمی ترقی کی طرف وہ توجہ نہیں کی جس کا حق خود اسلام نے انہیں دے رکھا ہے ۔مساجد ابتدائی کئی صدیوں تک عبادت گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی ،سماجی ، سیاسی اور دفاعی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھیں لیکن آج  علم کی غیر اسلامی تقسیم کی وجہ سے  مسجدوں کی یہ مرکزیت بھی ختم ہو چکی ہے۔جمعے کے خطبات میں  آج بھی عباسی خلافت کے دور کی عصبیتوں  والے عربی خطبات پڑھے جاتے ہیں ‘‘۔پروفیسر فلاحی کے ایک طالب علم نے جو ایک دینی مدرسے کا فارغ تھا یہ کہتے ہوئے جمعے کا خطبہ اردو میں دینے سے منع کر دیا کہ اس کے ’حنفی ،دیوبندی مسلک میں اردو میں جمعے کا خطبہ دینا مکروہ تحریمی ہے ‘!یہاں تک کہ مسلمانوں کا ایک گروہ  قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے بھی مسلمانوں کو روکتا ہے ۔ہماری اسی مسلکی کٹ حجتی اور تنگ نظری ہی  نے کا  سنگھ پریوار کی حکومت  کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ ہمارے عائلی امور اور پرسنل لا میں مداخلت کرے ۔آج مدارس کے مسلکی نصاب تعلیم اور فرقہ وارانہ طرز تعلیم ہی نے مسلم سماج کو ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا ہے ۔

حال یہ ہے کہ اگر امام اس کے مسلک کا نہیں تو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ۔زیادہ تر علما حالات سے بے بہرہ ہیں جبکہ فتویٰ دینے کے لیے ’فقہ ا لواقع ‘ (حالات سے واقفیت )  ہونا ضروری ہے ۔  مستقبل کی منصوبہ بندی بھی توکل الی اللہ اور قضا و قدر پر ایمان کے منافی نہیں ۔ امام شوکانی نے ’نیل ا لا وطار ‘ میں علامہ طبری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ  ’’حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ اس کا فیصلہ نافذ ہوکر رہے گا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کا اتباع کرتے ہوئے  اسباب و وسائل کو اختیار کرنے کو توکل کے منافی نہیں سمجھتا ۔آپﷺ جب غزوے کے لیے نکلتے تو زرہ اور خود بھی پہنتے ۔ آپ ﷺ نے تیر اندازوں کو گھاٹی کے منھ پر بٹھایا  ،مدینے کے ارد گرد خندق کھدوائی ،حبشہ اور مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دی بلکہ خود بھی ہجرت کی ۔کھانے پینے کے اسباب کو اپنایا اور اپنے گھر والوں کے لیے اس کا ذخیرہ بھی کیا اور یہ انتظار نہیں کیا کہ آسمان سے اُن پر یہ چیزیں نازل ہوں حالانکہ تمام مخلوقات میں وہ سب سے زیادہ اس بات کے حقدار تھے ان کے لیے آسمان سے نعمتوں کا نزول ہو ۔‘‘ہجرت خود مستقبل کی منصوبہ بندی کا بیّن ثبوت ہے اور یہی در اصل توکل الی اللہ کا حقیقی مفہوم ہے کہ مؤمن اپنی استطاعت کے مطابق تمام تدابیر کر لے پھر اللہ پر بھروسہ کرے اور کہے کہ ’’اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘‘(التوبۃ ۔40)اور آج امت کا حال یہ ہے کہ وہ اسباب ہی کو اختیار نہیں کرتی ! فرانسیسیوں نے جب پہلی بار مصر پر حملہ کیا تو مسلمانوں نے موجودہ دور کی توپ کی شکل والی منجنیق سے حملہ کر کے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ۔مسلمان جب منجنیق سے گولے برسا رہے تھے عیسائی اپنے پادریوں کے ساتھ دور خیموں میں بیٹھ کر دعائیں کر رہے تھے ! لیکن جب فرانسیسیوں نے بھی منجنیق بنا لی اور سمر قند و بخارا پر حملہ آور ہوئے تو مسلمان مقابلہ کرنے کے بجائے مسجدوں میں بیٹھے دعائیں مانگ رہے تھے !

آج   عالمی صہیونی پریوار ہو یا اس کا معاون و مددگار بھارتی سنگھ پریوار یا دیگر ترقی یافتہ قومیں ان کی موجودہ ترقی کا سبب  برسوں کی منظم منصوبہ بند ی ہے !ترقی یافتہ قوموں کے جدید علوم مسلمانوں ہی کے علوم  کی بنیادوں پر استوار ہیں۔ وہ ان علوم کی تہذیب و تدوین کے ذریعے چاند پر پہونچ گئے اور دنیا کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا اور ہم علم دین اور علم دنیا کی بحث میں پھنس کر اس حال میں پہنچ گئے ! ترمذی اور ابن ماجہ میں ایک حدیث ہے کہ ’حکمت مؤمن کا گم شدہ سرمایہ ہے جہاں سے ملے وہیاس کا زیادہ حقدار ہے‘۔اور حضرت علی ؑنے بھی فرمایا کہ ’علم مؤمن کا گم شدہ سرمایہ ہے اسے حاصل کرو اگرچہ مشرکین ہی کے ہاتھوں سے کیوں نہ حاصل کرنا پڑے ‘(ایضاً ص ص21۔34)

تبصرے بند ہیں۔