نزار قبانی: جدتِ افکار اور جرأتِ اظہار کا استعارہ!

نایاب حسن

امتیاز:

معروف عربی شاعر نزارقبانی کا عملی دورانیہ بیسویں صدی کے نصفِ ثانی کو محیط ہے، ان کے اشعار، نقوشِ فکر اور ان کے رنگارنگ تخیلات مسلسل ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہورہے ہیں، نزارقبانی30؍اپریل1998ء کو وفات پاگئے، مگر ان کا ادبی، شعری و تخلیقی کارنامہ اپنی قوت وانفرادیت کی بہ دولت ہنوزتازہ و شاداب ہے۔نزارقبانی نے اپنے باہم متناقض افکاروشعریات کے ذریعے پوری زندگی ادبی و فکری سطح پر ایک قسم کا ہیجان برپا کیے رکھا، وہ بیسویں صدی کے نصفِ آخر کے عربی معاشرے کے تضادات کوان کی حقیقی شکل وصورت میں بیان کرتے تھے، وہ واحد ایسے عربی شاعر تھے، جس نے ایک طویل زمانے سے قائم معاشرتی رسم و رواج کے خلاف پوری جرأت و ہمت سے ہلہ بولا، اس نے بھرپور آزادی اور باغیانہ تیور کے ساتھ جہاں ایک طرف فکری، عملی اور شعوری سطح پر اس وقت کے عالمِ عربی کو درپیش مسائل پر اظہارِ خیال کیا، وہیں معاشرتی منکرات اور حرام و حلال جیسے نازک موضوعات بھی اس کی ناوک افگنی سے محفوظ نہ رہے۔

قبانی نے’’ صنفِ لطیف‘‘ کو نہ صرف اپنی شاعری کامستقل موضوع بنایا؛بلکہ اسے انسانوں کی دیگر اصناف کی بجاے کسی خوب صورت نمایشی چیز کے طورپرپیش کیا، اسے اپنے تخیلات کے پاؤڈرکریم اور رنگوں سے آراستہ کیااورنہایت بے باکانہ انداز اور واضح اسلوب میں اس کے جسم کے نشیب و فراز، جمالیاتی اوصاف و خصوصیات کو بیان کرکے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرتارہا۔ اس کی شاعرانہ مہارت اور فضل و کمال میں کسی کواختلاف نہیں ہوسکتا، جب لوگ اس کی شاعری سنتے ہیں، توان کی سماعتیں جھومنے لگتیں اور دل مچلنے لگتے ہیں، اس کا شعری اسلوب ایسا ہے کہ قلب ووجدان پر چھا جاتا ہے۔

نزار کو جب لوگ’’شاعر المرأۃ‘‘ (شاعرِ نسواں )کہتے تھے، تو وہ مست ہوجاتے تھے اور اب بھی عام طورپر جب لوگوں کی زبان پر نزار کانام آتاہے یا کوئی ان کی شاعری پڑھتا یا سنتا ہے، تو بے ساختہ اس کا ذہن ان کے اس لقب کی طرف چلاجاتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نزار اپنی قومی نظموں، ملی ترانوں، واضح تنقیدی تصورات اور اپنے مختلف مقالات میں ایک ایسے دانشور نظر آتے ہیں، جو نہ صرف عورتوں سے محبت کرتا ہے؛بلکہ وہ اپنے وطن کی مٹی اور اس کی آب و ہوا سے بھی قلبی انس رکھتا ہے۔

احوال:

نزاربن توفیق قبانی آقبیق کی پیدایش21؍مارچ1923ء کو ایک مڈل کلاس شامی فیملی میں ہوئی، ان کے گھروالے دمشق کے ’’مئذنۃ الشحم‘‘ نامی محلے میں رہتے تھے، وہیں ان کی ابتدائی پرورش ہوئی، ان کے والد حلوائی تھے اور اسی سے پورے گھر کا خرچہ چلتا تھا، مشہورہے کہ جدید شامی ڈرامے کے سرخیلوں میں سے ایک ابوخلیل قبانی ان کے چچا تھے؛لیکن نزار نے اپنے ایک دوست کے دریافت کرنے پر بتایاتھاکہ ابوخلیل قبانی ان کی والدہ کے چچا تھے۔ نزار نے یونیورسٹی آف سیریا سے 1944ء میں لاکی ڈگری حاصل کی، مگر انھوں نے تازندگی کبھی قانون، وکالت یا ججی کو اپنا پیشہ نہیں بنایا؛بلکہ1945ء سے لے کر1966ء تک سیرین ڈپلومیسی سے وابستہ رہے اور اس دوران مصر، ترکی، لندن، سپین اور چین وغیرہ میں شام کی سفارت کی۔انھوں نے عنفوانِ شباب میں ہی شاعری شروع کردی تھی اور جب وہ طالب علم تھے، تبھی ان کا اپنے ایک استاذ خلیل مردم بک سے تعلق قائم ہوا، انھوں نے نزار کی بے پناہ حوصلہ افزائی کی، حتی کہ ان کا پہلا دیوان’’قالت لي السمراء‘‘اپنے ذاتی صرفے سے شائع کروایا، ان کی شاعری ابتداہی سے عام عربی شاعری کے مزاج و منہاج سے الگ تھی؛چنانچہ بہت جلد روایات سے انحراف اوران کا باغیانہ تیور ادبی دنیا کے سامنے نمایاں ہوگیا، حتی کہ جب 1945ء میں ان کا قصیدہ ’’خبزوحشیش و قمر‘‘ (روٹی، حشیش اور چاند)منظرِ عام پر آیا، جس میں انھوں نے شامی معاشرے کے توہمات پر مبنی مذہبی رسوم، عوام کی کاہلی وکسل مندی اوربزرگوں کی قبروں، مزاروں سے استعانت کے رواج پرجم کرتنقیدکی تھی، تو علماکی ایک جماعت کی طرف سے نزارکو شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا، اس احتجاج کی گونج شامی پارلیمنٹ تک پہنچی اور اس قصیدے کی اشاعت پر پابندی لگادی گئی، حتی کہ ان کے قتل کا مطالبہ کیا گیا، اس طرح ان کی شاعری اور معاشرے سے ان کی بغاوت دونوں ساتھ ساتھ سفر کرتی رہیں۔

ملازمت سے سبک دوشی کے بعد نزار نے بیروت(لبنان)میں رہایش اختیارکرلی، اس دوران باقاعدگی سے شاعری کرتے رہے، ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، جس کے تحت اپنے 35؍دیوان شائع کیے، یہ ان کا پچاس سالہ تخلیقی سرمایہ تھا، مضامین و مقالات کے بھی کئی مجموعے شائع کیے، ان کی بہت سی غزلوں، نظموں اورقصیدوں کو عالمِ عربی کے معروف گلوکاروں نے گایا، جن میں ام کلثوم، نجاۃالصغیرہ، عبدالحلیم حافظ، فائزہ احمد، فیروز، کاظم الساحر، ماجدہ الرومی اور اصالہ نصری وغیرہ قابلِ ذکر ہیں، نزار اکثر و بیشتر عراق کا سفر کرتے اور وہاں مشاعروں میں شرکت کے علاوہ ادبا و دانشوران سے ان کی ملاقاتیں رہتی تھیں، ایک سفر کے دوران ان کی ملاقات بلقیس الراوی سے ہوئی، پھر دونوں کی ایک دوسرے سے شناسائی ہوئی، جو عشق میں بدل گئی، دونوں شادی کرنا چاہتے تھے، مگر بلقیس کے اہل خانہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور بالآخر دونوں جداہوگئے، نزارکی پہلی شادی چچازاد بہن زہراعقبیق سے ہوئی، جس سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوئے، پھر ان کی اہلیہ ایک مہلک مرض میں مبتلاہوکر وفات پاگئی، بیٹاجو قاہرہ میں طب کی تعلیم حاصل کررہاتھا، عین نوجوانی میں وفات پاگیا، اس سے نزارکے ذہن و دماغ پر خاصا اثر پڑا اور انھوں نے اپنے بیٹے کاایک دردناک مرثیہ کہا۔

ایک عرصے کے بعد نزارکی ملاقات پھر بلقیس سے ہوئی، دونوں نے1969ء میں شادی بھی کی، اس بیوی سے بھی دوبچے ہوئے، مگر 1981ء میں بیروت کے عراقی سفارت خانے پر ہونے والی بمباری میں بلقیس بھی ماری گئی، وہ اس سفارت خانے میں ملازمہ تھی، اس حادثے نے نزارکو نفسیاتی و ذہنی طورپر توڑ کر رکھ دیا، بلقیس کی وفات پر انھوں نے جو مرثیہ کہاہے، وہ بھی نہایت دردانگیز اور متاثرکن ہے، لفظ لفظ میں کرب وحزن کی کائنات سمودی ہے۔ اس کے بعدوہ اطمینان و سکون کی تلاش اور دنیا کے ہنگاموں سے دور رہنے کی کوشش میں پیرس و جینواکے چکر کاٹتے رہے، بالآخر لندن میں اقامت گزیں ہوئے اور زندگی کے آخری پندرہ سال وہیں گزارے۔

نزار کی زندگی کا مطالعہ کریں، تو پتا چلتا ہے کہ انھیں ذاتی زندگی میں یکے بعد دیگرے کئی غیر معمولی حادثات سے دوچار ہونا پڑا، نو عمری میں ہی والدہ کی وفات ہوگئی، ایک بہن دل کی بیماری کا شکار ہوکر جاں ہار ہوگئی، دوسری بہن کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کردی گئی، جس کی وجہ سے اس نے خود کشی کرلی، نوجوان بیٹا مرگیا، پہلی بیوی رحلت کر گئی، دوسری بیوی ایک سانحے میں جاں بحق ہوگئی، یہ سب حادثے متعددزمانی مرحلوں میں رونماہوئے، جن کی وجہ سے وہ تاعمرذہنی آسودگی سے تقریبامحروم رہے، شایداسی وجہ سے انھوں نے رومانوی شاعری کے ذریعے وقتی اورغیرحقیقی طورپرہی سہی، اپنی نفسیاتی وذہنی آسودگی تلاش کرنے کی کوشش کی، دوسری طرف بیسویں صدی کے نصفِ آخر میں عالمِ عربی کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے بھی ان کے فکر و تخلیق پر خاصا اثر ڈالا؛چنانچہ خاص طورپر نوے کی دہائی میں میں انھوں نے معاصر عربی سیاست کے خلاف لگاتار کئی گرماگرم نظمیں لکھیں، جنھوں نے ایک بڑے عربی سیاسی حلقے کوچکراکررکھ دیا، نزارقبانی کا فکری و شعوری پس منظر اپنے وطن اور مٹی سے جڑا ہوا تھا اور وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی رہے، اپنے وطن کی محبت کے اسیر رہے، یہی وجہ تھی کہ67ء کی عرب۔ اسرائیل جنگ میں عربوں کی شرمناک شکست نے انھیں جھنجھوڑکررکھ دیا، پھر بعد میں بعض حکمرانوں کا علانیہ اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا اور اس ناجائز حکومت سے پینگیں بڑھانا نزارکے دل میں چھید کرگیا؛چنانچہ انھوں نے جہاں اسرائیل کوللکارتے ہوئے ’’منشورات فدائیۃ علی جدران إسرائیل‘‘جیسی ولولہ انگیزنظم لکھی، وہیں ’’المہرولون، المتنبي، العشق والبترول، متی یعلنون وفاۃ العرب؟‘‘جیسی نظموں میں عربوں کے سیاسی افلاس اور قومی بے غیرتی پرتازیانے برساتے رہے۔

آثار:

جون1967ء سے پہلے کاعربی معاشرہ وطنیت، اسلاف پرستی، مختلف قسم کے نعروں، پر جوش گانوں اور ترانوں، سیاسی جنون، مختلف و باہم مخالف نظریات، شیوابیانی و چرب زبانی وغیرہ کا معجون تھا، اس کے علاوہ عربوں کو اپنے چندمنتخب دانشوران و تخلیق کاروں پر بھی فخر تھااور ادب و آرٹ میں روشن خیالی اپنی انتہا کو پہنچ رہی تھی، پھربیسویں صدی کے نصف اور دوسری عالمی جنگ کے بعد چند ایسے شعرا، ادبا، دانشوران اور آرٹسٹ بھی سامنے آئے، جو سیاست اور مختلف انقلابی، قومی و اشتراکی نظریات سے متاثر ہوئے، مگر اس سب سے نزار نے کوئی اثر نہیں قبول کیا، تب ان کی شاعری کا واحد موضوع’’عورت‘‘ تھی، وہ اپنے فکر و خیال کی رنگینیوں سے اس کے اعضا ے جسم کو مزین کرتے اور نسوانی وجودکو ایک دلفریب و سحر آگیں روپ میں اپنے سامع و قاری کے سامنے پیش کرتے، پھر اس انتظار میں رہتے کہ لوگ ان کی شاعری پر کس قسم کا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ انھیں ایسے سادہ و سبک الفاظ کے استعمال میں درک حاصل تھا، جو براہِ راست سننے والے کے دل دماغ میں اتر جائیں ؛چنانچہ انھوں نے صبح شام استعمال ہونے والے بہت سے عام الفاظ کی ترکیب سے بھی نہایت خوب صورت تعبیرات خلق کیں، جو ان کے سامعین کے کانوں کا جھومر بن گئیں۔

بے شبہ نزاراپنے شاعرانہ فضل و کمال اور تعبیرات کی جدت و انفرادیت کی وجہ سے ایک ممتازشاعر ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے تاعمر محض شعری و ادبی تحرک پر زور دیا، بعض ایسے الفاظ و تعبیرات کو گنگناتے رہے، جو انسانی احساسات کو برانگیخت کرتے اورنفسانی جذبات میں ہیجان برپاکرتے تھے، ایک ایسے عربی معاشرے میں، جو بے شعوری و فکری محدودیت کی انتہا پر تھا، انھیں لوگوں کے جذبات سے کھل کرکھیلنے کا موقع ملا، اُس وقت عالمِ عربی کے حالات ایسے دریدہ تھے کہ جنس و جسم و شہوات، حتی کہ نسوانی پیکر کے مختلف اعضا کی علانیہ تصویر کشی میں نزارکومددملی اور نزارنے پوری عربی شاعری میں ایک ایسا انقلاب برپاکیا، جس سے ایک طرف بے شمار لوگوں کو جذباتی آسودگی حاصل ہوئی اور نوجوان نسل نے ان کے اشعار کو آویزۂ گوش بنالیا، تو دوسری طرف اس انقلاب کی آنچ بسااوقات خود شاعر کے دامنِ حیات تک جا پہنچی، البتہ ان کی زندگی کے اخیر کے بیس سالوں میں چوں کہ عربی دنیا کے حالات یکسر بدل چکے تھے، پھراُسی دوران ان کی دوسری بیوی کی رحلت کاسانحہ بھی پیش آگیا، جس کی وجہ سے ان کے شعری موضوعات، حتی کہ الفاظ و تعبیرات میں بھی نمایاں تبدیلی آگئی تھی اور مجموعی طورپراخیر عمر میں انھوں نے جو اشعار کہے، جو قصائد لکھے، ان کا موضوعی ارتکاز زیادہ ترعالمِ عربی کے سیاسی نشیب و فراز، مسئلۂ فلسطین اور عربی قومیت کے تحفظ وغیرہ پر رہا۔

بہر کیف عربی ادب و شعرکا ذوق رکھنے والوں کے لیے نزارقبانی کی شاعری کو پڑھنااور سنناایک دلچسپ تجربہ ہے، ان کی دورِ اول کی شاعری میں جہاں رومان انگیزوسروربخش خیالات کی فراوانی ہے، وہیں دورِ آخر کی شاعری میں عالمِ عربی کی سیاست پربے باکانہ تبصرہ، آزادیِ فلسطین کی تڑپ اور قومی وملی معاملات میں عربوں کو متحدہونے کی بے مثال دعوت ہے، اس کے علاوہ لفظوں کی کہکشاں اور تعبیرات کا جہان اتنا دل فریب ہے کہ دل دماغ ان کے سحر میں کھوجاتے ہیں۔

اعتراف:

نزارقبانی کے شاعرانہ امتیازاورتخلیقی تفوق کواہلِ ادب ونقد نے جی کھول کے سراہاہے اور ان کی بعض فکری لغزشوں کی نشان دہی کے باوجود ان کی مرتبہ شناسی میں کسی بخل سے کام نہیں لیاہے، عام طورپرقبانی کوعربی شاعری کا’’دبستان ‘‘کہاجاتاہے، حسین بن حمزہ نے انھیں ’’ریاستِ شعروادب کاصدرنشیں ‘‘ قراردیاہے، مصری ادیب احمد عبدالمعطی حجازی نے انھیں ’’ایک ایساحقیقی شاعرقراردیا، جس کی اپنی خاص زبان ہے اورجواپنے شعری موضوع کے انتخاب میں بے باک وجری ہے ‘‘البتہ انھوں نے بعض دفعہ ان کی ’’جرأتِ بے جا‘‘پرتنقیدبھی کی ہے، معروف عربی شاعرعلی منصورنے کہاکہ’’نزارعربی ادب کے اجتماعی حافظے کاحصہ بن چکے ہیں اورانھیں لوگوں میں ایساخاص مقام ومرتبہ حاصل ہوگیاہے کہ ان کودورِ جدیدکاعمربن ربیعہ قراردیاجاسکتاہے‘‘ فلسطینی شاعر عزالدین المناصرہ نے کہاکہ ’’ان کاسب سے بڑاکارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے عشق کے موضوع کوخارجی وصف نگاری سے نکال کر جدیدعربی شاعری کاایک مخصوص موضوع بنادیا‘‘۔

نزارقبانی کی وفات کے بعد ان کی شخصیت اورادبی وشعری خدمات پر متعدد تحقیقی مقالات اورکتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں احمد الخوص اورہناء برہان کی تالیف ’’عروبۃ نزارقباني ‘‘قابل ذکرہے، اس کتاب میں انھوں نے نزارقبانی کی شاعری میں وطن دوستی اورعالمِ عربی سے ان کی قلبی محبت کے عناصرکی نشان دہی کی ہے، اس کے علاوہ عبداللہ الجعفری کی ’’نزارقباني: آخرسیوف الأمویین‘‘جس میں ان کی شخصیت، حیات اورشعری امتیازات پرروشنی ڈالی گئی ہے، ڈاکٹرخالدحسین کی کتاب ’’نزارقباني: قندیل أخضرعلی باب دمشق ‘‘جس میں شاعرکی شخصیت کے علاوہ ان کے دواہم شعری موضوع ’’دمشق ‘‘اور’’عورت‘‘پرگفتگوکی گئی ہے، اسی طرح جامعہ طہران کی ایک طالبہ آزادہ کریوانی کا’’الوطنیۃ والشعرالسیاسي لدی نزارقبان‘‘ کے عنوان سے لکھاگیا قیمتی تحقیقی مقالہ قابلِ ذکرہیں، نزارقبانی کی شخصیت وشاعری کے مختلف پہلووں پران کے علاوہ بھی متعددکتابیں، تحقیقی و تنقیدی مقالات لکھے گئے ہیں، ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ انگریزی ودیگر زبانوں میں بھی منتقل ہوچکاہے۔

اس کے ساتھ ساتھ موجودہ ڈیجیٹل علمی و ادبی دور سے ’’نزاریات‘‘ کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ان کے بیشتر شعری و نثری ذخائراوران کی حیات و سانحات اور خدمات پر لکھی گئی منتخب تحریروں کو انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس (مثلاً:www.adab.com www.nizariat.com,nizarq.com,)پر اپلوڈ کردیاگیا ہے؛ تاکہ عربی ادب و شعر سے دلچسپی رکھنے والے دنیابھر کے لوگ براہِ راست نزارقبانی کے نتائجِ فکر سے استفادہ کرسکیں، ساتھ ہی یوٹیوب وغیرہ پرویڈیو، آڈیوکی شکل میں خود نزارقبانی اور دیگر گلوکاروں کی آواز میں بھی ان کاکلام سناجاسکتاہے۔

تبصرے بند ہیں۔