وجودِزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

سعدیہ سلیم شمسی

دنیا میں صنف نازک کے خیال سے ایسے ایسے مضمون باندھے جاتے ہیں۔ جن میں دنیا بھر کی تشبیہات کو کسی ماہ جبیں پروار دیاجاتا ہے۔ آنکھ کو نرگس‘ ہونٹ کو گلاب کی پنکھڑی،رخسار کو گلاب‘قدکوسرو، گردن کو صراحی‘چہرے کو کتاب اور زلفوں کو رات کہتے ہوئے شاعر کبھی نہیں تھکتا، اتنا ہی نہیں جنگ و جدل جیسے کھردرے موضوعات بھی صنف نازک کے ذکر سے خالی نہیں۔ عورت فضائے عالم کی وہ دلکش قوس قزح ہے جس کے ایک ایک رنگ سے زندگی کے سو،سو،سو تے پھوٹتے ہیں۔ عورت انسانی زندگی کا وہ بھاری پلڑا ہے جو ہمیشہ جھکا رہتا ہے۔ عورت ایک ایسی ہستی ہے جس کے سبب اس دنیا میں حسن اور رونق نظر آتی ہے۔ یہ بات بہت مشہور ہے کہ عورت کے بغیر گھر،گھرنہیں قبرستان نظر آتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح عورت کے بغیر یہ دنیا بے رونق اور ویران نظرآئیگی۔ شاید اسی لئے علامہ اقبال ؔنے بہت خوب کہا ہے۔

وجودِزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ عورت کی تخلیق چاندکی ٹھنڈک ‘شبنم کے آنسو، ستاروں کی ضؤفشانی، بلبل کے گیت، قمری کی بیقراری، چکور کا انتظار، گلاب کا رنگ، کوئل کی پکار، یاسمین کی نزاکت، سمندر کی گہرائی، آسمان کی رفعت، دریا کی روانی، کہکشاں کی چمک، زمین کا حسن، آہوں کی رحمدلی اور صبح کے نور کے امتزاج سے ہوئی۔ اس لیے کے یہ تمام خصوصیات عورت کی سرشت میں شامل ہیں۔ وہ سرتاپا محبت کا پیکر ہے تو وفا کی دیوی‘ایثار و قربانی کا مجسمہ‘انتہائی نازک لیکن وقت آنے پر سخت جان۔ ان تمام خوبیوں میں سب سے اہم خوبی ’’محبت ‘‘ ہے۔ جب خدا نے عورت کو بنالیا تو فرشوں نے عرض کیا کہ !آپ نے اپنی طرف سے اس اہم تخلیق میں کیا شامل کیا ہے تو خدا نے فرمایا۔ ’’محبت‘‘

یہ دنیاپوری کی پوری نعمت ہے اور اس میں سب سے اہم اور بڑی نعمت نیک اور صالح بیوی ہے۔ جس کے ذریعے خدا نے اس کے شوہر کو خوش نصیب بنایا۔ جس کے ذریعے بچوں کی صحیح تربیت ہوگی، اولاد صالح ہوگی توگھر میں رونق آئے گی۔ وہاں سے شیریں گفتگووعمدہ اخلاق وکردار اور حسن معاملہ کی کرنیں پھوٹیں گی اور وہ گھر مثالی ہوگا۔

بزرگوں نے کہا ہے کہ چار چیزیں انسان کی خوش نصیبی کی علامت ہیں۔ (۱) نیک بیوی (۲) کشادہ مکان (۳) اچھا دوست، (۴) بہترین سواری۔ ساتھ ہی بزر گوں نے ہمیشہ انسان کو نیک بیوی کے انتخاب کی تلقین کی ہے۔ عورت خدا کی بڑی بڑی نعمتوں میں سے بڑی نعمت ہے۔ عورت ’’ماں ‘‘ بھی ہے و بہن بھی اور بیٹی بھی۔ عورت بچپن سے بھائی، بہنوں سے محبت کرتی ہے۔ زندگی کے ہر روپ میں عورت ایک مقدس اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسکے مقدس کردار کی بدولت ہی ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے۔ سبھی رشتے پیدا ہونے کے بعد وجود میں آتے ہیں۔ لیکن ’’ماں ‘‘ ایک ایسا رشتہ ہے جو پیدا ہونے سے پہلے وجود میں آتا ہے۔ لوگ شکل دیکھکر محبت کرتے ہیں۔ لیکن ماں غائبانہ پیار و محبت کرتی ہے۔ دنیا کا کوئی رشتہ اس خلوص کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔

ایک ماں کی حیثیت سے عورت کا مطالعہ نہایت دلچسپ ہے۔ بچے پر ماں کے روپ میں عورت کا سایہ سب سے پہلے پڑتا ہے۔ ماں جب اپنے شیر خوار بچے کو سینے سے لگا کر لوریاں سناتی ہے ا وراسکے ساتھ کھیلتی ہے ہروقت اسکے ساتھ رہتی ہے۔ اس لئے ماں کی شخصیت کا اثر بچے کے کردار پر پڑتا ہے۔ گویا ہماری زندگیوں پر سب سے پہلے سایہ بشکل ماں عورت کا پڑتا ہے۔ فرانس کے انقلاب کے بانی نیپولین بوناپارٹ کا کہنا ہیکہ:’’مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں عمدہ نسل دے دوں گا‘‘۔

اس بات سے سبھی بخوبی واقف ہیں کہ ایک عورت کے تعلیم یافتہ ہونے سے نسلوں کی نسلیں تعلیم یافتہ ہو جاتی ہیں۔ بہتر شہری بننے کی تمام تر تعلیم گھر ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ عورتیں گھر کو توڑنے کا نہیں دلوں کو جوڑنے کا کام کرتی ہیں۔ خاندان میں خلوص اور اتحاد عورت ہی کے سبب ہوتا ہے۔ گھر میں سماجی اور مذہبی اقدار بھی عورت ہی کے ذریعے پروان چڑھتے ہیں۔ جو بچے پیدا ئش کے بعد صرف مردوں کے ہاتھوں میں پلتے ہیں ان میں اور ماں کی آغوش میں پرورش پانے والے بچوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کسی نے صحیح کہا ہیکہ عورت کا وجود انسانی تمدن کیلئے بے حد ضروری ہے۔ اگر عورت نہ ہوتی تو مردوں کی زندگی جنگلی جانوروں سے بدتر ہوتی۔ یہاں ایک واقعہ کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔

کسی فوجی کیمپ پر جرمن کے کچھ فوجی بہت دنوں سے تھے۔ انکی داڑھیاں اور سر کے بال جنگلی گھاس کی طرح بڑھ چکے تھے مہینوں کپڑے نہ بدلتے اور نہ ہی نہاتے۔ جنگل کی زندگی ‘طویل جنگ اور شہری زندگی سے دوری نے انہیں انسان سے جانور بنادیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اتفاق سے وہاں کوئی بڑا فوجی افسر آیا اور چند دن قیام پذیر رہا اس کے ہمراہ اسکی بیوی اور سالی بھی تھی۔ دوعورتوں کی موجودگی نے کیمپ  پر موجود تمام فوجیوں کو دو دن کے اندر چاق و چوبند کردیا۔ انہوں نے بال کٹوائے کپڑے بدلے اور چست وچالاک ہوگئے۔ محض عورتوں کی موجودگی کے احساس نے انہیں تازدہ دم کردیا۔

یہ بات درست نہیں کہ عورت معاشرتی زندگی کی گاڑی کا ایک پیہہ ہے۔ حقیقت میں گاڑی کے تمام پہئیے صرف مرد ہیں۔ جبکہ عورت اس گاڑی کا انجن ہے۔ بے شک زندگی کے تمام تربوجھ مرد کے کندھوں پر ہیں۔ لیکن اس وقت تک کوئی بھی مرد متحرک نہیں ہوتا جب تک ایک عورت اسکی ہمت افزائی نہیں کرتی اور اسکا ساتھ نہیں دیتی۔ اس لئے توکہا جاتا ہے کہ ہرکامیاب آدمی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر کے پیچھے نور جہاں کا ہاتھ تھا۔

مکالمات فلاطون نہ لکھ سکی لیکن

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں

آج کے گلوبالئزیشن کے دور میں تو عورت مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتے ہوئے بھی اپنی گھریلوں ذمہداریاں نبھا رہی ہیں۔ اندرا گاندھی ‘ بے نظیر بھٹو‘ حسینہ  واجد‘ اور سونیا گاندھی جیسی عورتیں قومی سطح پر کام کرتے ہوئے بھی اپنی گھریلوں ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑا۔ آج عورت مرد کا برابری سے ساتھ دے رہی ہیں۔ سکھ ‘ دکھ اور باہر کی ذمہ داریوں میں بھی اپنے شریک حیات کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ آج کی عورت کے خیالات کو صفیہ اختر نے بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔

میں ان کا سکھی ہاتھ بٹا سکتی ہوں

حالات کو ہموار بنا سکتی ہوں

وہ بوجھ اٹھائیں گے اکیلے کب تک

میں خود بھی تو کچھ بو جھ اٹھا سکتی ہوں

مشہورماہر نفسیات’’فرائڈ‘‘ نے اپنے تمام ترمطالعہ کا یہی نتیجہ نکالا کہ:۔ بالآخرعورت ہی ہے جسکے ہاتھوں میں بھٹکے ہوئے انسان کی غلطی کے ازالے کا راز موجود ہے۔ وہ انسان جسے بہشت کے باغات میں عورت کی رہزنی کی بدولت ٹھوکرلگی۔ اگر سنبھل سکتا ہے تو عورت ہی کی رہبری کے طفیل۔

عورت سے زیادہ خوبصورت تصنیف نہیں لکھی گئی اور عورت کا وجود ہی اس بات کی گواہی ہیکہ دنیا ایک حسین ترین باغ ہے جس میں یہ پھول کھلا ہے۔ اگر شاعری دل کی فضائوں کی ترجمان ہے تو عورت جانِ شاعری ہے۔ اسی لئے عورت دنیا میں پیار و محبت کا ’’تاج محل‘‘ ہے۔ عورت ایسی کتاب و ایسی تصویر اور ایسی داستان ہے جو تمام دنیاکی پرورش و تربیت کرتی ہے۔

نہیں منت کش تابِ شنیدن داستاں میری

خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زبان میری

تبصرے بند ہیں۔