حضرت علیؓ اور حقوق بشر

سیف الیاس

تاریخ انسانیت کا بے بدیل و بے نظیر انسان کہ انسانیت اس کے وجودِ بے مثیل کو درک کرنے سے قاصر ہے۔ جب دنیا والوں نے چاہا کہ اس کی ذات کو سمجھا جائے تو اس نے صدا دی کہ میرے فضائل و کمالات تک انسان کا طائرِ فکر پرواز کرنےسے عاجز ہے۔ کائنات اس ذات والا کا نام امام المتقین امیرالمومنین حضرت علیؓ علیؓہ السلام کے نام سے یاد کرتی ہے۔ حضرت علیؓ علیؓہ السلام  ایک کامل انسان تھے۔ آپ تمام انسانی فضائل و کمالات و خصوصیات کے حامل تھے ۔ علم و حکمت، رحم و کرم، فدا کاری و جانثاری، تواضع و فروتنی، ادب و انکساری، لطف و مہربانی، غرباء پروری، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی اور شجاعت و قناعت وغیرہ۔۔۔ جیسے تمام فضائل و کمالات آپ کی ذات میں جمع تھے۔

محققین نے حضرت علیؓ  کو میدان جنگ میں ایک ماہر شمشیر زن، شہر اور اسکے امور کی دیکھ بھال کرنے میں نہایت حساس اور گھریلو زندگی میں انتہائی سفیق و مہربان اور منظّم فرد کی حیثیت سے دیکھا۔ لیکن حقیقت یہ ہیکہ حضرت علیؓ  زندگی کے تمام شعبوں میں ایک بھر پور اور مکمل انسان کا اعلیٰؓ ترین نمونہ تھے۔  آپ ایک بے مثال شخصیّت کے حامل تھے، ایک کامل انسان کے لئے جو جو خصوصیّات لازم ہیں وہ آپ کی ذات گرامی اقدس میں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ چنانچہ ایسی کوئی صفت نہیں جو انسان کے لئے لازم ہو اور وہ مولائے کائنات  میں نہ پائی جاتی ہو۔ اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ابو البشر حضرت آدم  سے لیکر روح اللہ جناب عیسیٰ  اور تمام انبیاء و رُسُل علیؓہم السلام کے اوصاف و کمالات میں حضرت علیؓ  برابر کے شریک ہیں۔  لہذا ہم یہاں پر حضرت علیؓ  کے حقوق بشر کی علَمبرداری کے سلسلہ میں روشنی ڈالیں گے۔  کتابوں میں ملتا ہے کہ جناب قنبر (صحابی امام علیؓ) بہت بڑے پہلوان تھے۔

ایک مرتبہ وہ حضرت علیؓ  سے لڑنے آئے اور شکست کھا کر ان کی غلامی قبول کر لی۔ اب ایک واقعہ شنئے اور حضرت علیؓ  کے حقوق بشر کا معیار ملاحظہ کریں۔ اپنے ظاہری دور خلافت میں حضرت علیؓ  جناب قنبر کے ساتھ بازار گئے دو پوشاکیں خریدیں ایک قیمتی اور دوسری سستی۔  ہر کوئی یہی سوچےگا کہ قیمتی پوشاک آقا کے لئے اور سستی پوشاک غلام کے لئے، لیکن نہیں! ایسا نہیں ہوا۔  حضرت علیؓ  نے جناب قنبر سے کہا کہ: قیمتی لباس تم لے لو اور سستا والا میرے لئے رہنے دو۔  جناب قنبر بھی مندرجہ بالا باتوں کو ذہن میں رکھ کر کہا مولا آپ آقا ہیں، اچھا کپڑا خود زیب تن کیجئے۔ آپ نے وہاں اپنی سخاوت اور غرباء پروری نہیں بیان کی بلکہ یہ سوچ کر کہ قنبر کے احساس کو ٹھیس نہ پہونچنے پائے فرمایا: قنبر تم جوان ہو مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے کہ میں پوشاک میں اپنا معیار تم سے بلند رکھوں ۔ دوسری مثال حقوق بشر کی جو خود ان کے بھائی حضرت عقیل علیؓہ السلام سے متعلق ہے کہ جب انہوں نے موالا سے بیت المال سے زیادہ رقم مانگی تو آپ نے انکار کر دیا کیوں کہ انکی نظر میں امّت کا ہر شخص برابر کا حقدار تھا۔ ہم اُس کے بارے میں کیا کہیں کہ جس نے حقوق بشر کا اتنا خیال رکھا کہ جب ان کو ظاہری حکومت و خلافت ملی تو اپنے گورنر کو خط میں لکھ رہے ہیں کہ تمہارے یہاں دو طرح کے لوگ ہوں گے ایک تمہارے دینی بھائی اور دوسرے وہ جو آدم  کی اولاد ہونے کے ناطے تمہارے بھائی ہیں۔  دونوں کے ساتھ انصاف کرنا۔

ججوں، سِوِل افسروں اور علاقے میں امن و امان قائم کرنے والے افسروں و ملازموں کو اتنی زیادہ تنخواہ دینا کہ وہ لالچ دینے والوں کی لالچ میں آ کر اپنے فرض کی راہ سے نہ ہٹ جائیں۔ (کسی بشر کا جائز حق نہ مار بیٹھیں)۔ کسانوں سے ٹیکس لینا، لیکن اگر ھل خراب ہو جائے تو ٹیکس میں کمی کر دینا یا ٹیکس معاف کر دینا، کیونکہ کسان ہی تمہارا اصل خزانہ ہے۔ بوڑھوں کا خیال رکھنا اور بے گناہوں کا خون نہ بہانا اور اور کسی ایسی چیز کو اپنے لئے محفوظ نہ کر لینا کہ جس میں سب کا حق برابر ہے۔ ایسی ہی بہت سی اہم باتیں ہیں جو خود اقوام متحدہ نے حضرت علیؓ  کو ایک ایسا حکمران مانا ہے کہ جس کے قول پر عمل کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے ایک شعبہ نے 2007ء میں عربوں پر ریسرچ کے بعد عرب ہیومن ریسورس ڈولپمنٹ رپورٹ

"Arabhoman re source development report   "

تیار کی جس میں انھوں نے حضرت علیؓ  کے بتائے ہوئے چھ اقوال شامل کئے ہیں( اچھی حکومت کے لئے) اس رپورٹ کی کاپی تمام عرب حکومتوں اور اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا بھر کے تمام ملکوں کو بھیجی گئی ہے۔  اقوام متحدہ نے عرب حکومتوں کو صلاح دی ہے کہ وہ انصاف، جمہوریت اور ذہانت پر اپنی حکومت چلائیں اور اسے قائم کرنے میں امام علیؓ  کی مثال سامنے رکھیں۔

مگر افسوس! اُس وقت کے مسلمانوں نے حضرت علیؓ  کے خواب کو پورا نہ ہونے دیا اور انہیں شہید کر دیا۔ اگر آج مکمل طور پر حکومتیں ان کی بتائی ہوئی پالیسیوں اور نصیحتوں پر عمل کریں تو کرپشن "Corruption” کا دنیا سے نام و نشان مٹ جائے اور لوگ ایک دوسرے کے حقوق کے محافظ بن جائیں اور اس طرح ایک مثالی سماج کی تشکیل ہو سکے گی ـ

تبصرے بند ہیں۔