خواتین، قر با نی اور جنگ آزادی

محمد رضا (ایلیا)

بی اماں (اصل نام آبادی بانو) کی قربانی تاریخ ہندمیں سنہرے حرفوں سے لکھی جاتی ہے۔ بی اماں تحریک آزادی میں ناقابل فراموش، لائق تعظیم کام انجام دیا ہے۔ ان کا ہر طرز عمل ہندوستانی خواتین کے لیے سبق آموز ہے جس پر چل کر ہی ہندوستان کا فروغ ممکن ہے انہوں نے صعوبتیں برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ عزم مستحکم کر لیا کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے جتنی بھی مصیبتیں کیوں نہ اٹھانی پڑیں اس سر زمین کو انگریزوں سے آزاد کراکر ہی دم لیں گی۔اس کے لیے انہوں نے بچپن سے لے کر ضعیفی تک بے بہا اور گراں قدر کارکردگی انجام دی چاہے وہ جوشیلی تقریریں ہوں یا گھر گھر جا کر آزادی کے لیے چندہ یکجا کر نا ہوان سب کا مقصد ہندوستان کو آزاد کرانا۔

بی اماں ۷۲برس کی عمر میں بیوہ ہوگئیں بعض ہمدردوں نے اصرار کیا کہ دوسری شادی کرلےں تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے شوہر نے میری کافی دیکھ بھال کی ہے اور اب میں اپنے پانچ بیٹوں کی دیکھ بھال کروں گی۔ مادر علی برادران نے زمانے کی عورتوں کے لیے پردے میں رہنے کا جو پیغام دیا ہے وہ بھی اپنے آپ میں ایک امتیازی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ خود تو پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن زندگی کے تجربات نے انہیں اعلیٰ شعورو بےداری عطا کر دی۔بی اماں صرف قرآن مجید پڑھی ہوئی تھیں ۔ ان کی یادداشت کا یہ عالم تھا کہ جو ایک بار سن لیتی تھیں انہیں یادہو جاتا تھا۔

جن کے بارے میں مولانامحمد علی جو ہر خود رقم طراز ہیں:

”میرے اپنے تجربات کے دوران ہر طرح کے افراد سے سابقہ ہوالیکن ان میں کوئی ایسا نہیں تھا جو میری ماں سے زیادہ عقلمند ہو اور میں ان سے کچھ حاصل کر سکوں ۔ میری ماں للہیت اور روحانیت کی حامل تھیں ۔ ہمارے والد اکثروبیشتر کتب خانے میں دیر رات تک مطالعہ کرتے اور اگر کبھی کوئی کتاب گھر پر بھول کر چلے جاتے تو والدہ ¿ ماجدہ کسی سے بھی وہ کتاب پڑھواکر سنتیں اور ان کی یہ غیر معمولی یادداشت ہی تھی کہ وہ جو عبارت پڑھ لیتی تھیں انہیں یاد ہوجاتی تھیں ۔ “

کل ہند کانفرنس میں صدارت خودبی اماں نے کی۔ جس میں معزز ترین اور قابل قدر خواتین نے شرکت کی جس میں کستورباگاندھی، سروجنی نائیڈو،امجدی بیگم،بیگم مختار انصاری، بیگم حسرت موہانی، بیگم کچلو وغیرہ شامل تھیں ۔ انہوں نے ایسا خطبہ دیا جسے سن کر خواتین میں جذبہ  حریت پیدا ہوگیا۔

”جو بندہ  خدا اپنے رب کے ساتھ وفاداری نہیں کرسکتاوہ کسی گورنمنٹ کے ساتھ جسے انسان نے منظم کیا ہو کیسے وفادار ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے درمیان اتحاد پیدا کریں ہمارے گزرے ہوئے وقتوں نے ہمیں یہ تجربہ دیا ہے کہ اس ملک میں جو بھی اقوام اور فرقے قایم ہیں ان میں اتحاد و یکجہتی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے“۔ ایسی خواتین جنہوں نے ملک وقوم کا نام روشن کیا۔ جدید نسل کی خواتین ان کی قربانیوں سے سبق لیں اور اس پر عمل کریں تو ہندوستان کے مستقبل کی تصویر کچھ اور ہی ہو گی۔

آج کے دور میں ہندوستان میں جو بے پردگی اور مغربی تہذیب وتمدن کو اپنایا جارہا ہے اورخواتین بازاروں میں کھلے سر گھوم رہی ہیں کیا یہ بی اماں کا طرز عمل ہے؟ہرگز نہیں بی اماں تو انتہائی پردا نشین خاتون تھیں ۔انہوں نے کبھی برقعہ نہیں اتارا وہ باحجاب رہ کر اپنے وطن کے لیے اجلاس منعقد کرتی تھیں اور گھر گھر جاکر چندہ اکٹھا کرتی تھیں ۔ اجلاس میں تقریریں ایسی کرتی تھیں جس کے اثر نے ہندوستانیوں کو اس قدر بدل دیا کہ وہ اپنے آپ کو ہند کے لیے وقف کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ ضعیفی تک وہ مغربی تہذیب کی جتنی سخت ترین مخالف تھیں اتنی ہی مشرقی تہذیب اور اسلام کے قوانین کے اصول و ضوابط کی پروردہ تھیں ۔ وہ مذہب کی بڑی قدر داں تھیں اسی لیے انہوں نے کبھی برقعہ نہیں اتارا۔

ہندوستان کی سیا سی دنیا میں امجدی بیگم سب سے زیا دہ مشہو ر ومعروف مسلم خا تون ہیں ۔ وہ اپنے بلند پایہ شوہر کی حیات ہی میں سیاسی دنیا میں قدم رکھ چکی تھیں ، انہی کے نقش قدم پر چلتی تھیں ۔ اور ان کے منتخب کردہ مسائل کو اپنے لیے نشان راہ بنا لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ”مسلم لیگ“ جو کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی نہ صرف اس کی سرگرم رکن تھیں بلکہ اس مجلس میں ایک ممتازحیثیت بھی رکھتی تھیں ۔

بیگم محمد علی کی سب سے نمایاں اور ممتاز خصوصیت ان کی مذہبیت اور سچا اسلامی شعار ہے۔ یہ مذہبیت انہیں اپنے خاندان سے ملی تھی۔ بی اماں جیسی ساس اور محمد علی جیسے با اخلاق شوہر کے فیض صحبت نے ان میں مزید جذبہ ¿ حریت پیدا کردی تھی۔ انہیں اپنی جذبہ ¿ حریت اور تحریک آزادی کے سلسلہ میں مردوں سے کافی سابقہ رہتا تھا۔ وہ عظیم الشان اور بڑے بڑے سیاسی اجلاس میں شرکت کرتی تھیں ، لیکن ہر جگہ ایک مسلمان خاتون کی طرح اسلامی طرز اسلامی اسلوب اور اسلامی قوانین نیز اسلامی آداب سے پوری طرح اپنے آپ کو ملحوظ رکھتی تھیں ۔

آپ کا تعلق رام پور کے ایک قدیم شریف گھرانے سے تھا۔ آپ کے والد محترم عظمت علی خاں مولانا محمد علی جوہر کے چچا زاد بھائی تھے۔ اس لحاظ سے مولانا نے اپنے ہی خاندان میں شادی کی تھی۔

۶۹۸۱میں امجدی بیگم ابھی بہت کمسن تھیں ، بی اماں کی خواہش پر ان کی نسبت مولانا محمد علی جوہر سے ہوگئی۔ اس وقت مولانا محمد علی جوہر نے اپنا گریجویشن مکمل کرلیا تھا اور انڈین سول سروس کے لیے انگلستان جانے پر آمادہ تھے۔ رشتہ کے بعد مولانا انگلستان چلے گئے۔ چونکہ قدرت کی طرف سے ان کے لیے قوم کی سرداری مقدر ہو چکی تھی، اس لیے امتحان میں ناکام ہوکر دوبارہ ہندوستان واپس آگئے۔یہی وہ سال تھا جب ان کی مادر گرامی نے ان کی شادی کردی۔ شادی کے وقت ان کی بیگم کی عمر ۳۱ سال اور مولانا کی عمر۰۲ سال سے زیادہ نہ تھی۔

شادی کے دوسرے سال محمد علی پھر انگلستان گئے۔ اور آکسفورڈ سے انگلش لٹریچر میں آنرز کی ڈگری حاصل کرکے وطن لوٹے۔ جدائی کا یہ زمانہ نوعمر بیگم پر کافی شاق تو گزرا لیکن اپنے شوہر کی آنے والی زندگی میں خوشیوں کی خاطر صبر کر تی رہیں ۔ انگلستان جیسے ملک میں ”شاہدان اصلی “ کی کمی نہیں اور اچھے اچھے زاہدوں کے دامن تر ہو جاتے ہیں لیکن مولانا محمد علی اپنی بیگم کو نہ بھول سکے یہاں اپنی بے لوث محبت اور محتاط زندگی کے لیے وہ بڑی حد تک انہی کی ذات کے مرحون منت تھے۔ اس سلسلے میں ان کے اس قول سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

”علی گڑھ کالج میں شاعری تو تھوڑی بہت کی، مگر فرضی معشوق اگر کچھ اصلیت تھی تو اتنی ہی جتنی ایران کی شاعری کو ”سبزہ  خط“ وغیرہ کو ایک حد تک بامعنی کر دیتی ہے۔ کالج چھوڑا تو ولایت جانا ہوا، یہاں البتہ شاہدان اصلی کی کمی نہ تھی مگر ذوق نظارہ لاکھ سہی اور گرہ میں مال بھی سہی، تاہم طبیعت کا میلان خلاف دستور عام زہد ورع کی طرف تھا۔ دو برس کے قریب تو ہندوستان کے کچے دھاگے نے باندھ رکھا تھا۔“

ہندوستان کا یہ کچا دھاگاسے مراد ان کی بیگم ہیں اور ان کے سوا کون ہو بھی سکتا تھا۔ ایک سچے او ر وفا دارشخص کی خا ص پہچان یہ ہو تی ہے کہ کسی طرح سے اپنی محبو بہ کو تکلیف نہ دے اورجب انسان کی کسی جنس مخالف سے رشتہ ہو جاتا ہے تو اس کی محبت قدرتی اور فطری طور پر بیحد زیا دہ ہو جا تی ہے اور دل میلان اسی طرف ہو جا تا ہے کیو نکہ نسبت ازدواج کے بعدا نسان کی حیات کا مقصد اس کی محبو بہ ہو تی اسی لیے تو شریک حیات، شریک مقصد کہاجا تا ہے۔

مولانا محمد علی جوہرکو اپنی بیگم سے جو محبت تھی اس کا اندازہ ۴۱۹۱کے واقعہ سے بخوبی ثابت ہوتا ہے جب وہ بیمار ہوگئیں تو مولانا محمد علی جوہر نے ان کی تیمار داری اس طرح کی کہ رات دن پلنگ کی پٹی سے لگے بیٹھے رہتے تھے اور رات رات بھر پلک جھپکائے بغیر گزارا کرتے تھے اورجب نصف شب ہو تی تو وہ با وضو ہو کر زیر آسمان آکرکھڑے ہو جا تے اوراپنی محبو ب زوجہ کی صحت یا بی کے لیے دعائیں کر تے دعاو ¿ں کا انداز کچھ اس طرح تھا کہ دونوں ہا تھ با رگاہ خداوندی میں بلند ہو تے اور چہرہ آسمان کی طرف ہو نٹوں پر التجا ئی جملے اس طرح سے یہ دعاو ¿ں کا سلسلہ اس وقت جا ری رہا جب ان کی بیگم صحت یا ب نہ ہوئیں ۔ ۸ روز تک اسی کرب کے عالم میں گزرنے کے بعد جب ان کی طبیعت ذرا سنبھلی تو انہوں نے شکرخدا کے لیے با رگاہ خدا وندی میں اپنے آپ کو روک نہ سکے۔

اس حالت میں قوم کی طرف سے جو فرائض عاید ہوتے تھے ان کو مولانا محمد علی فراموش نہ کر سکے۔ اسی وقت میں ” چوٹس آف دی ٹرکس“ والا معرکتہ آراءمضمون لکھا جس کے نتیجہ میں ہمدرد اور کامریڈ کی ضمانت ضبط کر لی گئی، اس کے متعلق خود مولانا کا بیان خود ملاحظہ کیجئے۔

”میں نے یہ مضمون چالیس گھنٹے کی محنت شاقہ برداشت کرکے لکھا اور اس تمام عرصے میں ایک منٹ بھی نہ سویا اور جب لکھتے لکھتے تھک جاتا تھا تو اخبار کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کو خود بولتا تھا اور ان سے لکھواتا تھا۔ اس چالیس گھنٹے میں نہ صرف سونے سے محروم رہا بلکہ خوراک بھی چائے کی چند پیالیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ “جب تک مولانا محمد علی جوہر رام پور اور بڑودہ میں سرکاری عہدوں پر رہے مولانا کی بیگم کی زندگی کے دن نسبتاً امن و چین سے گزرے اس زمانے میں مولانا کا بیشتر وقت گھر پر ہی گزرتا تھا وہی وجہ ہے کہ امجدی بیگم ان دنوں کی یاد کو اپنی زندگی کا ایک عزیز ترین تصور کرتی تھیں ۔ لیکن یہ دن زیادہ پایہ دار ثابت نہ ہوئے۔

ہندستان کی غلام قوم کی بیداری، ہمت مردانہ اور جرا ت رندانہ پیداکرنے کا عظیم الشان کام مولانا محمد علی جوہر کی قسمت میں تھا۔ ۱۱۹۱میں مولانا محمد علی جوہر سرکاری عہدوں سے دست کش اور غلامی کی نئی دعوتوں کو ٹھکراکر ہندوستان کی عملی سیاست کے میدان میں کود پڑے۔اس کے بعد سے زندگی کی راحتیں اور گھر کا چین مولانا کے لیے حرام تھا۔ بقول مولانا محمد علی جوہر:

ایک کولہو کا بیل ہے جو ہفتے کے ساتوں دن برابر گھومتا رہتا ہے نہ کوئی تعطیل کا دن ہے نہ کوئی فرست کا وقت زندگی میں اسی تبدیلی نے امجدی بیگم پر گہرا اثر ڈالا وہ بھی اپنے نوجوان اور پرجوش اور جذبہ ¿ حریت والے شوہر کے ساتھ قومی خدمت کے لیے تن من دھن سے ہمہ وقت تیاررہتی تھیں ۔ انہوں نے گھر کی پر امن فضا کو ہندوستان کے مفاد پر قربان کر دیااور صبروشکر کے ساتھ جو ایک ہندوستانی عورت کا سب سے بڑا جوہر ہے اپنے جوہر کے لیے وقف کر دیااور حریت پسند شوہر کا ہاتھ بٹانے پر آمادہ ہوگئیں ، اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ ناامیدی میں مولانا کی ڈھارس بندھانے میں اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا جوش پیدا کرنے میں اس محترمہ کا زبردست حصہ تھا۔ جس کا یہ پیغام قوم کی ماو ¿ں میں ایک لرزش پیدا کردیتا ہے۔

اس دوران محمد علی کے یہاں اولادیں ہوئیں ،لڑکا کوئی نہ تھا چاروں لڑکیاں تھیں ،محمد علی چاروں کو دل و جان چاہتے تھے۔ یہ ساری باتیں تو ایک طرف لیکن گھر کی فضا بدل چکی تھی، ماحول اور حالات میں بھی تبدیلی آگئی تھی۔ اب صرف محمد علی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے سب سے زیادہ محبوب قائد مولانا محمد علی جوہر ہو گئے تھے ان کی ایک ایک بات پر ایک ایک اشارے پر قوم سر جھکائے چلنے کے لیے آمادہ تھی، ہر طرف مولانا کو قوم کی خدمت کے دعوت نامے چلے آرہے تھے۔آج مسلم لیگ کی صدارت کر رہے ہیں تو کل کانگریس کا خطبہ ¿ صدارت پڑھ رہے ہیں ، آج فلاں کانفرنس، فلاں میٹنگ، فلاں اجلاس کو مخاطب کر رہے ہیں تو کل فلاں وفد کی قیادت کر رہے ہیں نتیجہ یہ ہو ا کہ ہندوستان کی سیاست میں ان کی سرگرمیوں میں نئی جان پیدا کر دی۔ حکومت نے ان کی سرگرمیوں کو اور تحریک خلافت کو روکنے کے لیے کبھی چنہدڑ جیل میں انہیں قید کیا تو کبھی بیتول جیل میں کبھی بیجا پور جیل میں لیکن ان مصیبتوں سے ان کے حوصلے پست نہ ہوئے بلکہ اور مستحکم ہو گئے۔ ایک دو دن کی جدائی ہو تو کوئی صبر کرے یہاں تو برسوں نظر بندی کے شکار ہوگئے۔ پانچ پانچ برس جیل میں گزرے ان کی شریک حیات کی زندگی کا زمانہ سب سے زیادہ دشوار کن اور مشکل ترین زمانہ تھا۔ بی اماں جیسی شفیق ساس جنت سدھار چکی تھیں ۔ منجھلی لڑکی آمنہ مرض تپ دق میں مبتلا تھی،شوہر اور ایسا شوہر جو دوسروں کی تکلیف سن کر تڑپ جائے اپنی نازوں کی پالی لخت جگر کی شکل دیکھنے سے مجبور !۔ پے درپے مصیبتوں کے باوجود بیگم کے قدم نہ ڈگمگائے، اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں ان کے کام کو جاری رکھا، خلافت کے لیے لاکھوں چندے وصول کئے، پائی پائی کا حساب رکھا، سیاسی اجلاس میں مولانا کی طرف سے نمائندگی کی، اور جہاں تک ممکن ہو سکا مولانا کے کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتی رہیں ۔ انہوں نے اپنی مستقل مزاجی اور صبرو رضا سے سابت قدم دکھایا کہ وہ مولانا کی سچی اور وفا دار رفیق حیات ہیں ۔

یہ ایسی خاتون تھیں جن کا ذکر گاندھی جی نے ان الفاظ میں کیا :

”کانگریس کی تحریک حریت اور خلافت فنڈ کے لیے امجدی بیگم اور بی اماں نے کروڑوں روپئے جمع کیے وہ خلافت اور تحریک خلافت کے سلسلے میں مولانا کے شانہ بہ شانہ رہتی تھیں چاہے ان کی موجودگی ہو یا غیر موجودگی۔ چونکہ وہ مسلمان تھیں لہٰذا اسلام کے قانون کو بحسن خوبی نبھاتی تھیں ۔ اسلام میں پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حکم کی تعمیل میں انہوں نے کبھی برقعہ نہیں اتارا۔ “

سچائی اور عزم مصمم رکھنے والی اس خاتون کو بہادر اور نڈر جیسے القاب سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ہر پل ہر وقت ایسے وقت کا سامنا کیا جو قید وبند کی صعوبتوں سے کم نہ تھا مگر ان کی پرواہ کیے بغیر ہندوستان کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔ جس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ ان کی بہادری کی مدح سرائی کرتے ہوئے باپو نے کچھ اس طرح کہا:

”ان کے خطبے کا ہر ہر لفظ حریت پر مبنی اور اتنا معنی خیز ہوتا تھا کہ جس کی تفسیر بیان کر نا مشکل ہے بس یوں سمجھ لیا جائے کہ انہوں نے پر جوش اور بلند آواز میں بغیر کسی گھبراہٹ کے حریت پسند ہندوستانی عوام سے خطاب کیا۔ جسے سن کر میں یہ کہنے پر مجبورہوگیا کہ سہی معنوں میں یہ بہادر شوہر کی بہادر بیگم ہیں ۔ “

 مولانا محمد علی جو ہر کی قسمت میں گھر کا چین و آرام لکھا ہی کب تھا۔ آخر زما نہ میں اپنی قوم سے ان کی ما یو سی، دو جوان شادی شدہ بیٹوں کی مو ت اور مسلسل بیما ری نے ان کی کمر ہی تو ڑ دی تھی۔ لیکن اس حالت میں بھی وہ مر د مجا ہد، تیسری گو میز کا نفرنس میں شر کت کے لیے انگلستان جا نے کے لیے تیارہوگئے۔ بیما ری سے وہ بالکل فریش تھے، ان کا مرض ایسا نہ تھا جس سے جا بری کی بھی امید ہو سکتی تھی۔

 لیکن بقول مولانامحمد علی جو ہر:جہاں مسلمانوں سے متعلق کوئی مسئلہ آیا وہ تڑپ اٹھے۔ اس لیے طے پا یا کہ ان کے ساتھ بیگم بطور تیمار دارکے جائیں ۔ بیگم گئیں ایک تیمار دار بن کر، لیکن واپس آئیں ایک سوگوار بیوہ بن کر، جا تے وقت اپنے ساتھ قوم کی امیدوں کا سہا را لے کر گئیں واپس آئیں تو اس طرح کی تھیں کہ تن پر سفید غمزدہ لبا س اور آنکھوں میں فر اق کے نہ تھمنے والے آنسو تھے اور دل میں جدائی کا نہ مٹنے والا درد تھا۔ بیگم نے ہندوستان سیا ست کے بڑے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں ۔ حج بیت اللہ سے مشر ف ہو چکی تھیں اور مولانا کے آخر سفر انگلستان میں ان کے ساتھ تھیں ، بیگم کا سب سے بڑاوصف یہ ہے کہ ان کی مستقبل مزاجی اور صبر و توکل ہے وہ ہر کار خیر میں تعاون کے لیے تیا ر ہو جا تی ہیں ۔ یہی وہ صفا ت ہیں جس سے دنیا کی مسلم خوا تین بخوبی واقف تو ضرور ہے مگر اس پر عمل کر نے سے گریز کرتی ہے۔

بیگم کی خواہش تھی کہ ان کے شو ہر کو ان کے نا قدرشناس قوم ہی کے درمیان آرام کر نے دیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں میں جب کبھی سیا سی شعور پیدا ہو تو وہ اس مرد مجا ہد کی آرام گاہ پر عقیدت کے آنسوکو بطور نذرانہ پیش کر سکیں لیکن ان کی یہ معقول رائے کسی نے نہ ما نی اور مولانا محمد علی کا جسد خا کی بیت المقدس میں سپر د خاک کیا گیا۔

اس طرح چو نتیس سال تک مولانا کے ہر رنج و راحت میں شریک رہنے اور آخر تک پورا پورا حق رفا قت ادا کر نے کے بعد ۰۳۹۱ میں بیگم مولانا محمد علی جو ہر اپنے گرامی قدر شو ہر اور مسلمانان ہند کے سب سے محترم سر دار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئیں ۔

ان کے علاوہ جتنی بھی خواتین ہیں جنہوں نے ہندوستان کو آزاد کرانے میں اپنی قربانیاں پیش کیں ۔چاہے وہ حسرت موہانی کی بیگم ہوں جنہوں نے کبھی بھی بے پردگی کو وجود میں نہ آنے دیاجن کے بارے میں چکبست کہتے ہیں :”ہم قوم کے نوجوانوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس دیوی کے قدموں کے نیچے بیٹھ کر صبرو استقلال کا سبق حاصل کریں “۔ ان کے علاوہ صغریٰ خاتون نے بھی اسلام کے نظم ونسق کو برقرار رکھتے ہوئے کبھی برقعہ نہیں اتارا بی اماں کے ساتھ تحریک خلافت کے سلسلے میں چندہ یکجاکرتی تھیں ان کے علاوہ بہت سی خواتین ہیں چاہے وہ عزیزاً، سعادت بانو،بیگم خورشید رضیہ خاتون اکبری بیگم،زبیدی داو ¿دی، اصغری بیگم ان کے ذکر کے بغیر تاریخ ہند نامکمل ہے۔ کچھ خواتین تو ایسی ہیں جن کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو کچھ کو زندہ جلا دیا گیا۔

2 تبصرے
  1. محمد علی مبارکپوری کہتے ہیں

    ماشا ءاللہ بہت تحقیقی اور لائق تحسین ہے یہ مضمون شکریہ

  2. حسن عسکری کہتے ہیں

    محمدرضا ایلیا صاحب بہت عمدہ اور لاجواب مضمون لکھا ہے ۔ ایسےتحقیقی مضمون بہت کم دیکھنے پڑھنے میں آتے ہیں ۔ ایک بار پر شکریہ آپ کا اللہ کرے زور قلم اور ہو زیا دہ

تبصرے بند ہیں۔