چوتھی دنیا‘ کی ایڈیٹر وسیم راشد کی پروفیسر ملک زادہ منظوراحمد سے گفتگو کے اہم اقتباسات’

آہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد! اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے بھردے۔ تقریباً  نصف صدی تک  اردو مشاعروں کو زندگی دینے والا آج ہم سے رخصت ہو کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہو چکا ہے۔ مرحوم کا ایک پرانا انٹرویو نذر قارئین ہے جو  ’’چوتھی دنیا انٹرنیشنل اردو ویکلی‘‘ کی مدیرمحترمہ  وسیم راشد سے ان کی طویل گفتگو کا حصہ ہے۔

سوال:اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیے؟

جواب:میری پوری زندگی ساحل کے تماشائی کی نہیں رہی ہے بلکہ میں زندگی کے مدو جزر میں شامل رہا ہوں۔ بہت سے لوگ ہمارے درمیان ایسے ہیں جو کتابوں کے توسط سے دنیا کو دیکھتے ہیں لیکن میں نے کتابوں کے توسط سے بھی دنیا کو دیکھا ہے اور اپنے ذاتی تجربات سے لوگوں کے درمیان رہ کر ، ان کی محفلوں میں شریک ہوکر، ان کی ادبی تقریبات میں جاکرمیں نے ادب کے حوالے سے جو زندگی کا مطالعہ کیا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت ہی اہم رہا ہے۔شاعری کا سلسلہ میں نے بعد میں شروع کیا۔ لوگ مجھے عموماً اردو والا سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ میری شہرت اردو ہی سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میں نے 11سال تک ایک پوسٹ گریجویٹ کالج میں انگریزی کی تعلیم دی ہے۔ سن 53 میں میں انگریزی ادبیات کا لیکچرر شبلی پوسٹ گریجویٹ کالج میں ہوا ۔اس وقت شبلی کالج پوسٹ گریجویٹ تک تو نہیں تھا، بی اے تک تھا۔میں تاریخ میں بھی ایم اے کر چکا تھا۔11سال انگریزی پڑھانے کے بعد میں نے اردو ادبیات میں ایم اے کیا، تویونیورسٹی تک پہنچ گیا اور گورکھپور یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی میں لیکچرر، ریڈر اور پروفیسر ہو کر 1990 میں ریٹائر ہوگیا۔

سوال:آپ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں؟

جواب:میری پیدائش آج کے امبیڈکر نگر اور ماضی کے فیض آباد میں ہوئی۔ میں جس خطہ سے تعلق رکھتا ہوں وہاں کا ایک تاریخی حوالہ بھی ہے۔ وہاں پر حضرت مخدوم سید جہانگیر اشرف سمنانیؒ کا مزار ہے جہاں آج بھی پورے ملک سے ہندو مسلمان سب جاتے رہتے ہیں اور اپنی مرادیں وہاں پر پیش کرتے ہیں۔ یہ حضرت مخدوم سید جہانگیر اشرف سمنانی ؒسمنان کے بادشاہ تھے۔ دو سال تک انہوں نے حکومت کی اور اس کے بعد تبلیغ کے سلسلے میں نکل پڑے۔ یہ گھومتے گھومتے ہمارے گاؤں میں اپنے دوستوں کے ساتھ آئے۔ یہ ملک جو میرے نام میں لگا ہوا ہے عموماً لوگوں کو اس سے بڑی غلط فہمی ہوتی ہے ۔ہمارے اجدادکو ملک الامراکا خطاب ملا تھا۔ وہ امیری تو چلی گئی اب کچھ لوگوں نے ملک لکھنا شروع کر دیا ، کچھ نے ملک زادہ لکھنا شروع کردیا اورکچھ لوگو ں نے ملک زادہ سید لکھنا شروع کردیا ۔ میری پوری تعلیم گورکھپور میں ہوئی۔اس لیے کہ وہاں میرے والد پرائمری اسکول میں ٹیچر تھے۔ اسی وجہ سے ہماری فیملی گھر پر نہ رہ کر  گو رکھپور میں ہی رہی۔ وہیں سے میں نے پہلا ایم اے تاریخ میں کیا،اس کے بعد آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔

سوال:شاعری کا سلسلہ کب سے شروع کیا؟

جواب:میں جب اعظم گڑھ پہنچا تو میں یہ چاہتا تھا کہ شہر کے لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ کوئی نیا آدمی آیا ہے جو کچھ کر بھی سکتا ہے۔ تو میں نے وہاں ایک مشاعرہ کا اعلان کیا۔اس مشاعرہ میں پرانے شعرا میں فراق صاحب تھے، نور صاحب تھے، جگر صاحب تھے۔ میں یہ نہیں جانتا تھا کہ نظامت وغیرہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ، لیکن چونکہ میں اس تنظیم کاسکریٹری تھا جس نے مشاعرہ کیا تھا، اس لیے میں نے شعرا کا تعارف کرا دیا۔ اگلی صبح کو لوگوں نے شاعروں کی تعریف کے ساتھ ساتھ میری بھی تعریف کی کہ آپ کا انداز پیشکش بہت اچھاتھا اورپھرقرب وجوارکے مشاعروں میں لوگ مجھے بلانے لگے۔ بہت دنوں تک تو میں نے سگریٹ کے اوپر مشاعرے کیے۔جب قرب و جوار میں مشاعرے ہوتے تھے تو لوگ مجھے ہی بلاتے تھے۔ جب یہ تعداد زیادہ ہو گئی تو میں نے کہا کہ بھائی میں تبھی آپ کے مشاعرے میں جاؤں گا جب آپ مجھے سگریٹ کی ایک ٹن دیں گے۔شاعری میں نے بعد میں شروع کی۔ اس سے پہلے میری نثر کی ایک کتاب آچکی تھی۔ جس زمانے میں میں ایم اے کر رہا تھا، میرا ایک ناول اس زمانے میں شائع ہوا، اس کا نام تھا کالج گرل۔

سوال:کون کون ایسے بڑے شعرا ہیں جنہوں نے آپ کی نظامت میں مشاعرے پڑھے ہیں؟

جواب:میں نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ میں بڑے اطمینان کے ساتھ یہ بات کہہ سکتاہوں کہ جوش ملیح آبادی کو چھوڑ کر ہندوپاک کا کوئی ایسا شاعر نہیں ہے جو مشاعروں میں شرکت کرتا ہو اور میں نے اپنی نظامت میں اس کا تعارف نہ کرایا ہو۔ شاید ہی کوئی ایسا معروف شاعر ہو۔

سوال:اُس وقت کے مشاعروں میں اور آج کے مشاعروں میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟

جواب:میں نے سب سے پہلا مشاعرہ سن49 میں داناپور میں کیا تھا۔ اس کے بعد ایک وقفہ تھا53 تک۔ اس کے بعد سے میں باضابطہ مشاعروں میں شرکت کررہا ہوں۔ ایک تبدیلی آئی ہے اور یہ تبدیلی صرف مشاعرے میں نہیں آئی ہے بلکہ ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں آئی ہے۔ آج ہمارے گھر کا وہ ماحول نہیں ہے جو ہمارے والدین کے زمانے میں تھا۔ آج وہ نسل نہیں ہے جو ہمارے زمانے میں تھی۔ اردو کو ہم تین حوالوں سے جانتے ہیں۔ ایک تو اردو ادب ہے، دوسری اردو زبان اور اسی کے ساتھ ساتھ ایک اردو تہذیب بھی ہے۔ پرانے جو مشاعرے ہوتے تھے۔ گذشتہ صدی میں نہیں بلکہ گذشتہ صدی کے نصف اول میں۔ ان میں اردو ادب ،اردو زبان اور اردو تہذیب کی بھرپور نمائندگی ہوتی تھی۔ لیکن اب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اردو ادب تو ترقی کررہا ہے لیکن اردو زبان اور اردو تہذیب زوال پذیر ہو رہی ہے۔ اب جو مشاعرے ہورہے ہیں ان میں اچھے شعر تو مل جاتے ہیں لیکن وہ تہذیبی رویہ اورزبان وبیان کی وہ خوبیاں نہیں مل پاتیں جو پہلے ہوا کرتی تھیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اب ایسے لوگ بالکل بھی نہیں ہیں، ایسے لوگ بھی ہیں ہمارے درمیان لیکن اکثریت میں رفتہ رفتہ وہ تہذیبی رویے بدل رہے ہیں۔

سوال:ہندوستان اورہندوستان کے باہر کے مشاعروں  میں آپ نے کیا تبدیلی محسوس کی؟

جواب: دبئی میں ہندوستان اور پاکستان کا وہ 75 فیصد طبقہ گیا ہے جو لیبر کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے دبئی میںجب مشاعروں کا انتخاب کرتے ہیں تو چار خواتین رکھتے ہیں ، دو تین ترنم والے رکھتے ہیں اور کچھ تماشہ کرنے والے بھی رکھتے ہیں۔لیکن جب میں امریکہ گیا تو مجھے بڑا فخر محسوس ہوا ۔ اس لیے کہ امریکہ میں جو لوگ گئے ہیں وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ جہاں آپ نے ترنم شروع کیا وہیں وہ لوگ آپ کے دس نمبر کاٹ لیتے ہیں۔

سوال:اپنے کچھ اشعار ہمارے قارئین کے لیے عنایت فرمائیے؟

جواب:اپنی ایک نظم سناتا ہوں۔

 ہمارے شعروں میں مقتل کے استعارے ہیں

ہماری غزلوں نے دیکھا ہے کوچۂ قاتل

صلیب و دار پہ نظمیں ہماری لٹکی ہیں

ہماری فکر ہے زخمی لہولہان ہے دل

ہر ایک لفظ پریشاں ہر ایک مصرع اداس

ہم اپنے شعروں کے مفہوم پر پشیماں ہیں

خدا کرے کہ جو آئیں ہمارے بعد وہ لوگ

ہمارے فن کی علامات کو سمجھ نہ سکیں

چراغ دیر و حرم سے کسی کا گھر نہ جلے

نہ کوئی پھر سے حکایات رفتگاں لکھے

نہ کوئی پھر سے علامات خونچکاں لکھے

فصیل دار سروں کے چراغ رقص جنوں

سراب تشنہ لبی خار آبلہ پائی

دریدہ پیرہنی چاک دامنی وحشت

صبوم آتش گل برق صیاد

روایتیں یہ مرے عہد کی علامت ہیں

علامتیں یہ مرے شعر کا مقدر ہیں

خدا کرے کہ جو آئیں ہمارے بعد وہ لوگ

ہمارے فن کی علامات کو سمجھ نہ سکیں

 سوال: مجھے کوئی ایسا مشاعرہ بتائیے جس میں فرازؔصاحب، قتیل ؔصاحب اور علی سردار جعفری صاحب جیسے شعرا ایک ساتھ رہے ہوں؟

جواب:یہ تو نہیں کہہ سکتا لیکن ایک ڈی سی ایم کا مشاعرہ ہے ، جس میں تمام بڑے شعرا کو ہی بلایا جاتا ہے۔اس مشاعرہ میں جب کسی شاعر کو بلا یا جاتا تھا تو ایک زمانہ میں وہ خوش ہوکر یہ سوچتا تھا کہ اب شاید اسے ادب میں بھی جگہ ملنے والی ہے۔اس مشاعرہ میں جب شعرا کا نتخاب کیا جاتا ہے تو اس طرح سے کیا جاتا ہے کہ ادب کے حوالے سے اسے پہلے دیکھا جاتا ہے، کسی دوسرے حوالے سے بعد میں ۔

سوال:ہندوستان میں کون سی ایسی شاعرات تھیں جنہوں نے آپ کو متاثر کیا؟

 جواب:جیسے عزیز بانو داراب وفاؔ، ان کے پاس ترنم بھی نہیں تھا۔کچھ کھوئی کھوئی سی بھی رہتی تھیں۔عمر کی بھی ان منزلوں پر تھیں جہاں کوئی اور حوالہ نہیں ہوتا لیکن جب وہ پڑھتی تھیں تو مجمع داد دیتا تھا، اس لیے کہ ان کا کلام اچھا تھا۔ان کے علاوہ میں کسی اور شاعرہ کا نام نہیں لینا چاہتا ،کیوں کہ یہ ایک طویل فہرست ہے۔

سوال:آخر میں ہمارے قارئین کے لیے غزل کے کچھ اشعارسنانے کی زحمت کیجئے؟

جواب:ایک غزل کے چند اشعار پیش کررہا ہوں۔

 صبح کی تیز دھوپ میں اس کے سوا بہت ہوا

دل کی کلی نہ کھل سکی رقص صبا بہت ہوا

پہنی زرہ ہوس کی پھر سوچ کے میں نے آخرش

مقتل راہ شوق میں کار وفا بہت ہوا

ہوگی ہر اک دعا قبول قبلہ بدل کے دیکھ لو

کعبۂ شہریار میں سجدہ ادا بہت ہوا

پھرتی رہی برہنہ سر بانوئے شہر حریت

کوئی مگر نہ لا سکا ذکر ردا بہت  ہوا

اس کے بدن کی چاندنی فکر میں میرے ڈھل گئی

نازش فن کے واسطے رنگ قبا بہت ہوا

یہ بھی خدا کی شان ہے رزم گہہ حیات میں

زخم تو مجھ کو کم لگے حشر بپا بہت ہوا

(بشکریہ چوتھی دنیا)

تبصرے بند ہیں۔