ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
جب ادائے حسن میں ظالم ادائیں آگئیں
جب ادائے حسن میں ظالم ادائیں آگئیں
اِس دلِ بے تاب کے سر پر بلائیں آگئیں
بہت حسّاس ہونا بھی علامت بے حسی کی ہے
بہت حسّاس ہونا بھی علامت بے حسی کی ہے
ترے برباد ہونے میں ہر اک سازش اسی کی ہے
مست مگن ہیں خود کو بے پروا کر کے
مست مگن ہیں خود کو بے پروا کر کے
خود جلتے ہیں دھوپ میں ہم سایہ کر کے
ملٹی لینگویل شعری مجموعے کا اجرا تھا وہاں
ملٹی لینگویل شعری مجموعے کا اجرا تھا وہاں
جس کے ہے صفحات کی زینت کلام خاکسار
یادِ رفتگاں: بیادِ شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؔ
گزرے ہوئے یوں اُن کو ہوئے کتنے مہ و سال
ہر سمت نظر آتے ہیں اقبالؔ ہی اقبالؔ
جگر مرادآبادی کی ایک فارسی غزل کا منظوم اردو مفہوم
یار کے پاؤں پہ کل رات کو کعبہ دیکھا
کیا کہا تونے جگرِ پھر سے بتا کیا دیکھا
اردو ہے جس کا نام وہ ہے اک زبانِ دل
اردو ہے جس کا نام وہ ہے اک زبانِ دل
ہے رہروانِ شوق کی یہ رازدانِ دل
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے
بزم عرفاں میں کوئی محرمِ اسرار بھی ہے
’’ مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے ‘‘
انکی آنکھیں ہیں یا بادہ کے پیمانے ہیں
ایک ہی دید میں انکے ہوئے دیوانے ہیں
انکی آنکھیں ہیں یا بادہ کے پیمانے ہیں
شریف النفس کو اس کی شرافت مارڈالے گی
تجھے اے دل تری موجودہ حالت مارڈالے گی
ضرورت سے زیادہ ہے جو چاہت مارڈالے
قطرہ ہوں ابھی ایک میں دریا تو نہیں ہوں
قطرہ ہوں ابھی ایک میں دریا تو نہیں ہوں
جیسا وہ سمجھتے ہیں میں ویسا تو نہیں ہوں
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
جینے کا ابھی حوصلہ ہارا تو نہیں ہوں
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
کوئی مجھ سے خفا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے
کوئی مجھ سے خفا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے
سر تن سے جدا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے
دل و نظر سے ترا انتظار کرتا ہوں
دل و نظر سے ترا انتظار کرتا ہوں
تجھے ائے جان وفا کب سے پیار کرتا ہوں
دل میں جب غم کی بہار آئی تو رونا آیا
دل میں جب غم کی بہار آئی تو رونا آیا
یاد جب انکی بہت آئی تو رونا آیا
بے وجہ کوئی ذکر محبت نہیں کرتا
بے وجہ کوئی ذکر محبت نہیں کرتا
دل چوٹ نہ کھائے تو عداوت نہیں کرتا
مریض عشق راتوں بھرسدا کروٹ بدلتے ہیں
مریض عشق راتوں بھرسدا کروٹ بدلتے ہیں
بس ایک محبوب کی چاہت میں پوری شب مچلتے ہیں
سنبھل جانے کی بھی مہلت نہیں ملتی
سنبھل جانے کی بھی مہلت نہیں ملتی
خدا جو روٹھ جائے کوئی سہولت نہیں ملتی
ہے آفتِ جاں اپنے لئے مغربی تہذیب
ہے آفتِ جاں اپنے لئے مغربی تہذیب
لوٹا دے مجھے اپنی کوئی مشرقی تہذیب
بے وجہہ تجھ سے پیار کریں اور کیوں کریں
بے وجہہ تجھ سے پیارکریں اور کیوں کریں
سر پر تجھے سوار کریں اور کیوں کریں